ہری دوار کے منہ پر کابل کا طمانچہ

یہ حسن اتفاق ہے کہ جس وقت انتہا پسند ہندو سادھو سنتوں نے اشتعال انگیز بیانات کی مدد سے اپنے ملک اور مذہب کا نام ساری دنیا میں روشن کیا اسی وقت طالبان نے سکھوں اور ہندو نمائندوں کو کابل بلا کر انہیں حفظ و امان کی یقین دہانی کرائی۔ یہ ہندو انتہا پسندوں کے گال پر اسلام کے علمبرداروں کا ایک ایسا طمانچہ ہے کہ جس کی گونج بہت دور تک اور دیر تک سنائی دے گی ۔ 23؍ دسمبر کو افغانستان کے دارالحکومت کابل میں نائب وزیر اعظم نے ہندوستان سے واپس جانے والے سکھوں اور ہندووں کے نمائندوں سے ملاقات کی اور انہیں یقین دلایا کہ افغانستان میں رہنے والے تمام لوگوں کو تحفظ فراہم کیا جائے گا۔ انہوں نے واضح کیا کہ طالبان کی پالیسی اقلیتوں سمیت افغانستان کے تمام باشندوں کو محفوظ و مامون رکھنے کی ہے۔ افغانستان سے امریکہ کو نکال باہر کرنے کے بعد جب طالبان نے اقتدار سنبھالا تو عالمی میڈیا نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ افغانستان میں سکھ اور دیگر اقلیتیں محفوظ نہیں ہیں حالانکہ طالبانی حکومت بار بار اقلیتوں کو تحفظ فراہم کرنے کی یقین دہانی کرتی رہی اس کے باوجود کچھ لوگ آگئے لیکن اب وہ واپس جارہے ہیں ۔

ایک طرف افغانستان میں اقلیتوں کو تحفظ دے کر ان کا اعتماد بحال کیا جارہا ہے اور دوسری جانب ہری دوار کی ایک مذہبی تقریب کے منتظم پرابودھا آنند گیری اعلان کررہے ہیں کہ ’میانمار کی طرح، ہماری پولیس، ہمارے سیاستدانوں، ہماری فوج اور ہر ہندو کو ہتھیار اٹھا کر صفائی ابھیان (کلین اپ) میں شامل ہونا چاہیے۔ کوئی اور آپشن نہیں بچا ہے۔‘ آنند گیری کوئی معمولی آدمی نہیں ہے بلکہ اس کے سیاسی رسوخ کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اتراکھنڈ کے وزیر اعلی پشکر دھامی پاؤں چھوتے ہیں۔ اس کی ڈھٹائی کا یہ عالم ہے کہ جب این ڈی ٹی وی نےپرابودھا آنند گیری سے رابطہ کر کے موقف جاننے کی کوشش کی تو اس نے کہا کہ : ’میں نے جو کہا میں اس پر شرمندہ نہیں ہوں۔ میں پولیس سے نہیں ڈرتا۔ میں اپنے بیان پر قائم ہوں۔‘ ان سادھو سنتوں کو یقین ہوتا ہے کہ پولس ان کا بال بیکا نہیں کرے گی اس لیے بڑی دلیری دکھاتے ہیں لیکن جیسے ہی پولس کارروائی ہوتی ہے تو بابا رام دیو کی طرح عورتوں کا لباس پہن کر فرار ہوجاتے ہیں یا یوگی کی مانند ایوان پارلیمان میں پھوٹ پھوٹ کر رونے لگتے ہیں ۔
اس دھرم سنسد میں یتی نرسنگھ آنند سرسوتی نے بھی ہندوؤں سے اپنے مذہب کو مسلمانوں سے ’محفوظ‘ کرنے کے لیے ہتھیار اٹھانے کی ترغیب دی ۔ یتی نرسنگھانند کو شکایت ہے کہ جب اسے مدد کی ضرورت تھی تو ہندو برادری نے اس کی مدد نہیں کی۔ اس سوال پر اسے سنجیدگی کے ساتھ غور کرنا چاہیے کہ ہندو برادری اس کے جھانسے میں کیوں نہیں آتی؟ اس کے ذہنی دیوالیہ پن کا یہ عالم ہے کہ وہ اعلان کرتا ہے:’’ اگر کوئی نوجوان کارکن ہندو پربھاکرن بننے کے لیے تیار ہے، تو کسی اور سے پہلے، میں اسے ایک کروڑ روپے دوں گا اور اگر وہ ایک سال تک کام کرتا رہے تو اس کے لیے کم از کم 100 کروڑ روپے اکٹھا کروں گا‘‘۔ اس ایک جملے سے ملعون یتی نرسنگھا کی شکست خوردہ نفسیات کو سمجھا جاسکتا ہے۔ پہلے تو اسے پورے ہندوستان کے اندر کوئی ایک بھی ایسی مثال نہیں ملی کہ جسے وہ نوجوانوں کے سامنے پیش کرسکتا ہو اس لیے سری لنکا جانا پڑا۔

