عالمی سطح پر کروڑوں انسانوں نے سال 2021بھی کورونا وائرس
، طوفان، سیلاب ، بھڑکتی ہوئی آگ کے شعلوں اور کئی آفات و مصیبتوں کے
درمیان خوف و ہراس میں گزارا۔ حکومتوں کی جانب سے عائد کی گئی پابندیوں پر
کروڑوں افراد نے عمل کیاتو وہیں لاکھوں افراد نے اسکی مخالفت بھی کی کیونکہ
پابندیوں کی وجہ سے عالمی سطح پر جو معاشی نقصان ہوا ہے اور غریب و محنت کش
اور درمیانہ طبقہ جن حالات سے دوچار ہوا ہے اس کا اندازہ کرنا محال ہے۔ایسا
نہیں کہ امیر و صاحبِ ثروت افراد اور ہیومن رائٹس تنظیموں نے جس طرح بڑھ
چڑھ کر عوام کو غذائی اجناس ، پانی، دیگر ضرویاتِ زندگی اور ادویات، آکسیجن
فراہم کرنے کی بھرپور کوششیں کیں۔وہیں کئی ممالک کی حکومتوں نے عوام پر
عائد کی گئی پابندیوں کی خلاف ورزی کرنے والوں پر زبردست جرمانے عائد کرکے
سیکیوریٹی اداروں کو مستحکم کرنے کی بھرپور کوششیں کیں۔جبکہ دیگر ضروریات
زندگی خصوصی طور پرعالمی سطح پر پٹرول و ڈیزل کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ
دیکھنے میں آیا۔ حکومتوں نے پہلے پریشان حال ، کورونا وباسے متاثر اور
معاشی اعتبار سے تنگدست لوگوں کو جس طرح ممکن ہوسکا مہنگائی میں اضافہ کرکے
مزید پریشان کردیا۔ خیر عالمی سطح پر پھیلی ہوئی اس وبا کو اﷲ رب العزت
ضرور بہ ضرور جلد ازجلد ختم فرمادینگے۔ اﷲ سے قوی امید ہے کہ وہ نیک ، صالح
، عبادت گزار محبوب بندوں کی فریادوں کو سنکر اس وباء کی نئی صورت یعنی
امیکرون سے بھی محفوظ فرمائینگے جو عالمی سطح پر تیزی سے پھیل رہا ہے۔ ان
آفات الٰہی سے بچنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم اپنے خالق و مالک کے حضور
سربسجود ہوکر انتہائی گریہ وزاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے گناہوں پر نادم
ہوکر معافی مانگے۔ مرکزِ اسلامی اور اسلامی ممالک کے ان حکمرانوں کیلئے بھی
دعائیں کریں جو اسلامی تشخص کو ملیامیٹ کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ سعودی عرب
میں ویژن 2030کے تحت جس طرح یوروپی اور مغربی تہذیب کو پروان چڑھایا جارہا
ہے۔ مملکت سعودی عرب کے کئی شہروں میں درجنوں سنیما گھروں کا قیام، کنسرٹ
پروگراموں کے ذریعہ فحاشی، خواتین کو ہر شعبہ ہائے حیات میں لانے کی کوشش
کے تحت بے راہ روی کے دروازے کھولنا، عوامی تفریحی مقامات پر حجاب نہ
کرناایسے کئی چیزیں ہیں جس کی وجہ سے عالمِ اسلام کا تشخص پامال ہورہا ہے۔
گذشتہ دنوں ذرائع ابلاغ کے مطابق بتایا گیا ہے کہ سعودی عرب کے دارالحکومت
ریاض میں سب عالمِ عرب کا سب سے بڑا کنسرٹ پروگرام 31؍ ڈسمبر 2021کی رات
منعقد کیا جارہا ہے۔ اس پروگرام کی جس زوروں سے تشہیر کی جارہی ہے اس سے
اندازہ لگایا جاسکتا ہیکہ عوام کو مغربی و یوروپی تہذیب کا دلدادہ بنادیا
جائے۔ ایسا نہیں کہ اس کے خلاف سعودی عوام نے خاموشی اختیار کی ہے ۔ سعودی
ولیعہد شہزادہ محمد بن سلمان کی جانب سے گذشتہ برسوں میں سینما گھروں اور
