یوں تو پاکستان کی سیاسی تاریخ میں بہت سے سیاسی لیڈر آئے
اور گئے لیکن ان تمام میں سے چند ہی لیڈر عوام کی امنگوں پر پورا اتر سکے
ورنہ اکثر سیاستدانوں کا مرکز ومحور اپنا ذاتی مفاد ہی رہا اور ہماری قوم
باربا ر ایسے سیاستدانوں کی چکنی چپڑی باتوں میں آکر ان ابن الوقت اور جاہ
ومنصب کے بھوکے سیاستدانوں کو اپنا قیمتی ووٹ دے کر ایوان اقتدار میں
پہنچاتی رہی جس کی وجہ سے ہمارا پیار ملک پاکستان آج تک عدم استحکام اور بے
شمار عوامی مسائل کا شکار ہے جس سے چھٹکارا دلانے کا وعدہ اور دوعوہ ہر نیا
اور پرانا سیاستدان کرتا ہے لیکن افسوس ایک یا دو سیاستدانوں کے علاوہ باقی
سب سیاستدانوں نے اقتدار میں آنے کے بعد عوام کی امنگوں اور امیدوں کو پورا
کرنے کی بجائے صرف اپنے اقتدارکو دوام بخش کر اپنے ذاتی اور پارٹی مفادات
کے لیے کام کیا یہی وجہ ہے کہ آج پاکستانی عوام کسی بھی سیاسی لیڈر کی
باتوں اور دعووں کو اہمیت دینے پر آمادہ نظر نہیں آتی ۔پاکستان میں عوامی
سطح پر مقبول اور انتخابی میدان میں کامیاب ہونے والے سیاست دانوں کی تعداد
انگلیوں پر گنی جاسکتی ہے جن میں ذوالفقار علی بھٹو،محترمہ بے نظیر
بھٹو،نواز شریف،آصف زرداری ،عمران خان کے نام سرفہرست ہیں جبکہ کچھ سیاست
دان عوام میں تو کافی مقبول رہے لیکن انہوں نے بذات خود کبھی الیکشن میں
حصہ نہیں لیا جن میں الطاف حسین اور پیر پگاڑا کے نام شامل ہیں ۔ان مذکورہ
سیاست دانوں کے علاوہ جن سیاست دانوں کو اپنے اپنے ذاتی حلقوں یا علاقوں
میں عوامی پذیرائی حاصل رہی ان کی فہرست میں بھی کئی اہم لوگ شامل ہیں جن
میں نواب زادہ نصراﷲ خان، چوہدری شجاعت حسین ،چوہدری پرویز الٰہی،شیخ رشید
،مولانا فضل الرحمان ،فاروق ستار اور مصطفی کمال کے نام بہت نمایاں ہیں۔
آج کا میرا یہ کالم مفاد پرست سیاست دانوں کے اس سیاہ دور میں عوامی مسائل
کو سمجھتے ہوئے ان کو پورے خلوص اورسنجیدگی کے ساتھ حل کرنے کے لیے مسلسل
کوشاں اور ہر عوامی مسئلے پر آواز بلندکرنے کے ساتھ اپنے سیاسی اور عملی
تجربات کی روشنی میں ان گوناں گوں مسائل کا حل پیش کرنے والے سچے ،کھرے
،نڈراور بے باک سیاست دان مصطفی کمال کی شخصیت اور کارکردگی کے حوالے سے ہے
لیکن جب بھی کسی سیاست دان کے بارے میں کوئی تحریر لکھی جائے تو میری کوشش
ہوتی ہے کہ قارئین کو اختصار کے ساتھ پاکستان کے سیاسی منظر نامے سے بھی
آگاہ کرتا چلوں کہ آج کے نوجوانوں کی اکثریت کو پاکستان کی سیاسی تاریخ کے
بارے میں صحیح معلومات نہیں ہیں اور پھر کسی سیاست دان کی شخصیت اور
کارکردگی کو جانچنے کے لیے سیاسی حالات کا مختصر تذکرہ اور تجزیہ بھی ضروری
ہوتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اپنے اس کالم کا آغاز بھی میں نے پاکستان کی سیاسی
تاریخ کی چیدہ چیدہ شخصیات کے تذکرے سے کیا ہے۔ذوالفقار علی بھٹو کے بعد بے
نظیر بھٹو اور پھر پرویز مشرف کے دور تک بھی عوامی مسائل کو حل کرنے کی
سنجیدہ کوششیں کی جاتی رہیں اور ان ادوار حکومت میں بہت سے اچھے کام کیے