وہ جانتا ہے کہ ہندو راشٹر اتنا بودہ نصب العین ہے کہ اس کے حصول کی خاطر کوئی ہندو نوجوانوں تیار نہیں ہوگا اس لیے اسے اس مقصد کے حصول کی خاطر دولت کی لالچ دینے پر مجبور ہونا پڑتا ہےتا کہ دھرم کی رکشا کے لیے نہ سہی تو کم ازکم دھن دولت کے لیے ہی کوئی تیار ہوجائے۔ اس کے بعد بھی اس کو یقین نہیں ہے کہ وہ نوجوان ایک سال تک مستقل مزاجی کے ساتھ یہ کام کر سکے گا اس لیے اگر کی شرط کے ساتھ کہتا ہے کہ ایک کروڈ کی لالچ میں سال بھر یہ کرتا رہے تو وہ اس کے نام پر سو کروڈ جمع کرکے اسے دے گا۔ مسئلہ یہ کہ کوئی ہندو نوجوان اس بات پر کیسے یقین کرے کے اس کے نام پر جمع کی جانے والی رقم کو یتی جیسا پھاندے باز کھا پی کر ڈکار نہیں جائے گا؟ اس لیے کہ جولوگ رام کے نام پر جمع کیا جانے والا چندہ کھا جاتے ہیں وہ بھلا کسی غیر معروف نوجوان کی دہائی دے کر جمع کیے جانے والے چندے کو کیسے چھوڑیں گے؟ سوچنے والی بات یہ ہے کہ ایسا آدمی مسلمانوں کا کیا بگاڑ سکے گا اور کیا مسلمان ایسے روپیوں کی خاطر قتل و گارتگری کرنے والے بزدلوں کے آگے نرم چارہ بن جائیں گے ؟

یتی سرسوتی نے پربھاکرن کے علاوہ سنت بھنڈارن والے کی مثال دی لیکن ان دونوں کا انجام بھول گیا ایسے میں جو نوجوان ان کی ناکامی پر غور کرے گا وہ اس احمق کی دعوت پر کیسے لبیک کہے گا؟ یتی نرسنگھانند کہتا ہے ’یہ ہماری دوسری دھرم سنسد ہے۔ ہمارا پیغام یہ ہے کہ ہندوستان، جو تیزی سے ایک اسلامی ریاست بن رہا ہے، اسے فوری طور پر پلٹ کر سناتن ویدک راشٹر بنادینا چاہیے۔‘ یہ تو مرکزکے اقتدار پرقابض بی جے پی اور مودی کی کھلی بے عزتی ہے کہ پچھلے سات سالوں سے ان کے ہوتے ہندوستان تیزی کے ساتھ اسلامی ریاست بن رہا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کیا وہ کیا بھٹے بیچ رہے ہیں؟ وہ کہتا ہے، ’ جب تک ہر ہندو مندر میں ایک پربھاکرن، ایک بھنڈران والا اور ایک شبیگ سنگھ نہیں ہوگا، ہندو مذہب نہیں بچ سکے گا، اسے بچانے والا کوئی نہیں ہوگا‘‘۔ اس کوئی نہیں میں چونکہ مودی اور سنگھ پریوار بھی شامل ہیں اس لیے یہ ان کی توہین و تضحیک ہے۔

اس طرح کی پہلی دھرم سنسد جنوری 2020 میں منعقد کی گئی تھی تاکہ دہلی میں کیجریوال کو ہرایا جاسکے لیکن کیجریوال نے بی جے پی کی دھجیاں اڑا کر اس سازش کو ناکام کردیا ۔ اب اتراکھنڈ کا الیکشن جیتنے کے لیے وہی نسخہ آزمایا جارہا ہے جو اس سے قبل بارہا ناکام ہوچکا ہے۔ ہری دوار کے بعد اسی طرح کی اشتعال انگیزی 19؍ دسمبر کو دہلی کے بنارسی داس چندی والا آڈیٹوریم میں بھی کی گئی اور کو مشتہر کرنے کی حماقت سدرشن نیوز چینل کے چیف ایڈیٹر سریش چوہانکے نے اپنی ایک ویڈیو کو سوشل میڈیا پر وائرل کرکے کی ۔ اس میں چوہانکے نےہندوستان کو ہندو راشٹر میں تبدیل کرنے کے لیے لوگوں کو ’’لڑو، مرو اور ضرورت پڑنےپر مار ڈالو‘‘ کاحلف دلایا ۔اس حلف نامہ میں آخری سانس تک، اس ملک کو ہندو راشٹر بنانے اور اس ملک کو ہندو راشٹر بنائے رکھنے کےلیے لڑنے، مرنے اورضرورت پڑنے پرمار بھی ڈالنے کی بات کہی گئی ہے۔ یہاں مارنے سے قبل مرنے کی ترتیب تو درست ہے لیکن جو قوم مرنے سے تھر تھر کانپتی ہو وہ بھلا مرے گی کیا اور مارے گی کیا؟ ان لوگوں کے سر سے انتظامیہ کی حمایت کا سایہ اٹھتے ہی یہ گدھے کے سر سے سینگ کی طرح غائب ہوجاتے ہیں کیونکہ شیر کی کھال اوڑھ لینے سے نہ کوئی بھیڑ شیر بن جاتا ہے اور نہ بھیڑیا۔

