تنظیم تعاون اسلامی کے وزرائے خارجہ کا غیر معمولی
اجلاس اسلام آباد میں پاکستان کی میزبانی میں منعقد ہوا، جس کا بنیادی مقصد
دفترِ خارجہ کے مطابق افغانستان میں انسانی بحران آنے سے قبل ضروری اقدامات
کرنا بتایا گیا۔ دفتر خارجہ کا کہنا تھا کہ ہم نے کانفرنس میں سلامتی کونسل
کے مستقل اراکین، ورلڈ بینک سمیت دیگر عالمی مالیاتی اداروں کو بھی شریک
ہونے کی دعوت دی۔ خیال رہے کہ او آئی کا دوسرا سربراہی اجلاس اور پاکستان
میں پہلا 22فروری 1974 کو لاہورمیں، جب کہ پہلا غیر معمولی سربراہی اجلاس
23مارچ 1997کو اسلام آباد میں ہوا تھا۔ 1980کے بعد او آئی سی وزرائے خارجہ
کونسل کاپاکستان میں ہوا۔ جو افغانستان میں مستقل و مستحکم قیام امن کے لئے
عالمی برداری سے تعاو ن کا عندیہ دے رہا ہے تو دوسری جانب خطے میں کروڑوں
عوام بدترین تکالیف سے بچنے کی مثبت کوششوں کو مزید بڑھانے پر سنجیدگی کا
اعلیٰ مظاہرے کے منتظر ہیں۔ خیال رہے کہ او آئی سی اقوام متحدہ کے بعد
اقوام عالم کی سب سے بڑی تنظیم ہے جس کے 57 ممالک ممبران اور چار مبصرین
ہیں۔ کانفرنس میں 20ممالک کے وزرائے خارجہ 10نائب وزرائے خارجہ اوردیگر
نمائندوں و مبصرین نے شرکت کی۔ اسلام آباد میں کانفرنس سے مسلم امہ کو
درپیش چیلنج کا متفقہ حل نکالنے کا مثبت پیغام دنیا کو جانا چاہے اور
انسانی ہمدردی کے طور پر عملی اقدامات عالمی برداری کے لئے عمدہ مثال بنے۔
سعودیعرب نے ایک ارب ریال امداد کا اعلان بھی کیا۔ پاکستان نے افغانستان کو
مستقبل میں درپیش مسائل کے حل کے لئے مسلم اکثریتی ممالک میں بانی رکن اور
او آئی سی کے چھ رکنی ایگزیکٹیو کمیٹی کے رکن کے حیثیت سے اپنا فرض ادا
کرتے ہوئے ایک بار پھر او آئی سی کے کردار کو امہ کے اجتماعی آواز کے طور
پر پھیلانے میں اہم کردار ادا کیا۔افغانستان کو موجودہ حالات میں کن مسائل
کا سامنا ہے، اس کے جائزے میں دیکھنا ہوگا کہ کیا او آئی سی اس حوالے سے
حقیقی معنوں میں مثبت و عملی کردار ادا کر پائے گی یا نہیں یہ آنے والا وقت
تعین کرے گا۔
یورپی یونین کی ہائی کمشنر برائے امور داخلہ یلوا جوہانسن کا کہنا تھا کہ
یورپی یونین کے رکن پندرہ ممالک چالیس ہزار افغان مہاجرین کو قبول کریں
گے۔یورپی یونین کے انصاف و وزرائے داخلہ اجلاس کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس
سے خطاب میں جوہانسن نے کہا کہ مذکورہ فیصلہ نہایت متاثر کن اور باہمی
اتحاد کی ایک مثال ہے۔انہوں نے کہا کہ مذکورہ فیصلہ غیر منّظم نقل مکانی کے
سدّباب کے خاطر قانونی اقدامات میں سرمایہ کاری کے لئے بھی ایک اہم قدم کی
حیثیت رکھتا ہے، تاہم انہوں نے اس بارے میں کوئی معلومات فراہم نہیں کیں کہ
