ادھ کھلا گلاب کا پھول

حافظ محمد مظفرمحسن کی ایک تصنیف ”ادھ کھلا گلاب“زیر مطالعہ ہے جب میں نے کتاب کا ٹائٹل پڑھا تو مجھے لگا کہ حافظ صاحب نے کوئی اپنے اوپر ہی پوری کتاب لکھ دی ہے کیونکہ حافظ صاحب ایسی انوکھی اور مزاحیہ تحریریں لکھتے رہتے ہیں ان سے ایسا بعید بھی نہیں تھا کہ اپنے گلابی گالوں کی وجہ سے کتاب کا عنوان ہی ادھ کھلا گلاب رکھ دیا لیکن ان کا چہرہ تو پورا گلاب ہوتا ہے ادھ کھلا نہیں ہوتا ،اس لئے اپنے خیال کی تردید کرتے ہوئے قیاس کرنے لگا کہ شاید حافظ صاحب نے کسی حسینہ دلربا کو دیکھ کر کوئی رومانٹک ناول لکھ دیا ہوگا کہ جس میں کسی حسینہ کی بالوں کی لٹ اس کے خوبصورت چہرے پر آرہی ہوگی اور اس کے آدھے چہرے کو ڈھانپ رکھا ہو گا اور حافظ صاحب نے اسے ادھ کھلے گلاب سے تشبیہ دیتے ہوئے پوری کتاب لکھ دی ہو لیکن یہ عقدہ بعد میں کھلا کہ مظفر محسن صاحب نے اس کتاب کا نام ادھ کھلا گلاب کیوں رکھاوہ اس لیے کہ آپ جب اس کتاب کا مطالعہ کریں تو طنزومزاح سے آپ کے چہرے پر شفق کے سے رنگ پھیلتے چلے جاتے ہیں آپ نہ چاہتے ہوئے بھی مسکرا دیتے ہیں اور دبی دبی سی ہنسی نکل جاتی ہے اور کسی وقت ایسا ہوتا ہے کہ آپ مطالعہ کر رہے ہوتے ہیں اور کوئی سنجیدہ مزاح کا پتہ پوری تحریر پڑھنے کے بعدچلتا ہے تو اس وقت جب آپ ہنسی روکنے کی ناکام سی کوشش کرتے ہیں تو چہرے پہ لالگی سی آجاتی ہے اور چہرے کا رنگ ہلکا سا گلابی سا ہو جاتا ہے شاید اسی وجہ سے مظفر محسن صاحب نے اپنی اس تصنیف کا نام ادھ کھلا گلاب رکھا ہو یہ توہیں ہماری قیاس آرائیاں،اصل بات تو حافظ صاحب کو پتا ہو گی کہ اپنی تصنیف کا نام ادھ کھلا گلاب کیوں رکھا ہے وہ ہم جس دن ان سے ملیں گے تو پوچھیں گے ضرور،لیکن آپ کو نہیں بتائیں گے کیونکہ یہ بات حافظ صاحب خود اپنے قارئین کو بتائیں گے۔

جہاں تک حافظ مظفر محسن صاحب کا اور میرے تعلق کی بات ہے تو یہ تعلق کافی پرانا ہے یہ بات پڑھ کر ایک بار تو حافظ صاحب بھی حیران ہو رہے ہوں گے کہ میرا ان سے تعلق کب ہوا جو پرانا بھی ہو گیاکہ ابھی تک ایک بار بھی ملاقات نہیں ہوئی ،حافظ صاحب پریشان نہ ہوں آپ کو تجسس اور سسپنس سے نکال لیتے ہیں کہ میں آپ کی تحریریں بڑی شوق سے پڑھتا ہوں اور آپ کا فین بھی ہوں لیکن آپ کو ابھی تک بتایا اس لئے نہیں تھا کہ کہیں آپ اور پھول نہ جائیں ،چونکہ ہمیں آپ کی صحت عزیز تھی اس لیے آج تک یہ بات آپ کو بتانے کی زحمت نہیں کی تھی آج بتا دیا ہے تواب صرف خوش ہونا ،خوشی سے سوجھ ہی نہ جانا کیونکہ زیادہ پھولنا آپ کی صحت کے لئے نقصان دہ ہے ۔

حافظ صاحب کی یہ تصنیف ہم پڑھ بھی رہے ہیں ہنس بھی رہے ہیں اور اپنے علم میں اضافہ بھی کر رہے ہیں حافظ صاحب نے اپنی کتاب کے شروع میں جو ”ادھ کھلاگلاب“کے بارے لکھا ہے وہ آپ بھی پڑھیں
ادھ کھلا گلاب کا پھول
ہاتھ میں تھمایا جب
ناک سے لگایا جب
زندگی حسیں لگی
بہت دلنشیں لگی
ادھ کھلا گلاب مجھے
دے کے اس نے فرمایا
مفت یہ نہیں آیا
دے کہ اک پچاس کا نوٹ
پہلے مجھ کو فارغ کر
بعد میرے جانے کے
ناک سے لگا لینا
چاہے دل تیرا گر
ناک میں گھسا لینا
ادھ کھلا گلاب کا پھول
AbdulMajid Malik
About the Author: AbdulMajid Malik Read More Articles by AbdulMajid Malik: 171 Articles with 186818 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.