#العلمAlilmعلمُ الکتابسُورَةُالصٰفٰت ، اٰیت 75 تا
98اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے
زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام
زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
ولقد
نادٰنا نوح فلنعم
المجیبون 75 ونجینٰه
واھلهٗ من الکرب العظیم 76
وجعلنا ذریته ھم الباقین 77 وترکنا علیه
فی الاٰخرین 78 سلٰم علٰی نوح فی العٰلمین 79 اناکذٰلک
نجزی المحسنین 80 انه من عبادناالمؤمنین 81 ثم اغرقناالاٰخرین
82 وان من شیعتهٖ لابرٰھیم 83 اذجاء ربه بقلب سلیم 84 اذقال لابیه وقومهٖ
ماذاتعبدون 85 ائفکااٰلھة دون اللہ تریدون 86 فماظنکم برب العٰلمین 87
فنظرنظرة
فی النجوم 88 فقال انی سقیم 89 فتولواعنه مدبرین 90 فراغ الٰی اٰلھتھم فقال
الاتاکلون
91 مالکم لاتنطقون 92 فراغ علیھم ضربابالیمین 93 فاقبلواالیه یزفون 94 قال
اتعبدون ماتنتحون
95 واللہ خلقکم وماتعملون 96 قالواابنولهٗ بنیانافالقوه فی الجحیم 97
فارادوبهٖ کیدا فجعلنٰہم الاسفلین 98
ہر تحقیق سے اِس اَمر کی تصدیق ہوچکی ھے کہ نُوح نے جب ہمیں پکارا تو ھم نے
اُس کی پُکار کے مقصد کے مطابق اُس کو اور اُس کے گھر والوں کو اُس بڑی
مصیبت سے بچالیا جس بڑی مصیبت میں وہ گھرے ہوۓ تھے ، پھر ھم نے اُن کی
اولاد کو انسانی نسل چلانے کے لیۓ باقی رکھا اور باقی نافرمان لوگوں کو غرق
کردیا اور جہانوں کے مالک کی سلامتی میں آنے والے ایمان دار بندے نُوح کو
اُس کی نیکی کی بناپر سلامتی دی اور اُس کے سارے دشمنوں کو پانی میں بہاکر
ہلاک کردیا ، اور ابراہیم بھی نُوح کی اُسی فرماں بردار جماعت کے ایک بے
عیب دل والے وہ فرد تھے جنہوں نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے پُوچھا تھا کہ
تُم نے اِس عالَم کے خالق و مالک کو چھوڑ کر اپنے دَست ساختہ بتوں کو کیوں
اپنا اِلٰہ بنا رکھا ھے اور اللہ کی ہستی کے بارے میں تُم کیوں خیال فراموش
ہو گۓ ہو ، پھر ایک روز جب ابراہیم اپنی قوم کے پُوجے جانے والے ستاروں کی
حرکت و حال کا دیر تک مُشاھدہ کرتے ہوۓ نڈھال ہو چکے تھے تو وہ اپنی قوم کو
اُسی نا گفتہ حال میں چھوڑ کر اپنے گھر کی طرف چل پڑے اور چلتے ہوۓ جب اُن
کی اپنے قوم کے ایک بڑے بُت خانے پر نظر پڑی تو وہ اُس بُت خانے میں داخل
ہو کر اُس میں سجے بتوں سے کہنے لگے کہ تُم کُچھ کھاتے پیتے کیوں نہیں ہو
اور تُم کوئی بات چیت کیوں نہیں کرتے ہو اور جب اُن بے زبان بتوں نے
ابراہیم کو جواب نہ دیا تو ابراہیم نے اُس بُت خانے کے بتوں کے سر پیر توڑ
دیۓ اور اِس واقعے کے بعد جب اُس بُت خانے کے بڑے پُجاری وہاں پُہنچ کر آپ
سے سوال جواب کرنے لگے تو آپ نے کہا افسوس ھے تُمہاری اِس بے عقلی پر کہ
تُم اپنے ہاتھوں سے جو بُت بناتے ہو اور پھر اپنی حاجت روائی کے لیۓ اُن ہی
بتوں کی پُوجا کرتے ہو جو اپنی جسمانی بناوٹ و ساخت کے لیۓ بھی تُمہارے
مُحتاج ہیں اور تُم یہ نہیں سوچتے ہو کہ تُمہاری طرح اِن پتھروں کو بھی
اللہ نے پیدا کیا ھے جن پتھروں کے سامنے سرنگوں ہو کر تُم اپنی تذلیل کرتے
ہو ، وہ لوگ آپ کی زبان سے اپنی بُت شکنی کا یہ مَنطقی اقرار اور اپنی جواب