40 ہزار افغان مہاجرین کو قبول کرنے والے 15 ممالک کون سے ہیں۔ درحقیقت
افغانستان اس وقت اپنی تاریخ کے نازک دور سے گذر رہا ہے۔ امریکہ اور نیٹو
افواج کی واپسی کے بعد نئے افغانستان کو اس وقت سنگین مشکلات کا سامنا ہے۔
ایک طرف افغانستان میں طویل ترین جنگ کے خاتمے کے بعد امن کے ثمرات نہیں مل
پارہے تو دوسری جانب معاشی طور پر بدحالی عوام کی مشکلات میں اضافے کا سبب
بن رہا ہے۔ افغانیوں کی بڑی تعداد اپنے غیر یقینی مستقبل کے پیش نظر ایسے
ممالکسے آس لگائے بیٹھے ہیں، جو انہیں ایک ایسا معاشی محفوظ مستقبل دے سکے،
جس کے وہ خواب دیکھتے چلے آرہے ہیں ، ان میں بڑی تعداد ایسے ہنر مند اور
تعلیم یافتہ افغانیوں کی ہے جو افغانستان میں امریکی و غیر ملکی افواج کے
سہولت کاری کرتے رہے اور ان کی توقع کے برخلاف قبل ازوقت کابل انتظامیہ کی
تبدیلی سے ان کے سہانے خواب چکنا چور ہوگئے۔
دوحہ میں امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان مفاہمتی عمل معاہدے میں یہ طے
پایا گیا تھا کہ امریکہ، افغان طالبان کے خلاف پابندی ہٹانے میں تعاون کرے
گا لیکن امریکہ کی جانب سے پابندیاں ہٹانا تو ایک طرف بلکہ مزید مالی
پابندیاں عائد کردیں گئیں جس سے نئی افغان حکومت اور عوا م کو پریشانی کا
سامنا ہے۔ کسی بھی ملک میں پائدار امن کے لئے مستحکم یا پھر ترقی پر گامزن
معیشت کا ہونا ضروری ہے۔ انتہا پسندی کے مختلف عناصر میں یہ امر بھی غالب
رہا ہے کہ غربت، تنگ دستی اور معاشی کمزوری سے پریشان حال نوجوان کا رجحان
مذہب اور نظریئے کے مقابلے میں کہیں زیادہ اثر پذیر ہوتا ہے۔ تصور کیا جائے
کہ اگر کوئی ترقی یافتہ مملکت اپنے عوام اور قانون نافذ کرنے والے اداروں
سمیت حکومتی ڈھانچے کی تنخواہیں روک دے تو تمام فلسفے اور شعور کچرے میں
پڑے نظر آئے گا اور بھوک و تنگ دستی کے خلاف بڑی سے بڑی طاقت ور مملکت کے
اداروں میں کام کرنے والے سڑکوں پر نظر آئیں گے۔ ان حالات میں کہ جب امریکہ
جنگ کے لئے کھربوں ڈالر پانی کی طرح بہا رہا تھا اور اُسے ان حالات میں بھی
من پسند نتائج نہیں مل پائے، اب افغانستان میں جنگ کے خاتمے کے بعد کمزور
معاشی مملکت کو انارکی اور خانہ جنگی کی جانب دھیکیلنا کسی بھی جمہوریت
پسند حکومت کو زیب نہیں دیتا۔
امریکہ میں جمہوری نظام سینکڑوں برس سے ارتقائی منازل طے کررہا ہے، عورت کو
ووٹ کا حق نہ دینے سے لے کر نسلی بنیادوں پر انتخابی پالیسیاں آج بھی تنازع
کا شکار ہیں، امریکہ کی پوری جمہوری تاریخ میں کسی بھی خاتون کا صدر امریکہ
نہ بننا، خود ان کے سیاسی و جمہوری نظام پر سوالیہ نشان ہے کہ کیا سینکڑوں
برسوں میں کسی بھی سیاسی جماعت کے پاس اس قابل کوئی خاتون نہیں تھی جسے صدر
