پروفیسر صابر لودھی (گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کے ممتاز ، شفیق استاد اور ہر دلعزیز شخصیت)

پروفیسر صابر لودھی

صابر لودھی کا اصل نام محمد صابر علی خاں لودھی ہے انہوں نے 38 برس اردو زبان وادب کی تدریس میں گزارے ہیں۔ ان میں سے 34 برس ان کا تعلق گورنمنٹ کالج لاہور سے رہا۔ آپ کو استاد الاساتذہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔ وہ خود فرمایا کرتے تھے کہ میری زندگی کا سب سے بڑا اعزاز ہزاروں شاگردوں کی ذہانت بھری مسکراہٹ ہے جس نے مجھے سدا مسرور رکھا۔ صابر لودھی گزشتہ دس برس سے اورینٹل کالج میں بطور وزیٹنگ پروفیسر‘ شعبہ اردو سے منسلک بھی رہے۔ انہوں نے شاعری بھی کی اور تنقیدی مضامین بھی لکھے لیکن ان کے خاکوں کا مجموعہ ’’بھلایا نہ جائے گا‘‘ ان کی پہچان بن چکا ہے۔ پروفیسر صابر لودھی کہا کرتے تھے کہ ان کا بہت سا وقت اپنی اہلیہ فرخندہ لودھی کے افسانوں کو Rewrite کرتے ہوئے گزرا اور یہ ان کی زندگی کے قیمتی لمحات تھے۔ روزنامہ پاکستان کے لیے جناب عمران نقوی نے صابر لودھی سے ایک مکالمے کا اہتمام کیا تھا جس میں انہوں نے خاکہ نگاری کے علاوہ ماضی اور حال کے ادبی سماج‘ اردو زبان کی صورت حال‘ مختلف ادبی مسائل اور دیگر موضوعات پر تفصیلی اظہار خیال کیا تھا۔ تاکہ پروفیسر صابر لودھی کی زندگی پر ریسرچ کرنے والوں کو آسانی رہے۔اب جبکہ پروفیسر صابر لودھی اور عمران نقوی دونوں ہی اس دنیا میں نہیں رہے اس لئے ان دونوں فرشتہ صفت انسانوں کے ایصال ثواب اور دعا کے بعد ان کی یادوں سے آراستہ یہ مضمون شائع کیا جارہا ہے۔ حسن اتفاق سے 31دسمبر 2014ء کا دن پروفیسر صابر لودھی کی اس دنیا سے رخصتی کا دن ہے۔اس لئے ہم کیوں نہ اس فرشتہ صفت انسان اور شفیق استاد کو یادوں کو شیئر کرتے چلیں ۔
....................
سوال : آپ کہاں پیدا ہوئے اور آپ کے آباؤ و اجداد کا تعلق کس شہر سے تھا اور ان کا پیشہ معاش کیا تھا ؟
پروفیسرصابر لودھی: میں بھارتی پنجاب کے ضلع انبالہ کی تحصیل کھرڑ کے گاؤں سیالبہ ( ماجری) میں پیدا ہوا ۔ یہ گاؤں چندی گڑھ سے 21 کلومیٹر ( مغرب کی جانب ) کے فاصلے پر واقع ہے۔ میرے جد امجد کا تعلق ضلع روپڑ سے تھا ۔ خاندان کے لوگ ہوشیارپورمیں بھی آباد تھے اور بہلول پور ( ضلع لدھیانہ ) میں بھی ۔ آبائی پیشہ سپہ گری اور زمینداری تھا ۔ میرے پڑدادا ٗرنجیت سنگھ کی فوج میں کمان دار تھے ۔ ان کانام عاقے خان تھا ( غالبا عاقل خان ) انگریزوں کے خلاف لڑے ۔ زوال کا شکار ہوئے ۔ سیالبے کی قدیم حویلی میں پناہ لی ۔ وہیں زمینداری کرتے رہے ۔ میرے والد محترم کی شادی بسی پٹھاناں ۔ سرہندبسی ) پٹیالہ سٹیٹ میں ہوئی ۔ انہوں نے اسی شہر میں سکونت اختیار کی۔ مکان بنایااور مدرسی کو پیشہ بنایا ۔
سوال :آپ نے دینی اور دنیاوی تعلیم کہاں سے اور کن کن تعلیمی اداروں سے حاصل کی ۔ ان تعلیمی اداروں اور اساتذہ کرام کا آپ کی ذہنی تربیت کے حوالے سے کیا کردار ہے ؟
پروفیسرصابر لودھی: میری والدہ محترمہ حافظ قرآن تھیں ۔ انہوں نے مجھے قرآن پاک پڑھایا اور زور دیا کہ ناظرہ کے ساتھ ساتھ میں ترجمہ بھی پڑھتا جاؤں ۔ ساتویں جماعت تک میری تعلیم "بسی پٹھاناں "کے گورنمنٹ ہائی سکول میں ہوئی ۔ درمیان میں ایک سال ( چھٹی جماعت ) پونے کے عبدالواحد اسلامیہ ہائی سکول میں پڑھا۔ آٹھویں جماعت کاامتحان اپنے گاؤں کے مڈل سکول سے پاس کیا ۔ گاؤں میں ورنیکلر کاامتحان ہوتا تھا ۔ میں اور میرا ہم جماعت رام مورتی پنڈت اینگلوورنیکلر کاامتحان دینا چاہتے تھے اس لیے انگریزی پڑھنے کورالی ہائی سکول پیدل جاتے تھے ۔ 1947ء میں اسی سکول کے ساتھ ہمارا کیمپ لگا ۔ بدقسمتی سے ہم دونوں انگریزی میں فیل ہوگئے اور مجھے سزا کے طور پر اسلامیہ ہائی سکول روپڑ میں داخل کروا دیا گیا وہاں چند ماہ بورڈنگ ہاؤس میں رہنا پڑا ۔ پھر فسادات شروع ہوگئے ۔پاکستان پہنچنے کے بعد میٹرک کاامتحان علی پور ضلع مظفر گڑھ سے دیا اور پھر چار سال ایمرسن کالج ملتان میں گزارے ۔ ان دو تعلیمی اداروں نے میری ذہنی تربیت کی ۔ بی اے میں ٗ میں نے پروفیسر ملک بشر الرحمان کی شاگردی میں اردو زبان و ادب کی اتنی کتابیں پڑھ لی تھیں کہ ایم اے میں محنت کی ضرورت محسو س نہیں کی ۔ 1956ء میں اورینٹل کالج سے ایم اے اردو اور 1958ء میں ایم اے فارسی کیا۔ اساتذہ سے جو سیکھا وہی عملی زندگی میں میرے کام آیا۔ وگرنہ من ہماں خاکم کہ ہستم ۔
سوال : ان اساتذہ کرام کے بارے میں بتائیں جنہوں نے آپ کی زندگی کو کامیابیوں کی شاہراہ پر گامزن کردیا اور اب بھی ان کی باتیں آپ کو رہنمائی کرتی ہیں ؟
پروفیسرصابر لودھی:نام نہاد "صنعتی انقلاب" سے پہلے بیشتر اساتذہ اپنے شاگردوں کی تربیت پر توجہ دیتے تھے ۔ اساتذہ نے پانچویں جماعت میں نظیر اکبر آبادی کی نظمیں پڑھا دی تھیں۔
پڑے بھٹکتے ہیں لاکھوں دانا ٗ ہزاروں پنڈت کروڑوں سیانے
جو خوب دیکھا تو یار آخر خدا کی باتیں خدا ہی جانے
درحقیقت اساتذہ کرام نے اپنی باتوں سے ہماری سوچ کو ایک زاویہ عطاکردیا تھا۔ ہندوستانی سماج کی طبقاتی تقسیم سمجھ میں آنے لگی تھی ۔ مڈل کلاس میں ایک سکھ سردار نے ( جو تاریخ کا مضمون پڑھاتے تھے ) انگریزوں کے خلاف نفرت کا سبب واضح کیا ۔ انقلاب کا راستہ دکھایا ۔ اباجی نے بے لوث خدمت کا جذبہ بیدار کیا۔ وہ ٹیوشن نہیں پڑھاتے تھے ۔ برادری اور غریبوں کے بے شمار بچوں کو انگریزی اور ریاضی میں رواں کردیا۔ میں نے ان سے سیکھا کہ علم سوداگری نہیں ۔ پروفیسر ملک بشیر الرحمان نے ادب سے لگاؤ پیدا کیا۔ قیوم نظر نے زندگی بسر کرنے کاطریقہ سکھایا۔ وہ تدریس کے علاوہ جو بھی علمی ادبی کام کرتے تھے اس کا انکم ٹیکس ضرور کٹواتے۔ تنگ دستی میں قہقہے لگانا میں نے ان ہی سے سیکھا۔ وہ نصیحت نہیں کرتے تھے زندگی بسر کرکے دکھاتے تھے ۔ فرخندہ کی رفاقت نے میرے غصے اور کرودھ کوکم کیا ۔ وہ کہتی تھی " تعلقات کو سرمایہ سمجھو ۔ دوسروں کو حماقتیں اوربے وفائیاں کرنے دو ۔ اپنے دل کو میلا نہ کرو ۔ یہی حوصلہ مندی کا راستہ ہے ۔"
سوال: تقسیم ہند کا معرکہ شروع ہوا تو آپ اس وقت کہاں تھے اور کن حالات کا سامنا کرنا پڑا؟
صابر لودھی: یقین اور بے یقینی کی کیفیت کے درمیان وقت ٹھہر گیا تھا۔ یقین کی دولت انبالہ ڈویژن اور پٹیالہ سٹیٹ کے بڑے بڑے شہروں اور قصبوں کے لوگوں کو حاصل تھی جو ریڈیو سنتے‘ اخبار پڑھتے اور سیاسی پارٹیوں کے مقامی لیڈروں کی تقریروں اور بھاشنوں سے دل بہلاتے۔ ’’بٹوارہ ہو کر رہے گا‘ پاکستان بن کر رہے گا۔‘‘ قیام پاکستان اور تقسیم ملک کی تاریخ کا اعلان بھی ہو چکا تھا۔ 14 اگست 1947ء غلامی سے نجات کا دن۔ آزادی کا دن۔ ایک نئی مملکت کے قیام کا دن۔ انبالہ‘ پٹیالہ‘ کالکا‘ راجپورہ‘ روپڑ‘ مورنڈہ اور کورالی میں سبز‘ ترنگے اور نیلے جھنڈے لہرانے شروع ہو گئے تھے لیکن آبادی کا بڑا حصہ‘ دیہات کے لوگ‘ افواہوں کی زد میں تھے۔ بے یقینی کے عذاب میں تھے۔
ان دنوں میں اپنے گاؤں سے چالیس میل دور روپڑ کے ایک سکول (اسلامیہ سکول) میں آٹھویں جماعت کا طالب علم تھا۔ بورڈنگ ہاؤس میں رہتا تھا۔ دریائے ستلج کے کنارے پر آباد یہ خوبصورت شہر بڑا بارونق تھا۔ اسی مقام پر دریائے ستلج سے ’’نہر سرہند‘‘ نکالی گئی تھی جو انبالہ‘ پٹیالہ اور لدھیانہ کی زرعی زمینوں کو سیراب کرتی تھی اور جس میں صندل‘ دیودار اور چیڑ کے درختوں کی بڑی بڑی کیلیاں بہائی جاتی تھیں جو پانی کے تیز بہاؤ کے ساتھ منزل مقصود پر پہنچ جاتی تھیں۔
روپڑ سے ذرا اوپر دریائے ستلج پر بھاکڑہ ڈیم بننا شروع ہو گیا تھا۔ اس ڈیم کی تعمیر سے ہماری بارانی زمینوں کو نہری پانی میسر آنا تھا۔ دریائے ستلج کا ٹھنڈا‘ میٹھا پانی ہمارے لئے امرت سے کم نہ تھا۔ سکھوں کی اکثریت کے باوجود روپڑ کے لوگوں میں بڑا بھائی چارہ تھا۔ زندہ دلی تھی‘ سکون تھا اور رنگینیاں بھی تھیں۔ بھاکڑہ ڈیم کی تعمیر کے سبب کابلی افغانوں اور پٹھانوں کی بڑی تعداد روپڑ میں جمع ہو گئی تھی۔
مئی کے مہینے میں اچانک روپڑ کی گلیوں اور بازاروں میں اکالی سکھ کثرت سے نظر آنے لگے۔ نیلے کرتے‘ نیلے پاجامے اور نیلی پگڑیاں۔ روپڑ کے امن پسند رنگ پر نیلاہٹ پھر گئی…… ’’راج کرے گا خالصہ۔‘‘ اور ’’جو بولے سو نہال‘ ست سری اکال‘‘ کے نعروں کی گونج نے فضا میں خوف اور اداسی کی کیفیت طاری کر دی۔ روپڑ شہر کے لوگ خود کو اجنبی اجنبی سا محسوس کرنے لگے۔ ستلج کے کناروں پر خاموشی نے ڈیرے ڈال دیئے۔ رومان پرور لوگ ٹھنڈی آہیں بھرنے لگے۔
24مئی 1947ء کو روپڑ شہر میں سکھوں کے پانچویں گرو ارجن دیو کا شہیدی دن منایا گیا۔ روپڑ میں سکھوں کا بہت بڑا اکٹھ ہوا۔ تمام دن سکھوں کی مختلف ٹولیاں مضافات سے شہر میں داخل ہوتی رہیں (بعد میں پتا چلا کہ سکھوں نے خالصتان کے حصول کے لئے ’’اکالی فوج‘‘ بنا لی تھی۔ اس فوج کے مختلف دستوں کے الگ الگ نام تھے۔ اکالی سینا‘ اکال دَل‘ نہنگ سکھ‘ ان تمام دستوں میں سب سے خطرناک جتھا ’’شہیدی جتھا‘‘ کہلاتا تھا جو تین ٹکڑیوں میں تقسیم تھا۔ ایک جتھا قتل وغارت گری میں حصہ لینے والے سکھوں اور ہندوؤں کے گھروں اور گوردواروں کی حفاظت پر مامور تھا۔ دوسرا جتھا رسد کا سامان فراہم کرنے اور صاحب حیثیت سکھوں اور ہندوؤں کے گھروں میں جا کر پیسے اکٹھا کرنے کا فریضہ ادا کرتا تھا اور تیسرا جتھا جسے ’’سرلتھ‘‘ (سر کاٹنے یا کٹانے والا کہا جاتا تھا سر پر زرد کپڑے کا کفن باندھ کر مرنے مارنے کے لئے نکلتا تھا) بڑے گودوارے کے صحن میں اشتعال انگیز تقریریں ہوئیں۔ گوردوارے کے باہر کھلے میدان میں ’’اکالی خالصہ‘‘ گتکے اور شمشیرزنی کے کمال دکھاتے رہے۔ سیاست کے تدبر پر جنوبی مذہبی گروہ غالب آ چکا تھا۔ امن کی راہیں تاریک ہو رہی تھیں۔
سکھوں کے اس جوش وخروش کو ہم طلبہ…… تماشا سمجھ کر خوش ہو رہے تھے لیکن جب تین چار دن بعد سکول بند کر دیئے گئے اور ہمیں بورڈنگ ہاؤس کی (ایک ماہ کی) فیس لئے بغیر گھروں کو جانے کا حکم ملا اور ’’ویر بھارت‘‘ میں ماسٹر تارا سنگھ کا خالصتان کے حق میں ایک بیان چھپا تو حالات کی سنگینی کا اندازہ ہوا۔ میں اپنے گاؤں پہنچا تو گاؤں کے لوگوں کو بدلا بدلا سا پایا۔ تفصیل تو یاد نہیں لیکن اتنا اچھی طرح یاد ہے کہ ان دنوں میرا گاؤں خوف وہراس کی لپیٹ میں آیا ہوا تھا۔ عجیب وغریب ناقابل فہم باتیں سامنے آ رہی تھیں۔ گاؤں کے ہر گھر میں مرغیاں پالی ہوئی تھیں اور وہ کھلے میں دانا دنکا چنتی پھرتی تھیں۔ دوستوں نے بتایا ہر روز کسی نہ کسی گھر سے دو تین مرغیاں غائب ہو جاتی ہیں۔ مرغیوں نے انڈے دینے بھی بند کر دیئے ہیں۔ مرغوں کی بانگ کم کم سنائی دیتی ہے۔ ہمارے گھر میں بھی چالیس پچاس مرغیوں کی جگہ دس بارہ مرغیاں رہ گئی تھیں۔ کوئی چور پکڑکرا نہیں لے گیا تھا۔ پہلے کبھی ایسا ہوا بھی نہیں تھا۔
جون کی آخری تاریخوں یا جولائی کی پہلی تاریخوں کی ایک گرم شام تھی۔ میں اپنی گائے کے آگے چارہ ڈال رہا تھا کہ سسماندی کے طرف سے شور وغل کی آواز سنائی دی۔

(2)