گئے جبکہ نواز شریف اورآصف زرداری نے کرپشن اور ذاتی مفادات کے حصول کے لیے
عوامی مسائل سے جو مجرمانہ لاتعلقی اختیار کی اس نے عوام میں ایک سچی اور
اچھی مخلص قیادت کا خلا پیدا کردیا ۔پرویز مشرف کے بعد جو بھی حکمران
اقتدار میں آیا اس نے عملی طور پر عوام کی فلاح وبہبود یا عوام کو روزمرہ
کے مسائل اور مہنگائی سے نجات دلانے کے لیے سنجیدہ کوششیں نہیں کیں اور یوں
عوام کی نظروں میں سیاست دانوں کا طبقہ ناقبل اعتبار قرار پایا۔ نواز اور
زرداری کے آنے سے پہلے پاکستان میں زیادہ تر پاکستان پیپلز پارٹی کی جمہوری
حکومت رہی یا پھر مارشل لا لگاکر فوجی حکمرانوں نے حکومتی نظام کو چلایا وہ
توبھلا ہوایوب خان کے بعد اقتدار میں آنے والے پہلے عوامی لیڈر قائدعوام
ذوالفقار علی بھٹو شہید کا جس نے اقتدار میں آنے سے پہلے جو کچھ کہا
،حکمران بننے کے بعدنہ صرف اپنے وعدوں اور دعووں کو پورا کرکے دکھایا بلکہ
پاکستان کی سیاسی تاریخ میں بھٹو صاحب نے کچھ نئے اور مثبت کام ایسے بھی
کیے جو ان سے پہلے یا ان کے بعد آنے والا کوئی بھی حکمران آج تک نہیں کرسکا
۔البتہ یہ بات اور ہے کہ آج پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو شہید کی بنائی
ہوئی پیپلز پارٹی کی قیادت جن مفادپرست سیاستدانوں کے ہاتھ میں انہوں نے
بھٹو ازم اور بھٹو صاحب کے امیج اور ساکھ کو برباد کرنے میں کوئی کسر نہیں
چھوڑی اور افسوس کی بات یہ ہے کہ پیپلز پارٹی پر قابض زرداری گروپ سارے غلط
کام جیے بھٹو کے نعرے لگا لگاکر کررہا ہے اور یہ وہ مضموم حرکت ہے جس پر اس
ملک کی عوام اس مفاد پرست ٹولے کو کبھی معاف نہیں کرے گی۔
بھٹو صاحب کے بعد عوامی مسائل کو حل کرنے کے وعدے اور دعوے کرنے والے
سیاستدانوں میں نواز شریف اور عمران خان کا نام سرفہرست ہے ۔نواز شریف کا
طویل سیاسی کیرئر ساری قوم کے سامنے ہے اور وہ کتنا عوامی تھا اور عوام کے
لیے اس نے کون سا کارنامہ انجام دیا اس حقیقت سے بھی سب واقف ہیں جبکہ نواز
شریف اور ان کے خاندان نے پاکستان کے خزانے کو اپنی کرپشن اور لوٹ مار کے
ذریعے جو نقصان پہنچایا وہ بھی کسی سے ڈھکی چھپی حقیقت نہیں ہے۔ نواز شریف
کی کرپشن ،لوٹ مار اور نواز دور میں ہونے والی مہنگائی کا ڈھول پیٹتے ہوئے
عمرا ن خان نے اپنی سیاسی پارٹی پی ٹی آئی کے پلیٹ فارم سے اقتدار میں آنے
سے پہلے جو بلند بانگ دعوے ،وعدے بلکہ ڈینگیں ماریں ان کا جو حال ہوا ہے اس
نے قوم کی نظروں میں عمران خان کے امیج کو بطور ایک سیاسی لیڈر اور
وزیراعظم بری طرح متاثر کیاہے کیونکہ عمران خان نے صرف وزیراعظم بننے کے
لیے اپنی انتخابی مہم کے دوران کچھ ایسی ناقابل فہم اور ناقابل عمل باتیں
کیں جو اقتدار میں آنے کے بعد ان کے گلے کا طوق بن گئیں اور پھر ان کے چمچے
نما ساتھیوں نے ان کی ناکامی پر مہر ثبت کرنے کے لیے اتنی زیادہ غلطیاں کیں
جن کو سنبھالنا اب کسی کے بس کی بات نہیں رہی۔عمران خان بغیر کسی تیاری اور
ہوم ورک کیے صرف نعرے بازی ،بلند وبانگ دعووں اور نواز دور میں بڑھتی ہوئی
