رَٹ اور رِٹ

اگرہم ایک دوسرے سے پوچھیں، کیا عہدحاضر میں ہماری سیاست ہماری ریاست کے قومی مفادات سے مطابقت رکھتی ہے ،کیا ہمارے سیاستدانوں کے کردار سے افکارقائدؒ کارنگ جھلکتا ہے ،کیا جمہوریت جمہورکوراس آئی ہے توہمارا جواب "ہاں "نہیں" ناں" میں ہوگا۔ہمارے ملک میں سہ پہر کوبننے والی حکومت کیخلاف شام کوسازش اورشورش کی شروعات ہوجاتی ہے۔ ہمارے بیشتر سیاستدان" کھیلیں گے نہ کھیلنے دیں گے" کی مجرمانہ روش پرکاربند ہیں۔ چشم تصور سے اس شخص کے زخم دیکھیں اورصمیم قلب سے اس کادرد محسوس کریں جس کے ہاتھ پاؤں باندھ کراسے آدم خور شیر کامقابلہ کرنے کیلئے اس کے پنجرے میں ڈال دیاجائے ۔جس حکمران کی دونوں ٹانگوں اوراس کے بازؤں کے ساتھ اپوزیشن آکاس بیل کی طرح لپٹ جائے وہ مہنگائی اوربیروزگاری سمیت دوسرے گمبھیر مسائل کوکس طرح شکست دے گا۔کوئی بھی شہنشاہ یامنتخب حکمران جو مسنداقتدار پربراجمان ہواوراُسے ہر وقت اپنے نیچے سے تخت کھینچے جانے کاڈر ہووہ ڈرپوک ڈیلیورنہیں کرسکتا۔جس حکمران کو جوڑتوڑاور"پراپیگنڈا" کی "پراگندہ" سیاست میں الجھادیاجائے وہ انہماک اوراطمینان سے حکومت اوراپنے ہم وطنوں کی خدمت نہیں کرسکتا ۔ہمارے زیادہ تر سیاستدانوں نے منتخب ایوان کوکرکٹ کامیدان بنالیا ہے جہاں بلے باز کو دباؤمیں رکھنے کیلئے اس کے آس پاس فیلڈنگ کاحصار بنالیا جاتا ہے اورگیندباز بلے باز کوبار بار باؤنسر ز مارتے ہیں۔اپوزیشن کیمپ میں بیٹھے نیب زدگان ایک طرف حکمرانوں کورنز نہیں بنانے دیتے اوردوسری طرف عوام کوگمراہ کرنے کیلئے حکمران ٹیم کے بلے بازوں کی نااہلی کاڈھنڈورا بھی پیٹا جاتا ہے۔حکومت اوراپوزیشن کو ایک دوسرے کامینڈیٹ تسلیم کرتے ہوئے قومی ڈائیلاگ کااہتمام کرناچاہئے لیکن بدقسمتی سے جہاں نظریہ ضرورت کے تحت "منافقت "کو"مفاہمت "قراردیاجا ئے، جہاں دومختلف آمروں کی گود میں سیاسی پرورش اورسیاسی تعلیم و تربیت پانے والے کردارایک تیسرے آمر سے نجات کیلئے اچانک لندن میں متحد ہوجائیں،جہاں ماضی کی دو دشمن پارٹیوں کے درمیان میثاق جمہوریت کے نام پردوستی اور اتحاد ہوجائے وہاں نظریاتی سیاست نہیں پنپ سکتی۔جس شخص نے قصر لندن میں بیٹھ کر" سونے کے قلم" سے میثاق جمہوریت پر دستخط کئے ہوں ، وہ نادارومفلس عوا م کے ساتھ مخلص ہوسکتا ۔ماضی میں میثاق جمہوریت کرنے اورپھر اسے مذاق بنانیوالے کرداروں کے نزدیک ہماراسیاسی "ماحول" ایک" مخول" بن کررہ گیا ہے ۔یادرکھیں"تعمیرریاست" کیلئے "تعمیری سیاست" کرناہوگی۔