دہی کا یہ عقلی طرزِ استدلال سُن کر ایک دُوسرے سے کہنے لگے کہ اَب تو اِس
معاملے کی انتہا ہو چکی ھے اِس لیۓ ایسا کرو کہ ایک مکان بنا کر اُس میں آگ
جلاؤ اور ابراہیم کو بلا تاخیر اُس آگ میں جلا کر بھسم کر دو لیکن اُن
لوگوں نے ابراہیم کے خلاف جب یہ حیلہ کیا تو اللہ نے اُس حیلے کو ناکام بنا
دیا !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
قُرآنِ کریم نے جن 69 مقامات پر ابراہیم علیہ السلام کا اَحوالِ نبوت بیان
کیا ھے اُن 69 مقامات میں سے یہ 60 واں مقام ھے اور قُرآنِ کریم نے جن
مقامات پر ابراہیم علیہ السلام کی نبوت کا مُفصل ذکر کیا ھے یہ مقام بھی
اُن مقامات میں سے ایک مقام ھے جہاں پر آپ کی نبوت کا مُفصل ذکر کیا گیا ھے
اور نُوح علیہ السلام کے اَحوالِ نبوت کے بعد ابراہیم علیہ السلام کا
اَحوالِ نبوت بیان کرنا اِس اَمر کا اشارہ ھے کہ جس طرح عھدِ نُوح میں نُوح
علیہ السلام کی بد دُعا کے بعد آنے والا اور بُت پرستوں کو ڈبونے والا
طوفان انسانی تاریخ کا وہ عظیم الشان واقعہ ھے جس سے نُوح علیہ السلام کی
شانِ نبوت نبوت ظاہر ہوتی ھے اسی طرح عھدِ ابراہیم میں ابراہیم علیہ السلام
کے ہاتھوں سے بُت شکنی کا جو واقعہ رُونما ہوا ھے وہ بھی انسانی تاریخ کا
وہ عظیم الشان واقعہ ھے جس سے ابراہیم علیہ السلام کی بُرہانِ نبوت سامنے
آتی ھے ، طوفانِ نُوح کے بعد زمین پر جو انسانی نسل چلی تھی اور اُس نسل کی
دینی و رُوحانی تعلیم و تربیت کے لیۓ اللہ تعالٰی نے سیدنا ابراہیم علیہ
السلام کے زمانے سے لے کر سیدنا محمد علیہ السلام کے زمانے تک نبوت و رسالت
کا جو سلسلہ قائم کیا تھا اُس سلسلہِ نبوت کے سرخیلِ نبوت ابراہیم علیہ
السلام تھے اِسی لیۓ قُرآنِ کریم نے ابراہیم علیہ السلام کو صدیق نبی ، اُن
کے پہلے بیٹے اسحاق کو صالح نبی ، اُن کے دُوسرے بیٹے اسماعیل کو صادق نبی
اور اِن کی ذریت میں پیدا ہونے والے آخری نبی کو ایک مصدق نبی کے طور پر
متعارف کرایا ھے لیکن قُرآنِ کریم نے اِن انبیاء علیہم السلام کو جس قدر
زیادہ حیثیت کا حامل بنا کر پیش کیا ھے عُلماۓ روایت نے اُن کو اسی قدر کم
اہمیت کا حامل بنا کر ظاہر کیا ھے جس کی مِنجُملہ مثالوں میں سے ایک مثال
ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں امام بخاری کی کتابِ بخاری میں درج کی گئی
وہ شرمناک روایات ہیں جن میں سے ایک ایک روایت کا اور ایک ایک روایت کے ایک
ایک پہلو کا ھم نے سُورَہِ مریم کی اٰیت 41 میں ایک طویل تفصیل کے ساتھ
جائزہ لیا ھے اور امام بخاری نے ابراہیم علیہ السلام کی توہین کے لیۓ جو
توہین آمیز روایاتِ حدیث جمع کی ہیں اُن روایاتِ حدیث میں سے پہلی روایتِ
حدیث ابراہیم علیہ السلام کے سفرِ ہجرت کی وہ روایتِ حدیث ھے جس میں آپ کے
ساتھ جانے والی آپ کی اہلیہ سارہ کو ایک ظالم بادشاہ کے پاس جاتے ہوۓ اور
پھر تُحفہِ شاہی کے طور پر ہاجرہ نام کی ایک بچی کو کنیز بنا کر لاتے ہوۓ
اور پھر اُس کنیز ہاجرہ کو ابراہیم علیہ السلام کی دُوسری بیوی بناتے ہوۓ