مہنگائی کے ایشو کو ہائی لائیٹ کرتے ہوئے نیا پاکستان کا نعرہ لگاکر
پاکستانی عوام کو یہ یقین دلانے میں کامیاب ہوگئے کہ اگر وہ اقتدار میں
آگئے تو وزیراعظم بنتے ہی عوام کے گوناگوں مسائل صرف 6 ماہ حل کرکے عوام کو
مہنگائی کے عذاب سے چھٹکارا دلا دیں گے اور انہوں نے ووٹ لینے کے لیئے یہاں
تک کہا کہ اگر میں وزیراعظم بن گیا تو آئی ایم ایف کے پاس امداد لینے کبھی
نہیں جاؤں گا ملکی وسائل سے پاکستان کو چلاؤں گا اور زور خطابت میں یہ بھی
کہہ دیا کہ آئی ایم ایف میں جانے سے بہتر ہوگا کہ میں خود کشی کرلوں اور
بارباریہ بھی کہتے رہے کہ جب مہنگائی بڑھتی ہے تو اس کا مطلب ہوتا ہے کہ
وزیراعظم چور ہے، لیکن افسوس سب سے زیادہ مہنگائی عمران خان کے دور میں ہی
بڑھی اور وزیراعظم بننے کے بعدوہ اپنے اکثردعوے اور وعدے پورے نہیں کرپائے
اور آئی ایم ایف کے پاس گھٹنے ٹیک کر اور سر کے بل چلتے ہوئے گئے اور عوام
کا اعتبار کھوبیٹھے۔ پچاس لاکھ گھر،کروڑوں نوکریاں اور 200 ماہر ین کی ٹیم
سے ملک کی کایا پلٹنے کے دعوے سب کچھ آج ان کے ساڑھے تین سال دور حکومت کے
دوران بری طرح غلط اور جھوٹے ثابت ہوچکے ہیں اورجس عوام نے عمران خان کے
سابقہ ٹریک ریکارڈ کو دیکھتے ہوئے یعنی ان کے پاکستان کو کرکٹ کا ورلڈ کپ
دلوانیسے لے کرشوکت خانم کینسر ہسپتال اور نمل یونیورسٹی کے مشکل ترین
پروجیکٹس کو کامیابی سے مکمل ہوتے دیکھنے کی وجہ سے ان پر بھروسہ کیا اسی
عوام کو یہ دیکھ کر بہت دکھ اور افسوس ہوا کہ اقتدار میں آنے کے بعد وہ
عملی طور پر ایک ناکام ترین وزیراعظم کے طور پر سامنے آئے ہیں جس کی اس قوم
کو بالکل امید نہیں تھی۔عمران خان کی سب سے بڑی اپوزیشن اس وقت مہنگائی ہے
اگر عمران خان کے دورحکومت میں مہنگائی میں اضافہ نہ ہوتا تو عمران خان نے
جو دو تین بہت اچھے کام کیے ہیں جن میں قومی لباس اور قومی زبان کو ملکی
اوربین الاقوامی سطح پر فخر کے ساتھ اور مسلسل استعمال کرتے ہوئے پوری دنیا
سے پاکستان کی قومی زبان اور قومی لباس کا احترام کروانااور مذہبی رواداری
کے فروغ کے لیے ان کا تمام بین الاقوامی فورمز پر حضرت محمدﷺ کی شان میں
گستاخی کو ایک بڑے جرم کے طور پر اجاگر کرنا جس کی وجہ سے آج امریکہ اور
روس جیسی سپر پاورز کی جانب سے ہمارے آخری بنی حٖضرت محمد ﷺ کی کردار کشی
یا ان کی شان میں کسی بھی قسم کی گستاخی کوحکومتی سطح پر ایک جرم تسلیم کر
لیا گیا ہے جو کہ عمران خان کی بہت بڑی سفارتی کامیابیاں ہیں اور پھر حب
الوطنی پر مبنی ان کے بعض دور رس اقدامات جن میں ایک طویل عرصہ بعد پاکستان
میں پانی کو ذخیرہ کرنے اور بجلی کی کمی کو دور کرنے کے لیے چند ڈیموں پر
باقاعدہ عملی کام کا آغاز بعض بہت ہی مفید اور اہم اصلاحات اور عوامی سطح
پر بالکل ہی غریب لوگوں کے لیئے کیے گئے ان کے کچھ کام جن میں پناہ گاہیں،
لنگر خانے اور صحت کارڈ وغیرہ کے عملی طور پر نافذ ہونے کی وجہ سے ،ان کی
سیاسی اپوزیشن پر مبنی مفاد پرستانہ اتحاد پی ڈی ایم اگلے پانچ سال تک بھی