سیاستدان ایک دوسرے کو"دیوار" کے ساتھ نہیں لیکن اپنے مدمقابل کواپنے "سینیـ"کے ساتھ لگاتے ہوئے ریاست کی کایا ضرور پلٹ سکتے ہیں۔پاکستان ایک نظریاتی ریاست ہے ،ہم نظریہ ضرورت کی سیاست کے متحمل نہیں ہوسکتے لہٰذاء سیاستدان مالیاتی نہیں بلکہ نظریاتی سیاست کوفروغ دیں۔ہمارے سیاستدانوں کو"اتحاد" سے زیادہ سیاسی" اجتہاد" جبکہ پاکستان کوبے رحم احتساب کے بغیربے سودانتخاب کی بجائے ایک نرم انقلاب کی ضرورت ہے۔اگراس بار بھی احتساب ناکام ہوگیاتوعوام کاجمہوریت ،سیاست اورسیاسی قیادت پرسے اعتماد اٹھ جائے گا۔انتخابی اصلاحات کے بغیر انتخابات کاانعقاد قومی معیشت پربوجھ بنے گا،" ای وی ایم" بارے اپوزیشن کے خدشات اورتحفظات میں دم نہیں کیونکہ ان دونوں پارٹیوں نے جس طرح این اے 133لاہورکے ضمنی الیکشن میں"نوٹ" کی مددسے " ووٹ" کوعزت دی وہ سب نے دیکھی، خوش قسمتی سے پی ٹی آئی کاامیدوارمیدان میں نہیں تھا ورنہ جمشیدچیمہ کوبھی" ووٹوں" کیلئے "نوٹوں" کی بوریاں کھولنا پڑتیں۔ہمارے سیاستدانوں کو سیاسی تربیت جبکہ ہم وطنوں کوانسانیت سے بھرپوراخلاقیات کی ضرورت ہے ، ہمیں شہراقبالؒ اورفیصل آباد کے حالیہ سانحات کی حساسیت کوسمجھنااورمعاشرے کے ہرطبقہ کواپنا رویہ بدلناہوگا۔ اپنے حقوق اوراپنی آزادی کی" رَٹ "لگانیوالے ریاستی" رِٹ "سے ماورانہیں ہیں،حق اورفرض کے ساتھ انصاف کرنے کانام آزادی ہے ، اگرآزادی کی حدودنہ ہوں تویہ بربادی پرمنتج ہوگی۔ جہاں سے دوسرے کی ناک شروع ہووہاں ہماری آزادی کے قدم رک جاتے ہیں۔پاکستانیوں کو" اپناعقیدہ چھوڑو اورنہ دوسرے کاعقیدہ چھیڑو"کے اصول کی روشنی میں عدم برداشت،انانیت،منافقت ،منافرت اورصوبائیت کے سومنات پاش پاش کرناہوں گے ۔ہمارے سیاستدان "اتحاد برائے اقتدار" کی بجائے "اتحاد برائے اقدار" کیوں نہیں بناتے۔احتساب کے ڈر سے یاپھراقتدار کیلئے متحد ہونیوالے سیاستدانوں کوپاکستانیوں کے درمیان اتحادویکجہتی کاراستہ ہموار کرنے میں دلچسپی کیوں نہیں۔راقم کاگمان ہے جوصادق جذبوں کے ساتھ"اقدار" کی سیاست کرے گا"اقتدار" اس کے پیچھے دوڑے گااورنیک نامی سے بھرپور کامیابی وکامرانی اس کامقدر بنے گی۔اگرواقعی ریاستی نظام بدلنا،پاکستان کاوقاراورپاکستانیوں کامعیارزندگی بلندکرنا ہے توپھرہمارے سیاستدانوں کو اپنا مائنڈسیٹ اورطرزسیاست تبدیل کرنا ہوگا ۔ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے کی بجائے ایک دوسرے کاہاتھ تھامنا اورگہرائی سے بلندی کی سمت کھینچنا ہوگا۔ہم نے سات دہائیوں میں باری باری بلکہ کئی باری جمہوریت اورآمریت آزمائی لیکن ہمارا ملک بتدریج مقروض اورہمارا معاشی نظام مسلسل مفلوج ہوتارہا توپھر کیوں ناں ایک بارنیک نیتی اورسنجیدگی کے ساتھ صدارتی طرز حکومت آزمالیا جائے۔امریکا سمیت دنیا کے کئی متمدن ملک صدارتی طرز حکومت کے ثمرات سمیٹ رہے ہیں ، ہمارے متعدد انتظامی اورمعاشی بحرانوں سے نجات کاراز صدارتی طرز حکومت میں مضمر ہے۔مادروطن پاکستان کے روشن مستقبل کیلئے محمداقبال ؒ اور محمدعلی ؒ نے جوخواب دیکھے تھے انہیں شرمندہ تعبیرکرنے کیلئے ہمیں اجتماعی تدبراور تدبیر کرنے کی ضرورت ہے، یادرکھیں تدبر اورتدبیر سے عاری تقریرمیں کوئی تاثیر نہیں ہوتی ۔

