سانحہ 16 دسمبر۔

وہ دن کے جب دشمن اور اپنوں کی بے وفائی قوم نے بھگتی۔

قارئین! اقوام عالم اپنے شہداء کو یاد رکھتی ہیں اور ان عوامل کا بغور جائزہ لیتی ہیں کہ جو ان حادثات کے پیچھے کارِفرما ہوتے ہیں۔ 16 دسمبر کی تاریخ قوم کے حافظے میں ایک المناک دن کی حیثیت سے موجود ہے۔ واقعہ اے پی ایس کا ہو یا مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا۔۔ یہ دن قوم کی حافظے میں اس طرح موجود ہے کہ اسکو بھلا ئے نہیں بھولا جاسکتا۔ اس دن دشمن کی دراندازی اور اپنوں کی بے اعتنائی نے وطنِ عزیز کے وجود پر کاری ضرب لگائ۔

چاہے مکتی باہنی کے ہاتھوں ظلم سہنے والے نوجوان ہوں یا اے پی ایس کی نویں کلاس کے خوبرو نوجوانوں کے خون میں لت پت لاشیں۔۔ ۔ ظالم کے آگے ڈٹ جانے والے البدر و الشمس کے نوجوان یا اسکول ٹیچر کے روپ میں دشمن کو للکارنے والےاساتذہ کرام۔۔۔یہ کردار اس بات کا ثبوت ہیں کہ جب شر اپنی آب وتاب کیساتھ حملہ آور تھا تو اس کے مقابلے میں خیر کی یہ سپاہ اس کے سامنے سینہ تانے کھڑی تھی۔ جب ظلم کرنے والے اپنوں کے ہاتھ تھے تو ٹھیک اس وقت اپنوں میں ہی وہ لوگ شامل تھے کہ جنہوں نے اس کی مخالفت کی اور ایمان کے سب سے بر تر درجے میں مزاحمت کی۔۔
مگر سوال یہ ہے کہ ایسے انسانیت سوز واقعات کا مجرم کون ہے ؟

کیایہ واقعات سول وملٹری اسٹیبلشمنٹ کے غلط فیصلوں یا ملکی مفاد کے برخلاف فیصلوں کا نتیجہ تھے؟
کیا سانحہ اے پی ایس اپنوں پر ڈرون حملوں کا نتیجہ تھا؟

کیا دشمن ان فیصلوں کے سبب ہماری صفوں میں شامل ہوا ؟

کیا فیصلہ سازوں کے دور اندیشی سےعاری فیصلوں نے قوم کو ان حادثات سے روشناس کروایا ؟

لاتعداد سوالات و مباحثوں کے بعد آج بھی ذمے داروں کا تعین نہ ہونا من حیث القوم ہماری نااہلی کا مظہر ہے۔ آج بھی سقوط پاکستان کو ہم نے اپنے حافظے میں صرف دشمن کی دشمنی کے تناظر میں دیکھنا سیکھا ہے۔ اے پی ایس واقعہ آج بھی ہمارے لیے یوم سوگ سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا۔۔

کہا جاتا ہے کہ حکمرانوں کے فیصلے اقوام کی زندگی بدلنے کی استظاعت رکھتے ہیں۔۔ بدقسمتی سے وطن عزیز کا حکمران طبقہ غیرت سے عاری اورخدا مرکز ہونے کے بجائے امریکہ مرکز ہے۔ 1971 میں بحری بیڑے کا انتظار ہو یا ملکی سلامتی کو داو پر لگا کر ڈرون حملوں کا فیصلہ کرنا ۔ حکمران طبقہ قوم کی ان حسا س موضوعات پر ترجمانی کرنے سے قاصر رہا ہے۔ اندرا گاندھی نے سقوط ڈھاکہ کی موقع پر کہا تھا کہ:
" آج ہم نے نظریہ پاکستان کو خلیج بنگال میں غرق کردیا۔"

یہ جملہ اپنے آپ میں اس بات کا ثبوت ہے کہ وجود پاکستان مغرب اور بھارت کو ایک آنکھ نہیں بھاتا۔ ہندوستان کا حکمران طبقہ آج بھی اس دشمنی کو دل سے لگائے بیٹھا ہے۔ وطن ِعزیز کے وجود کو ہندوستان کی قیادت نے کبھی قبول ہی نہیں کیا۔ اسکےنظریاتی ،معاشرتی ، سیاسی ،عالمی مفادات کو ہر دور میں نشانہ بنایا ہے حتی ٰکہ کھیل کے میدانوں تک میں پاکستان کو نقصان پہنچانے سے بعض نہیں آیا۔۔
اسکے برعکس ہمارا حکمران طبقہ ہر موقع پراپنی بھارت دوستی کو ہردم ثابت کرنے میں کوشاں رہتا ہے۔ وہ ذاتی مفادات کو قومی مفادات پر ترجیح دیتا ہے۔۔ جس کا مظہر وہ بیانات ہیں کہ جن میں اختلافات کو بھلانے پر زور دیا جاتا ہے۔ کن کن اختلافات کو بھلایا جاسکتا ہے ؟
جب دشمن کو اختلاف وجود سے ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ اختلاف کو بھلایا جاسکے۔

یہ دشمنی روز اوّل سے ہمارے سامنے عیاں ہے۔ یہ دشمنی ہر میدان میں ہے ۔ دشمن دشمنی کو نبھانا بخوبی جانتا ہے ۔ وہ گاہے بگاہے اپنی استظاعت کے مطابق حملے بھی کرتا ہے۔۔ آج جنگوں کا مزاج بدل گیا ہے۔ وہ نفسیاتی ، معاشی ،اخلاقی سطح پر لڑی جارہی ہیں ۔ ایسے میں قوم کے نوجوان کے ذہن کو دشمن اور اپنی صفوں میں موجود دشمن کے ہمنواوں سے نابلد رکھنا قوم سے کھلواڑ نہیں تو اور کیا ہے ؟
"یاد رہے کہ جو اقوام ماضی کو بھلا بیٹھتی ہیں ان اقوام کا اپنے مستقبل پر کوئ حق نہیں ہوتا۔"
اشعار جو سقوط ِ ڈھاکہ کی منظر کشی کئے ہوئے ہیں:

پھول لے کر گیا آیا روتا ہوا
بات ایسی ہے کہنے کا یارا نہیں
قبر اقبال سے آرہی تھی صدا
یہ چمن مجھ کو آدھا گوارا نہیں

شہر ماتم تھا اقبال کا مقبرہ
تھے عدم کے مسافر بھی آئے ہوے
خوں میں لت پت کھڑے تھے لیاقت علی
روح قائد بھی سر کو جھکائے ہوئے
کہہ رہے تھے سبھی کیا غضب ہو گیا
یہ تصور تو ہر گز ہمارا نہیں

سر نگوں قبر پر تھا مینار وطن
کہہ رہا تھا کہ اے تاجدار وطن
آج کے نوجواں کو بھلا کیا خبر
کیسے قائم ہوا یہ حصار وطن
جس کی خاطر کٹے قوم کے مرد و زن
ان کی تصویر ہے یہ مینارہ نہیں

متلاشی حق
سید منصور حسین (مانی)
 

Syed Mansoor Hussain
About the Author: Syed Mansoor Hussain Read More Articles by Syed Mansoor Hussain: 32 Articles with 26889 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.