کنسرٹ پروگراموں کی اجازت دی گئی تو کئی حق گو علماو خطباء نے حکومت کو
متنبہ کیا اور اسکے بُرے نتائج سے آگاہ کیا۔ لیکن شاہی حکومت کے
ولیعہدشہزادہ محمد بن سلمان مملکت سعودی عرب کو ترقی کی ایسی راہ پر دیکھنا
چاہتے ہیں جس کا کوئی ثانی نہ ہو۰۰۰
دشمنانِ اسلام تو یہی چاہتے ہیں کہ مسلمان بے راہ روی کا شکار ہوں۰۰۰
مسلمان آپس میں لڑتے جھگڑتے رہیں۰۰۰ آج عالمِ اسلام کے کئی ممالک پر نظر
ڈالیے ۰۰۰ عراق، شام، یمن، افغانستان، سوڈان، لیبیا، اردن، نائجیریا وغیرہ
میں مسلمان خود آپس میں متحد نہیں ہیں۔ عرب ممالک میں امن وسلامتی دکھائی
دیتی ہے لیکن اس کے پیچھے کیا وجوہات ہیں جس کا اندازہ ہم جیسے عام لوگوں
کو نہیں ہے، ان حکمرانوں کے خلاف بھی آوازیں اٹھتی ہیں لیکن اسے کس طرح
دبادیا جاتا ہے کہ اسے وہی لوگ جانتے ہیں جنکے خلاف کارروائی ہوئی ہے یا وہ
جو اس کارروائی کو حکمرانوں کے اشاروں پر عمل کئے ہیں۔بتایا جاتا ہیکہ بعض
عرب ممالک میں لوگ اتنے ڈرے رہتے ہیں کہ ایک دوسرے سے بات کرتے وقت بھی
احتیاط برتتے ہیں کہ کہیں سامنے والا حکومت کا کارندہے یا جاسوس تو نہیں جس
کے سامنے حکمرانوں یا ملک کے حالات کے خلاف اگر کچھ کہہ دیا جائے تو پھر
سلاخوں کے پیچھے نہ پہنچ جائے۔خیر ملک کے حکمراں اپنی کرسی کو صحیح و سلامت
اور تادیر قائم رکھنے کے لئے کچھ بھی کرسکتے ہیں۔ یہ خلفائے راشدین کا وہ
دور نہیں جہاں کا حکمراں قاضی وقت کے بلاوے پر حاضر عدالت ہو۰۰۰ حالات کا
تقاضہ ہے کہ مسلمانوں میں اتحاد و اتفاق ہو۰۰۰ اسی سلسلہ میں ترکی کے صدر
رجب طیب اردغان نے اسلام دشمنی کے خاتمے کے لئے گذشتہ دنوں مسلمانوں کو
یکجا ہونے کی ضرورت پر زور دیا۔
صدر رجب طیب اردغان نے کہا کہ ہمیں اسلام دشمنی،غیر ملکی نفرت اور معاشرتی
نسل پرستی جیسی برائیوں کے خلاف یکجا ہونے کی ضرورت ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ
مسلمان اسی وقت خوشحال اور آسودہ زندگی گزار سکتے ہیں جب وہ اپنی صفوں میں
اتحاد و یگانگی کو فروغ دینگے۔صدر اردغان نے ہر سال امریکہ میں منعقد ہونے
والے MAS-ICNA کنونشن کے بیسویں اجلاس میں ویڈیو پیغام کے ذریعہ شرکت کی۔
انہوں نے اپنے پیغام میں کہا کہ اﷲ تعالیٰ نے ہمیں قرآن کریم میں ہر مشکل
کے ساتھ آسانی کا بھِی مژدہ سنایا ہے۔ انہوں نے روحانی پیشوا مولانا رومی
کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ مولانا رومی نے بھی اپنے قول میں کہا کہ نا
امیدی کے بعد امیدیں جنم لیتی ہیں ،تاریکی کے بعد اجالا ممکن ہوتا ہے جو کہ
فرمان الٰہی کا ہی عکس ہے ،ہم نے بھی اس مژدہ الٰہی کو بطور گواہ
سیاسی،امور ہائے زندگی ،ملکی و قومی امور اور امت مسلمہ کے طور پر دیکھا
ضرور ہے، ہر مشکل کے بعد ایک آسانی کا راستہ ہمیں ضرور نظر آیا ہے۔اردغان
نے کہا کہ کورونا کی وبا کے بعد آسانی و آسودگی کا لطف ہم لینگے جس کیلئے
ضروری ہے کہ ہم احتیاطی تدابیر اپناتے ہوئے اس وبا کے خلاف کوششکریں، ترکی
