کسان تو چلے گئے مگر ان کا دیا ہوا زخم اب بھی تازہ
اوروزیر اعظم اس کی ٹیس ہنوز محسوس کررہے ہیں ۔ اس کا لال ٹوپی والا بیان ا
حقیقت کا غماز ہے۔ اس نے ان کے ’دیدی اور دیدی‘ والے مکالمہ کی یادتازہ
کردی ہے۔ اس بیان کی خوبی یہ تھی کہ اس نے وزیر اعظم نریندر مودی کو وزیر
اعلیٰ ممتا بنرجی کی صف میں کھڑا کردیا تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ مغربی بنگال کی
شکست کو صوبائی صدر دلیپ گھوش یا پارٹی کے نگراں کیلاش وجئے ورگیہ کے بجائے
نریندر مودی کی شکست قرار دیا گیا۔ اتر پردیش میں مودی جی جس زور و شور سے
حصہ لے رہے ہیں اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ مقابلہ مودی بمقابلہ اکھلیش ہوجائے
اور اس میں بی جے پی کی شکست کو یوگی سے نہیں بلکہ مودی سے جوڑ دیا جائے
گا۔ اس کے بعد یوگی کی جانشینی کی دعویداری اور بھی مضبوط ہوجائے گی اور یہ
مطلب کے یار اور بھی زیادہ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو جائیں گے۔ مغربی
بنگال میں شکست کے بعد آر ایس ایس نے بھی وزیر اعظم کو مخلصانہ مشورہ دیا
کہ وہ صوبائی انتخاب کے چکر میں اپنی مٹی پلید نہ کریں ۔ نرگسیت کا شکار
مودی بھلا کس کی سنتے ہیں؟
اتر پردیش کے انتخاب میں وہ پھر سے اس بات کو بھول چکے ہیں کہ وہ اترپردیش
کے وزیر اعلیٰ نہیں بلکہ ملک کے وزیر اعظم ہیں ۔ اس لیے ان کو اکھلیش کے
منہ نہیں لگنا چاہیے بلکہ یہ کام یوگی ادیتیہ ناتھ پر چھوڑ دینا چاہیے۔
عقلمند انسان دوسروں کی غلطی سے عبرت پکڑتا ہے ۔ ابھی ایک ہفتہ قبل مودی کے
دستِ راست امیت شاہ نے اکھلیش یادو سے پوچھا تھا کہ وہ نہ جانے کس عینک
جرائم دیکھتے ہیں سامنے منہ توڑ جواب آگیا اور بڑی مہارت سے وزیر داخلہ کو
آئینہ دکھا دیا گیا ۔ اس آئینے میں اپنی صورت دیکھ کر شاہ جی یقیناً ڈر
گئے ہوں گے ۔ مودی جی اگر شاہ جی کی رسوائی سے سبق سیکھ لیتے تو ’ٹوپی
‘والا بیان دینے کی غلطی نہیں کرتے لیکن اس کے لیے ٹوپی یا پگڑی کے اندر
موجود کھوپڑی میں دماغ کی ضرورت ہوتی ہے۔ سنگھ پریوار اسی مشین کو ماوف
کرنے میں مہارت ر کھتا ہے۔
مودی جی کا بھی عجیب معاملہ ہے کہ جب وہ گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے تو ان کا
رویہ وزیر اعظم جیسا تھا ۔ وہ عالمی رہنماوں سے قومی رہنما کی مانند ملاقات
بھی کرلیتے تھے لیکن وزیر اعظم بن جانے کے بعد یہ بھول جاتے ہیں کہ اب وہ
کسی صوبے وزیر اعلیٰ نہیں ہیں۔ اس لیے صوبائی انتخابات میں کامیابی حاصل
کرنا ان کی ذمہ داری نہیں ہے۔ ایسی غلطی تو حزب اختلاف کی رہنما سونیا
گاندھی بھی نہیں کرتیں ۔ وہ کسی ریاستی الیکشن میں دوچار جلسوں سے زیادہ
خطاب نہیں کرتیں ۔ ملک کی عوام بار بار مودی جی کو یاد دلاتے ہیں کہ ان کا
یہ کام نہیں ہے اس لیے وہ زحمت نہ فرمائیں لیکن ’دل ہے کہ مانتا نہیں‘۔
