9؍ نومبر 2019 ہندوستانی تاریخ کا وہ تاریک ترین دن ہے جب
عدالت عظمیٰ کے ججوں نے بابری مسجد سے متعلق ایک نہایت نامعقول فیصلہ دے کر
جشن منایا ۔ اس غیر منصفانہ فیصلے نے ایودھیا کو لوگوں کی توجہ کا مرکز اور
بدعنوانی کا اڈہ بنا دیا ۔ اس کے بعد ایک بھومافیا( زمین ہتھیانے والا مجرم
پیشہ گروہ) عالم وجود میں آگیا جو مرکزی اور ریاستی حکومت کی سرپرستی سے
سرفراز تھا۔ اس میں مقامی ارکان اسمبلی ، سرکاری افسرا ن اوران کے قریبی
رشتے داروں کی بڑی تعداد شامل ہے۔ اس بابت موقر انگریزی اخبار انڈین
ایکسپریس کی تحقیقات نے پورے ملک کو حیرت زدہ کردیا ہے ۔ ایسا محسوس ہوتا
ہے گویا ایودھیا میں سرکاری اہلکاروں اور بی جے پی رہنماوں کے درمیان زیادہ
سے زیادہ زمین خریدنے کی خاطر مسابقت چل رہی ہے۔ یہ سب باہر کے لوگ ہیں اور
اپنی عمر کا آخری حصہ مجوزہ رام مندر کے 5 کلومیٹر کے دائرے میں گزارنا
چاہتے ہیں لیکن سچائی یہ ہے کہ یہ جعلی رام بھکت وہاں دوکان اور ہوٹل بناکر
اپنی کمائی کا ذریعہ بنانا چاہتے ہیں ۔ ایسے میں برسوں سے وہاں آباد مقامی
لوگ اور سنت مہاتما کہاں جائیں گے ؟
بابری مسجد کی زمین چھین کا بنائے جانے والے مندر نے اپنی تعمیر سے قبل ہی
جبر و استحصال کا بازار گرم کردیا ہے اور اس بار اس کا شکار وہ لوگ ہورہے
ہیں جنہوں نے رام مندر کی تحریک میں اپنا خون پسینہ ایک کیا تھا۔ ان میں سے
ایک رام مندر کے لیے اپنا بچپن سے لے کر جوانی تک کھپا نے والا سنتوش دوبے
بھی ہے جس نے دوران نہ صرف چار گولیاں کھائیں بلکہ کئی ہڈیاں تک
تڑوائیں۔ایودھیا میں امسال جولائی میں ایک رام بھگت سنتوش دوبے نےر ام نام
کی لوٹ پر لگام لگانے کے لیے عدالت سے گہار لگائی ۔ رام مندر ٹرسٹ پر مقدمہ
درج کروانے وا لے اس بابری مسجد انہدام کا یہ ملزم کے مطابق اس کی بھی
خواہش ہے کہ رام مندر بہت بڑھیا طریقے سے بنے ۔ اس کے خیال میں رام جنم
بھومی مندر کے لیے ملنے والی 70 ایکڑ زمین کافی ہے۔ اس کے لیے ایودھیا کی
قدیم اہمیت والے فقیرے رام مندرکو نہ یں توڑا جانا چاہیئے کیونکہ وہاں بن
باس سے قبل رام، سیتا اور لکشمن نے اپنے کپڑے بدلے تھے۔ اس تاریخی مندر کے
انہدام کو روکنے کے لیے عدالت سے رجوع کیا گیا ہے۔ سنتوش دوبے نے الزام
لگایا ہے کہ اس ٹرسٹ میں بیٹھے بے لگام لوگ پیسے کے لیے کسی بھی حد تک جا
سکتے تھے۔ رام نام کی لوٹ مچی ہوئی ہے، اس لیے عدالت جانا اس کی مجبوری
تھی۔ ایک رام بھکت یہ سنگین الزام لگا رہا ہے تو عام آدمی کیا سوچ رہا
ہوگا یہ جاننا مشکل نہیں ہے۔
یہ مقدمہ وراجمان بھگوان اور ان کے نزدیکی دوست سنتوش دوبےو سوامی
