ہم جب کسی موضوع پر مضمون لکھتے ہیں تو اسے پسند کرنے
والے افراد پڑھنے کے بعد تائید کرتے ہوئے"ایموجی"یعنی الگ الگ طرح کے
نشانات جسے سوشیل میڈیاکی زبان میں ایموجی کہاجاتاہےوہ جاری کرتے ہوئے اپنے
تاثرات بیان کرتے ہیں۔لیکن اس وقت ایموجی اور واہ واہی کے بجائے جو مشورے
اور تجاویز قو م وملت کی بھلائی کیلئے کئے جاتے ہیں انہیں عملی جامہ پہنانے
کی ضرورت ہے۔اس وقت ریاست میں کرناٹکا اردو اکادمی کی تشکیل نہیں ہوئی
ہے،جب اس تعلق سے ہم نے ایک مضمون پیش کیا تو کئی لوگوں نے "ایموجی " کے
ذریعے اپنی تائید کااظہارکیاہے،لیکن ہمارا منشاء ہمارے مضمون کی واہ واہی
بٹورنانہیں ہے بلکہ اس سمت میں توجہ دلاناہے۔کرناٹکا اردو اکادمی یقیناً
اردو زبان کی فلاح وبہبودی کیلئے پوری طرح سے ضامن نہیں ہے،لیکن اکادمی
ڈوبتے کو تنکے کے سہارے کے مانندہے،جہاں سے کم ازکم مالی امداد تولی جاسکتی
ہے،اس کے علاوہ اور کسی بھی طرح کی توقع اکادمی سے ممکن نہیں ہے۔کرناٹکا
اردو اکادمی کی تاریخ رہی ہے کہ اس اکادمی نے اردو زبان میں لکھنے والوں کی
ہمت افزائی کی ہے،کئی کتابوں کی اشاعت کروائی ہے اورکئی انجان چہروں
کاشناخت دلوائی ہے،مگر اس وقت یہ اکادمی شناخت کیلئے مجبور ہوچکی ہے۔کرناٹک
کی تاریخ میں یہ شائد پہلا موقع ہوگاکہ اکادمی کی تشکیل کے تعلق سے اتنی
لاپرواہی برتی جارہی ہے،اس سے پہلے تو ایسا ماحول دیکھانہیں گیاتھا،اس سے
پہلے کسی نہ کسی سیاستدان کی چمچہ گری کرتے ہوئے کوئی نہ کوئی اکادمی کا
چیرمین بن جایاکرتاتھا اور اکادمی تشکیل ہوجاتی تھی یاپھر ایسابھی ہواہے کہ
کچھ لوگ اپنے صلاحیتوں کی بنیاد پر کرناٹکا اردواکادمی کی لگام اپنے ہاتھ
میں لئے ہوئے ہیں،لیکن اس دفعہ ایسا محسوس ہورہاہے کہ اردو دان طبقہ بی جے
پی حکومت سے خوفزدہ ہے اوران کے سامنے جاکر حق مانگنے کی مجال باقی نہیں
رہی ہے۔یقیناً اس بات سے انکارنہیں کیاجاسکتاہے کہ جو اردو دان طبقہ لوٹتی
ہوئی قوم کیلئے دو لمحے افسوس کے،دو لفظ دردکے،دو اشعار احساس کے اور دو
قدم بقاء کیلئے نہیں اٹھا سکتاہے تووہ صرف اردواکادمی کیلئے کیسے اپنے
اظہارات کی ترجمانی کریگا۔کرناٹک اردو اکادمی کی اپنی الگ ہی پہچان ہے،ہم
نے تو کئی صدورکا دور دیکھا،لیکن اب جو حال بے مروتی کا ہے وہ کبھی نہیں
دیکھا۔اکادمی اس وقت ایسے حالات سے گذررہی ہیں کہ یہاں رجسٹرار ہوتے ہوئے
بھی رجسٹرار کو پورے اختیارات نہیںہیں،جبکہ اردواکادمی کے مالی ،انتظامیائی
امورکے فیصلے حتمی طور پر انڈرسکریٹری سطح کے افسروں کے ذریعے سے لئے جاتے
ہیں،مگر یہاں انڈرسکریٹری سے کم درجے کے عہدیدارکی بطور رجسٹرار تقرری اس
بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ اکادمی اٹانوموس(خودمختار) ہوتے ہوئے بھی اس
کی خود مختاری کام نہیں کررہی ہے۔اس وقت اردواکادمی کےسابق صدور،سابق
اراکین،شعراء،ادباء ،صحافی،قوال،مشاعرہ گو،موجودہ پروفیسران،سابق
پروفیسران، لکچررس،اساتذہ اس کے علاوہ محبانِ اردوکے زمرے سے اگر پانچ پانچ
افراد بھی ریاستی حکومت کے سامنے ایک جگہ جمع ہوکر احتجاج کرتے ہیں تو اس
کا کچھ نہ کچھ اثر ہوگا۔یوں تو بنگلورومیں بھی نام نہاد وطاقتور اردو دان
بیٹھے ہوئے ہیں،جو ہمیشہ سے ہی چیرمین کی کُرسی پر نگاہیں جمائے رہتے
ہیں،وہ بھی اپنے چند ساتھیوں کو لیکر دوچار پریس میٹ،ایک دو احتجاج اور چند
ملاقاتیں کرتے ہیں تویہ ان کے ذریعے اردو اکادمی کیلئے بڑا احسان ہوگا۔اب
روایتی تنقید ،تعبیرو شکوئوں کے بجائے جوابِ شکوہ پیش کرتے ہوئے حکومت سے
حق کا مطالبہ کرنے کی ضرورت ہے،ورنہ مستقبل میں سمیناروغیرہ منعقدکئے
جائینگے تو اُس کے عنوانات اس طرح سے رہے گیں کہ
"بی جے پی حکومت میں کاہل اردو دانوں کاکردار"
"اردو زبان اور نمک حراموں کا رول"
"اردو اکادمی کے زوال میں شعراء وادباء کاہاتھ"
"جنوبی ہندکے ڈرپک اردو دان"
اس طرح کے عنوانات پر آنے والی نسلیں سمینار منعقد کرینگی اور ہم
تھوکےگیں۔
|