سانحہ مری پاکستانی تاریخ کا المناک واقعہ۰۰۰ ہوٹل مالکین طوفانی رات سیاحوں کو لوٹتے رہے ۰انتظامیہ کی کھلی لاپرواہی

سانحہ مری پاکستانی تاریخ کا ایک بدترین واقعہ ہے جس میں طوفانی برفباری کے دوران ٹریفک میں پھنسے 22مردو خواتین اور بچوں کی موت واقع ہوگئی۔ سیاحت کی غرض سے برفباری کا نظارہ کرنے کیلئے پہاڑی علاقوں پر لاکھوں لوگ آتے ہیں ۔ لیکن 7؍اور 8؍ جنوری 2022مری پہنچنے والے ان سیاحوں کیلئے قیامت خیز ثابت ہوئی ۔ ہزاروں گاڑیاں مری کی برفباری سڑکوں پر رکی رہیں ، پریشان حال سیاح اپنی اپنی کوششوں میں مصروف رہے کہ کوئی نہ کوئی ہمدرد کسی نہ کسی طور پر انہیں موت کے منہ سے نکاللے گا، لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا ۔ موت کی اس برفباری طوفانی رات میں عہدہ یا تعلقات کسی کام نہ آسکے۔انتظامیہ کی بدنظمی و غیر ذمہ داری ، پولیس اور سیکیوریٹی لاپرواہی کا نتیجہ ہے کہ سیاحوں کی تڑپتے ہوئے گاڑیوں میں موت واقع ہوگئی۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق مری سانحہ میں جاں بحق ہونے والے اسلام آباد پولیس کے اہلکار نوید اقبال کے رشتے کے بھائی طیب گوندل جو خود بھی لوکل ٹرانسپورٹ سے مری کے سفر پر تھے انہوں نے اس دل دہلادینے والے واقعہ کی روداد سناتے ہوئے زوار وقطار روپڑے، انہوں نے بتایاکہ نوید اقبال اپنی تین بیٹیوں ، ایک بیٹے ، بہن ، بھانجی اور بھتیجے کے ساتھ اپنی خود کی گاڑی میں گئے تھے اور شام 6بجے انہوں نے کال کیا کہ ’’ہم پھنس گئے ہیں‘‘۔ بتایاجاتا ہیکہ وہاں گاڑیاں 24گھنٹے سے پھنسی ہوئی تھیں ، انتظامیہ کی لاپرواہی کی وجہ سے یہ بڑا سانحہ پیش آیا۔ بتایا جاتا ہیکہ یہیں کے ایک مقام نتھیا گلی میں دو سے چار ہزار گاڑیاں موجود تھیں ، نوید اقبال سے طیب گوندل کا آخری مرتبہ رابطہ صبح 4بجے ہوا جس پر نوید نے سی پی او ساجد کیانی کا نمبر مانگا، طیب گوندل بتاتے ہیں کہ ساجد کیانی سے بات ہوئی ، انہیں نوید کی ریکارڈنگ بھیجی مگر انہوں نے دیکھ کر کوئی جواب نہیں دیا۔طیب گوندل کا کہنا تھا کہ ’جی ٹی روڈ اور موٹروے نیچے سے کلیئر تھی مگر جہاں سے برفباری شروع ہوئی وہاں شدید ٹریفک کا سامنا کرنا پڑا جہاں سے کسی صورت واپسی ممکن نہیں تھی، ہمیں انتطامیہ نے کہیں آگے جانے سے نہیں روکا، اگر مجھے پتا چلتا تو نوید کو واپس بلا لیتا‘۔نوید اقبال کے کزن نے مزید بتایا کہ ’ میں نے ایس ایس پی ٹریفک سے بھی رابطہ کیا، سوشل میڈیا پر خبریں دیں، بطور صحافی وزیراعظم عمران خان، وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار،وزیر داخلہ شیخ رشید اوروزیراطلاعات فواد چوہدری کے ذاتی واٹس ایپ پر میسج کیے مگر کوئی جواب نہیں آیا، صرف شیخ رشید نے پریس ریلیز جاری کی کہ اقدامات کیے جارہے ہیں جب کہ سی پی او کی غفلت کا نتیجہ ہے کہ اتنا بڑا سانحہ پیش آیا۔ بتایا جاتا ہیکہ مری میں ایک طرف طوفانی برفباری کی وجہ سے لوگ موت سے لڑرہے تھے تودوسری جانب مری ہوٹلوں کے مالکان پریشان حال سیاحوں سے لوٹ مار میں لگے ہوئے تھے۔ جیسا کہ سوشل میڈیا پر مری کے برفانی طوفان میں پھنسنے والے سیاحوں کی جانب سے الزام عائد کیا جا رہا ہے کہ ہوٹل مالکان نے ایک رات کا کرایہ 20 سے 50 ہزار روپے تک وصول کیا۔ اس حوالے سے ایک صحافی نورالعین دانش نے مری کے ایک ہوٹل کی رسید شیئر کی ہے جس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ فیملی سے 20 ہزار روپے کرایہ وصول کیا گیا۔ صحافی نے کہا ’’ مری کی قیامت خیز رات میں بغیر ہیٹر اور گرم پانی کے ایک کمرے کا 20 ہزار کرایہ ،ساتھ اگلے روز بارہ بجے کمرہ خالی کرنے کا حکم بھی دیا گیا۔ہوٹل کا کارڈ بل سمیت موجود ہے ، اب دیکھتے ہیں انتظامیہ اس پر کیا ایکشن لے سکتی ہے۔‘‘سوشل میڈیا پر انتظامیہ کے ساتھ ساتھ مری کے ان بے حس ہوٹل مالکان کو بھی اس سانحے کا ذمہ دار قرار دیا جا رہا ہے جنہوں نے راتوں رات کرایوں میں بے تحاشہ اضافہ کردیا جس کے باعث لوگ خطرناک جان لیوا حالات کے باوجود ہوٹلیں خالی کرنے پر مجبور ہوگئے۔اس طوفانی رات مری کی سڑکوں پر مزید خطرات پیدا کرنے کی کوششیں بھی کی گئیں۔ اس سلسلہ میں سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ویڈیو ز میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ برف میں پھنس جانے والی گاڑیوں کو نکالنے کیلئے چند سو میٹر کا علاقہ گزارنے کیلئے ٹائروں پر چین لگانے کا 5 ہزار روپے تک وصول کیا جاتا رہا ۔تفصیلات کے مطابق سڑک پر برف بکھیر کر سیاحوں کیلئے مشکلات پیدا کرنے والوں کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیاہے ، ایف آئی آر میں کہا گیاہے کہ ملزمان سڑک پر برف بکھیر کر گاڑیوں کو پھنسانے اور پھر مدد کیلئے پیسے لیتے تھے ، ملزمان سیاحوں سے چار سے پانچ ہزار روپے وصول کر رہے تھے۔ پنجاب حکومت نے سانحہ مری کی تحقیقات کیلئے پانچ رکنی کمیٹی قائم کردی ہے ۔ کمیٹی کی سربراہی ایڈیشنل چیف سیکریٹری پنجاب ظفر نصراﷲ کررہے ہیں جبکہ سیکریٹری علی سرفراز، سیکریٹری اسد گیلانی اور ایڈیشنل انسپکٹر جنرل آف پنجاب پولیس فاروق مظہر بھی کمیٹی میں شامل بتائے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ کمیٹی ایک اور رکن کو بھی شامل کرسکے گی۔ کمیٹی کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ سات روز میں تفصیلی رپورٹ مکمل کرکے جمع کرائے۔پنجاب حکومت کی جانب سے کمیٹی کیلئے ٹرمز آف ریفرنس (ٹی او آرز) بھی طے کردیے گئے ہیں جو آٹھ سوالوں پر مشتمل ہیں۔اب دیکھنا ہے کہ کمیٹی ایک ہفتہ کے اندر کسے موردِ الزام ٹھہراتی ہے اور ان ہوٹل مالکوں کے خلاف کیا اقدامات کرنے کی مانگ کرتی ہے جو طوفانی برفباری میں پھنسے ہوئے لوگوں سے ہزاروں روپیے بٹورنے میں لگے ہوئے تھے۔ یہاں ایک اور حیران کن بات یہ بھی بتائی گئی کہ ایک رات کا کرایا ہزاروں روپیےوصول کرنے کے علاوہ چائے فرشوں نے صرف تین پیالی چائے کی قیمت اُس طوفانی رات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے2ہزار روپیےمیں فروخت کی۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق پاکستانی اداکارہ فضا علی نے شدید برفباری کے دوران مری میں انکے ساتھ پیش آئے واقعہ کا تجربہ شیئر کیا۔ انہوں نے اپنے یو ٹیوب چینل پر شیئر کی گئی ویڈیو میں بتایا کہ حال ہی میں وہ ایک پراجیکٹ کے سلسلہ میں لاہور میں موجود تھیں جہاں سے انہوں ے برفباری دیکھنے کیلئے مری جانے کا پلان بنایا۔ فضا علی کے مطابق انہوں نے اروما کیفے نامی مری کے ایک ہوٹل میں 20ہزار روپیے میں ایک رات کیلئے کمرا کرایا پر لیا جہاں پہنچتے ہی انہیں اندازہ ہواکہ تصویروں میں جو کمرے انتظامیہ کی جانب سے دکھائی گئے تھے وہ ایسے بالکل بھی نہیں تھے۔ انہوں نے بتایا کہ ہوٹل کے کمروں کے واش روم میں پانی موجود نہیں تھا، شکایت کرنے پر انتظامیہ نے بتایا کہ موٹر چلائی ہے پانی آجائے گا لیکن 4گھنٹے گزرجانے کے باوجود پانی نہیں آیا۔ان ہی کے مطابق اس دوران ’’ہم نے 3کپ چائے آرڈر کی بوتل دیکھ کر شدید حیرانی ہوئی کیونکہ 3کپ چائے ہمیں 2ہزار روپیے میں دی گئی، تاہم اس کے باوجود کئی گھنٹے گزر گئے اور جب پانی نہیں آیا تو ہم نے انتظامیہ پر شدید غصہ کیا اور پانی نہ آنے کی صورت میں پیسے واپس کرنے کا مطالبہ کیا اور پھر ہم نے وہ ہوٹل چھوڑ دیا۔ادارہ کارہ کے مطابق مری میں ہوٹل مالکان میں صرف 10فیصد افراد ایسے ہیں جن کا تعلق مری سے ہے، ورنہ زیادہ تری مری کے ہوٹلز کے مالکان بڑے بڑے سیاستداں، کاروباری شخصیات اور وزراء ہیں۔اسی طرح کئی شکایات سوشل میڈیا کے ذریعہ منظر عام پر آئی ہیں۔ حکومت پاکستان اور پنجاب حکومت کی جانب سے کس قسم کی کارروائی کی جائے گی یہ تو آنے والا وقت بتائے گا۔ فی الحال پنجاب پولیس نے مری میں جاری امدادی کاموں کے حوالے سے اعدادوشمار جاری کیے ہیں۔ترجمان پولیس کے مطابق مری کی 90 فیصد سڑکیں کلیئر کرا لی گئی ہیں، گاڑیوں میں سے بچوں اور فیملیز کو نکال کر سرکاری گیسٹ ہاؤس اور محفوظ مقامات پرمنتقل کردیا گیا ہے۔ شہریوں کو خوراک خشک میوہ جات، ادویات ، گرم کپڑے سمیت دیگر ضروری اشیاء فراہم کی جا رہی ہیں۔بتایا جاتا ہیکہ گزشتہ اتوار سے جمعہ تک مری میں 15,7,665 گاڑیاں داخل ہوئیں۔ امدادی کارروائیوں کے آغاز کے بعد سے 33,373 گاڑیوں کو ریسکیو کرکے نکالا جا چکا ہے۔ مری میں اس وقت مقامی شہریوں کی گاڑیوں کے علاؤہ سیاحوں کی خالی گاڑیاں برف میں پھنسی ہیں، جو نکالی جا رہی ہیں۔ مری اور گلیات میں برفباری کا سلسلہ جاری ہے اور پنجاب حکومت نے صورتحال کو پیش نظر رکھتے ہوئے مری کو آفت زدہ قرار دے دیا ہے اور 17؍ جنوری کو سیاحوں کو مری جانے پر پابندی لگادی ہے ، سیاحوں کو نکالنے کیلئے اقدامات کیئے جارہے ہیں،وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید بھی انتظامات کا جائزہ لینے کیلئے خود مری پہنچ گئے ہیں۔ وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے مری کے متاثرہ علاقوں کا فضائی دورہ کیا اور جاری امدادی سرگرمیوں کا جائزہ لیا۔ وزیر اعلیٰ پنجاب کی زیر صدارت سانحہ مری سے متعلق ایک اجلاس ہوا ،جس میں جاں بحق ہونے والے افراد کے ورثاء کی مالی اعانت کا فیصلہ کیا گیا۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق اجلاس میں جاں بحق افراد کے ورثاء کیلئے ایک کروڑ 76 لاکھ روپے منظور کئے گئے۔رپورٹ کے مطابق جاں بحق 22 افراد کے لواحقین کو 8،8 لاکھ روپے دیے جائیں گے۔مسلم لیگ ن کے صدر اور قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے مری سانحہ کی تحقیقات کیلئے جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کا مطالبہ کیا ہے۔ انہوں نے پیر کو قومی اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پوری اپوزیشن کا جوڈیشل کمیشن بنانے کا مطالبہ ہے جو تمام واقعہ کی تحقیقات کرکے حقائق قوم کے سامنے لائے، اس سے کم پر نہیں مانیں گے۔ انہوں نے کہا کہ لوگ 20گھنٹے برف میں پھنسے رہے اور ان کا کوئی پرسان حال نہیں تھا۔ شہباز شریف نے کہاکہ مری میں اتنی برف پہلی مرتبہ نہیں پری اور نہ ہی اتنا اژدہام پہلی مرتبہ ہوا ہے، تمام واقعہ مجرمانہ غفلت او رکرپٹ نقطہ نظر کے باعث پیش آیا ہے۔ انہوں نے واقعہ کی تحقیقات کیلئے حکومت کی جانب سے سرکاری افسروں پر مبنی کمیٹی بنانے کو سنگین مذاق قرار دیا ہے۔ اب دیکھنا ہیکہ پنجاب حکومت کی جانب سے بنائی گئی کمیٹی کی رپورٹ کے بعد اپوزیشن کیا قدم اٹھاتی ہے ۔ وزیر اعظم عمران خان ملک میں کرپشن کو ختم کرنے اور ریاستِ مدینہ بنانے کی کوشش میں ہیں لیکن مری کے سانحہ کے بعد واضح ہوگیاکہ ملک میں آج بھی عوام کو لوٹنے کا بازار گرم ہے ۰۰۰

افغان عوام کو فوراً عالمی امداد کی ضرورت
افغانستان میں دوبارہ طالبان کی حکومت قائم ہوئے پانچ ماہ کا عرصہ ہونے آچکا ہے۔ افغان عوام جن حالات سے گزررہے ہیں اس پر اقوام متحدہ بھی افغانستان کی مدد کے لئے عالمی سطح پراعلان کرچکا ہے ۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق اقوام متحدہ کو افغانستان میں امداد کیلئے 2022 میں پانچ ارب ڈالر کی ضرورت ہے تاکہ اسے تباہی سے بچایا جا سکے اور 40 سال کی مشکلات کا سامنا کرنے والے اس ملک کا مستقبل محفوظ کیا جاسکے۔ذرائع ابلاغ اے ایف پی کے مطابق یہ ایک ہی ملک کیلئے کی جانے والی اقوام متحدہ کی پہلی بار اتنی بڑی رقم کی اپیل ہے۔بتایا جاتا ہے کہ 4.4(چار اعشاریہ چار) ارب ڈالر کی ضرورت افغانستان میں ہے جبکہ مزید 62 کروڑ 30 لاکھ دیگر ممالک میں پناہ لینے والے لاکھوں افغانوں کی مدد کے لیے درکار ہیں۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ افغانستان میں دو کروڑ 20 لاکھ افراد جبکہ پانچ پڑوسی ممالک میں 57 لاکھ دربدر افغانوں کو رواں سال ہنگامی امداد کی ضرورت ہے۔ادارے کے سربراہ مارٹن گرفتھ کا کہنا ہے کہ ’میرا پیغام اہم ہے، افغانستان کے لوگوں کے لئے دروازے بند نہ کریں۔ بھوک، بیماری، غذائی قلت اور اموات کو روکنے میں ہماری مدد کریں۔‘امریکہ نے افغانستان کے اربوں ڈالر کے اثاثے منجمد کردیے ہیں جبکہ امدادی سامان کی فراہمی میں کافی مسائل ہیں۔امریکہ کی جانب سے اثاثے منجمد کئے جانے کے بعد افغانستان کے لوگوں کو بدترین انسانی بحران کا سامنا ہے جہاں نصف آبادی کو شدید بھوک کا سامنا بتایا جاتا ہے، 90لاکھ سے زائد لوگ بے گھر بتائے جاتے ہیں ، لاکھوں بچے اسکولوں کو جانے سے محروم ہیں، ہزاروں بچوں کی جانیں غذائی قلت کی وجہ سے خطرے سے دوچار بتائی جاتی ہے۔ واضح رہیکہ افغانستان کوسال گذشتہ یعنی 2021 میں بدترین خشک سالی کا سامنا بھی رہا۔جنیوا میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے مارٹن گرفتھ کا کہنا تھا کہ ’امداد کے بغیر ’(افغانوں کا) کوئی مستقبل نہیں ہوگا۔‘ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اگر فنڈنگ ہوئی تو امدادی ادارے افغانستان کو کھانا اور زرعی سپورٹ، طبی سہولیات، غذائی قلت کا علاج، شیلٹر اور پانی کی رسائی فراہم کر سکیں گے۔