افغانستان اس وقت سلامتی، بدترین معاشی بحران اور عالمی
تنہائی سے دوچار ہے۔ افغان طالبان کی غیر تسلیم شدہ امارات اسلامی کو دوحہ
معاہدے کے مطابق آئینی، معاشی اور انسانی حقوق کی بحالی میں درپیش بحرانوں
کے حل کے لئے عالمی برادری کا تعاون ناگزیر ہے، جن حالات میں اقتدار
سنبھالا، مدنظر رکھا جائے تو اس اَمر کا ادراک ہونا چاہیے کہ انہیں ایک
نہیں بلکہ کئی بحرانوں کا سامنا ہے۔ ملکی معیشت کی بحالی، بے روزگاری، صحت
عامہ، تعلیم، غذائی قلت و قحط کا بدترین بحران اور سب سے بڑھ کر تشدد کے
خاتمے کے لئے ایسے موثر اقدامات کرنا جس سے عالمی برادری ان پر اعتماد
کرسکے۔ امارات اسلامی نے مسلح مزاحمت کی بنیاد اپنی حکومت کے خاتمے، غیر
ملکی افواج اور امریکہ کی مداخلت کے خلاف ’’اسلامی نظام کو رائج کرنے کا
دعویٰ‘‘ 40 برسوں پر محیط ہے، قیام امن کے لئے پڑوسی ممالک کا کردار
نظرانداز نہیں کرنا چاہیے، بالخصوص پاکستان نے چار دہائیوں سے جس طرح افغان
عوام کا ساتھ دیا، اس کو تو کبھی جھٹلایا نہیں جاسکتا۔
پاکستان کو افغانستان میں جنگ و خانہ جنگیوں کے موجب ہزاروں جانوں کی
قربانیاں اور اربوں ڈالرز کے مالی نقصان کے علاوہ دہشت گردی اور انتہا
پسندی کا آج بھی سامنا ہے۔ ایک ایسے وقت میں کہ جب کوئی بھی ملک افغان
عوام کو درپیش مسائل کے حل میں غیر مشروط تیار نہیں، پاکستان نے وہ کر
دکھایا، جس کا اعتراف عالمی برادری کو بھی کرنا پڑا۔ حالاںکہ خود متنوع
مسائل میں الجھے ہیں، لیکن افغان عوام کے لئے پڑوسی ملک ہونے کے ناتے ان
ممالک سے بھی رابطے کیے جو ماضی میں ان کا ہر سطح پر ساتھ دیتے رہے، لیکن
اہم معاملات میں انہوں نے سائیڈ لائن کرکے ناراض کردیا تھا۔
امریکہ کی دونوں حاشیہ بردار کابل انتظامیہ نے پاکستان کے خلاف متعصبانہ
رویہ، دشنام طرازی سے بھی گریز نہیں کیا، سرحدی علاقوں میں پاکستانی
سکیورٹی فورسز اور عوام پر حملے کیے تو افغان سرزمین کو دہشت گردوں کے لئے
محفوظ پناہ گاہ کے طور پر استعمال کرنے کی اجازت اور سہولت کاری بھی کی۔
دیرینہ دشمن کے کندھے سے کندھا ملاکر ہر گھٹیا سازش میں کلیدی کردار ادا
کیا، یہاں تک کہ افغان طالبان کے خلاف بھی ہر ممکن حد تک گئے۔ افغان
نوجوانوں کی برین واشنگ کی گئی اور انہیں امارات اسلامی سے بھی اس قدر بدظن
کیا کہ وہ اپنے آبا و اجداد کی سرزمین پر رہنے کو تیار نہیں اور جن قوتوں
نے چار دہائیوں سے افغان عوام پر دنیا کی شدید بم باری اور تباہ کن
کارروائیاں کیں، ان کے سہولت کار بنے۔ ہنرمند ہونے کے بعد انہوں نے اپنے
تباہ حال ملک کی خدمت کے بجائے مغربی ممالک کی ثقافت کو اپنالیا۔ افغان
طالبان کے خلاف عالمی ذرائع ابلاغ میں جن تحفظات کا اظہار بشکل انٹرویو
کیے، یقینی طور پر حساس و غور طلب ہیں۔
امریکہ پاکستان سے کیا چاہتا رہا اور اب بھی اس کے کیا مقاصد ہیں، اس سے
کوئی بے خبر نہیں، پاکستان اور افغانستان کو جن چیلنجز کا سامنا ہے، اس
معاملے میں دنیا کی واحد سپرپاور امریکہ براہ راست ملوث ہے۔ امریکہ نے
افغانستان میں افغان طالبان اور القاعدہ کے خلاف جتنے بھی عرصے جنگ کی، اس
کے براہ راست اثرات پاکستان پر بھی پڑے، دنیا کے باشعور اور فہمیدہ حلقوں
