قیامِ پاکستان سے لے کر آج تک یہ فیصلہ نہیں کیا جاسکا
کہ پاکستان کیوں مانگا اور مملکت کی اساس کیا تھی۔ دو قومی نظریے کے تحت
ہماری آزادی کا مفہوم پنہاں تھا یا سیکولر نظام۔ غرض یہ ایک ایسی بحث ہے
جس کے ماننے اور تسلیم نہ کرنے والے وہی بتاتے ہیں جو انہوں نے سنایا انہیں
پڑھایا گیا۔ ہم جشن آزادی بھی بڑے جوش و خروش سے مناتے اور قیام پاکستان
کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہیں، تاہم نئی نسل ریاست کے اُن اسباب سے اُس وقت
تک کماحقہ واقف نہیں ہوسکتی جب تک وہ ازخود مطالعہ پاکستان نہ کرے۔ سوشل
میڈیا سے نوجوان نسل اشد متاثر اور اس میں پھیلنے والے تصور کو بہت جلد
قبول بھی کرلیتی ہے، اس کے پاس اتنا وقت بھی نہیں ہوتا کہ وہ کسی معاملے یا
پوسٹ کی حقیقت جاننے کے لئے کوشش کرے، ورنہ اسے اس سوال کا جواب بھی
باآسانی مل جاتا کہ ’ہم نے پاکستان مانگا کیوں تھا۔‘
یہ سوال ہمارے ہاں بڑی اہمیت اس وجہ سے بھی اختیار کرجاتا ہے، کیونکہ حصول
پاکستان کے بعد اکثر و بیشتر ان عناصر نے بھی پاکستان میں ڈیرے ڈال دئیے،
جو تحریک پاکستان کے دوران اس کی مخالفت میں ایڑی چوٹی کا زور لگاتے رہے
تھے، انہوں نے پاکستان کو اپنی جائے پناہ بنالیا اور جہاں اپنی کمین گاہوں
میں بیٹھ کر ایسے پراپیگنڈے کی اشاعت شروع کردی، جو مایوسی اور ذہنی انتشار
کا باعث ہو، اسی کا یہ نتیجہ ہے کہ حصول ِ پاکستان کے لئے مسلسل جدوجہد کے
بعد آج کی نسل یہ بھی نہیں جانتی کہ ہم نے پاکستان مانگا کیوں تھا؟ اس
مطالبے سے ہمارا مقصد کیا تھا؟ ذہنی انتشار کی یہ کیفیت یہاں تک پہنچ گئی
کہ چہار اطراف سے عجیب و غریب آوازیں سنائی دینے لگیں،آزادی وطن کے
مخالفین نے تحریک پاکستان کی کامیابی کو، ایک گہرے زخم کے طور پر قبول کیا
اور اس کی کسک سے انہیں آج تک چین نصیب نہیں ہوا، اس لئے یہ افراد جو کچھ
کہتے اور کرتے ہیں، وہ ان سے غیر متوقع نہیں تھا۔ پاکستان اور بھارت کے
مابین سرحدوں کی تشکیل میں شامل بائونڈری کمیشن کے رکن سابق چیف جسٹس آف
پاکستان محمد منیر کا ایک مقالہ Days to Rememberاخبارات میں دو اقساط میں
شائع ہوا تھا، جس میں دلچسپ معلومات و انکشافات کے علاوہ ایک بات یہ بھی
کہی گئی کہ ’’قیامِ پاکستان تک کسی ذہن میں بھی یہ بات نہیں تھی کہ پاکستان
ایک اسلامی مملکت کی صورت اختیار کرے گا۔‘‘ یہ وہ شروعات تھی، جس کے بعد سے
آج تک غیر متعلقہ بحث کا خاتمہ ہی نہیں ہورہا۔ مملکت پاکستان کے بارے میں
ایسی شہادت، جن سے بڑھ کسی دوسرے کی شہادت قابل اعتماد نہیں ہوسکتی، آئیے
سب سے پہلے ہم تصور پاکستان کے خالق کو پیش کرتے ہیں۔
1930میں علامہ اقبالؒ نے آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس الٰہ آباد کے خطبۂ
صدارت میں مسلمانوں کے لئے جداگانہ مملکت کا تصور پیش کیا۔ انہوں نے فرمایا
کہ ’’میری آرزو یہ ہے کہ پنجاب، صوبہ سرحد، سندھ اور بلوچستان کو ملاکر
واحد اسلامی ریاست قائم کی جائے۔‘‘ قائداعظم محمد علی جناحؒ نے پاکستان کی
جدوجہد میں شروع سے آخر تک اس حقیقت کو دہرایا۔ 1945 میں فرنٹیئر مسلم
