کیا ایم کیو ایم اقتدار کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی؟

متحدہ کا شغلِ طوافِ کوئے ملامت آج کل ہر جگہ زیرِ بحث ہے۔ہر چند کہ یہ واقعہ ارضِ پاک کی سیاست کوئی انہونی نہیں ہے مگر کئی حوالوں سے اسے محض معمول بھی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اس سے پیشتر بھی متحدہ پچھلے دورحکومت میں نواز شریف حکومت میں اس طرح کا ایک مظاہرہ کر چکی ہے۔ مگر اس بار تو جانئے کہ تماشا ہی لگ گیا۔ بقول متحدہ، زرداری صاحب اور ان کے حواری منفی سیاست کھیل رہے ہیں مگر ان تمام شکایتوں کے باوجود خود متحدہ کا رویہ کچھ اس طرح سے ہے کہ

ماری تھی یا کوُٹی تھی سیاّں میں کیا تجھ سے روٹھی تھی؟

اور پھر ایک اور آرٹیکل کی مثال کے مطابق بھینس کی دم پکڑ کر پھر حکومت میں واپس آ جاتی ہے۔ اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ تماشا ایک جانب متحدہ کے ہمدردوں کا حوصلہ پست کرنے کا باعث بنا ہے تو دوسری طرف متحدہ کے شعلہ بیاں مقرروں کو بھی گنگ کر گیا اور آخری بار تو وہ ادھوری واپسی کے فیصلے کا دفاع کرنے سے مکمل طور پر قاصر نظر آئے۔یہی نہیں متحدہ کی "اب تک" آخری واپسی نے سیاست کے کئی منظر نامے اس شدت سے بدلے کے اس کے اثرات کافی عرصے تک محسوس کئے جاتے رہیں گے۔ متحدہ کی آخری بار حکومت سے علیحدگی پر مسلم لیگ [ن] جیسی جماعت نے جس نے کہ محض پچھلے الیکشن سے قبل متحدہ کو کل جماعتی اتحاد میں شرکت کی اجازت ہی نہ دی تھی فوری طور پر متحدہ کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھا دیا تاکہ حکومت پر دباوّ بڑھایا جا سکے۔ اس ہی وجہ سےمسلم لیگ [ن] اور جماعت اسلامی کے بڑھتے ہوئے رابطے ختم ہو گئے اور جماعت اسلامی نے مسلم لیگ [ن] سے کسی قسم کے انتخابی اتحاد کے امکان کو رد کر دیا۔

مگر ایسی کیا وجہ تھی کہ متحدہ نے مسلم لیگ [ن] کے بڑھے ہوئے ہاتھ کو نظر انداز کرکے دوبارہ صنم جفا پیشہ کے پہلو میں جگہ ڈھونڈنے کو ترجیح دی؟

متحدہ کی حکومت میں رہنے کی کہانی زیادہ پرانی نہیں ہے۔ گرچہ 1987 سے متحدہ نے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ سے بار بار اتحاد کرکے حکومت میں شرکت کی مگر ان دونوں جماعتوں کے لئے متحدہ ایک ایسا ناگوار بوجھ تھی جسے محض اسمبلی میں اس کے ووٹ حاصل کرنے کے لئے وقتی طور پر تو برداشت کیا جا سکتا تھا مگر لمبے عرصے تک شریکِ سفر بنا کر رکھناممکن نہ تھا۔ متحدہ کو ساتھ رکھ کر پیپلز پارٹی کے لئے سندھ کے دیہی ووٹ حاصل کرنا تقریبا" ناممکن تھا اور مسلم لیگ [ن] بھی اپنے طرزِعمل سے آہستہ آہستہ محض پنجاب کی پارٹی میں تبدیل ہو رہی تھی اور ایسے میں متحدہ کو ساتھ لیکر چلنے کا مطلب پنجاب میں اپنی حمایت کو خطرے میں ڈالنا تھا۔ ان دونوں جماعتوں سے اختلافِ رائے اور پھر دونوں جماعتوں ہی کی طرف سے کراچی میں متحدہ کے خلاف طویل آپریشن، اور ایم کیو ایم حقیقی کی تخلیق ایک ایسا عمل تھا جس نےمتحدہ اور ان جماعتوں کے راستے ایک طویل عرصے تک کے لئے جدا کر دئیے۔

