2021: افغانستان، طالبان اور ہندوستان

سال 2021 طالبان کی امریکہ پر فتح کے لیے یاد کیا جائے گا۔ اس سال 15؍ اگست کو جو کچھ ہوا اس کا تصور بھی محال تھا لیکن مشیت ایزدی نے وہ منظر بھی رونما کردیا کہ بغیر کسی خون خرابے کے اقتدار کی منتقلی عمل میں آگئی۔ اس غیر معمولی کامیابی کو عیب دار بنانے کی خاطر افغانستان چھوڑ کر جانے والوں کا ہواّ کھڑا کیا گیا اور ایسا ماحول بنایا گیا کہ گویا چند دنوں میں ملک خالی ہوجائے گا ۔ اسی کے چلتے ستمبر کے پہلے ہفتے تک عالمی پنجابی تنظیم نے چارٹرڈ ہوائی جہازوں کی مدد سے کابل میں پھنسے 500 سکھوں اور ہندو خاندانوں کو نکالنے کا دعویٰ کیا ۔ ہندوستان آنے والے لوگوں کو ابتداء میں گوردوارہ رکاب گنج، موتی باغ اور بنگلہ صاحب کے عارضی کیمپوں میں پناہ دی ۔ ان مہاجرین کے لئے مکانات کا بندوبست کیا گیا ہے اور بچوں کی تعلیم سمیت دو سال تک ان کے گھریلو اخراجات پورے کرنے کاانتظام بھی کردیا گیا ہے۔ 'سن فاؤنڈیشن' نامی این جی او نے جیل روڈ آئی ٹی آئی کیمپس میں قائم نئے ورلڈ کلاس مہارت سنٹر میں افغانستان سے آنے والے تمام نوجوان سکھوں اور ہندوؤں کو مفت مہارت کی تربیت فراہم کرنے کا بھی اعلان کیا ۔ ان نوازشوں کا تصور بھی اس ملک کے باشندے نہیں کرسکتے لیکن خیر وہ ایک سفارتی ضرورت تھی ۔

اس وقت کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ چار ماہ کے اندر کابل سے آنے سکھ اور ہندو رہنماوں کا ہندوستان کی غیر معمولی مہمان نوازی سے دل اچاٹ ہو جائےگا اور وہ لوٹ کر اپنے وطن جانے لیے پر تولنے لگیں گے کیونکہ سن فاونڈیشن نے وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امیت شاہ کا ان مہاجرین کو مستقل رہائش اورہندوستانی شہریت دینے کی یقین دہانی کا شکریہ بھی ادا کیا تھا۔ سی اے اے کے قانون کی اس سے بڑی توہین کیا ہوسکتی ہے کہ جس طالبان کو بدنام کرنے کے زمین آسمان ایک کردیئے گئے وہاں لوگ ہندوستان کی شہریت کو ٹھکرا کر لوٹ رہے ہیں۔ افغانستان کے اندر جن سکھوں اور ہندووں پر ظلم و جور کا واویلا مچایا گیا ان کی مجموعی تعدادصرف 1300؍ افغان سکھ اور 600؍ افغان ہندو تھی ۔ اس سے تو زیادہ لوگ پچھلے چند سالوں میں ہندوستان کے اندر ماورائے قانون انکاونٹر کے نام پر ہلاک کیے جاچکے ہیں ۔ اسی زمانے میں افغانستان کے اندر موجود ایک افغان سکھ چرن سنگھ نے اخبار 'ٹائمز آف انڈیا' کو بتایا تھا کہ طالبان کے ایک گروپ نے گوردوارہ کرتے پروان میں سکھ اور ہندو رہنماوں سے ملاقات کر کے اُن سے کہا تھا کہ وہ خوفزدہ نہ ہوں اور ملک نہ چھوڑیں۔چرن سنگھ کے بقول طالبان نے انہیں اپنے ٹیلیفون نمبر دیئے تاکہ وہ کسی بھی مشکل کی صورت میں اُن سے رابطہ کرسکیں۔