ان کا بال بھی بیکا نہیں کرسکتی تھی لیکن صرف دن بدن بڑھتی ہوئی شدید
مہنگائی کی وجہ سے عمران خان کی مقبولیت کا گراف انتہائی تیز ی کے ساتھ
نیچے آیاجس کا ادراک حکومتی حلقوں کو کافی دیر سے ہوا پھر پی ٹی آئی اور
عمران خان کے خلاف مختلف مافیاز نے بھی اپوزیشن جماعتوں کی تھپکی کی وجہ سے
خوب کھل کر کھیل کھیلا اور یوں ایک ایمانداراور محب وطن پاکستانی وزیراعظم
کے خلاف مہنگائی ایک پہاڑ بن کر کھڑی ہوگئی جس پر اپنی تمام تر توجہ اور
کوششوں کے باوجود عمران خان قابو نہ پاسکے۔
مفاد پرست سیاست دانوں کی بھیڑ میں گزشتہ چند سالوں کے دوران کراچی سے تعلق
رکھنے والا ایک اور پرانا سیاست دان اپنی سابقہ پارٹی ایم کیو ایم کو
خیرباد کہہ کر ایک نئی سیاسی جماعت ’’ پاک سرزمین پارٹی ‘‘ بنا کر اس کے
سربراہ اور چئیرمین کے طور پر سامنے آیا تو لوگوں نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا
کہ یہ لیڈر عوام کے لیے نیا نہیں تھا اور اس نے اپنی سابقہ سیاسی جماعت میں
رہتے ہوئے پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کے مئیر کے طور پر جو شاندار اور
مثالی کارکردگی دکھائی تھی اس کا سارا پاکستان گرویدہ تھا ۔جی ہاں! میں بات
کر رہا ہوں مصطفی کمال کی جس کی اہلیت ،قابلیت ،ایمانداری اور کراچی کے
ناظم کے طور پر بہترین کارکردگی سے ملک کا بچہ بچہ واقف ہے۔مصطفی کمال نے
جس وقت اپنی نئی سیاسی جماعت پاک سرزمین پارٹی بنانے کا اعلان کیا اور اپنی
سابقہ پارٹی ایم کیو ایم کے بانی اورقائد الطاف حسین کے خلاف کھلم کھلا علم
بغاوت بلند کرتے ہوئے سیاسی اکھاڑے میں اترے تو بہت سے لوگوں نے ان کا مذاق
اڑایا کہ یہ کیسے الطاف حسین کے اشارے پر بند ہونے والے شہر کراچی میں
الطاف حسین اور ایم کیو ایم کے خلاف اپنی سیاسی جدوجہد جاری رکھنے میں
کامیاب ہوسکیں گے کیونکہ اس سے قبل اس طرح کی کوشش آفاق احمد بھی ایم کیو
ایم حقیقی بنا کر کرچکے تھے لیکن وہ ایک طویل عرصہ سے سیاست میں سرگرم عمل
ہونے کے باوجود ایم کیوایم اور الطاف حسین کا ووٹ بینک ختم کرنے میں کامیاب
نہ ہوسکے تو لوگوں نے کہا کہ مصطفی کمال اور انیس قائم خانی بھی آفاق احمد
کی طرح عوامی سطح پر مسترد ہوکر بہت جلد سیاسی منظرنامے سے غائب ہوجائیں گے
لیکن مارچ 2018 میں ایم کیو ایم سے بالکل علیحدہ ایک نئی قومی سیاسی جماعت
پاک سرزمین پارٹی کے قیام سے لیکر آج تک مصطفی کمال کی عوامی حمایت میں
مسلسل اضافہ ہورہا ہے یہ الگ بات ہے کہ انہیں بھرپور کوششوں کے باوجود ابھی
تک انتخابی سیاست میں کوئی بھی کامیابی حاصل نہیں ہوسکی ۔شاید اس کی وجہ یہ
بھی ہو کہ وہ ایم کیوایم سے نکلے ہوئے کراچی کے پہلے اردو اسپیکنگ لیڈر ہیں
جنہوں نے لسانی سیاست کو مسترد کرتے ہوئے قومی سیاست کرنے کا راستہ اختیار
کیا جو کہ کراچی اور خاص طور پر ایم کیو ایم کو ووٹ دینے والے مہاجروں کی
توقع کے برخلاف تھا جبکہ ماضی میں جو بھی لیڈر ایم کیو ایم کو چھوڑ کر باہر