امریکہ بنایا جاسکتا۔ موجودہ نائب صدر نے نسلی اور صنفی بنیادوں پر منتخب
ہوکر ایک تواتر سے چلے آنے والے سلسلے کو ختم کرنے میں پہل کی، لیکن اب بھی
یقین سے نہیں کہا جاسکتا کہ امریکی معاشرے میں ڈیمو کریٹس اور ری پبلکن میں
آنے والا صدر کا عہدہ کسی خاتون کو مل سکتا ہے۔امریکہ سمیت یورپی اور مغربی
ممالک میں بھی کوئی ایسی مثال نہیں پائی جاتی کہ اکثریتی جماعت، اپنے امور
مملکت میں مخالف جماعت کے عہدے داروں کو اپنی کرسی کے ساتھ جگہ دے۔ سوئیڈن
کے ادارے انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار ڈیموکریسی اینڈ الیکٹورل اسسٹنس
(انٹرنیشنل آئیڈیا) کی رپورٹ کے مطابق دنیا میں 98 ممالک میں جمہوریت ہے
اور یہ تعداد گزشتہ کئی برسوں کے بعد اپنی کم ترین سطح پر ہے۔ روس، مراکش
اور ترکی سمیت 20 ممالک میں ہائبرڈجمہوریت ہے جبکہ چین، سعودی عرب،
ایتھوپیا اور ایران سمیت 47 ممالک میں مطلق العنان حکومت ہیں۔ رپورٹ کے
اعداد و شمار کے جائزے میں عیاں ہے کہ کسی بھی ملک میں ایسی کوئی بھی اقوام
متحدہ کو تسلیم حکومت نہیں جس نے حزب اختلاف کو اپنے اقتدار نے شریک کیا
ہو، بلکہ صرف ایک جماعت نہیں، کسی بھی ملک کے اندر نسلی اکائیوں کو بھی
شریک کار بنایا گیا ہو۔ افغانستان میں عبوری انتظامیہ حکومت میں ایک امر
ضرور دیکھا جاسکتا ہے کہ نسلی اکائیوں کو بھی عہدے تقویض کئے گئے، ایسی
مثال دنیا کے کسی بھی جمہوری، ہائبرڈ یا مطلق العنان حکومت میں نہیں دیکھی
جاسکتی۔تاہم یہ مطالبہ کیا جانا کہ امریکہ جو کہ شکست کے بعد افغانستان سے
نکلا، وہ اپنے اتحادیوں کو اقتدار میں دیکھنا چاہتا ہے تو اس مطالبے کو
تسلیم کرنا عبث و مضحکہ خیزہے۔
افغانستان میں سب سے بڑا مسئلہ تشدد، خانہ جنگی اور جنگ کا خاتمہ تھا، یہ
ایک دیرینہ مسئلہ تھا، جو قریباََ 98فیصد حل ہوچکا۔ افغانستان میں ایک بار
پھر سوویت یونین کے انخلا کے بعد جیسی صورت حال نہیں اور امریکہ کے جانے کے
بعد جس خانہ جنگی کے امکانات زور و شور سے ظاہر کئے جا رہے تھے، خلاف توقع
ایسا کچھ نہیں ہوا اور پورے افغانستان پر بلا شرکت غیرے امارات اسلامیہ
افغانستان کی عبوری حکومت قائم ہوچکی اور ماسوائے عالمی دہشت گرد تنظیم
داعش خراساں کے علاوہ ایسا کوئی گروپ نہیں جو افغان طالبان کے خلاف لڑ رہا
ہو۔ داعش کی سرپرستی اور انہیں افغان طالبان کے خلاف کون مسلح اور فنڈنگ
کررہا ہے یہ بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں، تاہم اس انتہا پسندی کا رخ پاکستان
کی جانب موڑنے کی کوششیں ظاہر کررہی ہیں کہ خطے میں امن کے بجائے جنگ کے
دائرے کو بتدریج ایک مخصوص اسٹریجک پالیسی کے تحت پھیلایا جارہا ہے، جس کی