میں چارہ چھوڑ کر ندی کی طرف بھاگا۔ گاؤں کے بے شمار لوگ لاٹھیاں اور پتھر اٹھائے ندی کے کنارے سرکنڈوں میں چھپے کسی جاندار کو تلاش کر رہے تھے۔ میں بھی ایک ڈنڈا اٹھا کر ہجوم میں شامل ہو گیا۔ اچانک سرکنڈے کے ایک جھاڑ میں سے بورے رنگ کا نہایت صحت مند کتا نمودار ہوا اور سرکنڈے کے دوسرے جھاڑ میں روپوش ہو گیا۔ اس کے بھورے رنگ کی چمک آج بھی میری آنکھوں میں محفوظ ہے۔ امریکن ناول نگار ہرمن میلول کے ناول ’’موبی ڈک‘‘ کے خوفناک لنگڑے کپتان اہاب کی طرح جو اچانک اپنے بحری جہاز کے تہہ خانے سے نکل کر عرشے پر کھڑے ملاحوں کو خوفزدہ کر گیا تھا۔ بھورے رنگ کا یہ موٹا تازہ اور چمکدار کتا لمحہ بھر کے لئے مجمع کو خاموش اور حیرت زندہ کر گیا۔
کئی ماہ سے گاؤں کا یہ آوارہ کتا غائب تھا۔ غالباً ندی کے کنارے سرکنڈوں کی جھاڑیوں کے درمیان کسی کھوہ میں چھپا رہتا تھا اور اچانک آ کر ایک دو مرغیاں گردن سے دبوچ کر غائب ہو جاتا تھا۔
آج ایک نوجوان نے اتفاقاً اسے مرغی لے جاتے دیکھ لیا اور شور مچا دیا۔ جڑواں گاؤں کے لوگ بھی ڈنڈے لے کر ندی کے پاٹ میں نکل آئے۔ کتے کو خطرے کا احساس ہو گیا اور وہ باؤلے کتے کی طرح ادھر ادھر بھاگنے لگا۔ ڈنڈے چلنے لگے۔ سنگ باری شروع ہو گئی۔ دو تین گھنٹوں کی کشمکش کے بعد سینکڑوں لوگوں نے کتے کو جان سے ماردیا۔ کتے کے سر پر جو چوٹیں لگی تھیں اس نے اسے نڈھا ل کردیا تھا ورنہ اس کا چمکدار جسم اور طاقت ور ٹانگیں بالکل محفوظ تھیں۔
گاؤں والوں کا وہم تھا یا کوئی پراسراریت۔ کتا جن سرکنڈوں میں رہتا تھا وہاں رات کے وقت آہوں اور سسکیوں کی آوازیں آنے لگیں۔ کبھی کبھی ایسا لگتا بہت سے لوگ بھاگ رہے ہوں۔ بالکل اسی طرح جس طرح ہم کتے کے تعاقب میں بھاگ رہے تھے۔ ان ہی دنوں میں اپنی کھنڈر حویلی کے صحن میں بیٹھا ایک خوبصورت گلہری کو دیوار سے لگی لکڑی کی سیڑھی پر اترتے چڑھتے دیکھ رہا تھا۔ میں نے بے وجہ شرارتاً اینٹ کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا اٹھایا اور اس کی طرف پھینکا۔ وہ تڑپ کر نیچے گری اور مر گئی۔
گاؤں کے چوپال میں گانے والے کیمہ ملکی کا قصہ یا کنکاں دیاں فصلاں پکیاں نیں۔ پکوان پکاؤ ندیاں جٹیاں نیں (گندم کی فصل پک چکی(فصل کاٹنے والوں کے لئے) جاٹ عورتیں پکوان پکا رہی ہیں) کی تان اڑاتے…… آوارہ لڑکے گاؤں کی گوریوں کے قریب سے گزرتے ہوئے اونچی آواز میں فلمی مصرعے دہراتے:
گھڑی گھڑی پنگھٹ پر آنا
جھوٹ موٹھ کی پریت جتانا
ہمیں یاد ہے
پھر اور کسی سے آنکھ ملانا
ہم سے آنکھ چرا کر جانا
ہمیں یاد ہے
یا پھر نور جہاں کی آواز کانوں میں رس گھولتی ’’آواز دے کہاں ہے؟ چلنے کو اب فلک پر تاروں کا کارواں ہے۔ ایسے میں تو کہاں ہے؟‘‘ لیکن اب گاؤں خاموش تھا۔ گاؤں کے دو ریٹائرڈ فوجی جو اپنی کمائی سے گراموفون خرید کر لائے تھے اور جن پر ہم دن رات نئی نئی فلموں کے گیت سنا کرتے تھے‘ الماریوں میں بند پڑے تھے۔ ریکارڈ کی سوئیاں ختم ہو گئی تھیں۔ خوف کے سائے گاؤں سے کورالی جانے والے راستے پر پھیلے ہوئے تھے۔ اکالیوں کا ایک جتھا سسماندی کے کنارے کنارے چلتا ہوا گزرا۔ انہوں نے گتے کے پوسٹر سوٹیوں میں پرو کر کندھوں پر لگا رکھے تھے۔ گورمکھی میں کئی نعروں کے ساتھ ساتھ یہ بھی لکھا ہوا تھا۔
’’کندھا وچ چنوائے‘ ماں گجری دے جائے‘‘ (گوجری ماں کے دو بیٹوں کو زندہ دیوار میں چنوا دیا گیا تھا) یہ تاریخ کا جبر تھا۔ مغلیہ دور کے‘ پنجاب کے صوبے دار نے کسی گرو کے بچوں کو قتل کروا دیا تھا۔ اور اب اکالی (خصوصاً نہنگ) ان کا بدلہ لینے کا پروگرام بنا رہے تھے۔ لوک گیتوں پر دھارمک گیتوں نے غلبہ حاصل کر لیا تھا۔ متعصب اکالی بسنتی چولے کو بھی بھول چکے تھے۔
سب لوگ تقدیر اور حالات کے رحم وکرم پر تھے۔ مئی کی 24 تاریخ کو مورنڈہ (باگاں والا) میں کشیدگی بڑھ گئی۔ ایک بدمعاش نے (جو چند دن پہلے نہنگوں کے جتھے میں شامل ہوا تھا) ایک معزز سکھ نمبردار کو دن دہاڑے قتل کر دیا۔ نمبردار اپنے قصبے کے مسلمانوں کے حق میں بات کرتا تھا۔ قتل سے اگلے روز سرخ رنگ کی آندھی چلی۔ مشہور تھا ’’سرخ آندھی کسی معصوم بے گناہ کے قتل کے سبب آتی ہے۔‘‘ یہ آندھی لوگوں کو خوفزدہ کر گئی۔ مورنڈہ‘ کورالی‘ روپڑ‘ کھرڑ‘ موہالی اور تمام دیہاتوں میں لوگوں نے شام کے وقت گھروں سے نکل کر چوپال میں جانا چھوڑ دیا۔ گلی سے بیل گزرتے‘ ان کے گلے میں بندھی گھنٹیوں کی آواز سنائی دیتی مگر ہاری شاید سانس تک روکے رکھتا۔ ہماری طرف مسلم لیگ نے کوئی ہوم ورک نہ کیا تھا۔ مسلمانوں میں بے یقینی بڑھتی جا رہی تھی۔ دو ماہ کیسے گزرے۔ ان کی تفصیل اب یاد نہیں۔ رمضان کے مقدس مہینے میں ابا جی پٹیالے سے گھر پہنچ گئے۔ اب ہمارے گھر میں چار افراد ہو گئے۔ ابا جی‘ آپا اور ان کا میاں شمشیر علی خاں (جو تایا زاد بھائی بھی تھا) اور میں۔ سوا سال کی ایک چھوٹی بچی انیسہ جو ہمارا دل لگائے رکھتی۔ ہماری اداسی کو کم کرتی رہتی۔
چودہ اگست کی تاریخ آنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ افواہوں کی چھاؤنی چھائی تھی۔ جو مہمان گاؤں میں آتا نئی افواہ لے کر آتا۔ ’’مورنڈے کے قریب بھاکڑہ ڈیم سے واپس آنے والے دو پٹھان قتل کر دیئے گئے۔‘‘ کھرڑ کے گوردوارے میں ایک ’’دیوان‘‘ منعقد ہوا جس میں فیصلہ کیا گیا کہ مسلمانوں کو ان کے ’’پاک استھان‘‘ دھکیلا جائے یا مار دیا جائے۔‘‘ اکالی سینا کو مہاراجہ پٹیالہ ہتھیار دے رہا ہے۔‘ جگادھری کے مسلمان اپنی جان بچا کر کہیں بھاگ گئے ہیں‘ کورالی کے ’دیوان‘ میں مسلمانوں کو مارنے اور ان کے گھروں کو لوٹنے کا فیصلہ ہوا ہے تاکہ ’’خالصتان‘‘ کے لئے سینا تیار کی جائے‘ 15 اگست کی صبح آئی تو ہم تک افواہ کی طرح خبر پہنچی‘ رات پاکستان وجود میں آ گیا ہے‘ ہمارے دشمن شیر سنگھ نے اپنے بھائی گرنام سنگھ کے گھر ریڈیو پر یہ خبر سن کر ہم تک پہنچائی‘ بھارت ماتا کٹ گئی‘ ابا جی نے خوش ہو کر کہا ہمارے پلیڈر مسٹر جناح نے آخر اپنی بات منوا کر دم لیا۔‘‘ اس زمانے میں قائداعظم محمد علی جناح کو یا تو پورے نام سے یاد کیا جاتا تھا یا مسٹر جناح کے نام سے اور پلیڈر اس لئے کہتے تھے کہ انہوں نے انگریزوں کے سامنے مسلمانوں کا مطالبہ ’’پلیڈ‘‘ کیا تھا۔
گاؤں والوں کو بھی پاکستان بننے کا یقین آ گیا۔ عید کو دو تین دن رہ گئے تھے۔ یہ تین دن بڑے پریشان کن تھے۔ گاؤں کے ایک مسلمان ایک دوسرے سے ملتے‘ کچھ کہنا چاہتے‘ کہہ نہ پاتے۔ ’’اﷲ تعالیٰ اچھا کرے گا‘ اب کیا ہو گا؟‘‘ خود کو تسلی دیتے یا نامکمل سوال کرتے۔ ہمارے گاؤں میں ہندو راجپوتوں کی تعداد خاصی تھی۔ وہ ملتے تو بجھی آنکھوں سے دیکھتے۔ حوصلہ بڑھاتے۔ ’’سب ٹھیک ہو جاوے گا۔‘‘ خان صاحب! ہم تمہارے ساتھ ہیں۔‘‘ کم عمری کے باوجود مجھے احساس ہوتا کہ گاؤں کے سبھی لوگ بھیتر سے ٹوٹ چکے ہیں۔ مسلمانوں کو قیام پاکستان کی خوشی نہیں‘ ہندوؤں کو انگریز کی غلامی سے آزاد ہونے کا احساس نہیں۔ امرتسر سے بھاگ کر آنے والے گاندھیوں کا خاندان البتہ چہرے پر مکروہ ہنسی کا مکھوٹا چڑھائے پھرتا تھا۔ ’’گورے کچھ نہ کچھ کر کے جاویں گے۔‘‘، ’’کیا کر کے جائیں گے؟ یہ سوال سونے نہیں دیتا تھا۔ اکالی اور ان کا نیلا رنگ آنکھوں کے سامنے پھیل جاتا تھا۔ جو بولے سو نہال‘ ست سری اکال‘ راج کرے گا خالصہ۔‘‘ باقی سارے راج تلپٹ ہو چکے تھے۔
عید کا اداس دن آیا۔ نمازی بے دلی سے گلے ملے۔ کچھ ہونے والا ہے۔ کچھ ہونے والا ہے۔ گاؤں کی فضا اور جھکے ہوئے سیاہ بادل پیغام دے رہے تھے۔ اندر سے آواز آ رہی تھی۔ ’’جو ہم پر گزرنی ہے اک بار گزر جائے۔‘‘ اور گزرنے کا یہ عمل سورج غروب ہوتے ہی شروع ہو گیا۔
مجھے گھر کا سب سے قیمتی سرمایہ سمجھتے ہوئے گاؤں کے وسط میں واقع مسلم راجپوتوں کے ڈیرے پر بھیج دیا گیا۔ وہاں بہت سے اجنبی لوگ جمع تھے۔ صبح ہوتے ہی گاؤں سے نکل جانے کی باتیں ہو رہی تھیں۔ گھر کے باقی تینوں فرد‘ ننھی انیسہ سمیت اپنی حویلی کی چھت پر سوتے جاگتے پو پھٹنے کا انتظار کرنے لگے۔
اس دن میرے گاؤں میں فجر کی اذان نہیں ہوئی کیوں کہ پو پھٹنے کے ساتھ ہی گاؤں کی مسلم آبادی مانک پور شریف کی طرف چل پڑی۔ مانک پور مسلمان اکثریت کا ایک خوبصورت گاؤں تھا۔ یہاں ایک بزرگ کا بہت بڑا تاریخی مزار ہے (چندی گڑھ سے بیس کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے) طلوع آفتاب سے پہلے گاؤں کی پوری آبادی مانک پور کے زمینداروں اور نمبرداروں کے ڈیروں اور کھلے میدانوں میں پناہ لے چکی تھی۔ میں ابا جی اور آپا ایک ایک جوڑا کپڑے اور چند چادروں کو اٹھائے بھاگے تھے۔ بھائی شمشیر کے دوستوں نے انہیں روک لیا تھا کہ وہ گھر کا کچھ قیمتی سامان سمیٹ کر جائیں۔ دن کے گیارہ بجے بھائی شمشیر بھاگتے ہوئے مانک پور پہنچے۔ وہ موت کے چنگل سے آزاد ہو کر آئے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ جب وہ گھر کا سامان گٹھڑی میں باندھ چکے تو راشٹریہ سیوک سنگھ کے غنڈوں نے گاؤں پر حملہ کیا۔ وہ تعداد میں زیادہ نہ تھے مگر شور اور نعروں سے اپنے اندر کا خوف دور کر رہے تھے۔ بھائی شمشیر کے ایک سکھ دوست اور ہمارے پڑوسی پتمبرلال نے مشورہ دیا کہ وہ بھاگ جائیں۔ حملہ آوروں کو وہ باتوں میں لگا لیں گے لیکن ایک غنڈے نے بھائی شمشیر کو دیکھ لیا اور وہ اپنا سامان چھوڑ کر تیلیوں کے گھروں کی طرف بھاگ کھڑے ہوئے۔ غنڈے پیچھے بھاگے۔ تیلیوں کا گھر خالی تھا۔ کہیں چھپنے کی جگہ نہ تھی۔ ایک کونے میں کولہر کا نچلا حصہ اور پرالی پڑی تھی۔ شمشیر بھائی نے کولہو میں بیٹھ کر پرالی سر پر بکھیر لی۔ غنڈے اندر داخل ہوئے۔ بھائی کے سکھ دوست اور پتمبرلال نے شور مچا دیا ’’شمشیر مکان کی پچھلی دیوار پھلانگ کر گاؤں میں چلا گیا ہے۔‘‘ سارے بدمعاش ادھر بھاگے۔ دوستوں نے مانک پور کی طرف نکل جانے کا اشارہ کیا اور خود بھی غنڈوں کے ساتھ گاؤں کی طرف نکل گئے۔ شمشیر بھائی سسماندی کے سرکنڈوں میں چھپتے چھپاتے مانک پور شریف پہنچ گئے۔
مانک پور کے عارضی پڑاؤ کے سات یا آٹھ دن لام پر جانے کی تیاری کی منصوبہ بندی کے دن تھے۔ گاؤں کے نمبردار نے گاؤں کی پہرہ داری اور جنگ کے لئے تیار ہونے کا حکم دے دیا تھا۔ گاؤں کے لوہار لوہا پگھلا کر برچھیوں اور بھالوں کے پھل تیار کر رہے تھے۔ جوان اور جوشیلی عورتوں کو چھریاں اور کٹاریں تیز کر کے دی جا رہی تھیں تاکہ وہ بھی غنڈوں اور اکالیوں کا مقابلہ کر سکیں۔ ناکامی کی صورت میں یہ چھریاں اپنے سینے میں اتار لیں۔ کچھ نہ سوجھتا تھا‘ آنکھیں آلات حرب پر لگی رہتیں۔ چمڑے کی مشک میں ہوا بھر بھر کر بھٹی کی آگ کو تیز سے تیز تر کیا جا رہا تھا۔ شعلے بلند ہو رہے تھے۔ اندر بھی آگ لگی ہوئی تھی۔ کفر سے ٹکرا جانے کا جذبہ اچانک بیدار ہو گیا تھا۔ خوف کا نام ونشان تک نہ تھا۔
گاؤں کے چاروں طرف جوان لڑکے کھڑے کر دیئے گئے تھے جو ہر آنے جانے والوں پر نظر رکھتے تھے۔ ہر جوان چار چار گھنٹے ڈیوٹی ادا کرتا تھا۔ تھکن کا احساس نہ ہوتا تھا۔ ابا جی اور بھائی شمشیر نے نمبرداروں کے ڈیرے میں قیام کیا اور مجھے آپا کے ساتھ حویلی کے اندر رہنے کی اجازت ملی۔ ڈیرے اور زنان خانے کے درمیان پیغام رسانی کا فریضہ مجھے سونپ دیا گیا۔ مانک پور شریف کے زمینداروں اور نمبرداروں کے خانوادے کے حوصلے بلند تھے اور مہمانوں کی خاطر مدارت کا سامان وافر تھا۔ تنور میں روٹیاں لگتیں یا بڑے توے پر پکائی جاتیں اور گرم گرم مہمانوں تک پہنچا دی جاتیں۔ دال اور ترکاری کا سالن تیار رہتا۔ بچوں کے لئے دودھ کا انتظام بھی کیا جاتا۔ زنان خانے کے جملہ کاموں کی نگران نمبردار کی بہو (ک) تھی۔ جوان‘ درازقامت اور انتہائی دلکش نین نقش کی مالک۔ جدھر سے گزرتی نگاہیں اس کا تعاقب کرتیں۔ وہ مجھ سے چھوٹے بھائیوں کی طرح مذاق کرتی۔ بیسنی روٹی پر مکھن اور آم کا سوکھا اچار رکھ کر مجھے کھانے کے لئے دیتی۔ ایسی نرم اور لذیذ روٹی اور کھٹ مٹھا اچار مجھے پھر زندگی بھر نہیں ملا۔ میں اسے دیکھتا رہ جاتا۔ میرے لگاؤ میں بھائی کی محبت کے سوا بھی کوئی جذبہ شامل نہیں تھا۔ اجنبی ماحول اور حالت جنگ میں اس کی دید مجھے ہر چیز سے بیگانہ بنا رہی تھی۔ میں تنہائی میں بھی مسکراتا تھا۔آٹھویں یا نویں دن خوف میں ڈوبا ہوا ہلکا ہلکا شور سنائی دیا۔ لوگ بھاگ بھاگ کر مانک پور شریف کے مزار کے سامنے تالاب کے گرد پھیلے ہوئے کھلے میدان میں جمع ہو رہے تھے۔ ایک انگریز میجر ٹوٹی پھوٹی اردو میں اعلان کر رہا تھا۔