گیا یا اس نے بغاوت کی یاتو اسے قتل کردیا گیا یا پھر وہ سیاسی طور پر
گمنامی کا شکار ہوکر اپنی موت آپ مرگیا۔اسی تناظر میں آج بھی اردو بولنے
والوں کے ایک بہت بڑی تعداد مصطفی کمال کو ایم کیو ایم اور الطاف حسین کے
غدار کے طور پر دیکھتی ہے ۔
شاید یہی وجہ ہے کہ مصطفی کمال کو کراچی کے پڑھے لکھے امن پسند طبقے کی
حمایت اور سپورٹ تو حاصل ہوگئی لیکن وہ انتخابی سیاست میں اپنی جگہ بنانے
میں تاحال کامیاب نہیں ہوسکے۔مصطفی کمال نے جب الطاف حسین اور ایم کیو ایم
سے بغاوت کرتے ہوئے نہایت دلیری کے ساتھ سچ بولنا شروع کیا تو اسٹارٹ میں
ان کے ساتھ بس گنتی کے ہی لوگ تھے کہ اس دور میں الطاف حسین سے غداری کرنے
والے کی کم سے کم سزا ’’موت‘‘ تھی لیکن مصطفی کمال اور انیس قائم خانی نے
اپنی جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اردو بولنے والوں کو چند ایسے حقائق سے
آگاہ کیا جو اس سے پہلے عوام نہیں جانتے تھے۔ مصطفی کمال نے الطاف حسین اور
ایم کیو ایم کی دھشت گردانہ سیاست کا پردہ چاک کرتے ہوئے بہت سے چونکادینے
والے انکشافات کیے جس کے بعد کراچی سے رفتہ رفتہ خوف کی وہ فضا ختم ہونے
لگی جو مصطفی کمال کے نئے انداز سیاست سے پہلے قائم تھی اور لوگ ہچکچاتے
ہوئے پاک سرزمین پارٹی کا حصہ بننے لگے ۔جب بھی کوئی نئی سیاسی جماعت بنتی
ہے تو اس میں نظریاتی کارکنوں کے ہمراہ ذاتی مفاد حاصل کرنے والے بھی گھس
آتے ہیں یہی مصطفی کمال اور پاک سرزمین پارٹی کے ساتھ بھی ہوا کہ ابتدا میں
ایم کیو ایم سے تعلق رکھنے والے بڑے بڑے نام مصطفی کمال کے ساتھ اس امید پر
کھڑ ے ہوئے نظر آئے کہ شاید مصطفی کمال کو الطاف حسین اور ایم کیو ایم کے
متبادل کے طور پرعوامی مقبولیت حاصل ہوجائے تو وہ انتخابات میں پاک سرزمین
پارٹی کے پلیٹ فارم سے الیکشن لڑ کر ایک بار پھر اقتدار میں آنے میں کامیاب
ہوجائیں کہ اس زمانے میں ایم کیو ایم مقتدر حلقوں کی نظروں میں شجر ممنوعہ
بن کر اہم اداروں کے زیر عتاب تھی اور اس وقت کی سیاسی صورتحال میں کسی بھی
اردو اسپیکنگ لیڈر کے لیے سب سے بہترین پلیٹ فارم یا پناہ گاہ مصطفی کمال
اور انیس قائم خانی کی لسانیت اور ہر طرح کی عصبیت سے پاک نئی سیاسی جماعت
پاک سرزمین پارٹی ہی ہوسکتی تھی لیکن جب ان لوگوں کی توقعات کے برعکس مصطفی
کمال کے بڑے بڑے کامیاب جلسے ہونے کے بعد بھی عوام نے انتخابات کے دوران
پاک سرزمین پارٹی کو قابل ذکر ووٹ نہیں دیا اور مصطفی کمال کی قیادت میں
پاک سرزمین پارٹی سے تعلق رکھنے والا کوئی بھی امیدوار الیکشن نہ جیت پایا
تو کچھ عرصہ کے بعدیہ فصلی بٹیرے ایک ایک کرکے خاموشی سے اڑتے چلے گئے نہ
انہوں نے پاک سرزمین پارٹی کو چھوڑنے کا اعلان کیا اور نہ ہی ان لوگو ں نے
دوبارہ ایم کیوایم کا کوئی بھی گروپ جوائن کیااور نہ ہی تاحال مصطفی کمال
نے ان بڑے ناموں کو اپنی سیاسی جماعت پاک سرزمین پارٹی سے نکالنے کا اعلان
کیا یوں پاک سرزمین پارٹی کے ابتدائی دور میں ہرجلسے اور تقریب میں مصطفی
