جنگ عظیم کے ایک پہاڑی مورچے پر ایک سپاہی رائفل تانے افق
پر نشانہ باندھ رہا تھا، اس کا خیال تھا کہ دشمن سامنے کی پہاڑیوں میں پناہ
گزین ہے، وہ تاک میں تھا کہ جوں ہی اسے وہاں کوئی جنبش محسوس ہو وہ فوراً
گولی چلادے، لیکن عین اُس وقت اچانک اس کی نگاہ اپنے پائوں کی جانب جھکی
اور اس نے اپنے پائوں سے کوئی تین فٹ نیچے دشمن کے ایک سپاہی کو اپنی جانب
رائفل تانے پایا، اس کے حواس خطا ہوگئے اور منہ سے بے اختیار نکلا کہ ’’آہ
میں دشمن کو اپنے سے دور سمجھتا تھا اور وہ عین میری آغوش میں ہے۔‘‘ یہ
ضرب المثل بھی بنی نوع انسان پر صادق آتی ہے کہ چراغ تلے اندھیرا۔ بے شک
انسان مظاہر فطرت کو مسخر کرنے میں اپنے آبا و اجداد سے بہت آگے بڑھ گیا،
لیکن جہاں تک اس کے اپنے رہنے سہنے اور دوسروں سے مل کر زندگی گزارنے یعنی
اخلاقیات و سیاسیات کا تعلق ہے، وہ اب تک وہیں ہیں، جہاں ہزار برس پہلے
یونان کے قدیم باشندے تھے۔
ملک کا سیاسی منظرنامہ جوں کا توں ہے۔ حکومت، حزب اختلاف ایک دوسرے سے
ناراض توحزب اختلاف اور اقتدار کی جماعتوں میں نظریاتی اختلافات بھی نمایاں
ہیں، تاہم انہیں کس امر نے جوڑے رکھا ہے، اس پر قیاس آرائیوں کا طوفان
تھمنے میں نہیں آتا۔ ویڈیو، آڈیو، اکاؤنٹس، فنڈنگ اور سکروٹنی لیکس کا
سونامی شدت اختیار کرتا جارہا ہے۔ سیاسی مفاہمت اور ڈائیلاگ کے لئے کوئی
ایک کوشش بھی سنجیدہ نظر نہیں آتی، لگتا یہی ہے کہ اب اس قسم کی کوششوں کو
دہرانے کا بھی کوئی فائدہ نہیں رہا، فریقین ایک دوسرے کی جانب انگلیاں
اٹھاتے اور منہ میں زبان کو بے لگام بھی رکھے ہوئے ہیں، جس کی وجہ سے سیاسی
جماعتوں کے درمیان ایک دوسرے کے خلاف بیانات کی بم باری جاری ہے، جس سے
حالات میں بہتری آنے کے بجائے ان کے مزید خراب ہوجانے کا خدشہ ہے۔ سیاسی
حالات اس قدر مخدوش نظر آنے لگے ہیں کہ بعض اوقات ایسا لگتا ہے کہ کسی
تیسری قوت یا نظام کی راہ ہموار کی جارہی ہو۔ ملک کا مستقبل یرغمال بنا ہوا
لگتا ہے، جسے جمہوریت پسند خطرے کی علامت قرار دے رہے ہیں۔
بادیٔ النظر لگتا ہے کہ حزب اقتدار و اختلاف میں قانون سازی اور آئین میں
ترامیم کے لئے، سیاسی و جمہوری ماحول میں ایک دوسرے کے قریب آنے کی کوئی
گنجائش باقی نہیں بچی، کیونکہ حکومت اور اپوزیشن ایک دوسرے کے خلاف سیاسی
محاذوں پر ڈٹے ہوئے اور اپنی کوششوں میں مصروف ہیں۔ ملک کی مجموعی سیاسی
صورت حال، درپیش اندرونی و بیرونی خطرات، پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی
سازشیں، شمال مغربی سرحدوں پر امن و امان کی بے یقینی صورت حال، سندھ میں
دیہی و شہری تفریق پیدا کرنے کے تحفظات، بالخصوص کراچی کے احساس محرومی کو
دور کرنے کے لئے ٹھیک نیت کا ہونا ناگزیر ہے۔ پارلیمنٹ میں قانون سازی پر
جس طرح حکومت عددی اکثریت کا مظاہرہ کرتی ہے، اس سے بادیٔ النظر نتیجہ
نکلتا ہے کہ کم ازکم پارلیمنٹ کے ذریعے موجودہ حالات میں حکومت کی رخصتی فی
الحال ممکن نہیں، پی ڈی ایم یا اپوزیشن کا جو بھی احتجاجی لائحہ عمل ہو،
