عالمی منظر نامے میں چین جہاں معاشی اعتبار سے ایک مضبوط
ترین قوت میں ڈھل چکا ہے وہاں سائنس و ٹیکنالوجی اور اختراعی صلاحیتوں کے
لحاظ سے بھی دنیا کی تیزی سے ابھرتی ہوئی طاقت بن چکا ہے۔عالمی تنظیم برائے
حقوق دانش کے اعداد و شمار بھی چین کی اختراع کے عکاس ہیں۔تنظیم کی جانب سے
" گلوبل انوویشن انڈیکس 2021 " کے مطابق چین کی جامع جدت طرازی کی صلاحیت
2020 کی نسبت 2 درجے کی ترقی سے اب 12ویں نمبر پر ہے۔ یہ امر قابل زکر ہے
کہ ایسا مسلسل 9ویں مرتبہ ہے جب چین نے 2013 کے بعد سے گلوبل انوویشن
انڈیکس میں اپنی درجہ بندی کو مستقل بہتر کیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ آج کی جدید
دنیا میں چین انوویشن کا گلوبل لیڈر بھی کہلاتا ہے اور اس کےنئے ترقیاتی
تصور کا اولین مظہر بھی جدت طرازی ہی ہے۔صرف یہی نہیں کہ چین سائنسی اور
تکنیکی اختراع کے تیز رفتار راستے پر گامزن ہے بلکہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے
تمام جدید شعبہ جات میں بھی پیش پیش ہے۔ زندگی کا کوئی بھی شعبہ اٹھا لیں
چین انوویشن کے لحاظ سے نمایاں ترین درجے پر فائز نظر آتا ہے۔
اعداد و شمار پر نگاہ دوڑائیں تو پتہ چلتا ہے کہ چین نے سوشلسٹ جدیدیت کی
جانب اپنے نئے سفر میں "جدت اور انوویشن" کی بنیادی حیثیت کو مضبوط کرنا
جاری رکھا ہوا ہے اور اسے پالیسی سازی کی حمایت بھی حاصل ہے۔
چین نے اپنے 14ویں پانچ سالہ منصوبے (2021 تا 2025) میں جدت کی اہمیت پر
زور دیا ہے، جس میں مصنوعی ذہانت، کوانٹم معلومات، انٹیگریٹڈ سرکٹس، زندگی
اور صحت، برین سائنس، افزائش ، ایرو اسپیس اور سائنس اور ٹیکنالوجی کے دیگر
شعبوں میں متعدد اسٹریٹجک منصوبوں کا نفاذ شامل ہے ۔چین کے صدر شی جن پھنگ
نے بھی ملک کی مجموعی ترقی میں ہمیشہ جدت کے اہم کردار پر روشنی ڈالی ہے
اور چین کو سائنس و ٹیکنالوجی میں ایک مضبوط ملک بنانے اور سائنس ٹیکنالوجی
میں خود انحصاری کے حصول کے لیے تیز رفتار کوششوں پر زور دیا ہے۔دنیا نے
دیکھا کہ چین نے 2021 میں اعلیٰ صنعتوں بشمول بڑے مسافر بردار طیارے اور
مقناطیسی لیویٹیشن ٹرین کی صنعتوں میں تیزی سے ترقی کی۔ مصنوعی ذہانت،
ڈیجیٹل اکانومی، فائیو جی اور الیکٹرک گاڑیوں سے متعلق صنعتیں بھی فروغ
پزیر ہیں۔
چینی قیادت واضح کر چکی ہے کہ ایسے تمام لوگوں کو ہر ممکن وسائل اور مدد
فراہم کی جائے گی جو ملک کو سائنس و ٹیکنالوجی میں انوویشن کی جانب آگے
بڑھانے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ چین ٹیکنالوجی کے
عمدہ استعمال سے ڈیجیٹل معیشت کی ترقی کو بھی فروغ دے رہا ہے تاکہ سائنس
ٹیکنالوجی کے دور میں نئے مواقع سے احسن طور پر استفادہ کیا جا سکے۔دنیا نے
یہ بھی دیکھا کہ چین نے وبائی صورتحال میں کس بہتر انداز سے بگ ڈیٹا سمیت
دیگر ٹیکنالوجیز کی مدد سے جہاں وبا کی روک تھام و کنٹرول کو یقینی بنایا
ہے وہاں ڈیجیٹل معیشت کے اہم کردار کو بھی آگے بڑھایا ہے تاکہ پوسٹ کووڈ۔19
دور میں چین کی ترقی کو مزید بااختیار بنایا جا سکے۔گزشتہ برس ستمبر میں
بیجنگ میں منعقدہ چائنا انٹرنیشنل فیئر فار ٹریڈ ان سروسز میں جاری کردہ
اعداد و شمار کے مطابق 2010 سے 2019 تک سامان کی تجارت میں 31 فیصد اور
خدمات کی تجارت میں 54.9 فیصد اضافہ ہوا، جب کہ ڈیجیٹل تجارت میں 70.3 فیصد
اضافہ ہوا ہے ،یہ ظاہر کرتا ہے کہ اگلا دور انوویشن اور ٹیکنالوجی کا ہے۔
دوسری جانب چین میں انوویشن کے دائرہ کار کو معیشت سمیت دیگر تمام شعبہ جات
تک بڑھایا گیا ہے۔چین نے "اختراع" کی بدولت گرین ترقی کی راہ اپنائی ہے اور
خود کو سبز اور کم کاربن ترقی کے راستے پر گامزن کیا ہے ، توانائی اور دیگر
صنعتوں میں تبدیلی سمیت انہیں اپ گریڈ کیا ہے۔انہی کوششوں کے ثمرات ہیں کہ
2021 میں، چین میں جنگلات کا رقبہ 23 فیصد سے تجاوز کر چکا ہے۔چین نے عزم
ظاہر کیا ہے کہ ہر گزرتے لمحے ماحولیاتی تہذیب کی تعمیر، جامع سبز تبدیلی
اور انسانیت اور فطرت کے درمیان ہم آہنگ بقائے باہمی کی جدت کاری کے فروغ
کو جاری رکھا جائے گا اور مشترکہ طور پر کرہ ارض پر زندگی کے ہم نصیب
معاشرے کی تعمیر کی جائے گی۔
چین کا یہ موقف ہے کہ اس وقت دنیا میں اہم نوعیت کی تمام ٹیکنالوجیز کو
خریدا نہیں جا سکتا ہے لہذا جدت اورتخلیق میں خودانحصاری ہی دیرپا کامیابی
کی ضمانت ہے۔لیکن اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ باقی دنیا سے الگ تھلگ رہتے
ہوئے ترقی کی کوشش کی جائے گی بلکہ دنیا کے دیگر ممالک میں سائنسی شعبے میں
حاصل شدہ اہم کامیابیوں اور پیش رفت سے سیکھنے کا عمل بھی جاری رہے گا۔اس
طرح "چینی دانش" کے تحت عالمگیر مسائل پر قابو پانے کے لیے ایک مثبت اور
تعمیری کردار ادا کیا جائے گا۔
|