مودی جی کی تفریح کا وقت رات 8؍ بجے کا ہے ۔ وہ اس شبھ
مہورت میں ٹیلی ویژن پر نمودار ہوکرنوٹ بندی کا اعلان فرما دیتے ہیں ۔ اس
کے ساتھ ہی پوری قوم مصیبت میں گرفتار ہوجاتی ہے ۔ کئی لوگ اپنا ہی روپیہ
حاصل کرنے کے لیے بنکوں کے سامنے قطار میں جان دے دیتے ہیں ۔ اس پر مودی جی
فرماتے ہیں مجھے 100دن کا وقت دیجیے اور اگر میں ناکام ہوجاوں تو کسی بھی
چوراہے پر پھانسی لٹکا دیجیے ۔ اس موقع پر مگر مچھ کے آنسو بہاکر مودی جی
یہ بھی کہتے ہیں کہ میرا کیا ہے جھولا اٹھاوں گا اور چل دوں گا۔ نوٹ بندی
کی ناکامی کو 100 دن گزر گئے ، ہزار دن گز ر گئے بلکہ اب تو دو ہزار دن بھی
گزر گئے مگر پھانسی تو دور مودی جی جھولا اٹھاکربھی نہیں گئے بلکہ جھولا ہی
غائب ہوگیا ۔ ممکن ہے کسی چوراہے پر سولی سے لٹکا ہوا ہو۔ ان کے چہیتے وزیر
مملکت برائے داخلہ اجئے مشرا ٹینی نے بھی اپنے آدرش رہنما کے نقشِ قدم پر
یہ اعلان کیا تھا کہ اگر میرا بیٹا آشیش مشرا جائے وارادات پر پایا گیا تو
استعفیٰ دے دوں گا۔ بی جے پی سرکار کی تشکیل شدہ ایس آئی ٹی نے موجودگی کے
ثبوت پیش کردیئے۔ اب پارٹی کہہ رہی ہے ’بیٹے کے غلطی کی سزا باپ کو نہیں مل
سکتی‘ ۔ وزیر اعظم نے نوٹ بندی کرکے جو غلطی کی اگر اس کی سزا پوری قوم
بھگت سکتی ہےتو آشیش کی سزا اجئے کو کیوں نہیں ملے گی ؟
ایس آئی ٹی نے جس وقت دہلی کے اندر سپریم کورٹ میں اپنی اترپردیش کی یہ
رپورٹ پیش کی وزیر اعظم یوپی میں سارے زعفرانی وزرائے اعلیٰ کے ساتھ اپنا
دربار لگائے بیٹھے تھے۔ اس سے قبل انہوں نے کاشی وشوناتھ کاریڈور کے افتتاح
میں حصہ لے کر خوب کرم کانڈ کیا ۔ اپنے پرانے پاپ دھونے کے لیے گنگا ندی
میں ڈبکی لگائی اور پھر فرقہ واریت کا زہر گھولنا شروع کر دیا۔ بی جے پی
عرصۂ دراز تک بابر کو بدنام کرکے اپنی سیاسی دوکان چمکاتی رہی۔ لوگ جب اس
کو سنتے سنتے پک گئے تو مودی جی اورنگ زیب کو لے آئے اور ان کے تعلق سے
غلط سلط باتیں پھیلانے لگے ۔ انہوں نے پہلے تو اورنگ زیب کے سامنے شیواجی
کو اور سالار مسعود کے آگے راجہ سہیل دیو کو کھڑا کرنے کی کوشش کی۔ اس کے
بعد وارین ہیسٹنگ کا ذکر کیا لیکن اس کے مقابلے کون کھڑا ہوا تھا؟ کس نے
اسے شکست دے کر جیل بھیج دیا تھا اس کا نام نہیں لیا کیونکہ وہ سراج الدولہ
تھے ۔ جنگ بکسر میں اس کا مقابلہ کرنے والے میرقاسم کو بھی وہ بھول گئے ۔
صحیح بات تو یہ ہے کہ کاشی کے لوگوں کو وہ جس وارین ہیسٹنگ کی یاد دلارہے
تھے وہ تو وہاں آیا بھی نہیں تھا ۔
وزیر اعظم نے اورنگ زیب کی زیادتی کا ذکر کیا لیکن اگر کوئی عبادت گاہ
بغاوت کی آماجگاہ بن جائے تو موجودہ دور میں بھی اسے نقصان پہنچایا جاتا
مثلاً 1984 میں کولڈن ٹیمپل یا 1995چرارِ شریف کی مثالیں بہت پرانی نہیں
ہیں ۔ انگریز مورخ اوڈری ٹروشکے کا حوالہ عام طور پر دیا جاتا ہے لیکن اس
نے یہ بھی لکھا ہے کہ اورنگ زیب نے برہمنوں کو تحفظ فراہم کیا اور انہیں
