پچھلے دنوں مری میں پیش آنے والے المناک سانحے نے پورے
ملک کو سوگوار کر دیا ہر شخص افسردہ اور ہر آنکھ اشکبار ہے زندگی میں چند
لمحوں کے سکون کی تلاش میں جانے والے زندگی سے ہی ہاتھ دھو بیٹھے وہ معصوم
خوشیاں ڈھونڈنے نکلے تھے اپنے پیچھے عمر بھر کا سوگ چھوڑ گئے کتنا مشکل ہے
اس ملک میں خوشیوں کو تلاش کرنا یہ سوچتا ہوں تو روح کانپ اٹھتی ہے۔ مری
میں برف باری تو پہلے بھی ہوتی ہے ٹریفک جام تو پہلے بھی ہوتی ہے سیاحوں کا
رش تو پہلے بھی ہوتا ہے پھر آخر کیا وجہ ہے کہ 23 قیمتی جانیں ضائع ہوگئیں
مدد کی منتظر آنکھیں بند ہوگئیں لوگ حکومت کی رہیں دیکھتے رہے اور حکومت
گاڑیاں گنتی رہی۔ یہ بات درست ہے کہ اس بار معمول سے زیادہ برف باری ہوئی
اگر برف باری زیادہ تھی تو انتظامات بھی زیادہ ہونے چاہے تھیں اگر طوفان
زیادہ تو اقدامات بھی زیادہ ہونے چاہئے تھے مگر ایسا نہیں ہوا حالانکہ یہ
بات واضح ہے کہ محکمہ موسمیات نے پانچ دن پہلے ریڈ الرٹ جاری کر دیا تھا کہ
اس بار مری میں معمول سے زیادہ برف باری ہوگی مگر صوبائی حکومت مقامی
انتظامیہ اور کسی بھی ادارے نے اپنی ذمہ داری کا احساس نہیں کیا۔ سچ تو یہ
ہے ہمارے ملک میں ذمہ داری کے احساس کا کلچر ہوتا تو آج ملک کی یہ حالت نہ
ہوتی یہاں ہر شخص ہر ادارہ ہر اہلکار ہر حکومتی عہدیدار اور ممبران اسمبلی
سے لیکر وزراء اور وزیر اعظم تک سب اچھے کاموں کا کریڈٹ لینے کے لیے تو ہر
وقت تیار رہتے ہیں مگر کسی غلطی ، کسی سانحے ، کسی حادثے کی کوئی بھی ذمہ
داری قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا بے حسی کا تو یہ عالم ہے ریلوے کا
حادثہ ہوجائے تو وزیر کہتا ہے میں کیوں ذمہ داری قبول کروں میں کوئی
ڈرائیور تو نہیں ہوں اسی طرح قدرتی آفات یا حادثات میں کوئی بھی اپنی ذمہ
داری قبول نہیں کرتا۔ سانحہ مری پر بھی یہی ہوگا کہ کچھ نہیں ہوگا کمیٹی بن
گئے ہے اجلاس ہونگے انکوائری ہوگی الزام لگیں گے جوابی الزام لگیں بس پھر
کوئی معمولی اہلکار قربانی کا بکرا بنے گا اور پھر کسی نئے حادثے کے انتظار
میں سب بے حسی کی چادر اوڑھ کر سو جائیں گے۔
حالانکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ سیاحت کا فروغ پاکستان تحریک انصاف کے منشور
میں شامل تھا وزیر اعظم عمران خان بارہا یہ بات دہرا چکے ہیں کہ دنیا بھر
میں سیاحت ایک اہم صنعت کا درجہ رکھتی ہے بہت سے ممالک کی تمام تر معیشت کا
انحصار سیاحت پر ہے پاکستان ایک خوش قسمت ملک ہے جو قدرتی حسن سے مالا مال
ہے یہاں سیاحت کے فروغ کے لیے بہتر اقدامات کر کے زیادہ سے زیادہ معاشی
فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔ وزیر اعظم نے سیاحت کے فروغ کے لیے اپنی ترجیحات
کو عملی جامہ پہنانے کے لیے دو سال پہلے اعلی سطح کی ایک قومی رابطہ کمیٹی
بھی تشکیل دی تھی جس کا مقصد تمام صوبوں کے تعاون سے نئے سیاحتی مراکز کو
متعارف کرانے کے ساتھ ساتھ پہلے سے موجود سیاحتی مقامات پر سیاحوں کو بہتر
سے بہتر سہولیات مہیا کرنا تھا جبکہ وزیر اعظم ونٹر ٹورازم کی فروغ کی
ضرورت پر زور بھی دیتے رہے تاکہ حکومت کے بہتر سے بہتر اقدامات کی وجہ سے
غیر ملکی سیاح بھی پاکستان کا رخ کریں۔
ایسی صورتحال میں جب وزیر اعظم اور ان کی حکومت مسلسل سیاحت کے فروغ کے لیے
اپنی بہتر کارکردگی کے دعوے کر رہی ہو تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ عوام اپنی