کو بخوبی علم ہے کہ امریکہ کا رویہ دونوں ممالک کے ساتھ کیا رہا۔ پالیسی
ساز تو حقائق سے بخوبی آگاہ ہیں، عام آدمی کو بھی آئے روز خودکُش حملوں
کے ذریعے بعض معاملات سے آگاہی ہوئی۔ پاک افغان تعلقات قیام پاکستان سے لے
کر آج تک مد وجزر کا شکار رہے، اقوام متحدہ میں قیام پاکستان کے بعد
افغانستان کی جانب سے رکنیت دینے کی مخالفت کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں، بھارت
کا افغانستان کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرنے کا وتیرہ بھی مخفی نہیں۔
تشکیل ِ پاکستان کے بعد سب سے اہم مسئلہ جس سے ہمیں دوچار ہونا پڑا، وہ
مسئلہ کشمیر تھا۔ یہ مسئلہ دن بہ دن پیچیدہ سے پیچیدہ تر ہوتا چلاگیا اور
اب وہ اس نازک مرحلے میں آپہنچا، جس کے بعد اسے سلجھانے کے لئے ہمیں سر
دھڑ کی بازی ایک بار پھر لگادینی پڑے گی۔ بھارت نے جو رویہ اختیار کر رکھا،
اس کے پیش نظر صاف دکھائی دیتا ہے کہ اب کشمکش سخت اور تیز ہوجائے گی۔
دوسرا جو مسئلہ ہمارے لئے سوہان روح بنا، وہ سرحدی تنازعات تھے، جیسے نشۂ
قوت میں سرمست طاقتیں کسی معقول اور مناسب بات سننے کے لئے تیار نہیں تھیں۔
قائداعظمؒ نے کرم خوردہ پاکستان کو قبول کیا۔ بائونڈری کمیشن نے ہر سطح پر
پاکستان کے ساتھ ناانصافی کی اور ایک ایسی مملکت کا اعلان کیا، جس کے بارے
میں انہیں غلط فہمیاں تھیں کہ چند برسوں میں یہ کمزور ملک دوبارہ بھارت کا
حصہ بن جائے گا، لیکن ایسا نہ ہوسکا۔ مشرقی پاکستان کے سقوط کے بعد بھی
پاکستان کے خلاف سازشیں جاری ہیں اور بھارت نے اپنی پست سوچ کے تحت پہلے
مشرقی پاکستان کے بنگالیوں کو نسلی و لسانی تعصب کا زہر بھر کر استعمال کیا
اور شمال مغربی سرحدوں پر افغانیوں کے دلوں میں پاکستان کے خلاف زہر آلودہ
اور کینہ پرور پالیسیوں کو استعمال کیا۔
افغان طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد کئی ایسی اشتعال انگیز
کارروائیاں سرحدوں پر ہوچکیں، جس سے پاکستان کی مخلصانہ کوششوں پر براہ
راست اثر پڑرہا ہے۔ امدادی ٹرکوں پر پاکستانی پرچم کی بے حرمتی ہو یا پھر
سرحدی علاقوں میں متکبرانہ لب و لہجے کیساتھ پاکستانی سکیورٹی اہلکاروں کو
مخاطب کرتے ہوئے دشنام طرازی کرنا۔ امارات اسلامی کو زیب نہیں دیتا کہ انکے
اہلکار بدنظمی کرتے رہیں۔ پاکستانی صحافیوں کے ساتھ بیشتر افغان طالبان
اہلکاروں کا رویہ انتہائی نامناسب و قابل مذمت رہا، لیکن اسے نظرانداز صرف
اس لئے کیا کیونکہ اُس وقت حالات اعصاب شکن تھے، اب افغان طالبان سفارت
کاری اور انسانی اقدار کو فرنٹ لائن پر رکھ کر افغان عوام کے مسائل کا حل
نکالیں اور یقینی طور پر نہیں چاہیں گے کہ انسانی ہمدردی اور افغان عوام کے
مسائل کو حل کرنیکی مخلصانہ کوششوں کو نقصان پہنچے۔ امارات اسلامی اپنے
عہدے داروں کو تحمل و بردباری سے کام لینے کے احکامات جاری کرتے ہوئے ان پر
مکمل عمل درآمد کو بھی یقینی بنانے کی کوشش کرے۔ امارات اسلامی کو جب تک
عالمی برادری تسلیم نہیں کرتی، انہیں شہد کے جتھے میں ہاتھ ڈالنے میں
احتیاط کرنا ہوگی۔ کسی بھی معاملے میں تحفظات پر ایک تسلیم شدہ حکومت ہی
سفارتی چینل سے مذاکرات کا راستہ اختیار کرتی ہے، افغان نادان دوست منافرت
پر مبنی رویے کو لگام دیں تو بہتر ہوگا۔
|