صدر نے کہا کہ وبا کے باعث روزگار سے محروم ہوئے افراد کی مدد ضروری ہے
جبکہ معاشرتی طبقات کی خّوشحالی کیلئے صرف کردہ کوششوں میں اضافہ کرنا بھی
ناگزیر ہے۔ جیسا کہ اوپر بتایا گیا اس سلسلہ انہوں نے مزید کہا کہ بڑھتی
ہوئی اسلام دشمنی،غیرملکی نفرت اور نسل پرستی کے خلاف مسلمانوں کو یک جہتی
کی زیادہ ضرورت ہے اوریہ اسی وقت ممکن ہوگا جب ہم میں اتحاد و یگانگت پروان
چڑھے گی۔ ہمیں نسل و رنگ کی تفریق کے بجائے اپنی صفوں میں جذبہ اخوت کو
تقویت دینا ہوگی کیونکہ تمام مسلمان ایک دوسرے کے بھائی ہیں۔اسلام
تفریق،قوم پرستی،فتنہ و فساد سے پاک مذہب ہے،ہمیں اپنے وجود کو در پیش تمام
خطرات کے خلاف خیرسگالی اور شفقت و مرحمت کی مفاہمت کو اپنے معاشروں میں
ترجیح دینا ہوگی اور اگر ایسا کیاگیا تو مجھے یقین ہے کہ رب باری تعالیٰ ہم
پر اپنی رحمتوں کے دروازے ضرورکھولے گا۔
ترک صدر رجب طیب اردغان نے جس طرح گذشتہ برسوں کے دوران ترکی کی معیشت کو
استحکام بخشا ہے اور اسے مزید ترقی کی راہوں پر دیکھنا چاہتے ہیں انکا ہے
کہ ’’ جدت اور ٹیکنالوجی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں اور یہی ترکی کی
سیاسی آزادی کی ضمانت بھی ہے۔‘‘صدر اردغان نے ترکی کی سائنسی اور تکنیکی
تحقیقی کونسل (TUBITAK) اور ترک اکیڈمی آف سائنسز (TÜBA) سائنس ایوارڈز کی
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ان خیالات کا اظہار کیا۔انہوں نے صنعت کے تمام
شعبوں میں بہتری کی طرف نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ ہم اپنے اہداف کی جانب
تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ صدر کا کہنا تھا کہ تکنیکی آزادی ہی سیاسی آزادی کی
ضمانت ہے لہذ ا ہم اپنے اصولو ں کو اپناتے ہوئے کام جاری رکھیں گے۔ترکی کی
ترقی اور خوشحالی کیلئے اور اسے معاشی استحکام پہچانے والے صدر ترک نے کہا
کہ ترکی نے حال ہی میں سائنس، سائنسدانوں اور ٹیکنالوجی میں بڑی سرمایہ
کاری کی ہے۔’’اس طرح سے، ہمارا ملک اپنی ٹیکنالوجی کو اعلیٰ سطحوں تک لے کر
اپنی کوششوں کے ثمرات حاصل کرنے کی راہ پر گامزن ہے۔‘‘اردغان نے مزید بتایا
کہ ترکی اس سال دس قدم مزید آگے بھرتے ہوئے گلوبل انوویشن انڈیکس میں 41
ویں نمبر پر پہنچ گیا ہے اور ٹاپ 50 لیگز میں سب سے زیادترقی کرنے والا ملک
بن گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ "گذشتہماہ کے آخر تک، ہم نے 221 بلین ڈالر کی
سالانہ برآمدات کی ہیں اور ہمیں امید ہے کہ وہ دن قریب ہیں جب ہمارے کرنٹ
اکاؤنٹ سرپلس ہونا شروع ہو جائیں گے۔اس طرح انکا کہنا تھا کہ ہمارا ہداف
پروڈکشن ، سرمایہ کاری، روزگار اور برآمدات میں اضافہ کرنا ہے۔ ترکی نئی
نئی ایجادات اور اہم شعبوں میں سرمایہ کاری کے ذریعہ عالمی سطح پر اپنا
لوہا منوارہا ہے۔
سعودی خواتین کیلئے ایک اور قدم آگے۰۰۰
اب آئیے مملکت سعودی عرب نے خواتین کیلئے ایک اور اہم قدم اٹھایا ہے ۔سعودی
عرب میں پہلی مرتبہ خواتین ڈرائیوروں کے لئے ’ ’ریلی جمیل‘‘ کا انعقاد