اس اشتعال انگیز ی کے خلاف ترنمول کانگریس کے قومی ترجمان ساکیت گوکھلے نے پولیس میں شکایت بھی درج کرادی لیکن پولیس کوئی کارروائی کرنے کے بجائے صرف صورتحال کی نگرانی کی آڑ میں خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ سابق آرمی چیف وید پرکاش ملک نے اس شدید قسم کی اشتعال انگیزی پر متنبہ کیا کہ یہ نہ صرف عوامی ہم آہنگی کو متاثر کرےگی بلکہ قومی سیکوریٹی پر بھی اس کا برا اثر پڑے گا۔ انہوں نے ٹویٹ کیا کہ ایک طرف ہماری جوان سرحدوں پر دو محاذوں پر لوہا لے رہے ہیں اور دوسری طرف ملک کے اندر نیا محاذ قائم کرکے قوم کو خانہ جنگی کی آگ میں جھونکنے کی سازش ہو رہی ہے۔ پرکاش ملک سوال کرتے ہیں ایسے لوگ اب تک باہر کیوں ہیں ؟ انہیں گرفتار کیوں نہیں کیا گیا ؟ سوراج انڈیا کے سربراہ یوگیندر یادو نے ایسے لوگوں کو ملک کا حقیقی دشمنی قراردے کر الزام لگایا ’’میڈیا اس پر خاموش ہے جبکہ پولیس نے کوئی گرفتاری نہیں کی،ایسی سیاسی قیادت جو اس کو فروغ دے رہی ہے وہ پوری طرح اس ملک کو تباہ کرنے میں ملوث ہے ۔‘‘ مختلف لوگوں نے ان پر یو اے پی اے کے تحت لگانے یا انہیں ملک سے غداری کا مقدمہ لگا کر گرفتار کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
معروف صحافی آشوتوش نے متنبہ کیا ہے کہ ’’ دھرم سنسد میں جو زہر اگلا گیاہے، اس پربی جے پی ، آرایس ایس اور مودی سرکارکی خاموشی ایک بھیانک مستقبل کی طرف اشارہ ہے‘‘۔ یہ اشارہ افغانستان سے ہندوستان آنے والے سکھوں اور ہندووں کی سمجھ میں آگیا اس لیے سی اے اے کے تحت ملنے والی شہریت کو منہ پر مار کر وہ اپنے وطن لوٹ گئے۔ ہندوستان کے اندر مسلمانوں کا قتل عام کرنے کی دھمکی دینے والوں کو افغانستان کی فتح پر غور کرنا چاہیے۔ انہیں کی طرح کے عزائم کولے کر دنیا کی دو سپر پاورس نے وہاں سارا زور کھپا دیا لیکن بالآخر شکست فاش سے دوچار ہوئے۔ سوویت یونین کا تو خیر نام و شان ہی مٹ گیا مگر امریکہ بہادر پر بھی ہر میدان میں چین نے برتری کرلی اور وہ فی الحال افغانستان کے شانہ بشانہ کھڑا ہے۔ یہ فرقہ پرست عناصر مسلمانوں نے خلاف زہر افشانی سے بی جے پی کے عیوب کی پردہ پوشی کر کے اس کو تھوڑا بہت انتخابی فائدہ تو پہنچا سکتے ہیں۔ مگرارض ِ ہند پر ملت اسلامیہ کو مٹا نہیں سکتے کیونکہ ہر انسان کر اپنی جان و مال کی حفاظت کا بنیادی حق حاصل ہے اور دین اسلام میں یہ مزاحمت عین عبادت ہے۔ ملت اسلامیہ ہند بھی اس تعلیم و ترغیب کی روشنی میں بھرپور مقابلہ کرکے اللہ کی مددو نصرت سے باذن اللہ تعالیٰ کامیاب و کامران ہوگی ۔
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1450826 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.