ظلم پر ظلم ہے تاکید صیاد کی
زبان کاٹ ڈالونگا گر فریاد کی
سنا تھا کہ جب کسی کے ساتھ ظلم و زیادتی ہو جاتی تھی تو اُس کے حصول انصاف
کیلئے عدلیہ ہوا کرتی تھیں جہاں سے ظالم کو سزا اور مظلوم کو انصاف بہم
پہنچایا جاتا تھا ، قاضی صوم و صلوٰة کے پابند ہوتے تھے اگر کوئی ایسا
معاملہ بھی سامنے آجاتا جس میں مجرم اپنا لخت جگر ہوتا تو یہ قاضی اللہ اور
اس کے رسول کے احکامات کے تحت انصاف برتتے تھے اور کہتے تھے کہ زندگی اور
موت صرف اللہ کو سجتی ہے ہم میں اتنی سکت بھی نہیں کہ لمحہ بھر اپنی مرضی
سے سانس لے سکیں ۔۔۔۔۔آخری نبی زماں حضور کائنات نور مجسم محمد مجتبیٰ و
مصطفٰیﷺ کے زمانے میں ایک خاتون چوری کے الزام میں پیش ہوئی جس کے لیئے کئی
لوگوں نے سفارش بھی کی تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ اگر اس کی جگہ میری چہیتی بیٹی
شہزادی جنت اُم مسلمین و مومنین بی بی حضرت فاطمة الزہرہ رضی اللہ تعالیٰ
عنہا بھی ہوتیں تو میں اسے یہی سزا دیتا ۔۔۔۔ ۔۔ آپ ﷺ نے عدل و انصاف کی
مثالیں اس امت کیلئے اس لیئے پیش کی تھیں کہ یہ امت اس پر سختی سے عمل پیرا
ہوکر اللہ کی خوشنودگی حاصل کرلے اور فلاح پانے والوں میں شامل ہوجائے۔۔۔۔۔پھر
خلیفہ دوئم حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں آپ کے دور
حکومت میں ایک شخص نے آپ کے لباس پر سخت نکتہ چینی سرے عام عوام کے درمیان
کی اور پوچھا یہ لباس جو آپ نے زیب تن کیا ہوا ہے کہاں سے حاصل آیا کیونکہ
آپ کا قد بڑا ہے اور بیت المال سے جو کپڑا آپ کو ملا تھا وہ آپ کیلئے نا
کافی تھا۔۔۔ امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خندہ
پیشانی سے جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ اس شخص کا اعتراض بجا ہے واقعی میرا قد
بڑا ہے اس لیئے جو بیت المال سے کپڑا ملا تھا وہ میرے لیئے نا کافی تھا مگر
میرے بیٹے نے اپنا کپڑا مجھے دے ڈالا تاکہ میں لباس تیار کراسکوں۔۔۔۔۔ حضرت
علی کرم اللہ وجہ الکریم سے ہمیں ایک واقعہ ملتا ہے کہ ایک کفار سے آپ کی
لڑائی ہوئی تو آپ نے اسے گرا ڈالا گرنے کے بعد آپ اس کے سینے پر چڑھ گئے جس
پر اس نے آپ کے مبارک چہرے پر تھوک ڈالا آپ نے اسی وقت اسے چھوڑ دیا دشمن
یہ معاملہ نہ سمجھ سکا اُس نے مولا علی سے معاملہ کی وضاحت معلوم کی تو آپ
نے فرمایا کہ جب میں تجھ سے لڑ رہا تھا اُس وقت اللہ کی رضا تھی لیکن جب تو
نے میرے منہ پر تھوکا تو پھر میرے نفس کا معاملہ آیا تھا میں اللہ کی رضا
پر قائم رہتا ہوں ، کافر نے جب یہ جانا تو اسی وقت ایمان لے آیا۔۔۔۔ یہ وہ
واقعات ہیں جو ہمارے لیئے مشعل راہ بھی ہیں اور اصول زندگی بھی ، اسلام
ضابطہ حیات ہے مگر اس کے ضابطوں سے جس طرح ہم منحرف ہوتے چلے آرہے ہیں یہ
ہماری نہ صرف بد قسمتی ہے بلکہ ہماری تباہی کا سبب بھی۔۔۔۔ اسلام نے سیاست
کا اصولی قانون دیا ہے جس میں انسانیت کے تمام تقاضے شامل ہیں ، پوری
