بسم اﷲ الرحمن الرحیم
اسلام کے پانچ بڑے ارکان ( کلمہ ، نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ جیسے) فرائض کے
بعد حلال مال کمانا فرض ہے۔اور یہ صرف اُس شخص کے ذمہ فرض ہے جو اپنے اور
اپنے اہل و عیال کے ضروری خرچ کے لئے مال کا محتاج ہو۔ باقی وہ شخص جس کے
پاس ضرورت کے بقدر مال موجود ہو مثلاً وہ صاحب جائیداد ہے یاکسی اور طرح سے
اُس کو مال میسر ہے تو اُس کے ذمہ یہ فرض نہیں رہتا۔اِس لئے کہ اﷲ تعالیٰ
نے مال کو ضرورتوں کے پورا کرنے کے لئے پیدا فرمایا ہے، تاکہ بندہ اپنی
ضروری حاجتیں پوری کرکے اﷲ تعالیٰ کی عبادت میں مشغول ہوجائے کیوں کہ رہنے
سہنے، کھانے پینے اور پہننے اوڑھنے کے بغیر صحیح طرح سے اﷲ تعالیٰ کی عبادت
نہیں ہوسکتی۔ گویا اصل مقصود مال کمانا نہیں ہے بلکہ اس کے ذریعے اﷲ تعالیٰ
کی عبادت میں یک سوئی سے مشغول ہونا مطلوب ہے۔
قرآنِ مجید میں اﷲ تعالیٰ انسانوں پر اپنا احسان جتلاتے ہوئے ارشاد فرماتے
ہیں: ’’ہم نے دن کمائی کرنے کے لئے بنایا‘‘(سورۃالنبا:11) دوسری جگہ ارشاد
فرماتے ہیں: ’’ہم نے زمین میں تم کو جگہ دی اور اُس میں تمہارے لئے روزیاں
مقرر کردین، تم بہت کم شکر کرتے ہو‘‘(سورۃ الاعراف:10 ) ایک اور جگہ ارشاد
فرماتے ہیں: ’’کتنے لوگ زمین میں اﷲ تعالیٰ کا فضل (یعنی رزق) ڈھونڈنے کے
لئے پھریں گے‘‘ (سورۃالمزمل:20)ایک دوسری جگہ ارشاد فرماتے ہیں: ’’زمین میں
پھیل جاؤ اور اﷲ تعالیٰ کا فضل تلاش کرو‘‘ (سورۃ الجمعہ:10)
شریعتِ اسلام نے کسبِ حلال کو عبادات میں شمار فرمایا ہے اور اس کے بے شمار
فضائل بتلائے ہیں ۔ چنانچہ حضرت انس بن مالک رضی اﷲ عنہ سے منقول ہے کہ نبی
کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ حلال مال کا طلب کرنا ہر مسلمان
پر واجب ہے۔ (المعجم الاوسط للطبرانی:8610)
اسی طرح حضرت عبد اﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اﷲ
علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ حلال مال کا طلب کرنا(دیگر) فرائض( کی
ادائیگی) کے بعد فرض ہے۔ (المعجم الکبیر للطبرانی: 9993)
حضرت ابو سعید خدری رضی اﷲ عنہ حضورِ اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم سے نقل کرتے
ہیں کہ آپ نے ارشاد فرمایا کہ جس آدمی نے بھی حلال مال کماکر خود اپنے
کھانے اور پہننے میں خرچ کیا یا اپنے علاوہ اﷲ تعالیٰ کی مخلوق میں سے کسی
دوسرے کو کھلایا یا پہنایا تو یہ بھی اُس کے لئے صدقہ ہوگا۔(صحیح ابن
حبان:4236)
حضرت مقدام بن معدی کرب رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ
وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اپنے ہاتھ کی کمائی سے بہتر کھانا کسی نے نہیں
کھایا۔ اور اﷲ تعالیٰ کے نبی حضرت داؤد علیہ السلام اپنے ہاتھ کی کمائی سے
کھاتے تھے۔(صحیح بخاری:2072)
اِس سے معلوم ہوا کہ مطلق مال کمانا فرض اور واجب عبادت نہیں، بلکہ حلال
اور جائز طریقے سے مال کمانا عبادت ہے۔حرام یا مشتبہ مال کمانا عبادت تو
کجا اُلٹا سخت گناہ اور اﷲ تعالیٰ کی نافرمانی ہے، لیکن افسوس کہ آج کل لوگ