اس یقین دہانی کے باوجود جن لوگوں نے ملک چھوڑنے کا فیصلہ کیا انہیں طالبان نے سہولت فراہم کی لیکن ایسا لگتا ہے اب یہاں آنے والوں کو اپنی غلطی کا احساس ہوگیا ہے اور وہ لوٹنے کا ارادہ کر رہے ہیں۔ طالبان کے حق میں اقلیتوں کی اعتماد بحالی کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہوسکتا ہے کہ ہندوستان سے اکر سکھ اور ہندو نمائندے کابل جاکر براِ راست نائب وزیر اعظم سے گفت و شنید کررہے ہیں۔ اس ملاقات میں کابل کے معروف سکھ رہنما نریندر سنگھ خالصہ کے علاوہ گردوارہ صاحب دشمیش پیٹا کے گرنام سنگھ اور جلال آباد کے منجیت سنگھ بھی موجود تھے ۔ ہندووں کی نمائندگی رام شرن بھسین نے کی۔ یہ کتنا بڑا انقلاب ہے کہ 22؍ اگست 2021کو دہلی آکر نریندر سنگھ خالصہ نے نمناک ہوکر کہا تھا ہم نے اس طرح کی صورتحال افغانستان میں کبھی نہیں دیکھی جو اب دیکھ رہے ہیں۔ ہر چیز ختم ہوچکی ہے ۔ گزشتہ 20سالوں میں قائم ہونے والی حکومت کا خاتمہ ہوچکا ہے ۔ہر شئے صفر ہوچکی ہے۔ اس وقت تک ہندوستان آنے والے 168 ہندو اور سکھوں میں سے 108ہندوستانی شہری اور 60 افغانی باشندے تھے۔ اس کے بعد دسمبر کے وسط میں 100 ؍ افغانی ہندوستان آئے ان کے سروں پر گرو گرنتھ صاحب تھا۔ ان تصاویر کی مدد سے طالبان کو خوب بدنام کیا گیا مگر دس دن کے اندر بازی الٹ گئی ۔

حکومت ہند کی مرضی کے بغیر کسی وفد کا ہندوستان سے افغانستان جانا ناممکن ہے۔ ٹائمز آف انڈیا نے اپنے ذرائع کی بنیاد پر لکھا کہ ہندوستان میں موجود افغانی سکھوں اور ہندووں کے رابطے کی مشترکہ تنظیم افغان مائنارٹی گروپ کی مرضی کے خلاف یہ لوگ گئے یعنی انہیں روکنے میں کامیابی نہیں ملی جو ایک سفارتی ناکامی ہے۔ افغانی اقلیتوں نے نشست میں زمین و املاک بحال کرنے کا مطالبہ کیا ۔ اس کے جواب میں افغانی نائب وزیر اعظم مولوی عبدالکبیر نے طالبان حکومت کے ذریعہ اقلیتوں سمیت بلاتفریق سب کو تحفظ فراہم کرنے اور امن و آشتی کی یقین دہانی کی ۔ انہوں نے کہا سارے طبقات اور شہریوں کو ملک میں رہنے اور اس کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرنے کا حق ہے۔ اس کے بعد ہندو اور سکھ رہنماوں نے افغانی نائب وزیر اعظم سے کہا کہ وہ افغانستان میں رہ کر ملک کی تعمیر میں اپنا کردارنبھانا چاہتے ہیں ۔ یہ بھی ایک ایسی تبدیلی ہے جس تصور محال تھا ۔