زد میں ایران، چین، تائیون اور بھارت آسکتے ہیں، یہ عالمی قوتوں کا ایران
اور چین کو کمزور کرنے کے لئے ایسا منصوبہ بھی قرار دیا جاسکتا ہے، جس کے
اشارے، تائیوان کا آزادی کے نام پر چین سیجنگ، بھارت۔ چین کے درمیان لداخ و
سرحدی تنازع، ایران۔ اسرائیل جھڑپ، روس کا یوکرائن کے معاملے پر طاقت کا
مظاہرہ اور یورپ کے لئے مشکلات پیدا ہونا، وسط ایشیا کے بعض ممالک کا
افغانستان سے تاریخی تنازع، یہاں تک کہ سب سے بڑی اور بھیانک صورت حال
پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر کے معاملے پت ایٹمی جنگ بھی ہوسکتی ہے،
جس کے نتائج سے صرف ایک خطہ نہیں بلکہ پوری دنیا متاثر ہوسکتی ہے۔ عظیم
مشرق وسطیٰ میں کسی بھی وقت عالمی قوتوں کی ایما پر کسی بھی ملک کا طاقت کا
استعمال تیسری عالمی جنگ کے امکانات کو بڑھانے کا سبب بن سکتی ہے۔
خطے میں موجود غیر یقینی صورت حال اور مستقبل کو درپیش خطرات کے پیش نظر
یورپ اور امریکہ کو غور کرنا ناگزیر ہے کہ 20برس کی لاحاصل جنگ کے بعد
افغانیوں کی بڑی تعداد کو اپنے ساتھ لے جانا، انہیں ایسی جگہ رکھنا جہاں
انہیں نقل و حرکت کی آزادی نہ ہو، امیگریشن قوانین کے مطابق ان کے مستقبل
کا فیصلہ کرنا اور صرف چند ہزار افغانیوں کو یورپ کے 15ممالک کی جانب سے
پناہ دینے جانے کا ’اعلان‘ ناکافی ہے۔ اس وقت افغانستان میں ڈھائی کروڑ سے
زائد افغانیوں کو خوراک کی کمی کا مسئلہ درپیش ہے، ایک انسانی المیہ جنم لے
چکا ہے۔عالمی ادارہ خوراک کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ڈیوڈ بیسلے نے اس صورتحال
پر جوتجزیہ پیش کیا وہ تشویش ناک ہے۔ ڈیوڈ نے کہا کہ 'یہ(صورت حال) اتنی
خراب ہے جتنی کہ آپ تصور کر سکتے ہیں۔ درحقیقت ہم زمین پر بدترین انسانی
المیے کا سامنا کر رہے ہیں۔'اُن کا مزیدکہنا تھا کہ '95 فیصد لوگوں کے پاس
کافی خوراک نہیں ہے اور اب ہمارے سامنے دو کروڑ 30 لاکھ کے قریب افراد ہیں
جو قحط کا شکار ہونے والے ہیں۔اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ آنے والے
مہینوں میں افغانستان میں ایک ملین بچے بھوک سے مر سکتے ہیں۔ اگلے چھ مہینے
آفت کی طرح ہوں گی۔ یہ زمین پر جہنم ہوں گے۔' صحت عامہ کی صورت حال بھی بڑی
تشویش ناک ہے۔ ڈبلیو ایچ او کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروس ادھانوم گیبریئس اور
مشرقی بحیرہ روم کے لیے عالمی ادارہ صحت کے علاقائی ڈائریکٹر احمد المدھاری
کا کہنا ہے کہ صحت کے عالمی ادارے کو یہ موقع ملا کہ وہ افغان عوام کی فوری
ضروریات کا جائزہ لے سکے اور متعلقہ عہدے داروں سے مل کر یہ تعین کر سکے کہ
ڈبلیو ایچ او کس طرح ان کی مدد کر سکتا ہے۔ ٹیڈروس کے مطابق ملک کے صحت کی