اویمکتیشورانند کی طرف سے داخل کیا گیا تھا۔ اس میں نہ صرف اس ملکیت کو
فروخت کرنے والے رگھوور شرن کی ملکیت کے اختیار کو چیلنج پیش کیا گیا بلکہ
زمین کی رجسٹری رد کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا ۔ اسی کے ساتھ ملک بھر میں
مندر کی زمین پر ریسیور مقرر کرنے اور مندر کو نقصان نہ پہنچانے کے علاوہ
مندر میں روزانہ ’بھوگ راگ‘ جاری رکھنے کی بات کہی گئی تھی۔ یہ کمبخت اگر
بابری مسجد کی شہادت میں شریک نہ ہوتا تو آج اس کا اپنا مندر نہیں ٹوٹتا
لیکن یہ اپنے کیے کی سزا بھگت رہا ہے۔ رام مندر ٹرسٹ کے خلاف وہی سب باتیں
کررہا ہے جو کبھی بابری مسجد کے تعلق سے کہاکرتا تھا ۔ رام مندر احاطہ سے
ملحق قدیم فقیرے رام مندر کی زمین کو ٹرسٹ نے 27 مارچ 2021 کو خریدا تھا۔
فیض آباد سول جج سینئر ڈویژن کورٹ نے ملکیت کو فروخت کرنے والے رگھوور شرن
اور رام مندر ٹرسٹ کے سکریٹری چمپت رائے کو نوٹس جاری کر جواب طلب کیا تھا
مگر پھر معاملہ سرد خانے میں چلا گیا کیونکہ عدالت عظمیٰ اور سی بی آئی کی
عدالت کےیکے بعد دیگرے دو غیر منصفانہ فیصلوں کو دیکھ کر کون جج سرکار کو
ناراض کرنے کی جرأت کرسکتا ہے؟
اندین ایکسپریس کی رپورٹ چیخ چیخ کر کہہ رہی ہے کہ عدالت کی سرد مہری اور
حکومت کی سرپرستی سے ترغیب لے کر مقامی ارکان اسمبلی اور میئر کے علاوہ
ریاستی او بی سی کمیشن کے ایک رکن نے بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کی کوشش
کی ۔ ان سے حوصلہ پاکر ڈویژنل کمشنر، سب ڈویژنل مجسٹریٹ، ڈپٹی انسپکٹر جنرل
آف پولیس، سرکل آفیسر آف پولیس، اسٹیٹ انفارمیشن کمشنر کے رشتہ داروں نے
بھی بدعنوانی کی گنگا میں ڈبکی لگا کر رام کی گنگا کو اور بھی میلا کردیا ۔
مزے کی بات یہ ریاستی سرکار منظر عام پر آنے والے ان 14 معاملات میں زمین
کی خریداری کے مبینہ بے ضابطگیوں کی جانچ انہی افسران کے ذریعہ کروا رہی ہے
جن کے رشتہ داروں نے زمین خریدی ہے۔ ایسے میں اگر سیاںّ کو ہی کوتوال بنا
دیا جائے تو بھلا تحقیقات کے ناٹک سے کیا نکل کر آئے گا؟ اس لیے پرینکا
گاندھی کے ذریعہ عدالت کی نگرانی میں تفتیش یا مایاوتی کے ذریعہ سارے سودے
رد کردیئے جانے کا مطالبہ درست معلوم ہوتا ہے لیکن یوگی سرکار سے اس کی
توقع کرنا دن دہاڑے تارے دیکھنے کے مترادف ہے ۔
اس معاملے میں ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مہارشی رامائن ودیاپیٹھ ٹرسٹ
(ایم آر وی ٹی) میں دلتوں سے زمین خرید نے سے بھی گریز نہیں کیا گیا جبکہ
یہ قانون کی خلاف ورزی ہے ۔ کوئی غیر دلت ان کی زمین نہیں لے سکتا۔ مہارشی