کائنات میں صرف دین محمدی واحد دین ہے جس میں ہر شعبہ ہائے زندگی سمیٹی
ہوئی ہے ہے باریک سے باریک نقطہ کا نہ صرف جواب ہے بلکہ اس کا حل بھی موجود
ہے ، پاکستان میں پاکستانی سیاستدان اور عوام جس قدر آقائے نامدار حضور
اکرم ﷺ کی سنت پر عمل تو درکنار اپنی گفتگو ، بیانات اور پریس کانفرنسوں
میں کرنے سے شرم محسوس کرتے ہیں البتہ کفار و مشرکین کی پالیسوں کی نہ صرف
تعریف بلکہ اسے اپنانے کی کوشش کرتے ہیں حیرت ہے کہ پاکستانی قوم ایسے
حکمرانوں کو منتخب کرکے پاکستان کے معاشرتی، اخلاقی قدروں کو پراگندہ کرنے
کیلئے آزادی فراہم کرتے ہیں انہیں اتنی طاقت بخش دیتے ہیں کہ یہ حکمران و
سیاستدان اسلام سے نفرت کو چھپا نہیں پاتے اور شراب و شباب کو اسٹیٹس قرار
دیتے ہوئے گناہوں کی دلدل میں اوندھے گر پڑتے ہیں لیکن افسوس صد افسوس
میڈیا سب کچھ عیاں کردیتا ہے مگر نہ عدلیہ اور نہ عوام ان کی ان حرکتوں پر
نوٹس لیتے ہیں ، کیا صرف میڈیا کی ہی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ جرم و
جرائم کو عیاں کرے اور کرپٹس سیاستدانوں کے چہرے عیاں کرے ،آخر عوام یہ سب
کچھ تماشائی بنی کیوں دیکھتی رہے گی۔۔۔۔عوام ایک طاقت ہے یہ مفروضہ اب غلط
ہوگیا ہے کیونکہ اب عوام میں ایمان کی طاقت زائل ہوچکی ہے یہاں مجھے ایک
واقعہ یاد آرہا ہے ۔۔۔۔کسی ملک میں بادشاہ بہت ظالم تھا جیسے( پاکستان کے
حکمران اور سیاست دان ہیں ) وہ نہایت سفاک ظالم و جابر تھا اگر کوئی اس کے
خلاف زرا سی بھی بات کرتا تو یہ اسے اسی وقت قتل کروا دیا کرتا تھا ، غریب
و مسکین کا جینا خراب کردیا کرتا تھا تو صابر، ایماندار، سچی عوام اللہ کے
حضور اس بادشاہ کیلئے بد دعا کرتے تو وہ بادشاہ مرجاتا تھا اسی طرح کئی
بادشاہ گزرے اور چند عرصہ میں مرجاتے تھے ایک دفعہ نیا بادشاہ بنا وہ بہت
شاطر و عیار تھا اس نے ایک پلان بنایا وہ یہ کہ تمام رعایا کو کھانے پر
بلایا اور اس کھانے میں خراب گوشت کا استعمال کیا اور دیگر اشیاءمیں بھی
ناپاک چیزیں شامل کیں ، اور اس طرح وہ آئے روز اس قسم کی دعوت کرتا رہا پھر
اس نے گزشتہ تمام بادشاہوں سے زیادہ عذاب ڈھانا شروع کیا تو حسب عادت عوام
نے اس کیلئے بد دعائیں کی لیکن کوئی دعا قبول ہی نہیں ہوتی تھیں ایک روز
رعایا بادشاہ کے دربار پہنچی اور دریافت کیا کہ ہم تیرے لیئے بد دعا کرتے
ہیں لیکن وہ بد دعا پوری نہیں ہوتی آخر کیا ماجرا ہے ، بادشاہ نے کہا کہ
میں نے سنا اور پڑھا تھا کہ مومن کو اگر حرام کھلانا شروع کردو تو اس کی
دعائیں معلق رہ جاتی ہیں اور بد دعا کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔۔۔آج پاکستان
میں جس طرح بربریت، ظلم و تشدد، قتل و غارت گری کا بازار گرام ہے ضرور عوام
الناس بھی سیاستدانوں ، حکمرانوں سے کم نہیں حرام میں مبتلا ہوگئی ہے اسی
لیئے پاکستان میں ہر طرف انارکی پھیلی ہوئی ہے۔ عدلیہ رشوت کا بینک،