مال کمانے کی حرص میں اِس بات کی ذرہ برابر بھی پرواہ نہیں کرتے کہ حلال
طریقے سے کما رہے ہیں یا حرام طریقے سے۔بلکہ آج کل تو لوگ جھوٹ، فریب،
دھوکہ دہی اوردو نمبری کے ذریعہ مال کمانے کو کمالِ ہنر سمجھتے ہیں اور اسے
اپنی ہوشیاری و چالاکی خیال کرتے ہیں، حالاں کہ حقیقت میں یہ دوسروں کے
ساتھ نہیں بلکہ اپنے ساتھ ہی دھوکہ فریب ہے اور ’’نیکی برباد گناہ لازم‘‘
کا مصداق ہے۔
چناں چہ حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم
نے ارشاد فرمایا کہ بے شک اﷲ تعالیٰ پاک ہے، پاک ہی قبول کرتا ہے، اور بے
شک اﷲ تعالیٰ نے جو حکم اپنے پیغمبروں کو دیا ہے کہ اے رسولو! پاکیزہ چیزیں
کھاؤ اور نیک عمل کرو! وہی حکم اُس نے پیغمبروں کے علاوہ اپنے مؤمن بندوں
دیا ہے کہ اے ایمان والو! جو ہم نے تمہیں رزق دیا ہے اُس میں سے پاکیزہ
چیزیں کھاؤ! اس کے بعد حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے ایسے شخص کا ذکر فرمایا جو
لمبے سفر میں ہو، بال بکھرے ہوئے ہوں، بدن پر غبار لگا ہوا ہو، آسمان کی
طرف ہاتھ اُٹھا کر یارب یارب کہتا ہو، اُس کا کھانا حرام ہو، اُس کا پینا
حرام ہو، اُس کا پہننا حرام ہو، تو ان سب چیزوں کے باوجود اُس کی دعاء کیسے
قبول ہوسکتی ہے؟ (صحیح مسلم:1015، جامع ترمذی: 2989)
چنانچہ مؤرخین نے لکھا ہے کہ کوفہ میں ’’مستجاب الدعاء‘‘ لوگوں کی ایک
جماعت تھی۔جب کوئی حاکم اُن پر مسلط ہوتا، اُس کے لئے بد دعاء کرتے، وہ
ہلاک ہوجاتا۔حجاج ظاہم کا جب وہاں تسلط ہوا تو اُس نے ایک دعوت کی، جس میں
ان حضرات کو خاص طور سے شریک کیا۔ اور جب کھانے سے فارغ ہوچکے تو اُس نے
کہا کہ میں ان لوگوں کی بد دعاء سے محفوظ ہوگیا کہ حرام کی روزی ان کے پیٹ
میں داخل ہوگئی۔(فضائل رمضان: 29)
حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہما فرماتے ہیں کہ : ’’ایک مرتبہ حضرت سعد بن ابی
وقاص رضی اﷲ عنہ نے عرض کیا کہ: ’’یارسول اﷲ (صلی اﷲ علیہ وسلم) میرے لئے
دُعاء کیجئے کہ میں ’’مستجاب الدعوات‘‘ ہوجاؤں!‘‘ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے
فرمایا کہ: ’’اپنے کھانے کو پاک کرو!‘‘ اﷲ کی قسم! جب کوئی شخص حرام کا
لقمہ پیٹ میں ڈالتا ہے تو چالیس دن تک اﷲ تعالیٰ اُس کا عمل قبول نہیں کرتا۔
جس شخص کا بدن حرام مال بڑھا تو اُس کا بدلہ سوائے جہنم کے اورکچھ بھی نہیں
ہے۔‘‘ (المعجم الاوسط للطبرانی:6495)
اِس سے معلوم ہوا کہ اﷲ تعالیٰ کی طرف سے عبادات اور نیک کاموں کے کرنے اور
گناہوں اور برے کاموں سے بچنے کی توفیق ملنے میں بھی حلال اور پاکیزہ کمائی
کو بڑا دخل ہے۔ اسی طرح حلال اور پاکیزہ کمائی سے انسان کو جو راحت و سکون
اور آرام نصیب ہوتا ہے وہ حرام کی کمائی اور ناجائز کمائی سے کسی بھی طرح
حاصل نہیں ہوسکتا۔ لہٰذا حرام اور ناجائز کمائی کے تمام راستوں (جوا، سود،
رشوت، جھوٹ، دھوکہ ،فریب وغیرہ جملہ طریقوں سے اپنے آپ کو بچاکر حلال
اورجائز کمائی سے پاکیزہ مال کماکر دُنیا و آخرت کی حقیقی خوشیاں و کام
یابیاں اور اُن کا راحت و آرام اور سکون حاصل کرکے زندگی گزارنا در حقیقت
زندگی کاصحیح معنوں میں اصل لطف و مزہ ہے۔
|