کروایا جا رہا ہے جو منتظمین کے مطابق 17 ؍سے 19؍ مارچ کے درمیان ہوگی۔عرب
نیوز کے مطابق یہ ریلی مملکت کے ویژن 2030 کے ترقی اور تنوع کے پروگرام کے
اہداف کے تحت کروائی جارہی ہے جس کا تعلق خواتین کو بااختیار بنانے سے
بتایاجاتا ہے۔سعودی عرب کے سابق ریلی ڈرائیور عبداﷲ بخاشب ریلی جمیل کے
باقاعدہ منتظم ہیں۔انہوں نے بتایا کہ ’900 کلومیٹر کی ریلی تین روز پر
مشتمل ہوگی جو حائل سے شروع ہو کر قسیم صوبے سے ہوتے ہوئے ریاض میں ختم
ہوگی۔ ہر ٹیم میں ایک خاتون ڈرائیور اور ایک اسسٹنٹ ہوں گے۔ اس میں صرف 20
خاتون ڈرائیورز حصہ لے سکیں گی جنہیں آرگنائزنگ کمیٹی نامزد کرے گی۔
رجسٹریشن ’ریلی جمیل ڈاٹ کام‘ ویب سائٹ کے ذریعہ کی جاسکتی ہے۔‘خصوصی تقریب
کے موقع پر شہزادہ خالدبن سلطان العبد اﷲ الفیصل کا کہنا تھا کہ ایسے
اقدامات سے ’ہم مقامی افراد کی حوصلہ افزائی کرنا چاہتے ہیں۔ ہم سعودی عرب
میں مزید خواتین کو ریسنگ کرتے ہوئے دیکھنا چاہیں گے‘۔
افغانستان میں لڑکیوں کیلئے یونیورسٹیوں میں علیحدہ تعلیم کے انتظامات
افغانستان میں طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آجانے کے بعد عالمی سطح پر
افغان خواتین اور لڑکیوں کی تعلیم اور روزگار کے سلسلہ میں آوازیں اٹھنے
لگی تھیں۔ طالبان انتظامیہ کا کہنا ہے کہ افغانستان میں طالبات کیلئے خصوصی
انتظامات کئے جارہے ہیں۔ اس سلسلہ میں افغانستان میں طالبان کے قائم مقام
وزیر تعلیم عبدالباقی حقانی نے کہا ہے کہ معاشی مسائل کے علاوہ یونیورسٹیوں
کی بندش کی ایک بڑی وجہ مخلوط نظام تعلیم ہے۔افغان خبر رساں ایجنسی خامہ
پریس کے مطابق اتوار کو قائم مقام وزیر تعلیم عبدالباقی حقانی نے کہا کہ وہ
لڑکیوں کے لیے علیحدہ کلاسز تشکیل دیں گے اور اضافی اساتذہ بھی تعینات کریں
گے جس کے لیے اضافی وقت اور بجٹ کی ضرورت ہے۔طالبان حکام کا کہنا ہے کہ
لڑکیوں کیلئے یونیورسٹیوں میں علیحدہ انتظامات کیے جا رہے ہیں۔واضح رہے کہ
مغرب کی حمایت یافتہ حکومتوں کے ادوار میں خواتین یونیورسٹیوں میں تعلیم
حاصل کر رہی تھیں جہاں مخلوط نظام تعلیم تھا۔ بین الاقوامی برادری نے بھی
مطالبہ کیا ہے کہ طالبان لڑکیوں کو اعلیٰ تعلیم تک رسائی کی اجازت دیں۔
بغداد کی تاریخی کتابوں والی گلی ’’المتنبی اسٹریٹ ‘‘دوبارہ آباد
عراق کے دارالحکومت بغداد میں امریکہ اور اسکے اتحادی ممالک نے صدر عراق
صدام حسین پر الزامات عائد کرکے جس طرح عراق پر خطرناک فضائی حملے کرتے
ہوئے جانی و مالی نقصان پہنچایا ہے اور مردِ آہن صدر صدام حسین کو پھانسی
دے دی گئی وہیں عراق کی تاریخی عمارتوں، کتب خانوں اور بازاروں وغیرہ
کومٹانے کی بھرپور کوشش کی۔ بتایا جاتا ہے کہ بغداد میں تاریخی’ ’بک
اسٹریٹ‘‘ واقع ہے۔ دسویں صدی کے مشہور شاعر ابو الطیب المتنبی کے نام سے
منسوب کتابوں والی گلی کو دہائیوں بعد اس کی اصلی حالت میں بحال کیا گیا
ہے۔ اس اسٹریٹ کی بحالی پر عراقی شہریوں نے جشن منایا ہے۔
***
|