۲۰۱۹ کی سرجیکل کامیابی کے بعد انہوں نے مہاراشٹر میں اپنی سرکار گنوادی ۔
ہریانہ میں وزیر اعلیٰ کھٹر کو چوٹالہ کی حمایت لینے پر مجبور کردیا۔
جھارکھنڈ حکومت تو گئی ہی گئی وزیر اعلیٰ بھی ہار گیا ۔ گوا میں جوڑ توڑ کر
حکومت تو بنی مگر وہاں بھی وزیر اعلیٰ ہار گیا۔ دہلی میں تو کیجریوال نے
چاروں خانے چت کردیا۔ بہار میں تیجسوی نے بی جے پی سے ایک سیٹ زیادہ جیت لی
اس لیے بادلِ ناخواستہ نتیش کمار کو کمان سونپنی پڑی۔ اس پے درپے شکست کے
باوجود مودی جی کوئی سبق سیکھنے کے بجائے بنگال کے دنگل میں بے خطر کود گئے
اور ان کا جو حشر ہوا وہ ساری دنیا نے دیکھا۔
مغربی بنگال میں مودی جی کے جوش و جنون کا یہ عالم تھا کہ بنگالی عوام کو
فریب دینے کے لیے انھوں نے اپنے آپ کو گرو دیو رابندر ناتھ ٹیگور کا اوتار
بناکر پیش کردیا ۔ وہ عوام کے سامنے بالکل اسی طرح کی داڑھی اور ویسی ہی
شال اوڑھ کر پرکٹ ہوئے کہ تاکہ لوگ فریب کھا جائیں گے لیکن یہ حربہ بھی
ناکام رہا ۔ بنگالیوں نے پہچان لیا کہ شیر کی کھال میں کون چھپا ہے؟ اس
شناخت کے عمل میں خود مودی جی نے عوام کی مدد کی۔ اس لیے کہ بھدرا لوک کا
احمق ترین شخص بھی رابندر ناتھ ٹیگور سے یہ توقع نہیں کرسکتا تھا کہ وہ
بھرے اجلاس میں کسی خاتون وزیر اعلیٰ کا ’دیدی او دیدی ‘ کہہ کر
تمسخراڑائیں گے۔ یہ بھونڈا مذاق ان کی طبیعت پر اتنا گراں گزرا کہ انھوں نے
سبق سکھانے کا فیصلہ کرلیااور پھر ’’دومئی دیدی گئی‘‘ کے نعرے میں دیدی کو
مودی سے بدل دیا ۔ ویسے بنگالی لوگ اردو بولتے وقت مذکر اور موئنث کے فرق
سے بے نیاز ہوجاتے ہیں ۔ ان کی رہنما ممتا بنرجی نے بھی یہ ثابت کردیا کہ
وہ ابلہ ناری نہیں بلکہ سیاسی میزان میں مودی اور شاہ دونوں پر تنہا بھاری
ہیں۔ بنگال کی انتخابی مہم کے دوران اکھلیش نے ممتا کے لیے ٹویٹ کیا تھا
کہ: ’’ایک اکیلی لڑ جائیگی، جیتے گی اور بڑھ جائے گی‘‘۔ انتخابی نتائج نے
اس پیشنگوئی کو سچ ثابت کردیا۔
مغربی بنگال اور دہلی کی شکست بی جے پی کو یہ سبق سیکھنا چاہیے تھا کہ اگر
کسی ریاست میں مضبوط اور جری علاقائی قیادت ہو تو اس کو شکست فاش سے دوچار
کردینا مودی اور شاہ کے بس کی بات نہیں ہے۔ بی جے پی کو اسی وقت کامیابی
ملتی ہے جب رائے دہندگان مختلف حزب اختلاف میں منقسم ہوں ۔ اتر پردیش کے
اندر بی جے پی نے پہلے تو کانگریس کو نشانہ بنایا لیکن بات بنی نہیں ۔
لکھیم پور کھیری کے معاملے میں پرینکا کے جارحانہ رخ نے یوگی کی انا کو
پارہ پارہ کردیا۔ پہلے یہ سمجھ تھی کہ اپوزیشن متحد نہ ہو تو بی جے پی کا
فائدہ ہوتا ہے مگر کانگریس نے اسی کے برہمن ووٹ بینک میں سیندھ مارنا شروع
کردیا۔ اب بات بڑھی تو انہوں نے مہنگائی کی مار سے پریشان حال خواتین کو بی
جے پی سے دور کرنا شروع کردیا ۔ ان کا نعرہ ’لڑکی ہوں لڑ سکتی ہوں‘ خوب چل