بظاہر اس کا فائدہ ماضی کی طرح پی ٹی آئی کو ہی پہنچے گا۔ (ق) لیگ، ایم
کیو ایم (پ) کے معاملات ان سے ٹھیک چل رہے ہیں، تمام ریاستی اقدامات کو
حکومتی اتحاد کی مکمل حمایت حاصل ہے اور جو بھی پالیسیوں کے اثرات عوام پر
مرتب ہورہے ہیں، اس میں ان حکومتی اتحادی جماعتوں کا مکمل حصہ ہے۔ ہر ایشو
کو لے کر ایسے تمام اقدامات، جن پر حزب اختلاف حکومت کو تنقید کا نشانہ
بناتی ہے، اس پر پی ٹی آئی کو اپنی حلیف جماعتوں کی مکمل حمایت حاصل ہے۔
پارلیمنٹ میں حکومت کو مشکلات کا سامنا اس لئے نہیں ہوتا، کیونکہ انہیں
حکومتی شراکت داروں کا مکمل اعتماد حاصل ہے، اس لئے ان حالات میں سیٹ اپ
برقرار رہنے کی امید بھی باقی رہے گی اور مدت اقتدار کے آخری دور میں کسی
بھی جماعت کا سیاسی شہید بننے کی خواہش سعی لاحاصل ہوگی۔
بہتر یہ بھی ہوتا کہ برسراقتدار جماعت پارلیمنٹ میں ایسے حالات ہی پیدا نہ
ہونے دے کہ حزب اختلاف کو ان کی پالیسیوں پر تنقید کا موقع ملے، عمومی طور
پر تو یہی دیکھنے میں آرہا ہے کہ جیسے یہ وتیرہ بن چکا کہ کسی کو کسی کی
بات ہی نہیں سننی، لیکن جب پانی سر سے گزرنے لگتا ہے تو ایک دم سرگرمیاں
شروع ہوجاتی ہیں۔ 2022 میں بھی اگر یہی صورت حال رہی تو راقم کے ذاتی خیال
میں ایسے مناظر مناسب نہیں جو ہمیں 2018 سے2021 کے آخر تک دیکھنے کو ملے۔
ضروری ہے کہ فریقین اپنے رویوں میں پہلے مناسب تبدیلی لائیں، اس کے ساتھ یہ
بھی ضروری ہے کہ عوام کے لئے ’کچھ‘ کیا جائے، موجودہ حکومت کو پانچ برسوں
کا مینڈیٹ ملا ہے، ہم جانتے ہیں کہ مہنگائی، بے روزگاری، لاقانونیت، دہشت
گردی اور انتظامی امور آئیڈیل نہیں، لیکن انہیں کوئی باہر سے آکر تو ٹھیک
نہیں کرے گا، جو حالات پیدا ہوچکے، ان کو ٹھیک کرنا آسان نہیں رہا اور اب
قطعی طور پر کہا جاسکتا ہے کہ انہیں مہینوں یا اگلے چند برسوں میں بھی درست
نہیں کیا جاسکتا، تو اس کی مکمل ذمہ داری کس پر ڈالی جائے، اس کا فیصلہ بھی
عوام پر ہی چھوڑ دیں۔
پارلیمنٹ ایسا پلیٹ فارم ضرور ہے، جہاں سیاسی تدبر اور مفاہمت سے عوام کو
خاصی طمانیت مل سکتی اور اس کے اقدامات سے مثبت اثرات بھی دوررس نتائج دے
سکتے تھے، لیکن اس امر کو پورے وثوق کے ساتھ نافذالعمل کیوں نہیں کیا گیا،
یہ وہ سوال ہے جس کا جواب ہر سیاسی جماعت کو عوام کے سامنے دینا ہوگا۔ دشمن
ہماری اجتماعی غلطیوں کی طاق میں اور وہ ہمارے پائوں کے نیچے ہم پر نشانہ
تانے بیٹھا ہے جب کہ ہماری بندوقوں کا رخ افق پر ہے۔ ہمیں من حیث القوم یہ
سمجھنا ہوگا کہ ہمارا ہر مثبت قدم مملکت کو ترقی اور کامیابی پر گامزن
کرسکتا اور منفی وتیرہ بربادی کا نوشتہ بھی بن سکتا ہے۔ عوام اپنے دیرینہ
مسائل کا ذمے دار قریباً ہر سیاسی جماعت کو ہی سمجھتے ہیں، کسی کا حصہ کم
تو کسی کا زیادہ ہوگا، لیکن ہیں سب برابر کی ذمے دار، اس پر کوئی دورائے
نہیں۔ اب مستقبل کا نقشہ کیا ہوگا، یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا، لیکن
شاہین کی پرواز میں تھکاوٹ ہے، نشیمن پر بسیرا کرنے کے لئے پوری جان لڑانا
ہوگی۔ |