’’چالو…… جلدی چالو۔ کورالی کیمپ میں جانا مانگتا۔‘‘
جاٹ رجمنٹ کے سپاہی ہریانہ کی زبان میں مزید وضاحت کر رہے تھے۔
’’تمہارے پاکستان ماں بھیجن کا بندوبست کورالی ماں کیا گیا ہے۔‘‘ لوگ حیرت زدہ نمبردار کی طرف دیکھ رہے تھے۔ نمبردار میجر کے بیان کی تصدیق کر رہا تھا۔
صبح آٹھ نو بجے کا عمل ہو گا۔ جب لوگ بھاگتے ہوئے میدان میں جمع ہونے لگے۔ میجر مشکی گھوڑے پر سوار ادھر سے ادھر آ جا رہا تھا اور یہی کہتے جاتا تھا:
’’جالدی چالو‘‘ (جلدی چلو)
دس بجے تک دو اڑھائی ہزار افراد کا قافلہ سسماندی کے پاٹ میں چل رہا تھا۔ ہمارا گاؤں مانک پور سے دو اڑھائی کلومیٹر کے فاصلے پر تھا اور کورالی کا فاصلہ مانک پور سے دس بارہ کلومیٹر کا تھا۔ جب قافلہ ہمارے گاؤں پہنچا تو قافلے والوں پر فاصلے سے گولیاں برسائی گئیں۔ یہ عجیب اتفاق تھا کہ اس وقت ہم اپنی ہی ’’بیلے‘‘ کی زمین سے گزر رہے تھے اور گولیاں ہماری حویلی کی طرف سے آ رہی تھیں۔ میں نے ایک آدمی کو نیچے گرتا دیکھا اور قافلے کے لوگ زمین پر لیٹ گئے۔ میجر اپنے گھوڑے پر دوڑتا ہوا آیا اور سپاہیوں کو جوابی فائرنگ کا حکم دیا۔ ایک دو دھماکے ہوئے اور خاموشی چھا گئی۔ قافلہ پھر چل پڑا۔ میجر نے قافلے کا رخ موڑ دیا۔ اب ہم ندی کے پاٹ میں چلنے کے بجائے اپنے گاؤں کے گرد چکر لگا کر کورالی کی طرف بڑھ رہے تھے۔
بارہ بجے بارش شروع ہو گئی۔ اب پیدل چلنا اور راستہ دیکھنا دشوار ہوتا جا رہا تھا۔ اچانک فائر کی آواز آتی۔ جوابی کارروائی ہوتی اور قافلے کا رخ بدل دیا جاتا۔ کبھی ندی کی طرف اور کبھی آبادی کی طرف۔ بارش کے سبب ندی میں پانی بڑھنا شروع ہوا اور باڑھ آ گئی۔ تجربہ کار مردوں نے اعلان کیا ایک دوسرے کے ہاتھ مضبوطی سے پکڑ کے چلو‘ ورنہ بہہ جاؤ گے۔ سروں پر رکھی گٹھڑیاں کبھی فائر کی آواز سے اور کبھی مضبوطی سے ہاتھ پکڑنے کے سبب زمین پر گرتی رہیں اور لوگ آگے بڑھتے رہے۔ غروب آفتاب کے ساتھ ہی ہمارا فاصلہ کورالی کی حدود میں داخل ہو گیا۔
مسلسل بارشوں سے بھیگی ہوئی کھیتوں کی ناہموار زمین پر پاؤں پھسل جاتا تھا۔ ندی کے پاٹ میں چلتے تو جسم کے بوجھ سے پاؤں ریت میں دھنس جاتے۔ گولیوں کی تڑتڑ اور ’’جو بولے سو نہال‘‘ کی للکار کانوں میں پڑتی تو زمین پر لیٹ جاتے۔ واپس آنے کا امکان نہ تھا۔ آگے بڑھنے کی ہمت دم توڑ رہی تھی۔ دس بارہ کلو میٹر کا فاصلہ آٹھ گھنٹے میں طے ہوا۔ یہ لمحے عذاب کے لمحے تھے مگر عذاب تو ابھی آنا تھا۔
کورالی کا قصبہ سرہند شریف سے روپڑ جانے والی سڑک پر واقع ہے۔ چندی گڑھ سے اس کا فاصلہ تیس کلو میٹر ہے۔ 1947ء میں سڑک کے مشرق کی طرف ایک کھلا میدان تھا۔ پھر سڑک کے مغرب کی طرف گورنمنٹ ہائی سکول کی عمارت تھی (جہاں میں کچھ عرصہ پڑھتا رہا اور آٹھویں کا امتحان بھی اسی سکول کے سنٹر میں دیا تھا) اس سکول کی دائیں جانب (سر ہند شریف کی طرف) دو تین سو گز چوڑا آموں کا باغ تھا جو سڑک کے کنارے کنارے تین چار کلومیٹر تک پھیلا ہوا تھا۔ دراصل یہ پبلک ورکس ڈیپارٹمنٹ کی زمین تھی جس پر دیسی آموں کے بے شمار درخت لگا دیئے گئے تھے۔ ان چھتنار درختوں میں کیمپ قائم کیا گیا تھا (انگریز اپنے وطن لوٹ رہا تھا اس لئے اسے ان درختوں سے کوئی دلچسپی نہ تھی)۔ لٹے پٹے قافلوں کو کیمپ میں داخل ہونے سے پہلے کھلے میدان میں جمع ہونا پڑتا تھا۔ جہاں بارشوں کے تسلسل سے بڑے بڑے گڑھے اور جوہڑ بن چکے تھے۔
میدان میں داخل ہونے کے تمام راستے بانسوں کی باڑ سے بند کر دیئے گئے تھے او ربانسوں کو پٹ سن کی رسیوں سے باندھ کر دو اڑھائی فٹ اونچی تین چار گلیاں بنا لی گئی تھیں۔ گھبرائے ہوئے خوفزدہ لوگ ان گلیوں سے گزر کر میدان میں قدم رکھتے تھے اور یہی گلیاں عذاب کی گلیاں تھیں۔ داخلے کے مقام پر بڑا ہجوم تھا۔ رات کی سیاہی پھیلنے لگی تھی۔ جاٹ رجمنٹ کے جوان لوگوں کی جیبوں کی تلاشی لے رہے تھے۔ گٹھڑیاں ٹٹول ٹٹول کر دیکھ رہے تھے۔ اسی مقام سے جوان لڑکیاں اٹھائی جا رہی تھیں۔ آہ وزاری کی آوازیں بلند ہو رہی تھیں۔ پیچھے آنے والے ہراساں لوگ ہمیں دھکیل رہے تھے۔ آپا نے بچی کو گود میں اٹھایا ہوا تھا اور ہم چاروں نے مضبوطی سے ایک دوسرے کے ہاتھ پکڑے ہوئے تھے۔

اچانک پیچھے سے ہجوم کا ایک ریلا آیا اور میں پوری قوت سے گلی میں بندھے بانس کی نوک سے جا ٹکرایا۔ بانس کی نوک میری ناف کے نیچے پیٹ کے بائیں حصے میں دھنس گئی۔ میں درد سے چلایا لیکن کسی نے میری چیخ کو نہ سنا۔ گلی کے آخری سرے پر دو فوجی جیبیں صاف کرنے کا فریضہ انجام دے رہے تھے۔ ابا جی کی جیب میں چند روپے اور ویسٹ اینڈ واچ کی دو گھڑیاں تھیں (جو انہوں نے ’’پونے‘‘ کے فوجی سٹور سے خریدی تھیں) ایک گھڑی فوجی نے نکال لی۔ ابا جی نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔ اس نے دوسرے ہاتھ کا مکا ابا جی کے منہ پر جڑ دیا۔ ابا جی چیخے:
ایک آرمی مین ہو کر آرمی مین کو باکس مارتے ہو‘ شرم نہیں آتی۔‘‘ وہ مزید کچھ کہے بغیر کھسک گیا۔ ہجوم کا دباؤ ہمیں دھکیل کر میدان میں لے آیا۔
ابا جی جلال میں تھے اور مجھے درد کی شدت کے باوجود سوال سوجھ رہا تھا:
’’ابا جی! اس نے باکس تو نہیں مارا تھا۔ مکہ مارا تھا؟‘‘
ان کے غصے کا رخ میری طرف ہو گیا۔
’’خبیث انسان! تم نے باکسنگ کا لفظ نہیں سنا۔ وہ مکا ہی ہوتا ہے۔ تمہاری جہالت کی وجہ سے ہی آج ہمیں ذلیل ہونا پڑا۔ گھر چھوڑنا پڑا۔‘‘
جھڑکی کی ذلت اور چوٹ کے درد نے مجھے احساس دلایا کہ میں نے تو صبح سے پانی کا گھونٹ تک نہیں پیا۔ اور اب حلق میں کانٹے چبھ رہے تھے۔ درد نے پیاس بڑھا دی تھی۔ بارش کا پانی گڑھوں میں جمع ہو گیا تھا۔ اوپر سے مچھروں کو ہٹا کر ایک گھونٹ پانی پیا۔ بدبودار‘ بدذائقہ۔ دوبارہ پانی ہلایا تو کسی مردے کا کٹا ہوا بازو سطح آب پر ابھر آیا۔ متلی سی ہونے لگی اور میں پیٹ کو پکڑے پکڑے سڑک عبور کر کے کیمپ میں داخل ہو گیا۔
سکول کی عمارت کے ساتھ ہی میٹھے پانی کا کنواں تھا۔ جب ہم پڑھتے تھے اس کنویں کے ٹھنڈے میٹھے پانی سے اپنی پیاس بجھاتے تھے۔ منہ دھوتے تھے۔ بہت گرمی ہوتی تو ایک ڈول پانی سروں پر ڈالتے اور خوشی خوشی اپنے گھروں کو روانہ ہو جاتے۔ ہمیں کیمپ کے پہلے حصے میں کنویں کے پاس ہی جگہ مل گئی۔ گٹھڑی میں تین چار چادریں‘ ایک دری اور ایک سرہانہ تھا۔ دری بچھا کر ننھی بچی انیسہ کو اس پر لٹا دیا۔ بارش نے کپڑے بھگو دیئے تھے۔ دری بہت گیلی تھی۔ بچی اچھل کر میری گود میں آ گئی۔ میں نے اسے سینے سے لگا لیا۔ اس کے جسم کی حرارت نے میرے پیٹ پر ٹکور سی کر دی اور درد قابل برداشت ہو گیا۔ بارش ہوتی رہی‘ درد بڑھتا گھٹتا رہا‘ ہم جاگتے رہے‘ ذرا فاصلے سے سسکیوں اور سرگوشیوں کی آواز آتی رہی۔ اب یاد نہیں کہ صبح کیسے ہوئی۔ نیند آئی یا جاگتے میں وقت گزر گیا۔
دن چڑھا۔ بارش تھمی تا حدنظر تک میلے کچیلے اور بے ترتیب خیمے نظر آئے۔ ہمارے قافلے سے پہلے بہت سے قافلے پہلے ہی یہاں پڑاؤ کئے ہوئے تھے۔ آم کے چھتنار درخت‘ وہ درخت کب تھے؟ ان کے تمام ٹہنے کٹ چکے تھے۔ پتوں کا نام ونشان تک نہ تھا۔ لکڑی کے ستون سے رہ گئے تھے اور لوگ ان پر بھی کلہاڑی چلا رہے تھے۔ ان درختوں کے پھل میرے ذائقے کا حصہ تھے۔
آزادی کے اعلان کے ساتھ ہی کورالی کے آموں کے پیڑ نہ صرف پھلوں سے محروم ہو گئے وہ اپنے جسم کو بھی کٹوا بیٹھے۔ برسات کے موسم میں‘ ہم پیٹ بھر کر آم کھاتے۔ سفیدا‘ دودھیا‘ سونفیا‘ گولا‘ طوطا…… ٹپکا لگتا۔ آم نیچے گرتے ہم بھاگ بھاگ کر اٹھاتے‘ کرتوں کے دامن سے صاف کرتے اور چوسنے لگتے۔ کبھی شرط لگتی۔ جس کے پسندیدہ درخت سے آم ٹپکے گا‘ وہ آم اسی کا۔ کوئی دودھیا کا طلب گار ہوتا۔ کوئی سونفیے کا اور یوں بھی ہوتا کہ ایک ہی درخت سے دو تین آدم ایک ساتھ ٹپک پڑتے اور شرط جیتنے والے کی عیش ہو جاتی اور اب یہ تمام درخت آگ کا ایندھن بن رہے تھے۔ رومان پرور ماضی‘ حال کا عذاب سہہ رہا تھا اور مستقبل سیاہ بادلوں میں چھپا ہوا تھا۔
سسکیوں اور سرگوشیوں کا راز اس وقت کھلا جب مانک پور کے نمبردار کے عزیز ٗ بھائی شمشیر کو ساتھ لے کر فوجیوں سے مذاکرات کرنے ان کی بیرکوں کی طرف چلے گئے۔ سہمے سہمے سے لوگ کہہ رہے تھے:
’’نمبردار نے سردار بلدیو سنگھ کے ساتھیوں کو بلوایا ہے۔ و ہ ہماری فریاد سنیں گے۔‘‘
وقت نے سارے حقوق سلب کر دیئے تھے۔ فریاد باقی تھی۔ اسے آزمانے کی کوشش کی جا رہی تھی۔ المیہ یہ تھا کہ کیمپ میں داخل ہوتے ہوئے ہمارے قافلے کی جو لڑکیاں اٹھائی گئی تھیں ان میں نمبردار کی بہو بھی شامل تھی۔ خوبرو‘ چونچال بہو جو میرا بڑا خیال رکھتی تھی۔ مجھے پیار سے کھانا کھلاتی تھی اور عورتوں بچوں کو اداس ہونے نہیں دیتی تھی۔ اس پر کیا بیتی مجھے یاد نہیں ..... اتنا یاد رہ گیا کہ اس دن میں آم کے ایک ٹنڈمنڈ درخت سے ٹیک لگا کر بیٹھا رہا اور اسی کے بارے میں سوچتا رہا۔
دن ڈھلے بھائی شمشیر‘ نمبردار اور اس کے ساتھی واپس آئے۔ مرجھائے ہوئے چہرے‘ نڈھال جسم‘ بھائی شمشیر نے ابا جی کو تفصیل بتائی۔ کیا بتایا؟ میں نے نہیں سنا۔ پوچھنے کی ہمت بھی نہیں ہوئی۔ دو تین دن میں آہستہ آہستہ راز کھلنے لگا…… ’’بہو نہیں ملی۔ اس کی لاش ایک کھیت میں پڑی تھی۔‘‘ یہ پورا سچ نہ تھا۔ ایک ریٹائرڈ فوجی اور بھائی شمشیر کی اکھڑی اکھڑی باتوں سے پتا چلا۔
’’فوجیوں نے بہو کا لہولہان جسم برآمد کر لیا تھا۔ نیم مردہ‘ زخموں سے چور…… ریڈ کراس والے اس کی دوا دارو کا انتظام کر رہے تھے۔ اچانک اسے ہوش آیا اور خیمے سے یہ کہتی ہوئی بھاگ گئی…… پاکستان کو میرا سلام کہنا۔ میرا سلام کہنا۔‘‘
بھائی بے یقینی سے کہہ رہے تھے ’’پھر وہ گر پڑی‘ میرا خیال ہے وہ مر گئی تھی۔‘‘ یہ ’’مر گئی‘‘ والی بات شاید وہ خود کو تسلی دینے کے لئے کہہ رہے تھے۔ درد کا احساس کم ہو گیا۔ اس

شہید بی بی کے چہرے کے سوا تمام چہرے آنسوؤں کے دھویں میں ڈوب گئے (اس کا تر وتازہ چہرہ آج بھی میری یاد میں محفوظ ہے۔)
کیمپ میں ابتدائی دو تین دن عجیب بے چینی میں گزرے۔ ہمارے پاس جسم سے لپٹے ہوئے ایک ایک جوڑے کے علاوہ ایک دری اور تین چادریں تھیں۔ خیمہ نہیں بن سکتا تھا۔ خیمے کے لئے رسی اور ڈنڈوں کی ضرورت پڑتی ہے۔ بارش تسلسل سے جاری تھی اس لئے چادریں جسم پر پھیلا کر وقت کاٹتے۔ وقفے وقفے سے انہیں نچوڑتے۔ بارش کا پانی نکل جاتا۔ چادروں کو جھاڑ کر پھر اوپر لے لیتے۔ دری کیچڑ میں لت پت ہونے سے بچا رہی تھی۔
