سانحہ مری

میری جب شادی ہوئی تو ہم مری گئے ۔ یہ آج سے کوئی چھ سال پرانی بات ہے۔ اس کے بعد آج تک وہاں جانے کی ہمت نہیں ہوئی۔ پتا ہے کیوں؟

میری گاڑی کے دو ٹائر بیک وقت پنکچر ہو گئے اور مجھے وہاں سے نکلنے کیلئے دو پنکچر چار ہزار میں لگوانے پڑے حالانکہ باقی پنجاب میں اُس وقت پنکچر پچاس روپے میں لگ جاتا تھا۔ میں صاحبِ حیثیت تھا سو پیسہ ادا کرکے آ گیا لیکن اس کے بعد آج تک کبھی سوچا بھی نہیں کہ وہاں جائوں اور نا ہی کسی کو مری کا مشورہ دیا ہے۔

یاد رکھنا جب کسی جگہ جہاں عذاب آتا ہے تو اس کی ایک بہت بڑی وجہ ہوتی ہے وہاں کے مقامی اور تاجر لوگوں کے فرعون صفت رویے ۔ اور یہی کچھ مری میں ہوا۔ سوا لاکھ گاڑی مری میں گئی، لیکن وہاں ایک ایک کمرے کا کرایہ دس دس ہزار سے کراس کر گیا اور ایک ایک انڈہ پانچ پانچ سو میں بکا تو سب کے سب لوگ اچانک مری سے واپس پلٹے یا آگے نکلے۔ حالانکہ مری میں داخل ہونے کے تین راستے ہیں اور روٹین میں چالیس پچاس ہزار گاڑی آتی جاتی ہے وہاں۔ تین گنا گاڑی اور لوگوں کو اکوموڈیٹ کرنا کوئی بڑا مسئلہ نہیں تھا۔ راستے موجود ہیں، انتظامیہ کی ہدایات پہ لوگ خود بھی تھوڑا سا عمل کر لیتے تو اس لاکھ سوا لاکھ گاڑی میں سے زیادہ تر نا آتیں یا نکل جاتیں۔

لیکن جب لوگ پھنس گئے تو وہاں کے عام کمائو اور تاجر طبقے کی فرعونیت کی وجہ سے سارے لوگ خارجی راستوں کی جانب بڑھے اور رش کی وجہ سے رفتار کم ہوئی اور پھر سب کے سب پھنس گئے ۔
ہم اپنے تئیں کسی کو بھی قصوروار ٹھہرا سکتے ہیں لیکن میرے مطابق اگر وہاں کا تاجر اور کمائو طبقہ اگر کچھ انسانی رویہ رکھتا تو خارجی راستوں پہ پریشر نا آنا اور لوگ طوفان میں پھنسنا نا شروع ہوتے۔ انتظامیہ کے پاس طوفانی برفباری میں روڈ کلئیر کرنے کے وسائل نہیں تھے۔ صوبائی سطح پہ ٹریفک کا ڈاٹا آن لائن نہیں جس کی وجہ سے تینوں راستوں سے ٹریفک کو ایک خا مقدار پہ مانیٹر نہیں کیا جا سکتا۔ عثمان بزدار کی آنکھ بھی لیٹ ہی کھلی۔ لیکن یہ سب بعد کی باتیں ہیں۔ لیکن عوام بے یارومددگار مری دیکھنے چلی گئی حالانکہ اس طوفانی برف کی وارننگز جاری ہو چکی تھیں۔ یہاں فرد اور ریاست دونوں برابر کے حصہ دار ہیں اگرچہ ریاست تھوڑی سی لیڈ پہ ہے کیونکہ اس کے پاس وسائل کا انتظام نا تھا تو اس نے شہریوں کو خبردار تو کیا تھا نا۔ لیکن آپ حادثے کی اصل وجہ تک آئیں کہ لوگ اس قدرطوفانی برفباری میں پلٹے یا مری سے نکلے کیوں۔

برائے مہربانی وڈیوز اور پکچرز شئیر کرنے سے پہلے اپنے گریبان میں جھانکیے کہ کہیں آپ بھی مری والے تو نہیں؟ کہیں آپ کی وجہ سے انسانوں کو پلٹنا تو نہیں پڑ رہا؟ کہیں آپ اس قدر غیرذمہ دار تو نہیں کہ خطرے کی وارننگ کے باوجود خودکش مشن پہ چل نکلتے ہوں؟ اپنا اور اپنی نسل کا خیال کریں اور ذمہ داری کا ثبوت دیتے ہوئے ریاست اور اس کی انتظامیہ سے تعاون کریں اور ایسی وارننگز کو نظرانداز مت کریں تاکہ اس قسم کے حادثات سے بچائو ممکن ہو سکے۔

اللہ پاک ہم سب کو مثبت رکھے۔ آمین۔ اچھے برے لوگ ہر جگہ ہوتے ہیں بہت سارے لوگوں نے بڑا تعاون کیا ھے وہ بھی مری کے ہی باشندے ہیں۔
 

Muhammad Jawad Ahmad
About the Author: Muhammad Jawad Ahmad Read More Articles by Muhammad Jawad Ahmad: 20 Articles with 19933 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.