اس اثناء میں سیاسی منظر نامہ پھر تبدیل ہو گیا۔ پرویز مشرف نے نواز شریف کو معزول کر کے اقتدار پہ قبضہ کر لیا۔ ہر فوجی آمر کی طرح پرویز مشرف نے بھی بلدیاتی یا شہری حکومتی نظام کا احیاء کیا۔ یہاں متحدہ نے حیران کن طور پر سیاسی استقامت کا مظاہرہ کیا اور ایک آمر کے تحت ہونے والے شہری حکومتی نظام کا حصہ بننے سے انکار کر دیا اور الیکشن کا بائیکاٹ کردیا۔ ایسے میں کراچی میں متحدہ کے بڑے حریف جماعت اسلامی نے بروقت فیصلہ کرتے ہوئے متحدہ کے بائیکاٹ کا فائدہ اٹھایا، آمر وقت کے تحت ہونے والے انتخابات میں حصہ لیکر کامیابی حاصل کی اور کراچی کی نظامت حاصل کر لی۔ یہاں متحدہ نے وہ سبق سیکھا جو کہ بینیظیر بھٹو نے 1985 کے الیکشن میں سیکھا تھا کہ الیکشن کی بس چھوٹنے سے فائدہ ہمیشہ صرف مخالفین کو ہوتا ہے۔ یہاں بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ جماعت اسلامی جو کہ کئی سال پہلے کراچی پر اپنا کنٹرول کھو بیٹھی تھی ایک بار پھر متحدہ کے الیکشن بائیکاٹ کی وجہ سے انتہائی کم ووٹ لیکر بھی کراچی کی نظامت حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی اور متحدہ چار سال کے لئے گھر بیٹھنے پر مجبور ہو گئی۔

بہرحال متحدہ نے اس صورتحال سے سبق سیکھا۔ پہلی بات تو یہ کہ اس نے خاموشی سے اپنی مخالف جماعت کی نظامت کو قبول کر لیا اور چار سال تک اس نظام کو ناکام بنانے سے گریز کیا۔ دوسری طرف جب پرویز مشرف نام نہاد جمہوریت بحال کر کے انتخابات کروارہے تھے تب متحدہ نے "بقول" جمہوری نظام کے تحت انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا اور قومی اور صوبائی اسمبلی میں پھر کامیابی حاصل کی۔ دریں اثناء جب شہری حکومتوں کے انتخابات دوبارہ ہوئے تو توقع کے عین مطابق متحدہ نے بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی۔

یہ متحدہ کی سیاسی تاریخ میں پہلا موقع تھا کہ اسے پوری مدت کے لئے اور پے درپے دو دفعہ حکومت کا حصہ بننے کا موقع ملا۔ اگرچہ شہری حکومت میں اس نے چار سال ضائع کر دئیے مگر اس کے باوجود اس پوری مدت میں اس کی مجموعی کارکردگی بے حد عمدہ رہی۔ کراچی میں جس قدر ترقیاتی کام ان چند سالوں میں ہوا وہ کراچی کی تاریخ میں کل ملا کر بھی نہیں ہوا تھا۔ متحدہ کی اس کامیابی نے نہ صرف اس کے روایتی حمایتیوں میں اعتماد پیدا کیا بلکہ اس نے پاکستان کے دوسرے علاقوں میں بھی پیر پھیلانے شروع کر دئیے۔ متحدہ کو پہلی دفعہ احساس ہوا کہ اگر اس کے اکثریتی ووٹ والے علاقوں کے فنڈز اگر اس کے مخالفین کے قبضے میں نہ ہوں تو وہ کراچی کی ترقی کے میں بہترین کردار ادا کر سکتی ہے۔

اگرچہ اس عرصے میں کراچی میں متحدہ کی مخالف سیاسی قوتیں خاصی نمایاں رہیں مثلا" جماعت اسلامی چار سال تک کراچی کی نظامت اپنے پاس رکھنے میں کامیاب رہی اور اے این پی پہلی دفعہ کراچی میں ایک موثر سیاسی قوت کے طور پر سامنے آئی۔ مگر مجموعی طور پر کراچی اس تمام عرصے میں خاصا پر امن رہا۔ اس کی ایک وجہ یہ سمجھ آتی ہے کہ مندرجہ بالا جماعتیں اس شہر میں ایک طویل عرصے سے موجود تھیں اور ایک حد تک عوامی حمایت بھی رکھتی تھیں جس کا اندازہ ان کے حاصل کردہ ووٹوں سے کیا جا سکتا ہے۔ لہٰذا متحدہ نے ان کی موجودگی گوارا کرنے کا فیصلہ کیا۔ مگر اس عرصے میں مختلف امر یہ تھا کہ پرویز مشرف کے زمانے میں فوج کی طرف سے حقیقی کو کراچی کی سیاست کے کیک میں زبردستی حصہ دلوانے کی کوششیں روک دی گئی تھیں۔ اس عمل نے نہ صرف کراچی کو پرامن رکھنے میں مدد دی بلکہ کراچی ان دنوں پاکستان کی تیز رفتار معاشی ترقی میں اپنا کردار ادا کرنے کا قابل ہو سکا۔۔ اس زمانے میں متحدہ کے لئے یہ بات خاصی باعثِ اطمینان تھی کہ ایک طرف اسے کراچی پر خرچ کرنے کے لئے مناسب وسائل مہیا کئے جا رہے تھے جس نے سندھ کے شہری علاقوں کے علاوہ ملک کے دوسرے علاقوں میں بھی اس کی ساکھ کو کافی بہتر کر دیا تھا اور دوسری طرف اسے "کٹ ٹو سائز" کرنے کے کوششیں بھی بڑی حد تک مدھم پڑ چکی تھیں۔ بہرحال اس امر کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا تھا کہ کرشمہ سازوں نے اپنے پتے ضائع نہیں کئے تھے اور کسی مناسب وقت پر استعمال کرنے کے لئے بچا رکھے تھے۔