چوتھے دن‘ غروب آفتاب کے ساتھ ہی پختہ سڑک کی طرف سے آہ وبکا کی دلدوز آوازیں آنے لگیں۔ آوازیں قریب آتی گئیں اور ہمارے دل بیٹھتے گئے۔ مورنڈہ (باگلاں والا) سے آنے والا قافلہ خون میں نہایا ہوا تھا۔ کسی کا بازو کٹ کر لٹک رہا تھا۔ کسی کی ٹانگ ٹوٹی ہوئی تھی۔ جو لوگ میرے قریب سے گزرے وہ سب لہولہان تھے۔ میرے ہم عمر ایک لڑکے کے سر کے دو حصے ہو چکے تھے۔ اس کا زخمی بوڑھا باپ اسے کھینچے لئے آ رہا تھا۔ کیمپ میں جہاں جہاں خالی جگہ تھی زخمی اور نڈھال لوگ وہیں گر گئے۔ کوئی مرہم پٹی کرنے والا‘ کوئی دوائی دینے والا موجود نہ تھا۔ جن کی زندگی تھی وہ صبح تک بچ گئے۔ شدید زخمی تڑپ تڑپ کر مر گئے۔ موت سے کوئی خوفزدہ نہ تھا۔ زندگی کی زبوں حالی سے لرزہ طاری ہوتا تھا۔
مورنڈے کے مظلومین کیمپ میں داخل ہوئے تو موسم کو ان پر رحم آ گیا۔ دو دن کے لئے بارش رک گئی۔ کیمپ کی صورت حال سمجھ میں آنے لگی۔ سکول کے واحد کنویں سے کیمپ میں رہنے والوں کو پانی ملتا تھا۔ کنویں کے قریب ہی پیراشوٹ کے کپڑے سے ایک خیمہ بنایا گیا تھا۔ یہاں سے کیمپ والوں کو روزانہ کی بنیاد پر راشن ملتا تھا۔ راشن میں آٹا اور سالم مسور شامل تھے۔ روزانہ یہی خوراک ملتی کاغذوں کی پڑیوں اور خاکی لفافوں میں لپٹی ہوئی سرخ مرچیں (کبھی مٹھی بھر سالم مرچیں) اور نمک کی ڈلیاں تھیں۔ آٹے میں شیشہ پسا ہوا تھا۔ ایک دن جب میں کنویں سے پانی نکال رہا تھا تو نیلے تھوتھے کی ڈلیاں پانی سے برآمد ہوئیں۔ کنویں کے سوتوں میں سے اتنا پانی نہیں نکلتا تھا جتنا لوگ بالٹیوں سے نکال لیتے تھے۔ شام کے وقت پانی کے ساتھ گاڑھی ریت بھی بالٹیوں میں موجود ہوتی تھی۔ میں نے ریت میں پھنسی نیلے تھوتھے کی ڈلیوں کو دیکھا تو شور مچا دیا۔
’’کنویں میں زہر ملایا جا رہا ہے۔‘‘ لوگوں نے نیلے تھوتھے کو دیکھ کر زہر کی تصدیق کی۔ چند عورتوں نے بتایا کہ انہوں نے دو تین بار جاٹ رجمنٹ کے ایک جوان کو کوئی بڑا لفافہ کنویں میں الٹتے دیکھا ہے۔ نیلے تھوتھے اور شیشہ آمیز آٹے کا کمال تھا یا گندے ماحول اور نم آلود فضا کا…… کیمپ میں ڈائریا کا مرض عام ہو گیا۔ ضعیف لوگ اور پانچ سال تک کی عمر کے بچے تیزی سے مرنے لگے۔ دن میں بیسیوں بچوں کو دبایا جاتا۔ شروع شروع میں نماز جنازہ کا اہتمام کیا جاتا تھا پھر یہ تکلف بھی ختم ہو گیا۔ گھر کا کوئی فرد بچے کی میت کو بازوؤں میں اٹھائے چل پڑتا۔ گھر کی عورتیں چند آنسو بہاتیں‘ آہیں کھینچتیں اور پھر سناٹا چھا جاتا۔ کیمپ کے چند ہمدرد لوگ کسی خالی جگہ پر ڈیڑھ دو فٹ گہری زمین کھودتے اور میت کو اس میں لٹا کر مٹی بھر دیتے۔ بارش کا تسلسل زمین کو ہموار کر دیتا (میری بھانجی سوا سالہ انیسہ کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ تین دن خونی پیچش ہوئی اور وہ چل بسی۔ اس کے لئے کھرپے سے زمین میں نے کھودی۔ ابا جی اور بھائی شمشیر نے اسے سپردخاک کر دیا۔ آپا ایک دو دن رو کر چپ ہو گئی)
چار پانچ دن بارش نہیں ہوئی۔ مجھے کیمپ میں گھومنے پھرنے کا موقع ملا۔ کٹے ہوئے ستون نما آموں کے درخت زمین سے ایک دو فٹ اونچے رہ گئے تھے۔ چند درختوں کی جڑوں میں سے بھی لکڑی نکالی جا رہی تھی۔ کیمپ کے مغرب کی جانب کورالی کا قصبہ تھا۔ قصبے کی طرف سے لوگ کیمپ کی باڑ کے پاس آتے۔ کیمپ والوں کے لئے ضروریات کی چیزیں لاتے۔ سمگلنگ کا آغاز ہو رہا تھا۔ (سمگلنگ کا لفظ میں نے 1954ء میں سنا تھا۔ اس وقت تو لین دین کا کاروبار کہا جاتا تھا) نگران عملے نے صرف ایک کدال دی تھی۔ کھرپے کلہاڑیاں کورالی سے درآمد ہو رہی تھیں۔ جو لوگ کورالی سے بھاگ کر کیمپ میں آئے تھے۔ ان کے پاس ضرورت کا کچھ سامان ضرور تھا۔ باقی چیزیں بارٹر سسٹم کے تحت حاصل ہو رہی تھیں۔ سونے کی بالیوں کے بدلے پکوڑوں کا بھرا ہوا لفافہ اور ایک دھوتی ملتی تھی۔ گلے کے ہار کے عوض بستر کی چادریں اور لکڑی کی پیڑھیاں درآمد ہو رہی تھیں۔ مانک پور میں انسان دوست زمینداروں نے اردگرد کے گاؤں کے لوگوں کی جو خاطرمدارات کی تھی اس سے اتحاد اور یگانگت کا جذبہ بیدار ہو گیا تھا۔ بھوک اور محرومی نے دو اڑھائی ہفتوں میں نفسانفسی کی کیفیت پیدا کر دی۔ مفلسی سے بڑی کوئی لعنت نہیں۔ انسان عدم تحفظ کا شکار ہو جاتا ہے اور صرف اپنے لئے سوچنے لگتا ہے۔
جو لوگ گھروں کی چابیاں ساتھ لائے تھے انہیں تسلی تھی کہ نئی مملکت میں یہ چابیاں ان کے مکانوں کا ثبوت بنیں گی۔ یہ نکتہ میری سمجھ میں اس دن آیا جب ایک عورت نے چیخ کر کہا:
’’ہو گئی پٹی میس۔ کوئی اﷲ مارا میری چابیاں دا گچھا چرا کر لے گیا۔ اب پاکستان میں مکانوں کے ثبوت کے لئے کیا دکھاویں گے۔‘‘ اس کا شوہر جل بھن کر کہہ رہا تھا۔
’’وہاں جاویں گے تو دکھاویں گے۔ موت تو یہیں آ جاوے گی۔‘‘
ستمبر کے پہلے ہفتے میں بارشوں کا دوسرا سلسلہ شروع ہو گیا۔ ان بارشوں کے ساتھ افواہوں کی آندھی بھی آ گئی۔ ہمارے گاؤں کے نمبردار نے بتایا ’’اب پوری پوری گاڑیاں کٹنے لگی ہیں۔ فوجی باتیں کر رہے تھے کہ سرہند سٹیشن پر رو پڑ سے جانے والی گاڑی کے مسافروں کو تلواروں اور کرپانوں سے ذبح کر دیا گیا۔ (اس گاڑی میں روپڑ کے شیخوں کی ’’الٰہی فیملی‘‘ بھی شہید کر دی گئی تھی صرف ایک مریل سا کمزور بچہ شیخ حمید الٰہی‘ ڈاکٹر سعید الٰہی کے والد‘ بچا تھا۔ بیورو کریٹ منظور الٰہی اور فرخندہ لودھی کے خالو ماسٹر سردار الٰہی ان دنوں روپڑ میں نہیں تھے۔ اس لئے وہ بچ بھی گئے۔ گاڑی میں قتل عام 3 ستمبر کو ہوا تھا۔ اگلے دن ہی کیمپ والوں تک خبر پہنچ گئی تھی۔ اب پاکستان زندہ پہنچنے کی امیدیں بھی دم توڑ گئیں۔ روپڑ میں جو مسلمان اگلی گاڑی کے انتظار میں بیٹھے تھے وہ ہمدردوں کی مدد سے یا اپنی ہمت سے بھاگ بھاگ کر کورالی کیمپ میں آنے لگے۔ ان لوگوں میں دو درازقامت اور خوبصورت خواجہ سرا بھی تھے جو تالیاں بجا بجا کر اپنی بپتا سناتے تھے۔ غمزدہ لوگوں کے لئے تفریح کا سامان پیدا ہو گیا تھا۔ اﷲ نے انسان کو بڑا حوصلہ دیا ہے‘ وہ عذاب سہہ کر بھی مسکر اسکتا ہے۔
دونوں خواجہ سرا کیمپ میں اہلے گہلے پھر رہے تھے۔ جاٹ رجمنٹ کے جوانوں سے بھی ہنس بول لیتے تھے۔ کئی دن تک وہ ہماری طرح بھوک اور کچے پکے مسور کے پانی کا زہر پیتے رہے۔ عورتوں اور میرے ہم عمر لڑکوں سے وہ ہنس ہنس کر باتیں کرتے۔ دس ماہ پہلے میں نے مانک پور شریف کے عرس کے موقع پر روپڑ والی ’’شیداں‘‘ کا مجرا دیکھا تھا۔ اس کا ذکر چھڑا تو خواجہ سرا تڑپ اٹھے۔
’’ہائے وہ رونقیں کہاں گئیں۔ روپڑ تو اندر کا اکھاڑہ تھا۔‘‘
پھر وہ بے قرار ہو کر فوجی بیرکوں کی طرف چل پڑے۔
’’دال کھا کھا کے منہ بس گیا ہے۔ اب کورالی میں فوجیوں سے اجازت لے کر پکوڑے کھانے جاویں گے۔‘‘
وہ فوجیوں کی منتیں کرنے چلے گئے۔
کچھ دیر بعد بیرکوں کی طرف سے شورہ سنائی دیا۔ لوگ چوکنے ہو گئے۔ دیکھا: دونوں خواجہ سرا کیمپ کی طرف بھاگ آ رہے ہیں اور ایک جاٹ سپاہی ان پر ڈنڈے برسا رہا ہے۔
’’ہائے میں مر گئی…… اوئی میں مر گیا۔‘‘
ایک خواجہ سرا صیغہ مونث میں اور دوسرا صیغہ مذکر میں فریاد کر رہا تھا اور جو لوگ انہیں پٹتا دیکھ رہے تھے ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو رہے تھے۔ حالات نے کیمپ میں بھی تفریح کے سامان پیدا کر دیئے تھے۔ کیمپ میں پہنچ کر وہ ایک ہی بات کہے جا رہے تھے۔
’’اﷲ ماروں نے پیٹھ چھیل کر رکھ دی…… اﷲ ماروں نے پیٹھ چھیل کر رکھ دی۔‘‘
بارشوں کا نیا سلسلہ اور بھی کئی عذاب ساتھ لایا۔ بڑھتے ہوئے سر کے بالوں میں جوئیں پڑ گئیں۔ جسم کے کپڑے بارش میں تربتر ہو جاتے اور جب کبھی بارش رکتی تو نم آلودہ ہوا آہستہ آہستہ انہیں سکھا دیتی۔ کپڑے ابھی پوری طرح خشک ہونے نہ پاتے کہ پھر جھڑی لگ جاتی۔ جسم سے مروہ چوہوں جیسی بدبو آنے لگی۔ قوت برداشت کا امتحان ہونے لگا۔ معدے کی خرابی کے سبب کیمپ کی ساری زمین گندگی سے آلودہ تھی۔ گندگی صاف کرنے کے لئے مٹی کے خشک ڈھیلے بھی نہیں ملتے تھے۔ پانی کمیاب تھا۔ دال پکانے اور پینے کے لئے ناکافی تھا۔ میں دن میں کئی بار اپنی امی کو یاد کرتا اور اﷲ کا شکر ادا کرتا کہ وہ اپریل کے مہینے میں انتقال کر گئی تھیں۔ ان کے لئے کیمپ تک آنا اور پھر اس گندگی میں رہنا کیسے ممکن ہوتا…… ’’اﷲ تو کتنا کریم ہے‘ کتنا رحیم ہے۔ میری حافظ قرآن ماں کو اپنی امان میں لے لیا۔‘‘ گندگی اور بو کا عذاب تمام اذیتوں سے زیادہ ناقابل برداشت معلوم ہوتا تھا۔ اس تکلیف سے بھی زیادہ جو کیمپ میں داخلے کے وقت ڈنڈے کے چبھنے سے ہوئی تھی اور جس نے مجھے بہت حد تک بے ثمر کر دیا تھا لیکن میں یہ نہیں جانتا تھا کہ قدرت میری تربیت کر رہی تھی۔ آنے والے دنوں میں برداشت کا یہ تجربہ میرے بہت کام آیا۔
ستمبر کے وسط میں ایک اور چھوٹا سا قافلہ کیمپ میں داخل ہوا۔ اس قافلے میں بھائی شمشیر کے ننھیالی گاؤں نہنگ کوٹلہ یا نگل کے لوگ شامل تھے۔ گاؤں کی آبادی کی اکثریت شہید کر دی گئی تھی۔ جو بچے تھے انہیں ایک سکھ ٹرک ڈرائیور کیمپ تک پہنچا گیا تھا۔ دو بچے فرقان اور اکبر شمشیر علی خان کی دور کی خالہ کے لڑکے تھے۔ فرقان کی عمر گیارہ سال تھی اور اکبر ڈیڑھ سال کا تھا۔ صحت مند‘ گول مٹول مسکراتا تو دل شفقت اور ہمدردی سے بھر جاتا۔ فرقان اگلے دن اپنے ہم عمر لڑکوں کے ساتھ بھاگ گیا۔ اسے خبر ملی تھی کہ پاکستان جانے کے لئے ایک گاڑی سٹیشن پر کھڑی ہے۔ کیمپ کے چند اور لوگ بھی گاڑی پکڑنے نکل گئے تھے۔ اکبر کو پیچش تھی جو چند دنوں میں اور بڑھ گئی۔ بھائی شمشیر کے فوج کے زمانے کے دو دوست کیمپ میں ہمارا حال پوچھنے آئے۔ دوائیاں بھی دے گئے لیکن دوائیوں نے کوئی اثر نہ کیا۔ ابا جی نڈھال ہونے لگے۔ آپا فاقے کرنے لگیں۔ میں بھی چند لقمے کھاتا۔ غذا پیٹ میں جاتی‘ مروڑ شروع ہو جاتا۔ اکبر کا خوبصورت سڈول جسم سکڑنے لگا۔ پیٹ سے ہوا خارج ہوتی تو ٹانگیں گندگی سے بھر جاتیں۔ انیسہ کے بعد یہ سہارا بھی ہاتھوں سے چھننے والا تھا۔ بھائی شمشیر کے سردار دوست دوبارہ ملنے آئے تو بھائی شمشیر نے اکبر کے بارے میں بتایا۔ انہوں نے کہا ’’بچہ ہمارے حوالے کر دو۔ بچ گیا تو ہم پال لیں گے۔ ہمارے ایک چچا بے اولاد ہیں۔ چوہڑے چمار کے بجائے پٹھان بچہ مل جائے تو کیا کہنے۔‘‘ نڈھال بچے کو ان کے حوالے کر دیا گیا۔ ایک ہفتے کے بعد شمشیر بھائی کا دوست بلبیر سنگھ پکوڑے لے کر آیا۔ اس نے بتایا ’’بچہ نو بر نو ہے۔ بھوری کا دودھ پیتا ہے۔ چاچا اسے اپنے سے جدا نہیں ہونے دیتا۔ یہ خبر مجھے اور آپا کو اداس کر گئی۔ آج بھی وہ بچہ میرے ساتھ رہتا ہے۔ تنہائی کے لمحوں میں میرے سینے سے لپٹ جاتا ہے اور میں گناہ ثواب کی سولی پہ لٹک جاتا ہوں۔
کیمپ میں کسی گاڑی کے کٹنے کی یا قافلے پر بلوائیوں کے حملے کی خبر پھیلتی تو کسی نہ کسی خیمے میں نکاح کی رسم ادا ہو جاتی۔ اغوا کے خوف سے جوان لڑکیوں بلکہ ڈھلتی عمر کی کنواری لڑکیوں کے نکاح پڑھائے جا رہے تھے۔ اسی طرح پھپھیرے‘ چچیرے‘ ممیرے‘ لنگڑے‘ لولے اور بے عمل بھائیوں کی لاٹری لگ گئی تھی۔ سارا المیہ ایک بڑے کھیل کا حصہ تھا۔ ہمارے سکول کے ہیڈماسٹر مولوی خلیل الرحمان کلمہ پڑھاتے اور شرعی حق مہر کا اعلان کرتے‘ لڑکی کی عزت وناموس کی ذمہ داری شوہر پر ڈال دی جاتی۔
اکتوبر کے آغاز میں اعلان ہوا۔ مہاجروں کو پاکستان لے جانے کے لئے گاڑی سٹیشن کے اوٹر (Outer) سگنل کے قریب کھڑی ہے۔ ہم سامان کے بغیر تھے۔ فوراً روانہ ہو گئے۔ کیمپ سے گاڑی کا فاصلہ دو کلومیٹر سے کم نہ ہو گا۔ روپڑ جانے والی پختہ سڑک پر چل کر وہاں پہنچنا تھا۔ بیماری کے سبب چلنا دوبھر معلوم ہوتا تھا۔ سڑک کے دونوں طرف کورالی شہر کی آبادی ہمارا تماشا دیکھ رہی تھی۔ چہروں سے تماشائیوں کی دلی کیفیت کا اندازہ ہوتا تھا۔ زیادہ تر چہرے ساکت اور خاموش تھے۔ چند چہروں پر مسکراہٹ کھیل رہی تھی۔ بہت مشکل سے سگنل کے پاس پہنچے۔ گاڑی کے تمام ڈبے کھچاکھچ بھرے ہوئے تھے۔ چھتوں پر بھی کوئی گنجائش نہ تھی۔ ہمیں واپسی کا اذن ملا۔ نڈھال خستہ حال پھر کیمپ میں آ گرے۔
