16 دسمبر
سقوط ڈھاکہ اور میرا ذاتی نقطہ نظر
اسلام علیکم
تقریبا 20 سال پہلے جب میں AT&T سعودی عرب میں بطور انجینئر کام کر رہا تھا
وہاں میرے کچھ دوست بنگلادیشی بھی تھے۔ وہ سب بہت اچھے، بااخلاق اور پڑھے
لکھے تھے۔ ہم سب اکھٹے نماز پڑھتے، چائے پیتے۔ وہاں پر میری زیادہ دوستی
ایک بنگلادیشی فضل الرحمن سے بھی تھی۔ میں اپنی فیملی کے ساتھ ان کے گھر
جاتا اور وہ بھی بچوں کے ساتھ ہمارے گھر آتا۔ ہم اردو میں باتیں کرتے۔ ایک
دن میں نے اسے مذاق میں کہہ دیا کہ یار فضل آپ بھی تو پاکستانی ہو نا۔۔۔یہ
سننا تھا کہ فضل ایک دم غصے میں آگیا اور انگریزی میں بولا Don't call me
Pakistani, I am Bangladeshi. اور پھر بہت دنوں تک وہ مجھ سے ناراض ہی رہا۔
مجھے اس کی ناراضگی کی وجہ سجھ میں نہیں آئی۔
لیکن یہ ضرور پتا چل گیا کہ بنگلہ دیشی پاکستان سے نفرت کرتے ہیں۔ اس
ناراضگی کی وجہ جاننے کے لیئے میں نے تاریخ کا مطالعہ کیا، تعلیمی نصاب
پڑھا اور اپنے بزرگوں سے پوچھا مگر کسی کے پاس کوئی منطقی جواب نہیں تھا۔
اس موضوع پر ایک مجرمانہ خاموشی تھی۔
افسوس تو اس بات کا تھا کہ دوسری طرف بنگلہ دیش میں تاریخ کو مسخ کر کے
پاکستان کو پوری قوم کے سامنے ایک مجرم، ظالم، ناانصاف اور سفاک کے طور پر
پیش کیا جاتا ہے اور اس جھوٹی تایخ کو تعلیمی نصاب میں شامل کر کےشدید نفرت
اپنی قوم کے ذہنوں میں ڈالی جا رہی ہے۔
اور ہماری طرف ہمارے قائیدین، علماء اور بزرگ قوم کے سامنے حقائق تو بیان
کرتے نہیں بلکہ قوم کو غیر واضح، مبہم آور پیچیدہ الفاظ جیسے کہ انتہا
پسندی، شدت پسندی، غدار، غیر ملکی ہاتھ، فارن فنڈنگ وغیرہ میں الجھا کر رکھ
دیتے ہیں۔ سقوط ڈھاکہ کے عظیم سانحہ کو اس شعر سے سمجھا جا سکتا ہے
تو ادھر ادھر کی نہ بات کر یہ بتا کہ قافلہ کیوں لٹا
مجھے رہزنوں سے گلا نہیں تری رہبری کا سوال ہے
|