منی پاکستان کہلانے والے شھر
قائد جو کبھی عروس البلاد ،روشنیوں کا شہر اور امن کا گہوارہ ہوا کرتا تھا
۔ یہ وہ شھر تھا جس نے ایک ماں کی طرح ملک کے ہر کونے سے روزگار و حصول
تعلیم کے لیے آنے والے شہری کو اپنی گود آغوش میں سمالیا تھا ۔ پاکستان کے
پسماندہ اور دیہی علاقوں سے لوگ اپنے اہل خانہ کی کفالت اور بہتر ذریعہ
معاش کی غرض شہر قائد کا رخ کر تے اور یہاں محنت مزدوری کرکے اپنا اور اپنے
گھر والوں کا پیٹ پالتے ۔ شہر قائد کے ساتھ شروع ہونے والا زیادتی و نا
انصافی کا سلسلہ دس بارہ سال پرانا نہیں بلکہ اس کا آغاز ایوبی آمریت میں
ء١٩٥٨ میں شروع ہوا جب ایک فوجی ڈکٹیٹر نے اپنی ذاتی مفادات کی غرض سے
ابھرتے ہوئے صنعتی و تجارتی حب پر پہلا حملہ کیا اور دارالحکومت نخلستان سے
اٹھاکر ریگستان لے جاکر آباد کردیا۔
کراچی کے ساتھ دوسری بڑی زیاتی بھی اس ہی فوجی آمر نے کی اس نے مادرملت
فاطمہ جناح کو دھاندلی سے شکست دے کر اپنی فتح کا جشن منا نے کے لیے لسانیت
کا سہارا لیا اور نفرت و عصیبت کا ایسا بیچ بویا جو آج ایک تن آور درخت کی
حثیت اختیار کرگیا ہے ۔
گزشتہ کئی ماہ سے جاری لسانیت ومذہبی گروہ بندی پر مبنی فسادات میں ابتک
سینکڑوں ماؤں کی گودیں اجڑ چکی ہیں،کئی بہنیں بیوہ اور ہزاروں بچے یتیم ہو
چکے ہیں ۔ اس نفرت کی آگ سے ان گنت گھروں کے چولہے ٹھنڈے ہوچکے ہیں ۔ بد
امنی انتہاء کو پہنچ چکی ہے ۔ قانون کی جگہ لاقانونیت اور انسانیت کی جگہ
بربریت نے لے لی ہے۔
شہر قائد میں خونی بارش کا نا تھمنے والا سلسلہ وقفہ وقفہ سے جاری ہے ۔
بیٹے باپ کے اور باپ بیٹوں کے جنازے اٹھارہے ہیں ۔ ان گھروں میں کہرام مچا
ہوا ہے ۔ بچے بلک رہے ہیں ماں و بہنوں کی آہ وپکار آسمانوں کا سینہ چیر رہی
ہے پر افسوس ایسے موقع پر حکمران طبقہ ان کے لواحقین تعزیت کرنے اور ان کے
زخموں پر مرہم رکھنے کے بجائے نمک چھڑک رہا ہے ۔
حکومت اپنی غلطی وناکامی کا اعترا ف کرنے کے بجائے ان ستر فیصد بہنوں پر
اپنے سہاگ اجاڑ نے کا الزام لگارہی ہے جو شہر قائد میں اندھی گولیوں کی زرد
میں آکر اپنی زندگی کی بازی بارگئے ۔ افسوس صد افسوس جناب رحمان ملک صاحب (
کراچی میں ستر فیصد وہ لوگ مارے جاتے ہیں جو اپنی گرل فرینڈ یا بیویوں سے
جان چھڑا نا چاہتے ہیں )۔ |