عالمی سطح پر اسلاموفوبیا کے نام سے پھیلائی جانے والی اسلام کے خلاف منافرت پر لگام لگا نے میں طالبان کی کامیابی نے اہم کردار ادا کیا ۔ اس کا ایک ثبوت امریکہ کے اندر اسلامو فوبیا کے خلاف منظور ہونے والا قانون ہے۔ 11؍ ستمبر 2001 سے کر20 سالوں تک امریکی انتظامیہ نے عالمی سطح پر اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کی خاطر تمام حربے استعمال کرڈالے مگر نور توحید پھیلتا چلا گیا ۔ صومالیہ نژاد رکن پارلیمان الہان عمر کے ذریعہ ’بین الاقوامی اسلاموفوبیا کا مقابلہ‘ کرنے کی خاطر پیش کیا جانے والا بل ان کی غلطی کے احساس کا اعتراف ہے ۔ اس قانون کے تحت امریکی محکمہ خارجہ ایک خصوصی نمائندہ متعین کرکے دنیا بھر میں اسلاموفوبیا کے واقعات کو منظر عام پر لائے گا۔ ایوان پارلیمان میں پیش ہونےوالی رپورٹ لازماًکسی نہ کسی اقدام کا پیش خیمہ بنےگی۔ یہ اقدامات سے کم از کم یہ تو ہوگا کہ اسلام کے خلاف چلائی جانے والی مہم اب مسلمانوں کے حق میں چلے گی ۔ اس سے قبل امریکی محکمہ خارجہ عالمی سطح پر یہود مخالف واقعات کو رپورٹ کرتا تھا اور اس میں اکثر مظلوم مسلمانوں کو ظالم بناکر پیش کیا جاتا تھا بہت ممکن ہے کہ اب اصلی ظالموں کی نقاب کشائی ہو۔
امریکی ایوانِ نمائندگان میں اس بل کی منظوری کا سبب ایغور مسلمانوں کے حوالے سے چین کو گھیرنا بھی ہے اس کے باوجود یہ کام بہ آسانی نہیں ہوا۔ الہان عمرکو خود سرزمین امریکہ پر اس کی خاطر اسلاموفوبیا کا شکار ہونا پڑا ۔ رپبلکن رکن پارلیمان لورین بوبرٹ نے انہیں ’جہاد سکواڈ‘ کا حصہ بتاکر دہشت گرد قرار دیا اور رپبلکن نمائندہ مارجوری ٹیلر گرین نے بھی الہان عمر کو ’جہادی‘ بتایا مگر وہ کامیاب نہیں ہوئے کیونکہ اب مجاہد ہونا کوئی معیوب بات نہیں ہے ۔ اس بل کی منظوری کے بعد الہان عمر نے کہا کہ دنیا بھر میں مسلمانوں کے لیے یہ ایک بہت بڑا سنگِ میل ہے اور ایک مضبوط اشارہ ہے کہ اسلاموفوبیا کو کہیں بھی برداشت نہیں کیا جا سکتا۔ یہ بات اسرائیل، چین ، میانمار، ہندوستان اور امریکہ پر بھی لاگو ہوتی ہے کیونکہ وہ بھی دنیا سے باہر نہیں ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ’نفرت کے خلاف کھڑے ہونے سے آپ حملوں کا نشانہ بن سکتے ہیں مگر ہمیں ڈرنا نہیں چاہیے۔ مضبوطی سے کھڑے رہیں۔‘ اس قانون کے آگے سینیٹ میں منظوری کا مرحلہ درپیش ہے جہاں50 ریپبلکن اور 48 ڈیموکریٹس کی تعداد ہےنیز دو آزادارکان ہیں ۔

سینیٹ میں منظوری سے قبل ہے مسلمانوں پر مظالم کرنے والے ممالک اس سے فکرمند ہیں کیونکہ ان پر پابندی کی بھی گنجائش موجود ہے ۔ اس قانون کی حامی الہان عمر کا یہ واضح موقف ہے کہ ’ہم مسلم مخالف تشدد میں بے انتہا اضافے میں گھرے ہوئے ہیں۔ اسلاموفوبیا اپنی نوعیت میں عالمی ہے اور ہمیں اس کے خلاف عالمی کوششیں کرنی ہوں گی۔‘ اس میں شک نہیں کہ امریکہ کے اندر صہیونی لابی بہت مضبوط ہے اور ڈونلڈ ٹرمپ کے زمانے میں اس نے اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنے میں اہم کردار ادا کیا مگر صدر بائیڈن کے اقتدار میں آنے کے بعد صورتحال قدرے تبدیل ہوئی ہے۔ امسال اگست میں پاکستانی نژاد وکیل خضرخان کو امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی میں کمشنر کے عہدے پر نامزد کیا گیا ۔ یہ عقیدے کی آزادی کو انسانی عظمت کا ایک کلیدی جزو کے طور پر اجاگر کرنے میں خضر خان کی خدمات کا اعتراف تھا۔ اس کے بعدقصر ابیض نے امریکہ کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک مسلمان راشد حسین کو بین الاقوامی مذہبی آزادی کے لیے اپناخصوصی سفیر مقرر کردیا جس کی سینیٹ میں توثیق بھی ہوگئی ۔ راشد اردو اور عربی بولنے والے حافظ قرآن ہیں۔ وہ بطور امریکی مسلمان اقلیتوں کے خلاف تعصب کے اثرات اور نوجوانوں پر اس کے خطرات کا مشاہدہ کرچکے ہیں ۔یہ خوش آئند پہلوہے کیونکہ باطل طاقتوں سے بہت زیادہ توقع کرنے کے بجائے ہمیں ان مثبت عالمی تبدیلیوں پر خدا کا شکر ادا کرنا چاہیے اس لیے کہ بقول حکیم الامت علامہ اقبال؎
شب گریزاں ہو گی آخر جلوۂ خورشید سے
یہ چمن معمور ہوگا نغمۂ توحید سے


 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1450383 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.