مندر بنانے کے لیے زمین کا عطیہ دیا ۔ 1659میں اسی وارانسی شہر میں اورنگ
زیب شہری انتظامیہ کو مندر کے معاملات میں مداخلت سے روکا۔ 1680 بھگونت
گوسائن کو تحفظ فراہم کیا۔ 1687 میں گھاٹ کی غیر استعمال شدہ زمین رام جیون
گوسائن کو دی تاکہ وہ اس پر برہمنوں اور فقیروں کے لیے گھر تعمیر کروائیں ۔
شیوا کے ماننے والے جنگم فرقہ کی جو زمین دوسروں نے ہڑپ کرلی تھی اسے ان کو
دوبارہ دلوائی کسی گوگوئی سے غیر منصفانہ فیصلہ نہیں کروایا۔اپنی رعایا کے
معاملے میں اورنگ زیب کا معاملہ ویسا نہیں تھا جیسا گرو گرام میں مسلمانوں
کی نماز کے حوالے سے مودی جی کی بے حسی شتر مرغ کی مانند نہیں تھی ۔ اکبر
کے بارے میں مشہور ہے کہ ان کے دربار میں غیر مسلم وزراء کی بڑی تعداد تھی
مگر وہ بھی صرف 22.5 فیصد تھی جبکہ اورنگ زیب کے دربار میں تعداد بڑھ کر
31.6 فیصد ہوگئی تھی۔ اب ذرا مودی جی اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھیں تو
یہ تعداد صرف 1.28 فیصد بنتی ہے۔ مودی جی اورنگ زیب کا ذکر کرکے خود اپنے
پیر پر کلہاڑی چلائی ہے لیکن بیچارے بھگت کیا جانیں کہ اصل تاریخ کیا ہے؟
ایک سوال یہ ہے کہ مودی جی کو آخر تاریخ کے گڑے مردے اکھاڑ کر مختلف قسم
کی دشنام طرازی کرنے ضرورت کیوں پیش آئی؟ اس کی پہلی وجہ فرقہ واریت کی
بنیاد عوام کے بنیادی مسائل سے توجہ ہٹا کر ان کو بیوقوف بنانا اور ووٹ
حاصل کرنا ہے۔ کوئی جماعت اگر حزب اختلاف میں ہوتو اسے اس کی ضرورت نہیں
پڑتی مگر ایک ناکام ترین ڈبل انجن سرکار کے لیے اپنی ناکا میوں پر پردہ
ڈالنے کی خاطر اس کے سوا چارۂ کار ہی کیا ہے؟ دوسرا اہم ترین مسئلہ یہ ہے
فی الحال اورنگ زیب اور شیواجی تو موجود نہیں ہیں لیکن جن پنگ اور مودی
آمنے سامنے ہیں ۔ اس لیے یہ اہم نہیں ہے کہ اورنگ زیب کے خلاف شیواجی نے
کیا کیا تھا بلکہ اہمیت کا حامل یہ سوال ہے کہ چین کے مقابلے کھڑے ہونے کی
جرأت مودی جی کیوں نہیں دکھاتے؟ عوام تو ان لال آنکھوں کو دیکھنے کے لیے
ترس گئے ہیں جن سے مودی جی چین کو ڈرانا چاہتے تھے ۔ وزیر اعظم کو چاہیے کہ
ماضی کے تصورات سے نکل کر حال اور مستقبل کے بارے میں بتائیں کہ وہ چین کی
آئے دن ہونے والی دراندازی کو روکنے کے لیے کیا کررہے ہیں؟
مشیت ایزدی کا معاملہ بھی بہت دلچسپ ہے ۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے جس دن
کاشی وشوناتھ کوریڈور کا افتتاح کرتے ہوئے اورنگ زیب پر کیچڑ اچھالنے کی
کوشش کی قدرت نے خود ان کے سامنے آئینہ رکھ دیا اور وہ بھی ایسا جامِ
جمشید کہ اس میں ساری دنیا نے ان کی داغدار چہرہ دیکھ لیا۔ مودی نے اورنگ
زیب بہتان تراشی کرتےہوئے کہاکہ انہوں نے تلوار کی نوک سے تہذیب وثقافت کو
بدلنے اور کچلنے کی کوشش کی تھی۔ مودی جی کی تقریر جس دن اخبارات کی زینت
بنی اسی دن خود بی جے پی کے تحت کام کرنے والی ایس آئی ٹی نے لکھیم پور