کیمپ کے آدھے سے زیادہ لوگ پاکستان کے لئے روانہ ہو چکے تھے۔ جو باقی بچے تھے ان میں زیادہ تعداد میوبرادری اور رانگڑوں کی تھی۔ محنتی مگر نسبتاً شعور مند۔ جوانوں میں زیادہ تعداد فوجیوں کی تھی۔ دوسری جنگ عظیم میں کچھ جوانوں نے ملتان اور خانیوال کے علاقوں میں ڈیوٹی دی تھی۔ وہ بتا رہے تھے ’’بابا جی (قائداعظم) نے ہمیں بہترین زرخیز علاقہ لے کر دیا ہے۔ نہروں کا پانی ہر طرف بہتا ہے۔‘‘ ہم بارانی علاقے کے لوگ تھے اس لئے نہری نظام کے تصور سے دل باغ باغ ہو رہا تھا۔ ایک فوجی کے ہاتھ میں چھوٹا سا ڈنڈا تھا۔ اس نے اسے ہوا میں لہراتے ہوئے کہا ’’پر وہاں کے لوگ یہ بھی چھین لیں گے۔ وہاں جاگیرداری ہے اور جاگیردار آرام لینے نہ دیویں گے۔‘‘ ہمارے انبالہ ڈویژن میں زمینداروں کا لفظ تو عام استعمال ہوتا تھا۔ جاگیرداری کا تصور نہ تھا۔ میں حیران ہو کر ان کی باتیں سنتا رہا۔ پاکستان کی سرزمین سے یہ میرا پہلا غائبانہ تعارف تھا۔ ابا جی نے 1908ء میں بہاولپور سے ایف اے کا امتحان دیا تھا اور وہ بھی بہاولپور اور لاہور کے سوا اور کہیں نہیں گئے تھے۔ اس لئے رانگھڑ فوجیوں کی باتیں دلچسپی سے سنتے رہے۔
پندرہ بیس دن اور گزر گئے۔ اب بڑی عمر کے بچے بھی مرنے لگے۔ افواہیں کم پھیل رہی تھیں۔ پاکستان لے جانے والی ٹرین کا انتظار ہو رہا تھا۔ قریباً دو ماہ کے عرصے میں ہم نے کیمپ میں نہ تو کوئی ڈاکٹر دیکھا اور نہ کسی رہنما کی جھلک دیکھی۔ اگر کوئی مسیحا یا رہنما آیا بھی ہو گا تو فوجی بیرکوں میں بیٹھے افسروں سے تفصیل معلوم کر کے چلا گیا ہو گا۔ (ہائی سکول کے کمرے بیرکوں کی شکل اختیار کئے ہوئے تھے) اب یہ یاد نہیں کہ اکتوبر کی آخری تاریخ تھی یا نومبر کا پہلا ہفتہ‘ جب یہ خوشخبری ملی کہ ہمیں لینے کے لئے ایک ٹرین کورالی سٹیشن کے اوٹر (Outer) سگنل پر کھڑی ہے۔ دوبارہ میراتھن ریس شروع ہو گئی۔ جو جی دار تھے وہ مال گاڑی کے ڈبوں میں گھس گئے اور ہم تھکے ہاروں کو ڈبوں کی چھت پر جگہ ملی۔ اس بار بھی سڑک کے دونوں طرف کورالی کے لوگ کھڑے تھے۔ عجیب بات یہ تھی کہ مرد خاموش اور اداس کھڑے تھے اور عورتیں اپنے پلو سے اپنی آنکھیں پونچھ رہی تھیں۔ شاید بربریت کا کھیل ختم ہو گیا تھا اور انسان اپنی بنیادی فطرت کی طرف لوٹنے لگے تھے۔
دن ڈھل رہا تھا جب ہم گاڑی کی چھت پر چڑھے۔ گاڑی عشاء کی نماز کے وقت سرہند کی طرف روانہ ہوئی۔ بارشیں تھم چکی تھیں اور رات بہت خنک تھی۔ گاڑی کی نگرانی بلوچ رجمنٹ کے جوان کر رہے تھے اور ان کا انچارج میجر وقفے وقفے سے گاڑی روک روک کر ماحول کا جائزہ لیتا تھا۔ کورالی سے سرہند کا فاصلہ زیادہ نہیں لیکن سرہند سٹیشن پر گاڑی صبح کے وقت پہنچی۔ پھر اس برانچ لائن سے مین لائن پر آنے میں تین گھنٹے اور لگ گئے۔ جوں جوں سورج بلند ہوتا گیا تپش بڑھتی گئی۔ چھت کا لوہا بھی تپنے لگا۔ شام تک گاڑی نے لدھیانہ تک سفر طے کیا۔ پھر سٹیشن کے شیڈ میں اسے کھڑا کر دیا گیا۔ اب سردی کی شدت میں اضافہ ہونے لگا۔ ملیریا کے باری کے بخار کی طرح جسم پر کپکپی طاری ہو گئی۔ بھوک پیاس نے نیم مردہ کر دیا۔ گاڑی کب چلی مجھے یاد نہیں‘ بس ایک رانگڑ‘ میوجانے کس کو برا بھلا کہہ رہے تھے۔ بیٹھے بیٹھے حاجت ضروریہ سے فراغت پا رہے تھے۔ گاڑی کسی ویران سٹیشن پر کھڑی تھی کہ ڈبے میں بیٹھے ہوئے لوگوں نے چلانا شروع کر دیا۔
’’ابے لعنتیوں کیا کئے جا رہے ہو۔ تمہارا جھاڑا مہارے منہ میں گر رہا ہے۔‘‘ زندہ دلی اس نزع کے عالم میں بھی موجود تھی۔ چھت سے ایک رانگھڑ نے جواب دیا:
صبر کرو۔ صبر کرو۔ ہم جاڑا کھاویں ہیں‘ تم جھاڑا کھاؤ۔ حساب برابر‘‘ (ہریانہ کی زبان میں بول براز کو جھاڑا کہتے ہیں)
سفر کی آخری رات جالندھر اور امرتسر کے درمیان گزری۔ لگتا تھا یخ بستہ ہوائیں چل رہی ہیں اور ٹھنڈک ہماری ہڈیوں میں گھسی جا رہی ہے۔ ابا جی نڈھال تھے۔ میں حسب معمول کانپ رہا تھا آپا اور بھائی شمشیر آنکھیں بند کئے بیٹھے تھے۔ ان کی حالت ہماری حالت سے بہتر معلوم ہو رہی تھی۔ صبح کاذب کے وقت ہماری ٹرین نے امرتسر کو پیچھے چھوڑ دیا۔ اس شہر میں گاڑیوں پر سب سے زیادہ حملے کئے گئے تھے اس لئے امرتسر خوف کی ایک علامت بنا ہوا تھا۔ گاڑی نہایت دھیمی رفتار سے چلتی ہوئی اٹاری کی طرف بڑھ رہی تھی اور لگتا یہی تھا کہ اٹاری آنے سے پہلے ٹھنڈک ہمارے جسم کو منجمد کر دے گی اور ہم نئی مملکت کی صبح نہ دیکھ سکیں گے۔
چند سال پہلے میں نے الکیمسٹ کے مصنف پاؤلو کوئلیو کا ایک قول پڑھا تھا:
’’سب سے تاریک لمحہ سورج کے طلوع ہونے سے کچھ ہی دیر پہلے کا ہوتا ہے۔‘‘
اس رات کے آخر میں جب ہماری ٹرین اٹاری کے پلیٹ فارم پر رکی تو طلوع سحر کی نوید ملنے ہی والی تھی۔ تین راتوں کی خنکی اور دو دنوں کی جان لیوا تپش‘ میں اپنے جسم پر سہہ کر نڈھال اور ناامید ہو چکا تھا اور یہ لمحہ بظاہر سب سے زیادہ تاریک لمحہ تھا۔
اگلے ہی لمحے میں نے ایک اور منظر دیکھا۔ ہمارے ڈبے کے سامنے فوجی جوانوں کے لئے ایک سٹال پر چائے کا انتظام کیا گیا تھا۔ بلوچ رجمنٹ کے ایک جوان نے اپنے تام چینی کے ہینڈل والے ڈبے میں چائے ڈلوائی اور اسے بڑے اشتیاق سے پینے کے لئے اپنے منہ کی طرف بڑھایا۔ ڈبے میں سوار ایک بوڑھے نے آواز دی ’’جوانا! ہمیں بھی چائے پلوا دو‘ ہم مر رہے ہیں۔‘‘ جوان نے آگے بڑھ کر چائے کا ڈبا باباجی کے حوالے کر دیا اور آپ اپنی گن پر ہاتھ پھیرنے لگا۔ یہ نئی صبح کی پہلی قربانی تھی۔ پہلا انعام تھا۔
سوال: سرزمین پاکستان پر کہاں قدم رکھا اور کن کن حالات کا آپ اور آپ کے خاندان کو سامنا کرنا پڑا؟

صابر لودھی: ہم شب گزیدہ سحر سرحد کے اس پار اٹاری سٹیشن پر چھوڑ آئے لیکن داغ داغ اجالا ابھی ہمارے سامنے تھا۔ روشنی کی کرن ابھی پھوٹی نہ تھی۔ خوف کم ہوا تھا‘ بے خوفی کی منزل ابھی دور تھی۔ دارالامان میں داخل ہوتے ہی ٹرین کی رفتار ایک دم تیز ہو گئی۔ واہگہ سٹیشن پر لمحے بھر کے لئے رکی۔ شاہدرہ سٹیشن پر اس کا پہلا باقاعدہ پڑاؤ تھا۔
ہماری حالت بہت خراب تھی۔ بھوک پیاس‘ شدید گرمی اور شدید سردی کے اتار چڑھاؤ نے ہم پر نزع کی کیفیت طاری کر دی تھی۔ گاڑی کو ابھی آگے جانا تھا لیکن ہماری ہمت جواب دے گئی۔ کسی نے ہمارے ڈبے کے ساتھ بانس کی سیڑھی لگا دی۔ بس اتنا یاد ہے نیچے اترنے کی طاقت قدرت نے عطا کر دی۔ ہم چاروں پاگلوں کی طرح پلیٹ فارم پر اترے۔ سامنے بنچ بچھا تھا جی چاہا دوڑ کر اس پر جا بیٹھوں لیکن…… سارا بنچ غلاظت میں لتھڑا ہوا تھا۔ پلیٹ فارم پر جگہ جگہ گندگی کے ڈھیر لگے ہوئے تھے۔ کورالی کیمپ کی زمین کچی تھی‘ غلاظت سوجھ جاتی تھی یا بارش کے پانی کے ساتھ گڑھوں میں جمع ہو جاتی تھی مگر شاہدرہ سٹیشن کے پختہ پلیٹ فارم پر وہ پھیل رہی تھی۔ زخمی اور ہراساں لوگوں کے پاؤں پر پھیلا رہے تھے۔
میں میں پیپل کے ایک درخت کا سہارا لے کر کھڑا ہو گیا۔ آپا لوہے کے جنگلے سے ٹیک لگا کر گندی زمین پر ہی ڈھیر ہو گئی۔ مقامی لوگ گھوم پھر رہے تھے۔ کسی نے حال تک نہ پوچھا۔ کسی نے یہ نہیں کہا ’’تسیں نہ کرو وسواس…… کنجی ہیگی میرے پاس‘‘ (ایک پنجابی ضرب المثل)
کنجی (چابی) کی آرزو والی کہانی کورالی کیمپ کے عقوبت خانے میں ہی اپنے انجام کو پہنچ گئی تھی۔ جنہیں چابیوں کی تلاش تھی وہ گاڑی میں بیٹھے بیٹھے آگے نکل گئے (ہماری گاڑی کو گوجرے رکنا تھا) روٹی‘ پانی‘ زمین‘ جائیداد جو کچھ ملنا تھا وہیں ملنا تھا۔ ہم نے تو اپنی کشتیاں جلا دی تھیں۔ تکلیف دہ سفر کا آغاز ہو رہا تھا۔
بھوک مارنے کی عادت تو پختہ ہو چکی تھی‘ پیاس پر قابو نہ تھا۔ پانی کی تلاش شروع کی۔ ’’مسلم پانی‘‘ کی کٹیا کے مٹکے ٹوٹے پڑے تھے۔ لکڑی کا جالی دار کواڑ گرنے کو تھا۔ صرف ایک ’’قبضے‘‘ کا سہارا لئے ہوئے تھا۔ ’’ہندو پانی‘‘ کی کٹیا میں کسی نے اپنی حاجت رفع کی تھی۔ گندگی پر مکھیاں بھنک رہی تھیں البتہ نلکے میں ٹھنڈا پانی آ رہا تھا۔ میں نے منہ دھویا۔ صاف نہیں ہوا۔ سفر کی میل اتر نہیں رہی تھی۔ خالی معدے پانی پیا۔ پیٹ میں گولی کی طرح لگا۔ درد کی ایک کاٹ دار لہر اٹھی اور میں پسینے پسینے ہو گیا۔ آپا کو اٹھا کر نل تک لے گیا۔ اس نے بھی دو گھونٹ پئے۔ پھر وہیں آ بیٹھے۔
سٹیشن سے باہر نکل کر دیکھا۔ مشرق کی جانب ریلوے لائن تک کھلا میدان تھا۔ ملکہ نور جہاں کا مزار‘ آصف جاہ کا گنبد اور شہنشاہ جہانگیر کا مقبرہ صاف نظر آ رہا تھا لیکن میری نظریں کھلے میدان پر لگی تھیں۔ تمام میدان انسانی فضلے سے بھرا ہوا تھا۔ شاید یہاں بھی کوئی ’’کورالی کیمپ‘‘ لگا تھا۔ گندگی اور بدبو کے سوا کوئی لطیف بات سوجھتی نہ تھی۔ ہم تین ماہ سے بدبو اور بے یقینی کے حصار میں تھے۔ پھر بھی نور جہاں کے حوالے سے مجھے ایک شعر یاد آ گیا:
ایسی تو کسی جوگن کی بھی کٹیا نہیں ہوتی
ہوتی تو ہے لیکن سرِ صحرا نہیں ہوتی
کیمپ کی غلاظت سے میری آنکھیں دکھنے آ گئی تھیں۔ سورج چمکا تو آنکھوں میں بھی شدید جلن ہونے لگی۔
شاہدرہ سٹیشن پر اترنے میں محبت کی کارفرمائی کا دخل بھی تھا۔ ابا جی کے لاڈلے بھانجے علی احمد خان لودھی لاہور کے معروف وکیل تھے اور دیال سنگھ ٹرسٹ کی کوٹھی (واقع 15 فین روڈ‘ جہاں اب پنجاب جوڈیشل اکادمی کی عمارت تعمیر کی گئی ہے) میں اقامت گزین تھے۔ اب مجھے بالکل یاد نہیں کہ ابا جی اور بھائی شمشیر ان کی اقامت گاہ ڈھونڈنے گئے تھے یا سواری کا انتظام کرنے‘ بس اتنا یاد ہے تین چار گھنٹے کے بعد نیم مردہ حالت میں تانگے سے اترا تھا اور بغلی کمرے میں دوپہر کا کھانا کھایا اور پانی پیا تھا۔ پچھلے کواٹروں میں مقیم ملازموں کے بچے اچھل اچھل کر کھڑکی سے ہمیں دیکھ رہے تھے‘ شاید انہیں ہم پر پاگل ہونے کا گمان تھا۔ بھائی علی احمد کا خوبصورت شفیق چہرہ مجھے یاد ہے۔ انہوں نے اصرار کیا تھا کہ نہالوں اور کپڑے بدل لوں لیکن میں سو گیا۔ آپا نے ہمت کی اور گھر والوں سے قینچی مانگ کر خود ہی اپنے سر کے بال کاٹ ڈالے۔ بال جوؤں سمیت کوٹھی کے پچھواڑے زمین کھود کر دبا دیئے۔
صبح آنکھ کھلی تو دیکھا بھائی شمشیر چاندی کے روپے گن رہے ہیں۔ پینسٹھ روپے تھے۔ ان پر جارج پنجم کی تاج والی اور ایڈورڈ ہشتم (روڈے) کی کٹی ہوئی گردن والی تصویر بنی ہوئی تھی۔ کورالی سٹیشن پر جب ہم گاڑی میں سوار ہو رہے تھے تو ایک آدمی نے اپنی چھوٹی سی گٹھڑی بھائی شمشیر کو پکڑائی تھی۔ گاڑی چل پڑی اور وہ کہیں نظر نہ آیا۔ شاید وہیں رہ گیا یا کسی اور ڈبے کی چھت پر جا پہنچا۔ جب ہم شاہدرہ سٹیشن پر اترے تو گٹھڑی ابا جی نے سنبھالی ہوئی تھی۔ اس میں دو مردانہ جوتے‘ ایک چادر اور ایک پوٹلی چادر کے ایک کونے میں بندھی ہوئی تھی۔ پینسٹھ روپے اسی پوٹلی سے برآمد ہوئے۔ یہ امانت ہمارے کام آئی اور ناشتہ کرنے سے بھی پہلے میں اور شمشیر بھائی پانچ سکے جیب میں ڈال کر حجام کی تلاش میں نکل پڑے۔ بھائی شمشیر ایک بار لاہور کا چکر لگا چکے تھے۔ انہیں معلوم تھا کہ پرانی انار کلی میں رشتے کے ماموں حمید احمد خان کی (پٹیالہ بک بائنڈنگ) کی دکان ہے۔ 15 فین روڈ سے ہائی کورٹ کے صحن میں ہوتے ہوئے ہم پرانی انار کلی پہنچ گئے۔ راستے میں سٹیٹ بینک کی پرانی عمارت کے پچھواڑے کی سڑک (یہ سڑک برسوں تک بند رہنے کے بعد اب کھل گئی ہے) پر ایک آدمی نے چاندی کے پانچ سکوں کے عوض ساڑھے چھ روپے عطا کر دیئے۔