حکومت پر اعتماد نہ کریں یہی وجہ ہے لوگ بڑی تعداد میں برف باری سے لطف
اندوز ہونے کے لیے مری پہنچے اور حکومت نے اس کا کریڈٹ بھی لیا وفاقی وزیر
اطلاعات فواد چوہدری نے اپنی ٹویٹ میں لکھا کہ " مری میں ایک لاکھ سے زائد
گاڑیاں داخل ہو چکی ہیں ہوٹلوں اور اقامت گاہوں کے کرائے کئی گنا اوپر چلے
گئے ہیں سیاحت میں یہ اضافہ عام آدمی کی خوشحالی اور آمدنی میں اضافے کو
ظاہر کرتا ہے اس سال دس بڑی کمپنیوں نے 929 ارب کا منافع کمایا"
یقیناً جب حکومت سیاحوں کی تعداد سے واقف تھی تو اسے اقدامات بھی اسی نوعیت
کے کرنے چاہئے تھیں جبکہ محکمہ موسمیات ریڈ الرٹ بھی جاری کر چکا تھا مگر
ایسا نہیں کیا گیا نہ تو مزید لوگوں کو مری آنے سے روکا گیا اور نہ ہی کسی
بھی سنگین صورتحال سے نمٹنے کے لیے ہنگامی اقدامات کئے گئے تو ایسی صورتحال
میں یہی ہونا تھا جو ہوا لوگ مدد مانگتے رہے اور حکمران سیاحت میں اپنی
کامیابیاں گنواتے رہے۔
سانحہ مری میں وفاقی و صوبائی حکومتوں ، اسلام آباد راولپنڈی کی انتظامیہ
اور این ڈی اے سمیت تمام ذمہ دار اداروں کی غیر ذمہ داری اور بے حسی اپنی
جگہ مگر بحثیت قوم اور اس ملک کے شہری کی حیثیت سے ہماری کیا ذمہ داری ہے
اور ہم کیا کردار ادا کر رہے ہیں ہمیں اپنے گریبانوں میں بھی جھانکنا چاہئے
سیر و تفریح کے لیے مری جانے والوں کے ساتھ وہاں کے ہوٹلز اور گیسٹ ہاؤس
مالکان کا کیا رویہ ہوتا ہے یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں مگر اس وقت جب مری
میں سنگین صورتحال تھی لوگ برف کے طوفان میں پھنسے ہوئے تھے وہاں کمروں کے
کرائیوں اور کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتوں میں کئی سو گنا اضافہ کردیا گیا
یہاں تک کہ ایک نارمل کمرے کا کرایہ 40 سے 50 ہزار تک کر دیا گیا ہماری یہ
اجتماعی بے حسی اور ہوس معاشرے کو تباہی کی طرف لے جارہی ہے بے حسی کا یہ
عالم ہے کہ حادثہ ہوتا ہے تو بعض لوگ امدادی کاموں کی آڑ میں مرنے والوں
اور زخمیوں کی جیبوں سے موبائل فون اور نقدی نکال لیتے ہیں ابھی کل ہی کی
تو بات ہے جب کورونا کی پہلی لہر آئی اور حکومت نے ماسک کی سختی کی تو
لوگوں نے نہ صرف ماسک مارکیٹ سے غائب کر دئے بلکہ 20 روپے والا 100 سے دو
سو روپے تک فروخت کیا گیا اسی طرح کورونا میں اضافے کے نتیجے میں آکسیجن کی
طلب بڑھی لوگ جب زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا تھے تو مارکیٹ سے آکسیجن
سلنڈر غائب کر دئے گئے حیرت ہے ہم اس ملک میں تبدیلی کی امید لگائے بیٹھے
ہیں جہاں ڈینگی کے مریضوں میں اضافہ ہوا تو بخار کی ٹیبلٹ مارکیٹ سے غائب
کر دی گئیں اسی طرح رمضان میں چینی غائب کر دی جاتی ہے کبھی آٹا غائب کر
دیا جاتا ہے غور کیجئے اس طرح کے غیر قانونی غیر اخلاقی اور غیر انسانی کام
کرنے والے لوگ کوئی کسی اور سیارے سے تو نہیں آتے یقیناً ہم ہی ہوتے ہیں یا
ہم میں سے ہی ہوتے ہیں یہ ایک حقیقت ہے کہ قدرتی آفات کے سامنے انسان بے بس
ہوتا ہے مگر پیشگی اطلاعات کی موجودگی میں بروقت اقدامات کر کے نقصانات کو
کم سے کم اور قیمتی جانوں کو بچایا جاسکتا تھا مگر ایسا نہیں کیا گیا جس پر
حکومت کی غفلت نااہلی اور بے حسی واضح ہے مگر بحثیت قوم ہمیں اپنے اندر در
آنے والی اجتماعی بے حسی پر بھی ضرور غور کرنا چاہئے ورنہ حکومتوں کے بدلنے
سے ملک نہیں بدلے گا جب تک ہم خود کو نہیں بدلیں گے۔ |