دیکھ بھال کے سب سے بڑے منصوبے، 'صحت مندی پراجیکٹ' کے لیے بین الاقوامی
عطیات دہندگان کی مدد میں کمی سے ہزاروں افراد کے لیے صحت کی سہولیات، طبی
ساز و سامان اور صحت کے عملے کی تنخواہوں کے مالی وسائل کو دھچکا لگا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ 'صحت مندی پراجیکٹ' کی صحت کی سہولیات کا صرف 17
فیصد کلی فعال ہے۔ انہوں نے کہا کہ بہت سے شعبوں نے اب اپنی سرگرمیاں محدود
یا بند کر دی ہیں، '' علاج معالجہ کرنے والا طبی عملہ فنڈز کی کمی کے باعث
یہ فیصلے کرنے پر مجبور ہو گیا ہے کہ کس کا علاج کرنا ہے اور کس کو دوا کے
بغیر مرنے کے لیے چھوڑ دینا ہے۔ اقوام متحدہ کے بچوں کی بہبود کے ادارے
یونیسیف کے مطابق افغانستان میں 40 لاکھ سے زائد بچے اسکولوں سے باہر ہیں،
جن میں لڑکیاں سب سے زیادہ ہیں۔اقوام متحدہ کے ادارے نے یہ بھی کہا کہ اس
نے گزشتہ تین مہینوں میں 142,700 افغان بچوں کو تعلیم دینے کے لیے مدد
فراہم کی ہے۔یونیسیف کے مطابق انہوں نے 5,350 کمیونٹی پر مبنی تعلیمی
کلاسوں کی مدد کی جو پورے افغانستان میں 142,700 سے زیادہ بچوں کے لیے
تعلیم کے حصول کو یقینی بناتی ہے۔ ابھی مزید کام کرنے کی ضرورت ہے،''۔
اقوام متحدہ، امریکہ، یورپ، مغربی سمیت مسلم اکثریتی ممالک کو اب یہ فیصلہ
کرنا ہوگا کہ افغانستان میں انسانی ہمدردی کے بنیاد پر قحط سے لاکھوں
انسانوں کو ہلاک ہونے دیا جائے یا پھر ان کی مدد کے لئے حقیقی معنوں میں
اقدامات کئے جائیں۔ خواتین و بچوں کے حقوق کے نام پر مغرب اور ایسے ممالک
جنہوں نے افغانستان پر چڑھائی کرکے تین نسلوں کو برباد ہونے دیا، کیا ان کے
امدادی فنڈز روک کر خدمتکرے گی یا پھر معاشی جنگ لاکھوں انسانوں کی ہلاکت
پر اختتام پزیر ہوگی، آج یورپ 45ہزار افغان مہاجرین کو 15ممالک میں تقسیم
کرنے میں مہینے بلکہ برسوں لگارہا ہے لیکن یہ پہلو کیوں نظر انداز کررہے
ہیں کہ چار دہائیوں کی جنگ میں لاکھوں افغان مہاجرین، پاکستان، ایران میں
پناہ گزیں ہیں اور یہ ایسے ممالک ہیں جنہیں عالمی قوتوں کے فروعی مفادات کا
سامنا ہے۔ اگر افغانستان میں قحط کا بحران خدانکردہ بڑھا تو اس کا بوجھ کیا
پڑوسی ممالک اٹھانے کے متحمل ہوسکتے ہیں، جو پہلے ہی عالمی قوتوں کی وجہ سے
بدترین معاشی صورت حال کا شکار ہیں، سیاسی عدم استحکام نے ان ممالک میں
گھیر رکھا ہے اور دیرینہ دشمن ملک ہر لمحے جنگ اور حملے کی دھمکیاں دیتے
رہتے ہیں۔ او آئی سی کا غیر معمولی اجلاس منعقد ہوچکا ہے، اب دیکھنا یہ ہے
کہ مسلم اکثریتی ممالک عالمی برداری کو کس طرح افغان عوام کے لئے امداد پر
اپنی ذمے داری پوری کر پائے گی یا پھر نشستن، گفتن و برخاستن۔۔ |