ماموں حمید کی دکان پر میرے ننھیالی شہر بسی پٹھاناں (سرہند بسی) کے بہت سے عزیز جمع تھے۔ ہمیں دیکھ کر حیران رہ گئے۔ ماموں حمید کے چھوٹے بھائی رشید احمد خان کہنے لگے ’’بھائی ہم تو سنتے تھے تم سب شہید ہو گئے۔ آج کل میں آپ کا ختم دلانے کا سوچ رہے تھے۔‘‘

پٹیالہ بک بائنڈنگ شاپ کے بالکل سامنے ایک چھوٹا سا حمام تھا۔ وہ حمام آج بھی موجود ہے۔ حمام کے سامنے سے ایک آدمی ایک لمبے بانس پر ہینگرز میں بہت سے کرتے (مع پاجامہ) لٹکائے گزر رہا تھا۔ سستے لٹھے کا ایک کرتا اور پاجامہ سوا دو روپے میں ملا۔ میلا سا تولیہ حجام نے میرے حوالے کیا اور میں حمام میں داخل ہو گیا۔ نہانے سے پہلے خلیفہ جی نے میرے سر پر استرا پھیر دیا۔ سپید ٹنڈ نکل آئی۔ خلیفہ جی نے میرے بال کپڑے میں سمیٹے اور دکان کے سامنے کاغذ جلا کر ان میں گرا دیئے۔ میرے بال اور بھارت کی جوئیں نذر آتش ہو گئیں۔میرے غسل پر سن لائٹ سوپ کی آدھی ٹکیا صرف ہوئی۔ جسم سے میل اترنے کا نام نہیں لیتی تھی اور خلیفہ جی کے گول فرش پر پاؤں پھسل پھسل جاتا تھا۔ نئے کپڑے پہن کر باہر نکلا تو لگا کچھ بھی نہیں ہوا۔ جو ہم پر گزری وہ ڈراؤنا خواب تھا۔ جو سنا افسانہ تھا البتہ آنکھیں جل رہی تھیں۔ ماموں حمید جلدی جلدی مجھے گھر لے گئے۔ دکان کے ساتھ کوچہ سائیں جھولن شاہ میں ان کا مکان تھا۔ ایک بزرگ خاتون نے سرونت کا پانی آنکھوں میں ڈال دیا۔ آگ لگ گئی۔ شرم کی وجہ سے میں نے چیخیں حلق میں دبا لیں۔ دراصل گندے پانی کے تسلسل نے پپوٹوں کے نیچے زخم کر دیئے تھے اور زخموں میں جلن ہو رہی تھی۔ ایک گھنٹے بعد آنکھیں کھولیں تو کچھ سکون ملا۔
میں نے اور بھائی شمشیر نے ناشتہ بسی والوں کے ساتھ کیا۔ ماموں حمید نے مشورہ دیا کہ ہم ان کے مکان سے ملحق ایک تین منزلہ عمارت میں آ بسیں۔ اس عمارت کی تیسری منزل کے دو کمرے ابھی خالی تھے۔ چنانچہ اسی شام تیسری منزل میں آ بسے۔ بھائی علی احمد نے بھی ہمیں نہیں روکا البتہ ابا جی کو مشورہ دیا کہ وہ ماڑی انڈس چلے جائیں۔ وہاں ان کے بھانجے شمیم احمد خان مکڑوال کالری کے ہیڈآفس کے انچارج ہیں۔ اکاؤنٹنٹ کی پوسٹ خالی پڑی ہے اور بھائی شمشیر مکڑوال میں الیکٹریشن کی ڈیوٹی سنبھال لیں گے۔ ماڑی انڈس پہنچنے کے لئے ہمیں پانچ دن مل گئے۔ ابا جی کو خوش فہمی تھی کہ یہ نقل مکانی عارضی ہے۔ فسادات ختم ہوں گے تو اپنے آبائی گاؤں لوٹ جائیں گے۔ لاہور میں انہوں نے کوئی ملازمت تلاش کرنے کی کوشش نہیں کی۔ وہ ہر فن مولا تھے۔ رڑکی سکول کے سندیافتہ ڈرافٹ مین تھے۔ آرمی سے ٹیچنگ کا ایک ڈپلومہ بلغام‘ مانڈے میں رہتے ہوئے حاصل کیا تھا۔ فوج میں اسسٹنٹ اکاؤنٹنٹ بھی رہے تھے اور سب سے بڑھ کر ریاضی اور انگریزی پڑھانے میں انہیں کمال حاصل تھا۔ مکان بھی الاٹ ہو سکتا تھا۔ بھائی علی احمد کی بیگم بھابی مبارک کے ایک قریبی عزیز نور خان سیٹل منٹ کمشنر تھے۔ انہوں نے معروف ماہر تعلیم میاں نامدار کو ایک کوٹھی الاٹ کی تھی اور جب سیٹل منٹ کا محکمہ ٹوٹا تو ان کی خدمات محکمہ تعلیم میں منتقل کر دی گئیں۔ بھٹو صاحب کے دور میں نور خان کے خلاف محکمے کے لوگوں نے احتجاج کیا اور ایک تصویر کسی اخبار میں چھپی ’’نور خان میاں نامدار کے اس مکان کی مرمت کروا رہے ہیں جو انہوں نے 1947ء میں انہیں الاٹ کیا تھا۔‘‘ (اس وقت میاں نامدار سیکرٹری تعلیم تھے) لیکن ابا جی نے راضی بہ رضا رہ کر ماڑی انڈس جانے کا فیصلہ کر لیا۔ مستقبل پر انہوں نے کبھی نظر نہ رکھی۔ حوادث کا طوفان جدھر اڑا کر لے گیا‘ چلے گئے‘ اپنی خوشی نہ آئے نہ اپنی خوشی چلے۔
پرانی انارکلی کی تیسری منزل کے دو کمروں اور غسل خانے کے سوا پوری عمارت امرتسر کے کشمیری خاندان کے قبضے میں تھی۔ ان کی توتکار ناشتے کے ساتھ شروع ہوتی اور وقفے وقفے سے رات ڈھلنے تک جاری رہتی۔ آپا کہتی ’’یہ تو رات کو بھی برتن کھڑکانے سے باز نہ آویں ہیں۔‘‘ بھائی شمشیر جل بھن کر جواب دیتے ’’تو کیا اب کسی مندر میں گھنٹیاں کھڑکانے جائیں۔‘‘
ماڑی انڈس روانہ ہونے سے پہلے میں نے چار دن لاہور کی سیر کے لئے وقف کر دیئے۔ ڈبل روٹی کا ایک ٹکڑا اور دودھ کے چند گھونٹ پی کر میں ’’پٹیالہ بک بائنڈنگ شاپ‘‘ پر آ بیٹھا۔ (زیادہ کھانے سے پیٹ میں مروڑ اٹھتے اور میں چلنے پھرنے کے قابل نہ رہتا) ماموں حمید کے بڑے بیٹے قدیر خان مجھے موچی دروازے اور چیئرنگ کراس تک کا راستہ سمجھا دیتے۔ پہلے دن مجھے نئی انار کلی بازار کے راستے موچی دروازے تک پہنچنا آسان لگا۔ میں ابھی ٹولنٹن مارکیٹ (قدیم) تک ہی پہنچا تھا کہ عجائب گھر کے کونے پر لوگوں کا مجمع دیکھا۔ میں بھی مجمع میں شامل ہو گیا۔ عجائب گھر کے احاطے میں پبلک لائبریری کی طرف جانے والی سڑک کے کونے پر سر گنگارام کا مجسمہ نصب تھا۔ اس کے گلے میں جوتیوں کا ہار تھا۔ آدھے منہ پر سیاہی مل دی گئی تھی اور اینٹیں مار مار کر اس کا بایاں بازو توڑ دیا گیا تھا۔ لوگ اس مجسمے کو دیکھ رہے تھے اور کہہ رہے تھے ’’یہ کسی ہندو کا مجسمہ ہے۔‘‘ (سعادت حسن منٹوکے ’’سیاہ حاشیے‘‘ میں ایک طنزیہ منی کہانی اس منظر کو محفوظ کئے ہوئے ہے) کچھ لوگ مال روڈ عبور کر کے وولنر (Woolner) کے مجسمے کو دیکھنے چلے گئے۔ اسی چھوٹے سے خوبصورت مجسمے کے گلے میں کسی نے گیندے کے پھولوں کا ہار ڈال دیا تھا۔
مجسمے دیکھ کر میں نئی انارکلی کی طرف چل پڑا۔ کتابوں کی ایک اونچی دکان پر ’’پبلشرز یونائیٹڈ‘‘ کا بورڈ آویزاں تھا لیکن مجھے یہ دیکھ کر بے حد مسرت ہوئی کہ کتابوں کی دکان کے دروازے پر سیمنٹ کی بنی ہوئی بیلوں اور پھولوں کے درمیان ’’عطر چند کپور اینڈ برادرز‘‘ کا نام ابھرا ہوا تھا۔ ہماری نصاب کی کتابوں پر ’’عطر چند کپور‘‘ لکھا ہوتا تھا۔ میں نے اپنی کتابیں شائع کرنے والا ادارہ دیکھ لیا تھا۔ اتنی سی بات مجھے نہال کرنے کے لئے کافی تھی۔
انار کلی بازار کی رونق ابھی پوری طرح بحال نہیں ہوئی تھی۔ بہت سی دکانیں بند تھیں۔ چند دکانوں کی صفائی ہو رہی تھی۔ ایک افسر پولیس کی نگرانی میں کسی الاٹی کو دکان کا قبضہ دے رہا تھا۔ انار کلی کے آخری سرے پر میں قدیر خان کی ہدایت کے مطابق پان گلی سے ہوتا ہوا سرکلر روڈ پر جا نکلا۔ تھوڑی دیر ایک دکان کے تھڑے پر بیٹھ کر سستایا۔ پھر ’’شب بھر میں تعمیر ہونے والی‘‘ مسجد کے سامنے سے ہوتا ہوا موچی دروازے کی جلسہ گاہ تک جا پہنچا۔ ہمارے ایک سکھ استاد موچی دروازے کے جلسوں کا ذکر بڑے زور شور سے کرتے تھے۔ میدان بہت کھلا تھا۔ جگہ جگہ بارش کا پانی کھڑا تھا۔ مجھے کورالی کے وہ گڑھے یاد آ گئے جن میں انسانوں کا کٹا ہوا ہاتھ ابھر آیا تھا۔ موچی دروازے کے سامنے سڑک پر خستہ حال لوگ بیٹھے تھے۔ ایک ٹوٹے ہوئے تخت پر پورا کنبہ آباد تھا۔ کسی چہرے پر مسکراہٹ اور اپنائیت دکھائی نہیں دے رہی تھی۔
موچی دروازہ کی جلسہ گاہ دیکھ کر لوٹا تو تھک چکا تھا۔ آوارگی کا شوق ماند پڑ گیا۔ ایک ٹوٹی پھوٹی بس برکت ہال کے سامنے آ کر رکی۔ دو تین لوگ سوار ہوئے‘ میں نے بھی قدم بڑھا دیا۔ بس میں چند ہی لوگ بیٹھے تھے۔ میں سیٹ پر بیٹھنے کے لئے آگے بڑھا تو خاکی کپڑوں میں ملبوس کنڈیکٹر نے مجھے بس کے پائیدان پر روک کر دروازہ بند کر دیا۔ جب بس شاہ عالمی چوک کراس کر رہی تھی تو وہ اپنے جسم کو میرے جسم سے رگڑ رہا تھا اور اس کے ہاتھ میرے جسم کے نازک حصے کو دبا رہے تھے۔ چند سیکنڈ میں مجھے Child Abuse کا تلخ تجربہ ہو چکا تھا (پچھلے دنوں جب ٹی وی پر فلم سٹار عامر خان نے Child Abuse کے موضوع پر ایک بھرپور پروگرام پیش کیا تو مجھے لاہور کی سیر کا پہلا دن یاد آ گیا۔ ایسے پروگرام والدین کو بار بار دکھائے جانے چاہئیں) انار کلی چوک میں ڈرائیور نے بریک لگائی اور میں دروازہ کھول کر باہر جا گرا۔ میرا جسم ٹھنڈا ہو رہا تھا۔ پسینے چھوٹ رہے تھے۔ جیب میں چند آنے موجود تھے۔ انار کلی کے آغاز میں ایک قلفی والے نے مٹی کا بڑا مٹکا رکھا ہوا تھا۔ وہ مٹکے میں سے قلفیاں نکال نکال کر میدے کی سویوں کے ساتھ گاہکوں کو دے رہا تھا۔ میں نے بھی دو آنے والی قلفی لی۔ معدے کو ٹھنڈک اور دل کو سکون پہنچایا۔ ابھی پوری قلفی ختم نہ ہوئی تھی کہ پیٹ میں شدید مروڑ اٹھا اور میں پیالہ وہیں چھوڑ کر بازار کی طرف بھاگا۔
میری خوش قسمتی کہ ’’جالندھر موتی چور‘‘ کی دکان جس عمارت کا حصہ تھی اس پر کسی ہوٹل (غالباً ڈیسنٹ ہوٹل) کا بورڈ لگا ہوا تھا۔ حلوائی کی دکان کے پہلو میں سیڑھیاں تھیں۔ میں دیوانہ وار اوپر چڑھتا چلا گیا۔ پہلی منزل پر سیڑھیوں کے عین سامنے غسل خانہ تھا۔ کواڑ کھلے تھے۔ میں اس میں جا گھسا۔ کسی نے مجھے کچھ نہیں کہا۔ واپسی پر بھی کسی نے میری بازپرس نہیں کی (بی اے میں جب میری اور میرے دوست ظفر بلوچ کی انگریزی میں کمپارٹمنٹ آئی اور ہم سپلیمنٹری کا امتحان دینے لاہور پہنچے تو ہم نے اسی ہوٹل میں قیام کیا۔ مجھ پر اس ہوٹل کا احسان تھا)۔
اگلے دن قدیر خان نے اپنے منجھلے بھائی نصیر خان کو میرے ہمراہ بھیج دیا۔ میں ملکہ وکٹوریہ کا مجسمہ دیکھنا چاہتا تھا۔ وہ مجھے مال روڈ کی سیر کراتے ہوئے چیئرنگ کراس تک لے گئے۔ راستے میں ہائی کورٹ کی عمارت کے سامنے کیتھڈرل سکول کی عمارت کے آغاز میں سر جان لارنس کا قدآدم مجسمہ دکھایا۔ ملکہ وکٹوریہ کا مجسمہ بڑا دبدبے والا تھا۔ وہ تاج اور بھاری لباس میں ملبوس تھی۔ میں دیر تک اس مجسمے کے لباس کی تہوں پر ہاتھ پھیرتا رہا۔ اس ہیئت کا ایک چھوٹا مجسمہ میں نے پونے (Pone) کے گورنر ہاؤس کے عجائب گھر میں بھی دیکھا تھا۔
واپسی پر نصیر خان نے نیلا گنبد پارک میں نصب کنگ ایڈورڈ کا مجسمہ دکھایا۔ نیوی کی یونیفارم میں‘ گھوڑے پر سوار کنگ ایڈورڈ کا مجسمہ ہمیشہ میری نگاہوں میں رہا۔ اس کے بائیں ہاتھ میں تلوار تھی اور دائیں ہاتھ میں قلم۔ کے ای میڈیکل کالج کی بنیاد اسی بادشاہ نے رکھی تھی۔ اپنے تعمیر شدہ ادارے کے سامنے پوری شان وشوکت کے ساتھ جم کر کھڑا ہونا اسے زیب دیتا تھا۔
ماموں حمید کئی سال پہلے گھر سے بھاگ کر لاہور آ گئے تھے اور ایک پڑھے لکھے لالے کی دکان (پٹیالہ بک بائنڈنگ شاپ) پر جلد سازی کا کام سیکھ کر ماہر جلد ساز بن گئے تھے۔ لاہور ہائی کورٹ کے تمام نامور وکیل قانونی فیصلوں کی سالانہ رپورٹیں اس دکان سے جلد کرواتے تھے۔ وہ ہندو لالہ کے بڑے قدردان تھے۔ فسادات شروع ہوتے ہی لالہ اپنی فیملی کو لے کر پٹیالہ چلے گئے اور دکان ماموں کے حوالے کر گئے۔ رات کو دیر تک وہ شاہ عالمی بازار کے جلنے کی روداد سناتے رہے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ بلوائی ان کی دکان کو بھی آگ لگانے آئے لیکن پرانی انار کلی کے لوگوں نے بتایا کہ اب یہ دکان مسلمان کے پاس ہے اس لئے دکان بچ گئی۔ ماموں کا پورا خاندان بخیریت بسی پٹھاناں سے لاہور پہنچ گیا تھا۔
ماموں کو دکھ تھا کہ بلوائیوں نے سر گنگا رام کے مجسمے کو جوتیوں کا ہار پہنایا۔ انہوں نے اپنے خاندان کے لوگوں سے پٹیالہ اور انبالہ کے اضلاع میں مسلمانوں پر ہونے والے ظلم وستم کی داستانیں سنی تھیں۔ وہ ایک ہی بات کہے جاتے تھے ’’گورے چاہتے تو بلوائیوں کا خاتمہ ایک ہی دن کر سکتے تھے۔ بائی (بھائی)! یہ قتل عام انہیں کے اشاروں پر ہوا ہے۔‘‘ اور قدیر خان کہتے تھے ’’بائی (بھائی) پنجاب کٹا ہے۔ دونوں طریوں (طرح) سے پنجاب کٹا ہے۔‘‘