رہا ہے۔ خواتین کے لیے جاری کیا جانے والا مخصوص منشور بھی اپنا اثر دکھانے
لگا تھا ایسے میں اگر بی ایس پی کو آگے بڑھا کر عوام کا ذہن پراگندہ
کردیتی تو یہ اس کے لیے فائدے کا سودہ ہوسکتا تھا۔ اس لیے کہ بہت سارے لوگ
محض اس لیے بی جے پی کو ووٹ دے دیتے ہیں منتشر حزب اختلاف جیت تو نہیں سکتا
لیکن بی جے پی نے اپنی حماقت سے اکھلیش کو اترپردیش کا کیجریوال یا ممتا
بنرجی بنا دیا۔ یہ حکمت عملی بی جے پی کو مہنگی پڑ سکتی ہے کیونکہ جب اروند
کیجریوال کو اے کے ۴۷ کہہ کر نکسلیوں کا حامی گردانہ گیا اور انہیں شہر کے
بجائے جنگل میں بھیجنے کا فرمان جاری کیا گیا تو عوام نے انہیں زبردست
کامیابی سے نواز کر صوبہ دہلی کا بے تاج بادشاہ بنادیا۔
ایک سوال یہ ہے کہ گجرات میں مسلسل انتخاب جیتنے والا نریندر مودی آخر
وزیر اعظم بننے کے بعد ریاستی انتخاب کیوں ہار جاتا ہے؟ نریندر مودی جب
گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے تو ا نہوں نے پہلا انتخاب گودھرا میں سابرمتی
ایکسپریس کے اندر لگی آگ کا بہانہ بناکر جیت لیا۔ اس وقت مرکز میں بی جے
پی کی حکومت تھی جس نے فرقہ وارانہ فساد کرنے کا موقع دیا اور کوئی سرزنش
نہیں کی ۔ا س کے بعد والے انتخاب سے قبل مرکز میں کانگریس سرکار آگئی اس
لیے انہوں نے سہراب الدین اور عشرت جہاں کو اپنا قاتل ٹھہرا کر انکاونٹر
کروا دیا ۔ اس بہانے سے اپنے حق میں تو ہمدردی حاصل کی اور مرکزی حکومت کو
ان کا حامی و مددگار قرار دے کر انتخاب میں کامیابی حاصل کرتے رہے۔ مودی جی
اپنے دور اقتدار میں گجرات کے سارے مسائل کا ذمہ دار مرکزی حکومت کو ٹھہرا
یاکرتے اور کہتے کہ اگر میں ہوتا یہ نہیں ہوتا لیکن اب مرکز میں ان کی
حکومت ہے اس لیے وہ کسی اور کا بل پھاڑ کر اپنی کھال نہیں بچا سکتے۔
یہی وجہ ہے کہ پچھلی بار اگر سرجیکل اسٹرائیک کا داوں نہیں چلتا تو ریاستی
الیکشن کی طرح قومی انتخاب بھی ہارجاتے اور ان کا بھلا ہوجاتا لیکن لیکن
جیسے دانے دانے پر لکھا ہوتا ہے کھانے والے کا نام اسی طرح ہر رسوائی پر
ذلیل ہونے والے کا نام ثبت ہوتا ہے ۔ مودی جی اگر پچھلا انتخاب ہار جاتےتو
لوگ کسان تحریک کے اختتام پر کہتے ’ مودی تھا ممکن تھا‘ اگر وہ ہوتے تو
ہرگز نہیں جھکتے‘ لیکن مشیت کو یہ دکھانا مقصود تھا کہ مودی جی کی تپسیا
بھی ناکام ہوسکتی ہے۔ ان کو آندولن جیویوں کے آگے جھکنا پڑسکتا ہے۔
کسانوں سے معافی مانگنی پڑسکتی ہے اور پھر ایک ایک شرط کی تحریری تصدیق
کرنی پڑتی ہے کیونکہ ان پر کوئی اعتماد نہیں کرتا۔ خیر جو ہوا ٹھیک ہوا اور
اب دیکھنا ہے کہ آگے آگے کیا ہوتا کیونکہ ان کے 56انچ کی چھاتی پر میر
تقی میر کا یہ ا شعار ثبت ہوچکاہے؎
ابتدائے عشق ہے روتا ہے کیا
آگے آگے دیکھیے ہو تا ہے کیا
یہ نشان عشق ہیں جاتے نہیں
داغ چھاتی کے عبث دھوتا ہے کیا
(۰۰۰۰۰۰جاری)
|