مارٹن گرفتھ کے مطابق یہ رقم 160 این جی اوز اور اقوام متحدہ کی ایجنسیوں کو دی جائے گی۔ کچھ رقم طبی اسٹاف سمیت فرنٹ لائن ورکرز کو دی جائے گی۔ تاہم یہ طالبان انتظامیہ کے ذریعے نہیں کیا جائے گا۔ افغانستان کے نائب وزیر اعظم عبدالغنی برادر نے اپنے ایک ویڈیو اپیل میں کہا کہ افغان عوام کی مدد کرنا دنیا کی ذمہ داری ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت مختلف علاقوں میں لوگوں کے پاس کھانا، رہائش، گرم کپڑے یا پیسے نہیں ہیں، دنیا کو سیاسی تعصب سے بالاتر ہوکر افغان عوام کی حمایت کرنا ہوگی اور اپنی انسانی ذمہ داریوں کو پورا کرنا ہوگا۔ عبدالغنی برادر نے مزید کہا کہ سرد موسم نے افغان عوام کی پہلے سے بدتر صورتحال کو مزید خراب کردیا ہے، طالبان ملک بھر میں بین الاقوامی امداد کی تقسیم میں مدد کے لئے تیار ہیں۔

سعودی عرب کے شہر جازان میں بے حیائی ۰۰۰ عوام کا شدید احتجاج
سعودی عرب میں کنسرٹ پروگراموں اور سینماگھروں کی اجازت کے خلاف عوام میں شدید غصہ پایا جارہا ہے ۔ شاہی حکومت ترقیاتی منصوبوں کے تحت ملک میں فحش و عریانیت کوبھی شاید ایک حصہ قرار دے رہی ہے۔ گذشتہ دنوں سعودی عرب کے صوبے جازان میں جاری ’جازان فیسٹیول 2022‘ کے دوران بنائی گئی ایک ڈانس ویڈیو سوشل میڈیا پر آنے کے بعد لوگوں نے سخت ناگواری کا اظہار کیا ہے۔سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیو میں مرد و خاتون کو روایتی برازیلی ڈانس ’سامبا‘ کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔وائرل ہونے والی ویڈیو میں خاتون نیم عریاں لباس میں دکھائی دیتی ہیں، تاہم انہوں نے روایتی برازیلی سامبا ڈانسرز سے قدرے بہتر لباس پہن رکھا ہے۔ویڈیو وائرل ہونے کے بعد سعودی عرب کے مقامی لوگوں نے انتظامیہ پر سخت تنقید کرتے ہوئے جازان کی گلیوں میں غیرملکی افراد کے نیم عریاں لباس کے رقص کو مذہبی و سماجی روایات کے خلاف قرار دیا۔ویڈیو وائرل ہونے کے بعد جازان کے گورنر اور انتظامیہ نے اعتراف کیا کہ مذکورہ ویڈیو ’جازان فیسٹیول 2022ْ‘ کی ہی ہے، جس میں دنیا بھر سے لوگ شریک ہیں۔انتظامیہ نے غیرملکی افراد کی وائرل ہونے والی رقص کی ویڈیو کی طرف داری کرتے ہوئے کہا کہ مذکورہ ویڈیو مذہبی اور سماجی روایات کے خلاف نہیں۔حکام کے مطابق مذکورہ ویڈیو تفریحی میلے کا ایک حصہ تھی اور تفریحی ویڈیو کو غلط رنگ نہ دیا جائے، تاہم لوگوں کی جانب سے سخت تنقید کے بعد گورنر جازان نے معاملے کی تحقیق کا حکم دے دیا۔اب دیکھنا ہیکہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ویڈیو کے خلاف آواز اٹھانے والوں کے خلاف ہی کارروائی نہ کی جائے کیونکہ اس سے سعودی ولیعہد شہزادہ محمد بن سلمان کا ویژن 2030جڑا ہوا ہے۰۰۰کاش سعودی شاہی حکومت مرکزِ اسلامی کو فواحشات سے پاک رکھنے کی کوشش کرتی۰۰۰
 

Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid
About the Author: Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid Read More Articles by Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid: 358 Articles with 255950 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.