اس وقت مجھے معلوم نہ تھا کہ صرف پنجاب ہی کو خون میں نہلایا گیا ہے۔ اس وقت تک میں نے پنجاب کی سیاسی تاریخ کا مطالعہ نہ کیا تھا۔ آج پینسٹھ برس گزر جانے کے بعد نوآبادیاتی نظام سے متعلق جو کچھ میں نے پڑھا ہے اور سامراجی قوتوں کی جو کارگزاری میں نے دیکھی ہے اس سے میں وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ آزادی کے اعلان کے بعد کا سارا کھیل پلاننگ کے تحت کھیلا گیا تھا۔ ویسے بھی حملہ آوروں کی رہگزر ہونے کے سبب‘ پنجاب بدقسمت خطہ رہا ہے۔ مہابھارت کی جنگ کوروکشیتر (سر ہند اور کرنال کا وسطی علاقہ) میں لڑی گئی۔ سکندر اعظم کی فوجوں نے پنجاب کے ایک بڑے حصے کو پامال کیا۔ محمود غزنوی کے سترہ حملے اسی سرزمین پر ہوئے۔ اٹھارہویں صدی میں نادر شاہ کی سیاہ پوش فوجوں نے گاؤں کے گاؤں نذرِآتش کر دیئے یہاں تک کہ بلھے شاہ چیخ اٹھے:
در کھلا حشر عذاب دا
برا حال ہویا پنجاب دا
ڈر ہاویےؔ دوزخ ماریا
سانوں آمل یار پیاریا
(حاویہؔ: دوزخ کا انتہائی درجہ)
اور جب انیسویں صدی میں انگریز نے پنجاب کو اپنی کالونی بنایا تو اس کے قہر کی نظر پنجاب پر ہی رہی۔ اس کی زبان چھین کر اسے گونگا کیا گیا۔ دونوں عالمی جنگوں میں پنجاب کے جوانوں نے انگریزوں کے اقتدار کو بچانے کے لئے اپنا خون بہایا لیکن جب ملک کی آزادی اور قیام پاکستان کی منزل قریب آئی تو اپنے گماشتوں کے ذریعے ملک میں افراتفری پھیلا دی۔ بلھے شاہ نے اٹھارہویں صدی میں (1680ء اور 1757ء) کے درمیان اپنی ایک کافی میں کہا تھا:


کتے رام داس کتے فتح محمد‘ ایہو قدیمی شور
مٹ گیا دوہاں دا جھگڑا‘ نکل پیا کجھ ہور
میری بکل دے وچ چور‘ نی میری بکل دے وچ چور
یہ سطریں 1947ء کے خونی فسادات کی پیش گوئی معلوم ہوتی ہیں۔ رام داس اور فتح محمد نے تو اپنے ’’دو قومی نظریے‘‘ کا فیصلہ امن کی میز پر کر کے ’’قدیمی شور‘‘ کا خاتمہ کر دیا تھا پھر یہ کون تھا جس نے پنجاب میں خون کا چھٹا دریا بہا دیا۔ بکل کے اس چور پر کسی کی نظر نہ پڑی۔
رام داس اور فتح محمد ’’یونین جیک‘‘ کو سلام دے کر لپٹواتے رہے اور سامراجی قوتیں اپنے مستقبل کو سنوارتی رہیں۔ میں 1947ء کے غم کو آج تک نہیں بھولا۔ مجسموں کی تقدیر بھی سامراج نے لکھی۔ کسی کے گلے میں جوتوں کا ہار‘ کسی کے مقدر میں گیندے کے پھول۔
سوال :آپ کی شادی فرخندہ لودھی صاحبہ کب ہوئی اور یہ شادی کیسے انجام پائی کیا وہ آپ کی عزیزہ تھیں یا نہیں ؟
صابر لودھی :میری شادی 15 اگست 1961ء کو اوکاڑہ میں ہوئی ۔ اس وقت میں ڈگری کالج مظفر گڑھ میں پڑھاتا تھا۔ شادی ہم دونوں کی پسندسے ہوئی ۔ فرخندہ کے والدین انتقال کرچکے تھے۔ تین بڑے بھائی سرپرست اور تینوں ہی محکمہ پولیس میں ملازم تھے ۔ 13 اگست کو انہوں نے اطلاع دی کہ 15 اگست کو سب بھائیوں کی چھٹی ہے۔ چند افراد پر مشتمل بارات لے کر آجائیں ۔ ایوب خان کے عائلی قوانین نئے نئے نافذ ہوئے تھے۔ دس پندرہ لوگ مدعو کیے جاتے تھے ۔ 16 اگست کو تعلیمی اداروں نے تعطیلات کے بعد کھلنا تھا ۔ اس لیے اوکاڑہ سے پانچ افراد کی بارات منٹگمری پہنچی ۔نکاح کی رسم ادا ہوئی ۔ منہ میٹھاکیا ۔ فرخندہ لاہور روانہ ہوئی اور میں مظفر گڑھ ۔
سوال :قیام پاکستان کے وقت آپ اپنے خاندان کے ہمراہ ہجرت کرکے کہاں آباد ہوئے اور اس دوران کن کن مشکلات اور پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا ؟
صابر لودھی :بھٹکتے رہے ۔ یہ ایک لمبی داستان ہے ۔ 1955ء میں زرعی زمین کا کلیم بار آور ہوا۔ لودھراں کے قریب رکن پور میں زمین الاٹ ہوئی ۔ وہاں ایک کچا کوٹھا ڈال لیا۔ رقبہ نہر کی ٹیل ( یعنی آخر میں تھا )پر تھا کبھی پانی آجاتا کبھی خشک سالی میں گزر جاتی ۔ زیادہ عرصہ لاہور میں ہی گزرا ۔ گورنمنٹ کالج اور اورینٹل کالج کی ملازمت نے دل لگائے رکھا۔ باقی رہی مشکلات کی بات توغالب نے اس مسئلے کو حل کردیا۔
مشکلیں اتنی پڑیں مجھ پر کہ آساں ہوگئیں
سوال : ذریعہ معاش کے حوالے سے بے شمار شعبے ہیں آپ نے درس و تدریس کے شعبہ کا ہی کیوں انتخاب کیا اور اب جبکہ آپ ریٹائر ہوچکے ہیں کیا محسوس کرتے ہیں کہ آپ کا فیصلہ صحیح تھا یا غلط اور آپ نے نوجوان نسل کی رہنمائی کا فریضہ انجام دے دیا ہے ۔ ؟
صابر لودھی :اباجی کی مثال سامنے تھی ۔ قیام پاکستان کے ساتھ مشکلات پیدا ہوگئی تھی۔ کتابیں پڑھنے کی عادت تھی ۔ محنت کی عادت نہ تھی سائنس کے مضامین میں دلچسپی نہ تھی اس لیے یہ راستہ آسان نظر آیا ۔ آہستہ آہستہ پڑھنے اور پڑھانے میں لطف آنے لگا ۔ یہ تدریس کے شعبے کا کمال ہے کہ میں ریٹائرمنٹ کے بعد زیادہ مطمئن ہوں ۔ لکھنے بھی لگا ہوں میرا فیصلہ درست تھا مجھے یہ خوش فہمی ضرور ہے کہ میں نے اپنے شاگردوں کی رہنمائی کا فریضہ دل سے ادا کیا ہے ۔ صحیح فیصلہ تو میرے شاگرد ہی کرسکتے ہیں ۔
سوال :بنیادی طور پر وہ کیا بات اور ہنر تھا جو آپ اپنے شاگردوں میں دیکھنے کے متمنی تھے ؟
صابر لودھی : میرے شاگرد جہاں بھی جائیں نیک نامی کمائیں ۔ میرے بہت سے شاگرد جنہوں نے ڈاکٹری کا پیشہ اختیار کیا وہ میری تمنا پر پورا اترے لیکن جو سول سروس میں چلے گئے یا اپنے کاروبار میں لگ گئے وہ اپنی تمناؤں میں الجھائے گئے ۔
سوال : محکمانہ طور پر آپ کو کن کن اور کہاں کہاں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور آپ کس طر ح ان مشکلات سے عہدہ برآ ہوئے ؟
صابر لودھی :محکمہ تعلیم کو غیر اہم اور غیر پیداواری شعبہ سمجھا جاتا ہے۔ مغربی پاکستان کی حکومت یا ( بعد میں ) حکومت پنجاب نے کبھی کسی دانش ور کو وزیرتعلیم نہیں لگایا ۔ ایک بار تو یہ لطیفہ بھی ہوا کہ جب وزارتیں تقسیم ہورہی تھیں تو کسی کو تعلیم کا محکمہ یاد ہی نہ آیا ۔ وزراء اپنی پسند کی وزارتیں لے کر رخصت ہوئے توسیکرٹری تعلیم نے یاد دلایا کہ ہمارا وزیر مقرر ہی نہیں ہوا ۔ ہرکارے کو دوڑایا گیا کہ دیکھوکون ابھی سیکرٹریٹ میں موجود ہے ۔ سناہے کہ عبدالحمید دستی اپنی گاڑی تلاش کرتے ہوئے پائے گئے ۔ چنانچہ انہیں بلا کر محکمہ تعلیم ان کے حوالے کردیاگیا ۔ اس محکمے میں آسائشیں نایاب اور مشکلات زیادہ ہیں۔ طویل عرصے تک پوسٹیں خالی رہتی ہیں اور محکمانہ ترقی کا بندوبست نہیں کیاجاتا ۔میں تو خوش قسمت تھاکہ دس بارہ سال مغربی پاکستان لیکچرر ایسوسی ایشن کا جنرل سیکرٹری رہا اور اساتذہ کا بھرپور تعاون مجھے حاصل رہا۔ دباؤ کے ساتھ لیکچرار سے فل پروفیسر تک ۔ ترقی کے دروازے کھلتے چلے گئے ۔ جس دن یحیی خان نے مارشل لاء لگایا اس دن میں ٹولنٹن مارکیٹ کے سامنے اپنے دوساتھیوں سمیت بھوک ہڑتال پر بیٹھا ہوا تھا ۔ نتیجے کے طور پر ایئر مارشل نور خان نے پہلی بار اساتذہ کو اہمیت دی اور ترقی کی راہیں کھلیں ۔ بھٹو صاحب کے دور میں ملازمتی ڈھانچہ بہتر ہوا ۔
سوال: آپ نے شاعری کی‘ تنقیدی مضامین لکھے جو بقول آپ کے اعلیٰ معیار کے نہ تھے‘ کیا خاکہ نگاری اتنی ہی آسان صنف تھی کہ آپ کا قلم اس میدان میں خوب چلا؟

صابر لودھی: شاعری وقتی اور جذباتی ابال کا نتیجہ تھی۔ نو عمری میں شاعری دل کو لبھاتی ہے۔ میں نے بھی دل کو لبھانے کے لئے چند نظمیں لکھیں۔ دو تین نظموں میں ذاتی محرومیوں کا رونا تھا۔ تنقید لکھنا ذمہ داری کا کام ہے۔ زیادہ سے زیادہ مطالعے کی ضرورت ہے۔ اس کے لئے میرے پاس وقت نہ تھا۔ مجھے بے مقصد کاموں میں الجھنا اچھا لگتا تھا۔ زمانہ طالب علمی میں دوستوں کو الیکشن لڑواتا تھا۔ ملازمت ملی تو اساتذہ کے ملازمتی ڈھانچے کو بہتر بنانے کا جنون ہو گیا۔ جلوس نکالے‘ بھوک ہڑتال کی اور پروفیسروں کے تعاون سے اساتذہ کے لئے ملازمتی ڈھانچہ بنوا کر دم لیا۔ خاکہ نگاری کے لئے دو تین باتیں اہم ہیں۔ لکھنا آتا ہو‘ ذہن تعصب سے پاک ہو‘ اپنی محبوب شخصیت کو قریب سے دیکھنے اور سمجھنے کا موقع ملا ہو۔ خاکہ لکھنے والے کا اتنا کمال نہیں ہوتا جتنا اس شخصیت کا ہوتا ہے جس کا خاکہ لکھا یا اڑایا جا رہا ہوتا ہے۔ شخصیت اپنا مواد خود فراہم کرتی ہے۔ مولوی نذیر احمد‘ عظیم بیگ چغتائی‘ نام دیو مالی اور پری چہرہ نسیم کی شخصیت کے اتنے رنگ تھے کہ مرزا فرحت اﷲ بیگ‘ عصمت چغتائی‘ مولوی عبدالحق اور سعادت حسن منٹو کے خاکوں میں بھی رنگ بھر آیا۔ جہاں تک خاکہ نگاری کے میدان میں قلم کے چلنے کی بات ہے یہ محض آپ کی حوصلہ افزائی ہے۔ اﷲ نے توفیق دی تو شاید کوئی جاندار خاکہ تخلیق ہو جائے۔ ابھی تو تخلیق کی منزل بہت دور ہے اور مجھے کوئی خوش فہمی نہیں۔
سوال: بعض لوگوں کی رائے ہے کہ آپ کے ادبی ٹیلنٹ کو سیاسی سرگرمیوں نے ضائع کر دیا۔ آپ کیا کہیں گے؟
صابر لودھی: یہ صرف رائے ہی نہیں‘ حقیقت ہے۔ قدرت نے میرے وجود میں بے قراری رکھ دی ہے۔
حالت اب اضطراب کی سی ہے
اس مزاج کے ساتھ پڑھا تو جا سکتا ہے‘ سکون سے بیٹھ کر لکھا نہیں جا سکتا۔ سیاسی عمل میں اضطراب ضروری ہے۔ میں بڑا زمیندار ہوتا تو شاید عملی سیاست میں بھی قدم رکھتا۔ پروفیسر سید وقار عظیم نے پی ایچ ڈی کے لئے موضوع منظور کروا دیا تھا۔ ’’اردو شاعروں کے تذکرے۔‘‘ پروفیسر عابد علی اور پروفیسر قیوم نظر نے نئے انداز سے خاکہ بنوایا تھا۔ ان کا خیال تھا اچھا مقالہ وجود میں آ جائے گا لیکن میرے مزاج نے لیکچررز ایسوسی ایشن کے کام کو پسند کیا اور میں ویسٹ پاکستان لیکچررز ایسوسی ایشن کا جنرل سیکرٹری بن گیا اور پھر جو لطف جلوس نکالنے اور بھوک ہڑتال کرنے میں آیا وہ تذکروں کی تخلیق میں کہاں آتا۔ قائداعظم کی تقاریر سننے کا تو موقع نہیں ملا لیکن علامہ مشرقی اور عطاء اﷲ شاہ بخاری کی تقاریر بچپن میں سنیں۔ ذوالفقار علی بھٹو نے جتنی تقریریں لاہور میں کیں میں نے قریب ہو کر سنیں۔ چینی رہنما لیو شاؤ چی لاہور کے دورے پر آئے تو میں نے ان کے جلوس میں دھکے کھائے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کا 1988ء کا بے مثال جلوس گورنمنٹ کالج لاہور کی دیوار پر چڑھ کر دیکھا۔ پنجاب یونیورسٹی کے گیٹ کے سامنے نواز شریف کو 23 فٹ اونچے سائیکل پر سوار ہو کر جلوس نکالتے دیکھا۔ یوں سمجھئے سیاست میرا پسندیدہ مشغلہ تھا جسے میں نے ادب پر غالب پایا۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ میرے ادبی ٹیلنٹ کو سیاست نے ضائع کر دیا۔
سوال: کل کے گورنمنٹ کالج اور آج کے گورنمنٹ کالج یونیورسٹی میں کیا فرق محسوس کرتے ہیں؟
صابر لودھی: زمین آسمان کا فرق ہے۔ گورنمنٹ کالج ایک تہذیبی اور ثقافتی ادارہ تھا۔ پاکستان کے ذہین ترین طلبہ یہاں پڑھنے آتے تھے۔ ذہانت کی بنیاد پر مفلس طلبہ کو بھی بآسانی داخلہ مل جاتا تھا (یہ گنجائش تو اب بھی ہے) تدریس کے ساتھ مختلف سوسائٹیاں اپنا کام شروع کرتیں۔ ذہین طلبہ کی تربیت کی جاتی۔ ان کو صیقل کیا جاتا۔ اچھے ڈاکٹروں اور اچھے انجینئروں کی بڑی تعداد گورنمنٹ کالج سے فارغ التحصیل ہو کر گئی تھی (سول سروس کا تربیتی ادارہ قوم کے مزاج کے مطابق تربیت کرتا تو راونیز اس ملک میں انقلاب برپا کر سکتے تھے لیکن وہ کم تعلیم یافتہ سیاست دانوں کے کاسہ لیس ہو کر رہ گئے) جہاں تک یونیورسٹی کا تعلق ہے‘ پہلے وائس چانسلر اسے چند نجی تعلیمی اداروں کے معیار پر لانا چاہتے تھے۔ کالج کی اپنی شناخت ختم ہو گئی۔ میں نے ایچی سن کالج سے اپنی ملازمت کا آغاز کیا تھا اور اسے اسی لئے جلد خیرباد کہہ دیا تھا کہ وہاں طلبہ کی تعمیر کا کوئی منصوبہ نہ تھا۔ ٹیوشنوں پر زور دیا جاتا تھا۔ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کی صورت بھی ایچی سن کالج جیسی ہوتی جا رہی ہے۔