کمال کے دائیں ،بائیں نظرآنے والے ایسے غائب ہوئے کہ ا ن کا کچھ اتہ پتہ ہی
نہ رہا۔البتہ مصطفی کمال نے اپنے ایک ٹی وی انٹرویو میں اس حوالے سے کچھ
باتیں کیں جن کا لب لباب یہ تھا کہ بعض لوگ شاید ہماری سیاسی جماعت سے
الیکشن جیت کر اسمبلیوں میں جانا چاہتے تھے لیکن ہماری پارٹی کو انتخابی
اکھاڑے میں کامیابی نہ مل سکی البتہ ہمیں اس بات کا احساس ضرور ہوا کہ
انتخابی ناکامی کے بعد ہمیں چھوڑ کرجانے والوں نے اپنا ہونے کا ثبوت نہیں
دیا لیکن ساتھ ہی ہمیں اس وقتی ناکامی سے یہ فائدہ ضرور پہنچا کہ ہم اور
ہماری سیاسی جماعت پاک سرزمین پارٹی پہلے سے کہیں زیادہ مظبوط ہوگئی اور اب
ہمارے ساتھ صرف وہی لوگ ہیں جو کسی بھی مفاد سے بالا تر
ہوکر ہمارے طرز سیاست ،فلسفے اور نظریے کو اچھا سمجھتے ہیں اور جن کی نظروں
میں پاکستان اور کراچی کے مسائل کو حل کرنے کے لیے پاک سرزمین پارٹی جیسی
قومی سیاسی جماعت ایک بہترین پلیٹ فارم ہے جس کے ذریعے تمام زبانیں بولنے
والے پاکستانی بلا کسی تخصیص کے اپنے دیرینہ مسائل کو حل کروانے کی امید
رکھ سکتے ہیں۔
پاکستانی عوام اور بالخصوص کراچی کے لوگ بہت خوش قسمت ہیں کہ کرپشن اور
مفاد پرستانہ سیاست کے اس دور میں انہیں مصطفی کمال کی صورت میں مڈل کلاس
سے تعلق رکھنے والا ایک ایسا قابل ،باصلاحیت ، سچا،نڈراور تجربہ کار عوامی
سیاسی لیڈر ملا ہے جس کا تعلق عوامی طبقے سے ہے وہ کسی جاگیردار ،چوہدری
،سرمایہ دار یا صنعت کار کا بیٹا نہیں ہے وہ ہماری اور آپ کی طرح کا ہی ایک
انسان ہے جو ہمارے درمیان ہی پل بڑھ کر جوان ہوا ہے جس نے اپنے شب وروز اسی
کراچی میں گزارے ہیں اور تمام تر عوامی مسائل کا اس نے بھی آپ کی اور ہماری
طرح سامنا کیا ہے یہی وجہ ہے کہ جب مصطفی کمال کو ایم کیوایم کے پلیٹ فارم
سے کراچی کے ناظم کے طور پر اپنی قابلیت اور کارکردگی دکھانے کا موقع ملا
تو اس نے نہ صرف پاکستان کے دیگر تمام شہر وں کے مئیرز کو پیچھے چھوڑ دیا
بلکہ اپنی مثالی کارکردگی کی وجہ سے اس کا شمار دنیا کے بہترین میئرز میں
کیا جانے لگا اجس کی وجہ اس کی ایمانداری ،خلوص ،عوامی مسائل کو حل کرنے کا
جذبہ اور دن رات کی انتھک محنت تھی جس نے اسے اردو بولنے والوں کے ماتھے کا
جھومر اور آنکھوں کا تارا بنا دیا اور اسے دنیا بھر میں بہترین مئیر کے طور
پر تسلیم کیا گیا۔مصطفی کمال اپنی سیاسی جماعت پاک سرزمین پارٹی کے پلیٹ
فارم سے عوامی مسائل پر نہ صرف مسلسل آواز اٹھارہے ہیں بلکہ اس کے ساتھ
اپنی قابلیت ،تجربے اور صلاحیت کو بروئے کار لاتے ہوئے گوناں گوں عوامی
،حکومتی اور قانونی مسائل کا حل بھی بتا رہے ہیں اور وہ بھی بغیر کسی مفاد
کے کیونکہ مصطفی کمال نے ایک بار اپنی ایک تقریر میں کہا تھا کہ ہم لوگ
باہر سے مذہبی نہیں لگتے لیکن ہم اندر سے کافی مذہبی ہیں ۔یہ بات انہوں نے
پاک سرزمین پارٹی کے قیام کے کچھ ہی دنوں بعد کہی تھی لیکن آج وہ ہمیں سچ
مچ ایک اسلامی،عوامی سیاسی لیڈر کے روپ میں نظر آرہے ہیں اور اب تو انہوں