رامائن ودیاپیٹھ ٹرسٹ پر الزام ہے کہ اس نے دلتوں کی زمین اپنے دلت دلالوں
کی مدد سے خرید کر اسے ٹرسٹ کو عطیہ کروا دیا۔ یہ معاملہ یہیں نہیں رکا
بلکہ پھر یہی زمین کواہلکاروں نے اپنے رشتہ داروں کے نام پر خریدی لی۔ اس
طرح گویا کوئلے کی دلالی میں ٹرسٹ کے بھی ہاتھ کیا بلکہ منہ کالا ہوگیا ۔
زمین خریدنے والے بی جے پی کے دو ارکان اسمبلی میں سے ایک کی رکنیت کا
منسوخ کر دیا جانا اعترافِ جرم ہے۔مہارشی رامائن ودیاپیٹھ ٹرسٹ اس قدر دور
اندیش ہے کہ اس نے 1990 اور 1996 کے درمیان ہی اندازہ لگا لیا تھا کہ یہ
سونے کے انڈے دینے والی مرغی ہے اس لیے ضابطوں اورقانون کو طاق پر رکھ کر
بڑے پیمانے پر زمینوں کے کئی پلاٹ خرید لیے۔ اس کی خاطر ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ سے
اجازت لینے کے بجائے اپنا جگاڑ لگا یا اور رجسٹری کی خاطر سرکاری خزانے میں
جانے والی رقم بھی چرا لی ۔
رام کے نام سے منسوب ایودھیا کے اندر سرکار دربار کے لوگوں کی دلیری کا یہ
عالم ہے کہ زمین بیچنے والا دلت مہادیو اور اس کے ساتھیوں کی ریونیو بورڈ
لکھنؤ سے شکایت بھی انہیں بدعنوانی سے نہیں روک سکی۔ مہا دیو مہارشی
رامائن ودیا پیٹھ ٹرسٹ پر الزام لگایا ہے کہ اس نے غیر قانونی طور پر یہ
زمین اپنے نام منتقل کرلی۔اس شکایت کے بعد فیض آباد کے ایڈیشنل کمشنر شیو
پوجن اور ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ گوری لال شکلا کی ہدایت پر ایک تحقیقاتی
کمیٹی بھی تشکیل دی گئی۔ اس کمیٹی کو ایودھیا کے موجودہ کمشنر ایم پی
اگروال نے 2021 میں منظوری بھی دی اس کے باوجود سرکاری افسران کے رشتہ
داروں کو ٹرسٹ کی زمین خریدنے میں ہچکچاہٹ نہیں ہوئی ۔ تحقیقاتی کمیٹی کو
منظوری دینے والے کمشنر ایم پی اگروال کے سسر کیشو پرساد اور بہنوئی آنند
وردھن اس سودے بازی میں شامل ہیں ۔ چیف ریونیو آفیسر پرشوتم داس گپتا جن
کو اس پر کارروائی کرنی چاہیے ان کی سالی ترپتی گپتا بھی ملوث ہے۔ پولس ڈی
آئی جی دیپک کمار جنہیں ملزمین کو گرفتار کرنا چاہیے ان کی سالی مہیما
ٹھاکر کے نام سے بھی زمین خریدی گئی ہے ۔ یہاں تک کہ ایودھیا میں ایس ڈی
ایم اور ایڈیشنل مجسٹریٹ آیوش چودھری کی ام زاد شوبھیتا رانی نے بھی زمین
خریدی ہے ۔اس حمام میں گویا ہر کوئی برہنہ ہے ۔ یہ حسنِ اتفاق ہے کہ بی جے
پی کے پاپ کا گھڑا ایک ایسے وقت میں بیچ چوراہے پر پھوٹ گیا ہے جب کہ وہ
رام مندر کے نام پر اگلا الیکشن جیتنے کا خواب دیکھ رہی تھی۔ اب دیکھنا یہ
ہے کہ وہ کس منہ سے رام مندر کے نام پر ووٹ مانگتی ہے ؟ |