سوال: آپ خاکہ نگاری میں کس ادیب سے متاثر ہیں؟
صابر لودھی: غالب سے۔ خطوط غالب میں شخصیات کے چھوٹے چھوٹے مرقعے ہیں۔ وہ چند فقروں سے شخصیت کی تصویر کھینچ دیتے ہیں۔ میرے نانا جی کی لائبریری میں نثری اور منظوم داستانوں کا بڑا ذخیرہ تھا۔ بچپن میں‘ میں نے یہ داستانیں دلچسپی سے پڑھیں۔ ان داستانوں میں خیالی شخصیت کے بڑے دلچسپ خاکے ہیں۔ داستان ’’سند باد جہازی‘‘ کے کردار پیر تسمہ پا کی تصویر ہمیشہ میرے ذہن میں رہتی ہے۔ فرحت اﷲ بیگ کا خاکہ ’’نذیر احمد کی کہانی‘ کچھ ان کی کچھ میری ذبانی‘‘ بہت پسند ہے۔ عصمت چغتائی کا خاکہ ’’دوزخی‘‘ منٹو کے تمام خاکے‘ احمد بشیر کے خاکے بھی پسند آئے لیکن شاید میں کسی بھی ادیب سے متاثر نہیں ہوا (غالب کے سوا)
سوال: محترمہ فرخندہ لودھی نے اپنی ڈائری میں ڈاکٹر وزیر آغا کے بارے میں لکھا تھا ’’اگر یہ شخص بزدل نہ ہوتا تو پاکستان کا برٹرینڈرسل ہوتا۔‘‘ آپ کیا تبصرہ کریں گے؟
صابر لودھی: دراصل ڈاکٹر وزیر آغا نظریہ ساز ادیب تھے۔ وہ زندگی کے حقائق کے بارے میں سوچتے تھے۔ ان کا مطالعہ وسیع تھا۔ تاریخ‘ تہذیب‘ فلسفہ‘ مذہب‘ مابعد الطبیعات اور تصوف کی کتابیں خریدتے اور پڑھتے اور اپنی فکر سے کچھ نتائج بھی نکالتے۔ ان کی سوچ اور مطالعے کا نچوڑ ان کی مطبوعہ کتابیں ہیں لیکن بہت سی باتیں وہ اپنے ملاقاتیوں سے مکالمے کے دوران کہہ جاتے اور وہ بھی اشاروں اشاروں میں۔ ایسی ہی چند ملاقاتوں میں فرخندہ بھی شریک رہی۔ اس نے محسوس کیا کہ وہ بہت سے افکار کھل کر شیئر نہیں کرتے۔ ان کی طرززندگی میں بھی بڑا رکھ رکھاؤ تھا۔ بالکل انگریزوں جیسا۔ ’’خوف فساد خلق‘‘ سے ان کے بہت سے افکار ان کہے رہ گئے:
رہی نگفتہ مرے دل میں داستاں میری
فرخندہ نے یہ نتیجہ اسی احساس کے تحت نکالا ہے۔
سوال: اگر وقت پیچھے چلا جائے تو آپ کس صنف میں لکھنا پسند کریں گے؟
صابر لودھی: اگر وقت پیچھے چلا جائے تو میں زندگی سلیقے سے بسر کروں گا۔ اضطراری کیفیت پر قابو پاؤں گا۔ منتخب اعلیٰ علمی اور ادبی کتابوں کا مطالعہ کروں گا اور اس مطالعے کا حاصل دوسروں تک پہنچاؤں گا۔ ہو سکتا ہے خاکے ہی لکھوں کیونکہ زندگی کے اس عہد زوال میں میرے مہربان دوستوں نے میرے خاکوں کی تعریف کی ہے (ہو سکتا ہے یہ میری خوش قسمتی ہو)
سوال: ماضی اور حال کے ادبی سماج میں آپ کیا فرق محسوس کرتے ہیں؟
صابر لودھی: وقت بدلتا ہے‘ قدریں بدلتی ہیں‘ سماج بدلتا ہے۔ سماج کی تبدیلی کے ساتھ ہی ادبی سماج کی صورت بدل جاتی ہے۔ تبدیلی دو طرح کی ہوتی ہے۔ خارجی اور داخلی۔ خارجی تبدیلی کے لئے بے شمار عوامل کام کرتے ہیں۔ دو عالمی جنگوں نے خارجی تبدیلیاں کیں‘ نتیجے میں داخلی تبدیلیاں بھی آئیں‘ نئی سوچ نے جنم لیا۔ وجودیت جیسے نئے فلسفے وجود میں آئے جنہوں نے ادب کو متاثر کیا۔ ماضی کا اشرافیہ پر مشتمل سماج تبدیل ہوا۔ جدلیاتی مادیت کا فلسفہ مقبول ہوا۔ نتیجے کے طور پر نئی شاعری‘ نیا ادب‘ نئی تنقید اپنی خصوصیات ساتھ لے کر آئی۔ حال کا ادبی سماج‘ ماضی کے ادبی سماج سے یکسر مختلف نظر آتا ہے لیکن روایت کی پاسدای نے دونوں سماجوں کو جوڑ رکھا ہے۔ داستان کی کردار نگاری ترقی یافتہ صورت میں ناول اور افسانے میں موجود ہے۔ غزل کے موضوعات بدل گئے ہیں‘ ہیئت موجود ہے۔ ترقی پسند تحریک کے سبب ادب میں پھیلاؤ ضرور ہوا لیکن مزاحمتی ادب فوجی حکومتوں کے دباؤ کے نتیجے میں وجود میں آیا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے کچلے ہوئے طبقوں کو ابھارا تو ادبی سماج میں بھی تبدیلی آئی۔ مزاحمتی ادب کی آواز مظلوم طبقوں تک بھی پہنچی۔ طبقاتی شعور بیدار ہونے سے ادب میں انقلابی تبدیلیاں آئیں۔
سوال: کیا پاکستان میں اردو کبھی سرکاری زبان کا درجہ حاصل کر سکے گی؟
صابر لودھی: میری ناقص رائے میں کبھی نہیں۔ اصولی طور پر اردو کو سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہے لیکن تمام کام انگریزی زبان میں ہو رہا ہے۔ تحصیل اور نچلی عدالتوں کی سطح پر سارا کام اردو میں ہوتا ہے۔ بیانات اردو میں تحریر کئے جاتے ہیں۔ مچلکے اردو میں بھرے جاتے ہیں (اور یہ کاروبار انگریز کے عہد میں بھی اسی طرح ہوتا تھا) پٹواری کھاتوں اور جمع بندیوں کی نقول لکھ کر دیتا ہے لیکن عدالتوں اور اعلیٰ عدالتوں میں مجسٹریٹ اور جج صاحبان فیصلے انگریزی میں ڈکٹیٹ کرواتے ہیں۔ جامعہ عثمانیہ حیدرآباد دکن میں لاکھوں روپے خرچ کر کے وضع اصطلاحات کا کام کیا گیا تھا جو تمام تر بیکار ثابت ہوا کیونکہ انگریزی اصطلاحات آسانی سے زبان پر چڑھ گئیں۔ دراصل ٹیکنالوجی کے فروغ نے اردو کو مات دے دی ہے اور انگریزی زبان کو ناگزیر بنا دیا ہے۔
ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں ہندی بظاہری سرکاری زبان ہے اور بول چال کی زبان بھی بن چکی ہے لیکن وہاں تدریس کی زبان انگریزی ہی ہے۔ دفاتر میں بھی زیادہ تر انگریزی سے کام لیا جا رہا ہے۔ قومی ترقی کا راز اس اصول میں مضمر ہے کہ ابتدائی تعلیم مادری زبان میں دی جائے۔ اس سے تعلیم کا دائرہ وسیع ہو گا اور ان مادری زبانوں کے سرمائے سے اردو کے ذخیرے میں اضافہ ہو گا۔
سوال: اعلیٰ سطح پر اردو کی تدریس اور تحقیق کے بنیادی مسائل کیا ہیں؟
صابر لودھی: اعلیٰ سطح پر اردو کی تدریس اور تحقیق کے بے شمار بنیادی مسائل ہیں۔ تدریس کی حد تک زبان کی اہمیت کو سمجھا نہیں جا رہا۔ لسانیات کا پرچہ لازمی ہونا چاہئے۔ زبان کی کتنی شاخیں ہیں۔ ایک زبان نے دوسری زبان سے کس طرح خوشہ چینی کی ۔ زبان کو امیر اور ثروت مند بنانے کا طریقہ یہ ہے کہ کسی زبان کے الفاظ سے نفرت نہ کی جائے۔ پروفیسر جیلانی کامران نے انیس ناگی کی ایک نظم پر اعتراض کیا تھا کہ اس میں ہندی الفاظ نہیں ہونے چاہئیں۔ یہ رویہ زبان کی ترقی میں رکاوٹ ہے۔ بعض لوگوں نے اعتراض کیا تھا کہ مولانا الطاف حسین حالی نے سادہ نثر کی جو عمدہ مثال قائم کی تھی مولانا ابو الکلام آزاد کی خطیبانہ نثر نے اس کو نقصان پہنچایا۔ یہ اعتراض درست ہے۔ زبان کو عوام تک خیالات پہنچانے کا ذریعہ ہونا چاہئے۔ انگریزی نثر کی طرح اردو نثر کا بھی ایک معیار ہونا چاہئے۔
جہاں تک تحقیق کا تعلق ہے اس شعبے میں محنت اور دیانتداری سے کام نہیں لیا جا رہا۔ قاضی عبدالودود‘ ڈاکٹر وحید قریشی‘ مشفق خواجہ‘ مظہر محمود شیرانی اور اکرام چغتائی کا کام وقیع ہے۔ ڈاکٹر وزیر آغا نے تحقیق سے نظریہ سازی کا کام لیا ہے۔ ڈاکٹر صدیق جاوید نے ’’ناطقہ سربگریباں‘‘ (مرزا حامد بیگ کی تحقیق نگاری) اور ’’تحقیق کے چراغ تلے‘‘ (ڈاکٹر معین الرحمن کی تحقیق نگاری) دو کتابیں لکھ کر پاکستان میں تحقیق کی پستی کا ماتم کیا ہے۔ وہ دل کے مریض نہ ہوتے اور ان کی بیگم کی بیماری طول نہ کھینچتی تو وہ بہت سے دوسرے تحقیق نگاروں کا پول کھولتے تاہم گزشتہ دس بارہ برسوں میں ڈاکٹر سہیل احمد خان‘ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی‘ ڈاکٹر تحسین فراقی اور ڈاکٹر فخر الحق نوری کی زیرنگرانی اوری اینٹل کالج میں جو تحقیق کام ہوا اس کی داد ڈاکٹر صدیق جاوید نے بھی دی ہے۔
سوال: اب کچھ بات مختلف ادوار کے گورنمنٹ کالج لاہور کے شعبہ اردو کے سٹاف روم کے بارے میں ہو جائے‘ کون لوگ اچھے لگے اور کن لوگوں نے بدمزہ کیا؟
صابر لودھی: اگر لمحوں کا حساب کیا جائے تو‘ نیند کے لمحوں کے سوا‘ میرا زیادہ تر وقت شعبہ اردو کے کمروں میں (جنہیں سٹاف روم کہا جاسکتا ہے) گزرا۔ اس جنت گم گشتہ میں زندگی ٹھہر گئی تھی۔ عمر عزیز کے چونتیس برس گزرنے کا احساس ہی نہیں ہوا۔ 1963ء میں خواجہ محمد سعید صدر شعبہ تھے۔ میرے استاد ملک بشیر الرحمن کی سفارش پر انہوں نے ڈاکٹر نذیر احمد سے ڈی او لکھوا کر میرا ساہیوال سے گورنمنٹ کالج تبادلہ کروایا۔ قیوم نظر بھی میرے استاد تھے‘ یہاں آتے ہی ان سے دوستی ہو گئی۔ ملک بشیر الرحمن کے کمرے میں چائے کا دور چلتا۔ محفلیں جمتیں علم اور ادب کی باتیں ہوتیں۔ صوفی تبسم آ نکلتے۔ وہ فرمائشیں کرتے‘ کافی بناؤ اور لوہاری دروازے کے باہر سے امرتسریوں کی دکان سے مچھلی لاؤ اور مچھلی کے صرف پلےّ لانا اور مچھلی فروش کو میرا نام بھی بتانا۔ (امرتسر میں مچھلی فروش اور صوفی صاحب کے بزرگوں کی دکانیں ساتھ ساتھ تھیں) پلوّں کی پہچان مجھے تھی اس لئے مجھے ہی جانا پڑتا۔ شیخ عبدالشکور (مولف سبزہ بیگانہ) سیکرٹریٹ کے ریٹائرڈ سپرنٹنڈنٹ تھے۔ قیام پاکستان سے قبل لاہور کے مشاعرے ان کے دم سے آباد تھے۔ سال میں وہ تین بار ترکاری چاول کا بھنڈارا ملازم کے سر پر رکھے آ ٹپکتے اور اپنے خلیفوں کے ساتھ ہماری خاطر تواضع کرتے۔ واحد شو کمپنی کے مالک وحید صاحب ان کے پہلے خلیفہ تھے۔ پھر مرزا محمد منور کا نمبر تھا۔ تیسرے خلیفہ کا درجہ ملک بشیر الرحمن کو عطا ہوا تھا۔ چوتھے خلیفے کے امیدوار کئی تھے۔ پروفیسر مشکور حسین یاد اپنا حق جتاتے تھے لیکن ان کی نظر کرنل جاذب (جنہیں اچانک اجل نے آ لیا) اور ڈاکٹر صفدر محمود کا طواف بھی کرتی تھی۔ جس دن مجلس اقبال کا اجلاس ہوتا تو قیوم نظر کے ساتھ پروفیسر ڈاکٹر محمد حمید الدین بھی اپنی فلسفیانہ موشگافیوں سے محفل کا رنگ دوبالا کر دیتے۔ ملک بشیر الرحمن کی ریٹائرمنٹ اور قیوم نظر کی تبدیلی کے ساتھ رونق ماند پڑ گئی۔ پروفیسر ریاض مرزا (افسانہ نگار) شگفتہ گفتگو کرتے لیکن پیالیوں میں چائے انڈیلنا ان کے مسلک میں نہ تھا۔ پروفیسر مشرف انصاری سے کلاسیکی شاعری پر بات ہوتی۔ اصغر سلیم میر (صفدر میر کے بڑے بھائی) فیض احمد فیض کے رنگ میں شعر کہتے اور ان کی باتیں سناتے۔ غلام الثقلین نقوی سے جدید افسانے اور امریکی ناولوں (وہ ایک ناول روزانہ کے حساب سے کرائے پر لے کر پڑھتے) کے بارے میں معلومات حاصل کرتے۔ ان دوستوں کی ریٹائرمنٹ کے بعد شعبہ کا سٹاف روم اجڑ کر رہ گیا۔ پروفیسر ڈاکٹر معین الرحمن فیصل آباد سے آ کر صدر شعبہ بنے تھے۔ انہیں صرف اپنے کام اور اپنے نام سے دلچسپی تھی۔ مشفق خواجہ کے نام ایک خط میں ڈاکٹر صدیق جاوید نے لکھا ہے ’’معین صاحب کی ایک اور خصوصیت یہ ہے کہ ان کے زیرانتظام جو بھی کتاب یا رسالہ شائع ہوتا ہے وہ اسے ’معین نامہ‘ بنا دیتے ہیں۔‘‘ ان کی اس خودپسندی کا فائدہ میں نے اٹھایا اور اپنی ملازمت کے آخری آٹھ دس سال سکون میں گزارے۔ شرکائے کار میں سے کسی کو ٹی وی ڈراموں کے ذریعے دولت کمانے کا شوق تھا‘ کوئی کالم نویسی کے حصول کے لئے اخبارات کے مدیران کے دفتروں کے چکر کاٹتا۔ کسی کو جلدی جلدی گھر پہنچ کر کچی پکی تحریریں لکھنے اور چھپوانے کا جنون تھا۔ سٹاف روم تو اجڑ چکا تھا۔
****************
یہ انٹرویو نما مضمون پروفیسر صابر لودھی صاحب نے اپنی زندگی میں تحریرکیا اور انٹرویو کی شکل میں قلمبند کروایا اس لیے مناسب یہ سمجھا گیا کہ اس میں کوئی تبدیلی نہ کی جائے۔پروفیسر صابرلودھی کو دنیا سے رخصت ہوئے سات سال ہوچکے ہیں اس لئے ان سے وابستہ یادوں کو من وعن تازہ کرنا ہمارا فرض ہے۔ محمد اسلم لودھی

Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 781 Articles with 667666 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.