نے سنت رسول پر عمل کرتے ہوئے باقاعدہ پوری داڑھی بھی رکھ لی ہے،فرنچ کٹ
داڑھی تو ان کی پہلے بھی تھی اس کے علاوہ ان کو قریب سے جاننے والے جانتے
ہیں کہ وہ نماز کے بھی بڑے پاپند ہیں اور ان کے تمام مکاتب فکر کے نامور
علامائے کرام سے بہت اچھے تعلقات ہیں جبکہ راقم الحرو ف کی بھی مصطفی کمال
سے کئی ملاقاتیں رہی ہیں جن کی وجہ سے ان کو قریب سے دیکھنے ،سننے ،اور
سمجھنے کا موقع ملا جبکہ مصطفی کمال کے ایم کیوایم چھوڑنے کے بعد کراچی میں
راقم کو ان کا سب سے پہلا انٹرویو کرنے کا اعزاز بھی حاصل ہوا ۔
مصطفی کمال کے اس نئے طرز سیاست اور سیاسی فلسفے کو پڑھے لکھے ،محب وطن اور
لسانیت سے پاک پرامن لوگوں میں بہت تیزی کے ساتھ مقبولیت اور پذیرائی حاصل
ہورہی ہے ۔مصطفی کمال کے ملک گیر جلسے ہوں یا عوامی مسائل پر مختلف احتجاجی
مظاہرے سب میں عوام کی بہت بڑی تعداد شریک ہوتی چلی آرہی ہے جس میں ہر زبان
اور نسل کے لوگ شامل ہوتے ہیں جو اس بات کا ثبوت ہے کہ مصطفی کمال کی
لسانیت سے پاک قومی سیاست کو ملک بھر میں بہت اچھی اور قابل قدر نظروں سے
دیکھا جارہاہے ،پھر وہ صر ف مہاجروں یا اردو بولنے والوں کے مسائل کی ہی
بات نہیں کرتے بلکہ وہ سندھ کے عام آدمی کے مسائل کی باتیں بھی بہت کھل کر
کرتے ہیں اور آج کل تو وہ موجودہ پیپلز پارٹی کی کرپٹ اور فاشسسٹ حکومت اور
خاص طور پر سندھ گورنمنٹ کی جانب سے تازہ ترین کالے بلدیاتی قانون کے خلاف
تقریریں اور احتجاجی مظاہرے کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں ۔ وہ سندھ کے غریب ہاری
اور کسان کے مسائل کو اجاگر کرکے ان کا حل بھی پیش کرتے ہیں وہ لاڑکانہ میں
کتے کے کاٹنے کے مسلسل واقعات اور اس کی ویکسین نہ ہونے کا باربار ذکر کرتے
ہیں وہ کراچی کے کچرے ،ٹوٹی ہوئی سڑکوں اور ابلتے ہوئے سیوریج سسٹم کے خلاف
آواز بلند کرتے ہیں وہ سندھ اور کراچی کے بہت سے علاقوں میں پینے کے صاف
پانی نہ پہنچنے پر سٹی حکومت اور بلدیاتی اداروں کو تنقید کا نشانہ بناتے
ہوئے ان مسائل کا حل بھی بتا تے رہتے ہیں اور وہ یہ دعوی بھی کرتے ہیں کہ
اگر ان کو اقتدار میں آنے کا موقع ملا تو وہ صرف 6 ماہ میں کراچی کے مسائل
کو ٹھیک کردیں گے ۔ان مذکورہ بالا تمام باتوں کی روشنی میں اندازہ لگایا
جاسکتا ہے کہ مصطفی کما ل کو ایک عام آدمی کے گلی محلے کے مسائل حل کرنے
میں کتنی زیادہ دلچسپی ہے ۔
مصطفی کمال کا کراچی کے مئیر کی حیثیت سے سابقہ ٹریک ریکارڈ بہت ہی شاندار
رہا ہے جو ان کاسب سے بڑا پلس پوائنٹ ہے۔جبکہ وہ فرقہ پرستی اور رنگ ونسل
کی بنیاد پر انسانی تفریق کے خلاف برسرپیکار ایک مخلص سیاسی رہنما کے طور
پر جانے پہچانے جاتے ہیں ۔مصطفی کمال عوام کو جھوٹے خواب اور سبز باغ دکھا
کر ووٹ لینے والا سیاست دان نہیں ہے اس لیے اس کو گزشتہ پانچ سال کے دوران
ہونے والے مختلف انتخابی معرکوں میں کامیابی حاصل نہیں ہوسکی لیکن اس کے
کردار ،اس کی شخصیت ،اس کے ارادوں اور اس کی قابلیت سے لوگ بتدریج متاثر
ہورہے ہیں اورمصطفی کمال نے گزشتہ پانچ سال کے دوران اپنی قیادت میں پاک