انتظامیہ ظالم کی کوٹھری، ایوان مچھلی بازار جو نہایت بد بو سے بھرا ہوتا
ہے۔۔۔ کہیں بھی سکھ نہیں مسجد و اما م بارگاہ میں فرقہ بندیاں ،مولوی ملا
کاپیٹ موٹے سے موٹا ہونا،مزارات میں عورتوں کا عیاں ہونا، جعلی پیر و فقیر
وں کے تماشے ، انتہا پسندوں کا بپھرنا، کہیں لسانیت تو کہیں فرقہ واریت پر
ایک دوسرے کا خون بہانا،ایسے حالات میں سیاستدانوں کا میٹنگ کرنا، معاشی
بدحالی و صنعت کاری کا مرجھانایہ سب کچھ کیا ہے؟؟؟؟ کیا یہ پاکستان کے مخلص
ہیں یاسی آئی اے، را، موساد کے آلہ کار۔۔۔۔ہر طرف مافیہ ہی مافیہ کا قبضہ
ہے اور پشت پناہی ان سیاستدانوں کی، آخر کب تک چلتا رہے گا یہ ملک یونہی
جلتا رہے گا، اس آگ کو بجھانا ہے سیاسی مافیہ کو نیست و نابود کرنا ہے ،
خود کو بچانا ہے ملک کو سنوارنا ہے،یک قوم بنکر ابھرنا ہے ، اپنے نظام کو
تبدیل کرنا ہے، ایک اللہ ایک رسول اور قرآن کے احکام پر چلنا ہے ، ایسا
ماحول جو اسلام نے دیا ہے اسے اپنانا ہے، قرض کے چنگل سے نکلنا ہے، غداروں،
عیار و مکاروں کو مار بھگانا ہے۔ اس سر سبز زمین کے ہر زرہ کو چمکانا ہے ۔۔
وہ دن ضرور آنا ہے ۔۔وہ دن ضرور آنا ہے۔
لیکن اس کیلئے عوام کو اپنی آنکھیں کھول کر زبان میں آواز پیدا کرنے کی
ضرورت ہے بگڑتے حالات پر آنکھیں بند کرلینا شترمرغ کی عادت ہوتی ہے شترمرغ
ایک جانور ہے اور عوام انسان ، پاکستانی عوام کوغیور ،بہادر اور زندہ قوم
بنکر ابھرنا ہے ، ورنہ سستی و کاہلی انہیں بہت پیچھے لے جائے گی اور ان کے
سینوں پر دشمن کے آلہ کار پاکستانی سیاستدان چڑھ بیٹھے گے ابھی تو صرف چڑھے
ہی ہیں اگر وقت ضائع کیا تو یہ قابض ہوکر اس قوم کی ہستی مٹادیں گے ان مین
تمام سیاسی جماعتیں شامل ہیں ، اپنی نسل کے مستقبل کیلئے ایک بار پھر عوام
کو ایسا انقلاب لانا ہے جو کسی لیڈر کے سہارے نہ ہو بلکہ نظام کی تبدیلی
کیلئے آئین و قانون کو مذہب اسلام کے سانچے میں ڈال گیا ہو اور سختی سے عمل
پزیر کرایا جائے جس میں حکمران سے لیکر عام عوام تک کے احتساب کا سخت عمل
شامل ہو؟؟؟ان میں انتظامیہ و پولیس کا نظام، عدلیہ کا نظام اور الیکشن کا
نظام سر فہرست ہیں ، عدلیہ اور انتظامیہ و پولیس کو سیاسی وزراءسے آزاد
کریا جائے تاکہ یہ ادارے آزادانہ قانقن پر پیروی کراسکیں اور خود بھی
کرسکیں ان میں بھی احتساب کا عمل ہو تاکہ اختیارات کا ناجائز استعمال نہ
برتا جائے،عدلیہ میں کیسوں کا فی الفور فیصلہ کیا جائے جنھیں کمپیوٹر میں
سسٹمائز کرکے آسان بنایا جائے، پولیس کے محکمے کو انٹرنیٹ کے ذریعے پورے
پاکستان سے ملا دیا جائے تاکہ کوئی بھی کیس کہیں بھی کسی بھی شہر کے تھانے
میں دیکھا اور سمجھا جائے تاکہ جرائم پر کنٹرول کے ساتھ اس پر دائرہ تنگ
کردیا جائے۔ ۔۔۔ یہ سب کچھ کون کریگا اور کب کریگا ۔۔۔ یہ عوام کو ہی سوچنا
ہے اب لیڈروں کے چنگل سے آزاد ہونا ہے ورنہ شائد یہ ملک ؟؟؟؟؟؟؟ اللہ اس کا
نگہبان رہے آمین |