قتل عام کی رپورٹ شائع کردی ۔ اس میں شواہد کی بنیاد پر یہ دعویٰ کیا گیا
کہ وہاں ایک جانی بوجھی سازش کے تحت مرکزی وزیر مملکت اجئے مشرا کے بیٹے نے
اپنی گاڑی سے بے قصور کسانوں کو کچل دیا تھا۔ ان کسانوں کا قصور صرف یہ تھا
کہ وہ وزیر موصوف کی توہین آمیز دھمکی کے خلاف نائب وزیر اعلیٰ کے سامنے
اپنا احتجاج درج کروانا چاہتے تھے ۔ والد کے خلاف اٹھنے والی انصاف کی
آواز کوکچلنے کے لیے وزیر کے بیٹے نے گھر لوٹتے کسانوں پر پیچھے سےگاڑی
چلا دی ۔ یہ وزیر چونکہ مودی جی کا درباری ہے اورپچھلے دوماہ میں انہوں نے
اس کی سرزنش نہیں کی اس لیے وزیر اعظم خود بھی اس جرم شریک ہیں ۔ ماضی کے
قصے کہانیاں بیان کرنے کے بجائے مودی جی کو اپنے گریبان میں جھانک کر
دیکھنا چاہیے اور وہ دیکھیں نہ دیکھیں پبلک تو سب دیکھ رہی ہے اورامید ہے
انہیں سبق سکھائے گی۔
بھارتیہ جنتا پارٹی ’چال چرتراور چہرے‘ کی بات بہت کرتی ہے ۔ اس کا اصلی
چہرا تو اجئے مشرا ٹینی نے بے نقاب کردیا۔ کسان تحریک کے دوران وزیر مملکت
برائے امورِ داخلہ اجئے مشرا نے کسانوں کو دھمکی دیتے ہوئے کہا تھا کہ اگر
ہم گاڑی سے اتر جاتے تو انہیں بھاگنے کا راستہ نہیں ملتا لیکن ایسا لگتا ہے
کہ اب ان کے وزارت کی کرسی سے اترنے کا وقت قریب آلگا ہے۔ وزیر موصوف کو
بھی اس کا احساس ہوچکا ہے اس لیے ایس آئی ٹی کی رپورٹ کے بعد ایک سرکاری
تقریب میں جب ان سےصحافیوں نے لکھیم پور تشدد معاملہ پر سوال کیاتو وہ
کیمرے کے سامنے آپاکھو بیٹھے ۔ اجئے مشرانے ناراض ہوکر میڈیا اہلکاروں کے
ساتھ نہ صرف بدزبانی یعنی گالی گلوچ کی بلکہ مارنے کے لیے بھی دوڑ پڑے ۔
ایک صحافی کو مغلظات سے نوازنے کے بعد وہ اپنے قاتل بیٹے کی صفائی میں
بولےکہ میڈیا والوں نے ایک بے قصور آدمی کو پھنسایا ہے۔ ان کوشرم نہیں
آتی یہ کتنے گندے لوگ ہیں۔ وزیر موصوف نے گودی میڈیا کو چور کہہ کر اس کی
اوقات بتا دی۔
ایک طرف سپریم کورٹ کی نگرانی میں کام کرنے والی ایس آئی ٹی آشیش مشرا کو
قاتل مانتی ہے اور دوسری جانب مودی جی کے یہ وزیر اس کو بے قصور بتاتے ہیں
اب لوگ کس کی مانیں؟ اجئے مشرا کی بدمعاشیوں سے قطع نظر وہ مبارکباد کے
مستحق ہیں کیونکہ انہوں نے بی جے پی کا اصلی ’چال چرتر اور چہرا‘ ساری دنیا
کے سامنے پیش کردیا ہے۔ وہ چہرا جس کو گنگا جل میں دھو دھا کر بہت خوشنما
بنانے کے بعد ٹیلی ویژن پر پیش کیا جارہا تھا۔ اجئے مشرا کو اس حرکت کے بعد
دہلی طلب کیا گیا جس سے کئی لوگ اس خوش فہمی کا شکارہو گئے کہ سرکار دربار
ان کو وزارت سے ہٹا کر اپنی شبیہ درست کرلے گا لیکن ایسے لوگوں کے ہاتھ
مایوسی آئی۔ اجئے مشرا چونکہ بی جے پی کی ناک کا مسئلہ بن گئے ہیں اس لیے
وہ انہیں بچانے کی حتی الامکان کوشش کررہی ہے لیکن اس میں کامیابی بہت مشکل
ہے۔ مشرا جی اپنی پارٹی کو زبان ِ حال سے یہ کہہ رہے ہیں کہ ’’ہم تو ڈوبے
ہیں صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے‘‘
(۰۰۰۰۰۰۰جاری)
|