سرزمین پارٹی کے ذریعے جس طرح کراچی کے لوگوں کے ذہنوں کو اچھائی کی جانب
لے جانے کی مخلصانہ کوشش کی ہے اس کے نتیجے میں خاص طور پر کراچی کے
نوجوانوں میں غنڈہ گردی ،بدمعاشی ،بھتہ خوری،ٹارگٹ کلنگ اور دہشت گردی جیسی
برائیوں سے جو نفرت اور بے زاری پیداہوئی ہے وہ مصطفی کمال کا ایک ایسا
قابل تعریف اور قابل تقلید کام ہے جسے پاکستان اورخاص طور پر کراچی کی
سیاسی تاریخ میں سنہری حروف سے تحریر کیا جائے گا۔مصطفی کمال کا بیس کیمپ
چونکہ کراچی ہے اورا ن کو کراچی کے ایک تجربہ کارسیاست دان اور کامیاب ترین
مئیر کے طور پر جانا پہچانا جاتا ہے اس لیے وہ زیادہ تر کراچی کے مسائل پر
ہی اپنی توجہ مرکوز رکھ کر ان مسائل پر آواز بلند کرنے کے ساتھ ان کا حل
بھی بتاتے رہتے ہیں لیکن اگر ملک بھر کی عوام نے ان پر بھروسہ کیا اور ان
جیسے قابل اور محب وطن سیاسی رہنما کو پاکستان کے تمام صوبوں سے ووٹ دے کر
وزیراعظم کی کرسی تک پہنچایا تو دنیا دیکھے گی کہ وہ کس طرح پاکستانی عوام
کے مسائل بڑی مستعدی کے ساتھ بہت کم عرصے میں حل کرتے ہیں گوکہ ان کا
وزیراعظم کی کرسی تک پہنچنا فی الحال ناممکن نظر آتا ہے لیکن اگر وہ اسی
طرح خلوص اور ایمانداری کے ساتھ عوامی مسائل کے حل کے لیے کوششیں کرتے رہے
تو دیر یا بدیر یہی عوام ان کو وزیراعظم کی کرسی تک بھی پہنچادے گی ۔
سیاست دان آتے اور جاتے رہتے ہیں لیکن عوام کے دلوں میں وہی سیاست دان مرنے
کے بعد بھی زندہ رہتے ہیں جو عوامی مسائل کو حل کرنے کے لیے پورے خلوص کے
ساتھ عملی جدوجہد کرتے ہوئے اقتدار میں آنے کے بعد اپنے دعووں اور وعدوں کو
عملی جامہ پہناتے ہیں جیسا کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں قائداعظم محمدعلی
جناح اور قائدعوام ذوالفقار علی بھٹو نے عوام کا اعتماد جیت کر عوام کے لیے
کام کیے اور ہمیشہ کے لیے امر ہوگئے۔ابھی مصطفی کمال کے اس نئے سیاسی سفر
کو صرف پانچ سال ہی ہوئے ہیں اس لیے ان کے سیاسی مستقبل کے بارے میں کوئی
حتمی پیشن گوئی تو نہیں کی جاسکتی لیکن ان کیقابلیت،تجربے، ،کارکردگی ،خلوص
،ایمانداری اور عوامی مسائل کو حل کرنے کی ان کی بھرپور جدوجہد کو دیکھتے
ہوئے یہ دعا ضرور کی جاسکتی ہے کہ اﷲ تعالی ہمارے ملک پاکستان کومڈل کلاس
میں پیدا ہونے والے اس سچے اور کھرے عوامی رہنما سے پاکستان اور پاکستانی
عوام کی بھلائی کا کوئی ایسا کام ضرور لے لے جس کی وجہ سے مصطفی کمال کا
نام بھی لوگوں کے دلوں اور تاریخ کے صفحات میں تادیر زندہ رہے۔آمین ۔اس دعا
کے ساتھ اس بات کی امید بھی رکھنی چاہیے کہ ایک دن ایسا آئے گا جب عوام میں
سے نکلا ہوا کوئی عوامی لیڈر اس ملک کا وزیراعظم بنے گا کیونکہ اب تک تو
زیادہ تر ایلیٹ کلاس یا پھر جاگیردار،وڈیرے، چوہدری اور سرمایہ دار ہی
پاکستان کے جمہوری اور سیاسی حکمران بنتے چلے آئے ہیں ۔
بقول شاعر: مایوس کبھی ہوتا نہیں جس کو یقین ہے
اﷲ کے گھر دیر ہے ،اندھیر نہیں ہے تحریر : فرید اشرف غازی ۔ کراچی
|