سٹوڈنٹس کے نام انہوں نے اپنے پیغام میں فرمایا کہ ’’پاکستان سے مطلب یہی
نہیں کہ ہم غیر ملکی حکومت سے آزادی چاہتے ہیں، اس سے حقیقی مراد مسلم
آئیڈیالوجی ہے، جس کا تحفظ نہایت ضروری ہے، ہم نے صرف اپنی آزادی حاصل
نہیں کرنی، ہم نے اس قابل بھی بننا ہے کہ ہم اس کی حفاظت بھی کرسکیں اور
اسلامی تصورات اور اصولات کے مطابق زندگی بسر کرسکیں۔‘‘ آل انڈیا مسلم لیگ
کے 1940کے تاریخی اجلاس لاہور میں جہاں پاکستان کی قرارداد منظور ہوئی تھی،
تقریر کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ یاد رکھئے ہندو اور مسلمان، مذہب کے ہر
معاملے میں جداگانہ فلسفہ رکھتے ہیں، دو ایسی قوموں کو ایک نظامِ سلطنت میں
یک جا کردینا باہمی مناقشت کو بڑھائے گا اور بالآخر اس نظام کو پاش پاش
کردے گا، جو اس ملک کی حکومت کے لئے وضع کیا گیا ہے۔
اب قیام پاکستان کے بعد اکتوبر 1947 میں پاکستان کے پہلے گورنر جنرل کی
حیثیت سے کراچی کے خالق دینا ہال میں حکومتی افسران سے خطاب کو پڑھ لیا
جائے جس میں انہوں نے فرمایا تھا کہ ’ہمارا مقصد یہ تھا کہ ہمیں ایک ایسی
مملکت مل جائے جس میں ہم آزاد انسانوں کی طرح رہ سکیں اور جس میں ہم اپنی
روشنی اور ثقافت کے مطابق نشوونما پاسکیں اور جہاں اسلام کے عدلِ عمرانی کے
اصول آزادانہ طور پر روبہ عمل لائے جاسکیں۔‘ یہاں تک کہ ہندو بھی جانتے
تھے کہ پاکستان کیوں مانگا جارہا ہے۔ یکم نومبر1941کو لدھیانہ میں اکھنڈ
بھارت کانفرنس میں مشہور کانگریسی رہنما مسٹر منشی نے اپنی تقریر میں کہا
تھا کہ ہمیں کچھ معلوم بھی ہے کہ نہیں معلوم، تو مختصراً الفاظ میں سمجھئے
کہ پاکستان مسلمانوں کا ایک خطۂ ارض ہوگا، جہاں اسلامی حکومت قائم ہوگی۔
(بحوالہ ٹریبیون، 2 نومبر 1941)۔
قائداعظمؒ نئی مملکت کے آئین کا خاکہ دے چکے تھے، فروری 1948 میں اہل
امریکہ کے نام ایک براڈ کاسٹ پیغام میں انہوں نے فرمایا تھا کہ ’’پاکستان
کی قانون ساز اسمبلی نے ابھی پاکستان کا آئین مرتب کرنا ہے، میں نہیں
جانتا کہ اس آئین کی آخری شکل کیسی ہوگی، لیکن مجھے یقین ہے کہ وہ اسلام
کے بنیادی اصولوں کا آئینہ بردار، جمہوری انداز کا آئین ہوگا، اسلام کے
یہ اصول آج بھی اسی طرح عملی زندگی پر منطبق ہوسکتے ہیں جس طرح وہ 13سو
سال پہلے ہوسکتے تھے، اسلام نے ہمیں وحدتِ انسانیت اور ہر ایک کے ساتھ عدل
اور دیانت کی تعلیم دی ہے، آئین پاکستان کے مرتب کرنے کے سلسلے میں جو ذمے
داریاں اور فرائض ہم پر عائد ہوتے ہیں، ان کا ہم پورا پورا احساس رکھتے
ہیں۔ کچھ بھی ہو، یہ مسلم بات ہے کہ پاکستان میں کسی بھی صورت تھیو کریسی
رائج نہیں ہوگی، جس میں حکومت (نام نہاد) مذہبی پیشوائوں کے ہاتھ میں دے دی
جاتی ہے کہ وہ (بزعم خویش) ’’خدائی مشن‘‘ کو پورا کریں۔‘‘ قائداعظمؒ نے 11
اگست کو بھی جو کہا، وہ اسلام کے عین مطابق ہی تو تھا۔ دین اسلام تمام
اقلیتوں کو ان کے شہری و مذہبی حقوق اور آزادی دیتا ہے۔ اس کا اظہار انہوں
نے اپنی متعدد تقاریر میں برملا کیا، جس کے بعد ہمیں سمجھنے میں دشواری
نہیں ہونی چاہیے کہ قیام پاکستان کا مقصد کیا تھا اور مانگا کیوں گیا۔ |