قیام پاکستان سے لیکر اب تک
ہمارا ملک جن مسائل و مشکلات کا شکار رہا ہے اسمیں سر فہرست لسانی منافرت
اور صوبوں کے فنڈز کی غیر منصفانہ تقسیم ہے ۔ پاکستان میں ایک درجن سے زائد
زبانیں ، کلچر ، طبقات اور قومیتیں موجود ہیں جن میں پانچ بڑی قومیتوں
پنجابی ، پٹھان ، سندھی ، بلوچی اور مہاجروں کے علاوہ سرائیکی ، ہزاروی ،
گجراتی ، کشمیری ، بلتی ، براہوی اور کا ٹھیاواڑی وغیرہ اہم ہیں ۔ اور یہ
تمام قومیتیں آپس میں ایک دوسرے سے دست و گریبان اور ایک دوسرے کو اپنے
حقوق کا غاصب قرار دیتی ہیں ۔
گلگت کو اپنی شناخت ملنے اور قانون سازی کے اختیارات حاصل ہونے اور صوبہ
سرحد کے نام کی تبدیلی کے بعد ہزراہ صوبے کا مطالبہ ہزارہ ڈویژن کے عوام کا
حق ہے اور ان کے اس مطالبے کی حمایت میں حکومتی تائید اور اور اس مطالبے کی
مثبت پیرائے میں اعانت ضروری ہے ۔ بجائے اسکے کہ حکومت ان کے اس مطالبے پر
سنجیدگی سے غور کرے انکی پر امن ا حتجاجی ریلیوں پر حکومتی مشینری کی یلغار
نا صرف بد ترین نتائیج کا پیش خیمہ ہوگی بلکہ ریاستی طاقت کے بل بوتے پر یہ
تحریک دبنے کے بجائے مزید طاقتور ہوگی ۔ نا صرف ہزارہ صوبہ بلکہ تمام قو
میتوں کے اندر پائے جانے والے اضطراب و بے چینی اور بین القومیتی ہم آہنگی
اور نفرتوں کے خاتمے کے لئے پاکستان میں مزید صوبوں کا قیام نا گزیر اور
وقت کی اہم ضروت ہے ۔
ہمارے ملک میں مزید صوبوں کے قیام کو کچھ مفاد پرست ٹولے کے ارکان ملک کے
خلاف سازش اور ملک کو غیر مستحکم کرنے کے مترادف قرار دیتے ہیں اور چاہتے
ہیں کہ ہمارا وطن عزیز ان آپس کے چپلقشوں کا شکار بنا رہے۔
پاکستان میں باہمی نفرت اور انتشار کا خاتمہ اسی وقت ممکن ہے کہ جب تمام قو
میتوں کو اس ملک میں تحفظ اور انکے حقوق میسر ہوں اور انکی تمام شکایات کا
خاتمہ ممکن ہو۔ ہمارے ملک کے چند عناصر پاکستان کے عوام کو خوش و خرم
دیکھنا گوارہ نہیں کر سکتے یہی وجہ ہے کہ جب بھی ملک میں مزید صوبوں کی بات
ہو انکی زبردست مخالفت شروع ہو جاتی ہے ۔
اب اگر ہم پاکستان کی آبادی کا دوسرے ترقی یافتہ ممالک سے موازنہ کریں ہمیں
احساس ہوگا کہ کس طرح ہم اپنے ملک کے عوام سے زیادتی کے مرتکب ہو رہے ہیں
پاکستان کی آبادی حالیہ مردم شماری کے مطابق 16 کروڑ سے کچھ زیادہ ہے اسکے
باوجود یہاں صرف چار صوبے ہیں جب کہ Ireland کی آبادی جو کہ صرف ساٹھ لاکھ
ہے وہاں بھی چار صوبے ہیں ۔ اسکے علاوہ اگر ہم جاپان کی آبادی کو دیکھتے
ہیں جو کہ تقریبا پاکستان جتنی ہی ہے وہاں صوبوں کی تعداد 47 ہے ۔ اسطرح
پاکستان میں آبادی کے تناسب سے فی صوبہ آبادی سوا چار کروڑ اور جاپان میں
یہی تناسب ستائیس لاکھ فی صوبہ بنتی ہے ۔ اسکے علاوہ انگلستان ، ایران اور
فرانس کی آبادی چھ کروڑ ہے اور صوبے بالتر تیب 54 ، 24 اور 22 ہیں یعنی فی
صوبہ تناسب انگلستان گیارہ لاکھ گیارہ ہزار ایک سو گیارہ ، ایران پچیس لاکھ
، فرانس پچیس لاکھ ستائیس ہزار دو سو بہتر جبکہ سعودی عرب جسکی آبادی ایک
کروڑ چھتیس لاکھ ہے وہاں 14 صوبے اور آسٹر یلیا جہاں کی آبادی ایک کروڑ چھ
لاکھ ہے وہاں آٹھ صوبے ہیں ۔ مصر پانچ کروڑ کی آبادی کا ملک ہے اور صوبوں
کی تعداد وہاں بیالیس ہے وہاں کا فی صوبہ آبادی کا تناسب تقریبا گیارہ لاکھ
نوے ہزا ر بنتا ہے جبکہ ہمارے پڑوسی ملک بھارت جسکا قیام ہمارے ساتھ ہی
وجود میں آیا قیام کے وقت وہاں صرف آٹھ صوبے تھے اور اب 27 صوبے موجود ہونے
کے با وجود مزید تین صوبوں کے قیام کی منظوری کا بل پارلیمنٹ میں موجود ہے
ان تمام ممالک کا اگر تفصیلی جائزہ لیا جائے تو ان ممالک میں رہنے والے
لوگوں کے مابین کسی قسم کے لسانی اور حقوق کے جھگڑے نہیں پائے جاتے اور ان
تمام مما لک کی حکومتوں کو پاکستان جیسے مسائل کا سامنا نہیں ہے اور اسی
لئے تمام ممالک ترقی کی منازل بخیر و خوبی طے کر رہے ہیں جبکہ ہم اکیسوی
صدی میں بجائے ترقی کی جانب گامزن ہونے کے مزید پستی اور تنزلی کی جانب
رواں دواں ہیں اور باہمی چپقلشوں کا شکار ہیں ۔ ہم اپنی تمام تو ا نائیاں
ملک و قوم کے منفعت بخش کاموں کے بجائے ایک دوسرے کو نیچا د کھانے اور ایک
دوسرے کے وسائل غصب کرنے میں خرچ کر رہے ہیں ۔
ہمارے حکمرانوں کو بھی چاہیئے کہ مزید صوبوں کے قیام کا منصوبہ تشکیل دیں
اور اسے اپنی پالیسیوں میں اولین تر جیح دیں اور صوبوں کے ناموں کو بجائے
قومیتوں کے نام پر رکھنے کے ایسے نام منتخب کریں جسمیں لسانیت کا عنصر وا
ضح نہ ہو۔ |