متحدہ کو یہ بات اچھی طرح سمجھ آچکی تھی کہ مندرجہ بالا صورتحال کو اپوزیشن میں رہ کر جاری نہیں رکھا جا سکتا لہٰذا پرویز مشرف کی روانگی کے بعد اس کے پاس آصف زرداری سے دوستی کے سوا کوئی راستہ نہیں تھا۔ بہر کیف سب جانتے تھے کہ یہ اتحاد دو دلوں کا ملن نہیں بلکہ ایک دوسرے کی سیاسی ضرورت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ متحدہ نے کئی مرتبہ عادت کے مطابق روٹھنے، شہری حکومت کا کنٹرول دوبارہ لینے اور پیپلز پارٹی کی بدعنوان شبیہہ سے جان چھڑانے کی کوششیں کیں مگرہر بار اس کی اپنی کمزوریاں آڑے آ گئیں۔ آخری بار جب متحدہ حکومت سے باہر آئی تو پیپلز پارٹی نے اپنے پتّے شو کر دئیے اور متحدہ کے خدشات صحیح ثابت ہوئے۔ پیپلز پارٹی حکومت نے ایک ہی جھٹکے میں نہ صرف کراچی میں شہری حکومت کا نظام ختم کر دیا جسے وہ ڈھائی سال سے لٹکائے ہوئے تھی بلکہ آفاق احمد کو پھر سیاست میں سرگرم کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ یہی نہیں بلکہ ملک کے ممتاز اخبار نویسوں نےاپنےکالمز میں یہ بات کئی مرتبہ شائع کی کہ آصف زرداری نے چودھری شجاعت کی موجودگی میں کہا کہ آپ لوگ میر ی سیاست کو مانتے ہیں کہ کراچی میں متحدہ اور اے این پی کو لڑوادیا۔ یاد رہے کہ ذوالفقار مرزا نے اپنا بدنام زمانہ بیان دینے کے لئے اے این پی کے لیڈر کی تقریب کا انتخاب کیا تھا۔

آصف زرداری کی اس چال نے متحدہ کو ایک طرح سے چاروں شانے چت کر دیا۔ متحدہ اچھی طرح جانتی ہے کہ جب تک سیاسی حکومتیں حکومت میں موجود ہیں بلدیاتی یا شہری حکومتی نظام واپس نہیں آنے دیں گی۔ لہٰذا اس کی سودے بازی صرف حقیقی کی حکومتی سرپرستی روکنے تک محدود ہو گئی۔ فی الحال تو اس نے اپنا مقصد وقتی طور پر حاصل کر لیا مگر اس کے بدلے اسے سندھ کی علامتی گورنری واپس لینی پڑی ۔ اور اس مہنگے سودے کے بعد بھی متحدہ گرچہ حکومت سے باہر ہے مگر پھر بھی موجودہ حکومت کی بدنامیوں میں حصہ دار رہے گی۔

بظاہر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آنے والے دن کراچی اور متحدہ پر بھاری رہیں گے۔ پیپلز پارٹی کمشنری نظام کے تحت کراچی اور حیدرآباد کا انتظامی اور اقتصادی کنٹرول اپنے وفاداروں کے ذریعے اپنے قابو میں رکھنا چاہتی ہے۔ چونکہ پیپلز پارٹی کے بیشتر مفادات سندھ کے دیہی علاقوں سے وابستہ ہیں لہٰذا مستقبل قریب میں کراچی کے مسائل حل ہونے کے تو نہیں البتہ مزید گمبھیر ہونے کی توقع ہے۔ کے ای ایس سی کا مسئلہ اس کی صرف ایک جھلک ہے۔ اس کے علاوہ چونکہ متحدہ کے پاس اپنے حمایتیوں کے مسائل حل کرنے کے کوئی وسائل نہیں ہوں گے لہٰذا یہ مسئلہ ان کو مزید دباؤ میں لانے کا باعث بنے گا۔ امن و امان کے مسئلے پر متحدہ ویسے ہی ہمیشہ مطعون ہی رہتی ہے۔ سو اس بار بھی کٹی پہاڑی جیسے علاقوں کی فائرنگ، جہاں کراچی کے مقامی باشندے آٹے میں نمک کے برابر ہیں، جیسے واقعات بھی متحدہ کے متھے ہی لگیں گے اور اس کو مزید دباؤ میں لائیں گے۔

ان حالات کو دیکھتے ہوئے لگتا ہے کہ اس وقت متحدہ اقتدار کے پانی کی مچھلی نہیں بلکہ حکومت کے سنہرے پنجرے میں قید ہے جہاں سے نکلنے کا کوئی راستہ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا ہے۔
MAQ
About the Author: MAQ Read More Articles by MAQ: 23 Articles with 23418 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.