قائداعظم ؒ نے فرمایا تھا پاکستان اِسلام کی تجربہ گاہ ہوگا لیکن ان کے حق رحمت سے جاملنے کے بعد ہماری ریاست اورسیاست ہائی جیک کرنیوالے مخصوص طبقات نے اسلام کوتختہ مشق جبکہ اسلام آباد کوتجربہ گاہ بنالیا۔مذہبی قیادت نے بھی اسلام کی بجائے اسلام آباد اوراقدار کی بجائے اقتدار کواپنا مقصدحیات بنایا۔ افسوس قیام پاکستان کے بعد "استحکام پاکستان "نہیں بلکہ" دوام اقتدار" ہمارے فوجی حکمرانوں اور تخت اسلام آباد پربراجمان ہونیوالے سرمایہ دارسیاستدانوں کی ترجیحات میں سرفہرست رہا۔حکمران طبقات کی مضبوطی کیلئے ایک منظم سازش کے تحت ریاست اورریاستی اداروں کو کمزورکیاجاتارہا۔مٹھی بھرپوش طبقہ سفیدپوش طبقات کااستحصال کرتارہا۔اپوزیشن کو بھی محض اپنی بہتر سیاسی پوزیشن کیلئے ایوانوں اورمیدانوں میں سرگرم اورسرگرداں دیکھا گیا، ریاست کی تعمیروترقی کیلئے جس تعمیری سیاست کی ضرورت تھی اس کافقدان رہا۔ ملک عزیز میں جوبھی سیاسی اتحاد بنے وہ اقتدار ہتھیانے یاحکومت گرانے کیلئے بنے ۔ارباب اقتدار واختیار وطن عزیز میں" ڈیم" کی بجائے ہم وطنوں کو"ڈیم فول" بناتے رہے ۔اگراتحادی حکومت مہنگائی کنٹرول کرنے میں ناکام ہے تو اپوزیشن کیمپ میں بیٹھے نیب زدگان بھی بدنام ہیں۔وفاقی وزیراطلاعات فواد چوہدری کی لفاظی اورسیاسی ضرب کا متحدہ اپوزیشن کے پاس کوئی دفاع یاجواب نہیں ہوتا۔اپوزیشن کا اپنی سیاسی پوزیشن اورساکھ بچانے کیلئے حکومت کیخلاف آئندہ برس مارچ میں مارچ کرنے کااعلان پاکستانیت،سیاسیات اوراخلاقیات سے عاری ہے کیونکہ پاکستانیوں کیلئے23مارچ کادن روحانی ، نظریاتی اورتاریخی اہمیت رکھتا ہے۔پاکستانیوں کے نزدیک یہ تاریخی دن تجدیدعہد کامتقاضی ہے لہٰذاء اپوزیشن شہریوں کوگمراہ کرنے کی نیت سے شاہراہوں پرمارچ کرنے کی بجائے اقبال ؒ و قائدؒ کے مزارات پرحاضری دے اور اپنے سیاسی گناہوں کاکفارہ اداکرنے کیلئے مینارپاکستان کے سبزہ دارمیں تجدیدعہدکرے۔ منتخب ایوانوں میں حالیہ متعدد بل پاس ہونے کے بعدجہاں حکومت کے پاس اب ڈیلیور نہ کرنے کاکوئی" عذر" نہیں رہاوہاں اپنی عددی برتری منوانے میں ناکامی کے بعد اپوزیشن بھی23مارچ یوم پاکستان کے روز شاہراہوں پر "غدر"مچانے سے بازرہے۔
 

Muhammad Nasir Iqbal Khan
About the Author: Muhammad Nasir Iqbal Khan Read More Articles by Muhammad Nasir Iqbal Khan: 140 Articles with 90420 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.