دکھایا گیا ھے جس ہاجرہ کا بائبل کی کتابِ تکوین کے بیسویں باب کے سوا کہیں
اور تو کُجا خود بخاری میں بھی کوئی وجُود اور ثبوتِ وجُود موجُود نہیں ھے
اور جو ثبوت موجُود ھے وہ ایک لفظ ھاجر ھے جو { ھاجر ابراہیم بسارة } کے
تین الفاظ پر مُشتمل ھے اور یہ تین الفاظ سفرِ ابراہیم و سارہ کا ثبوت تو
ضرور فراہم کرتے ہیں لیکن کسی ھاجرہ کا ثبوت فراہم نہیں کرتے اور سیدہ سارہ
کی گفتگو میں اُس کنیز کے لیۓ بار بار ولیدہ کا جو لفظ استعمال کرایا گیا
ھے اُس کا معنٰی بھی ایک بچی ھے جو ھاجرہ نہیں ھے ، اِس روایت کی درایت کا
یہ حال ھے کہ یہ روایت سید ابو ھریرہ سے مروی ھے جن کی 57 ہجری میں وفات
ہوئی ھے اور اُس روایت کا راوی اعرج جو اِس حدیث کو سید ابو ھریرہ سے نقل
کر رہا ھے اُس کے اَحوال میں اُس کا یہی ایک حوالہ ملتا ھے کہ اُس کا امام
بخاری متوفٰی 256 ھجری سے 146 برس قبل 110 ہجری میں اسکندریہ میں انتقال
ہوا ھے ، اُس نے سید ابو ھریرہ کی بیان کی ہوئی یہ اکلوتی حدیث کب اور کہاں
سنی ھے اُس کا کوئی ذکر نہیں ھے اور یہ روایت سید ابو ھریرہ کے سوا کسی اور
صحابیِ رسُول نے کیوں نہیں سنی ھے اِس کا بھی کوئی حوالہ نہیں ھے اور اِس
حدیث کے بارے میں اِس سوال کا بھی کوئی جواب نہیں ھے کہ اگر یہ ایک مُفرد
حدیث ھے جو سید ابو ھریرہ نے ایک بار بیان کی ھے اور اِس کی سند بھی ایک ھے
تو اِس کے بخاری کے ہر مقام پر الفاظ کیوں مختلف ہیں ، موضوعِ کلام کا
اصولِ عام یہ ھے کہ اگر آپ انگلستان کا ذکر کرنا چاہتے ہیں تو ترکستان کے
نام سے اُس کا ذکر نہیں کریں گے ، مکے و مدینے کا ذکر مقصود ھے تو کوفہ و
بصرہ کے نام سے مکے اور مدینے کا ذکر بھی نہیں کریں گے اور جو کریں گے تو
اُس سے ضرور کوئی ایسا اشارہ و استعارہ مقصود ہوگا جس کا صراحتا آپ ذکر
کرنا نہیں چاہتے لیکن اشارتا اُس کا ذکر کر کے پڑھنے والے کو آپ اُس مطلوبہ
نتیجے تک پُہنچانا چاہتے ہیں جو مطلوبہ نتیجہ آپ کے ذہن کے نہاں خانے میں
کہیں موجُود ھے اور امام بخاری نے بھی یہی کیا ھے کیونکہ کلام کے اصولِ عام
کے مطابق امام بخاری کو سفرِ ابراہیم کا یہ ایک واقعہ سفرِ انبیاء یا ہجرتِ
انبیاء میں کسی ایک ہی مقام پر بیان کرنا چاہیۓ تھا لیکن امام بخاری نے اِس
واقعے کو پہلے تو بخاری کی کتاب البیوع کی حدیث 2217 میں بیان کر کے یہ
پیغام دیا ھے کہ یہ کوئی اغوا بالجبر کا معاملہ نہیں تھا بلکہ اُس زمانے کے
ایک معروف معاشرتی لین دین کا ایک معروف معاشرتی معاملہ تھا جو بائع اور
مُشتری کی باہمی رضامندی سے اُس دور کے اُس اُصول کے مطابق طے ہوا تھا جس
اُصول کا سیدہ عائشہ سے منسوب کی گئی اُس حدیث میں ذکر ہوا ھے جو حدیث 5127
امام بخاری نے بخاری کی کتاب النکاح کی میں درج کی ھے لیکن امام بخاری
چونکہ بائع اور مُشتری کے اپنے ذہن میں موجُود اپنے اُس معاشرتی لین دین
والی یہ بات سیدھے سبھاؤ نہیں کہہ سکتے تھے اِس لیۓ اِس حدیث میں وہ "سَجعِ
متوازن" کا سہارا لیتے ہوۓ متنِ حدیث کی دُوسری سطر کا آخری لفظ { ھاجر }
چوبیسویں سطر کا آخری لفظ { آجر } اور پچیسویں سطر کا آخر سے پہلا لفظ {
کافر } لاۓ ہیں جس میں ہاجر سے مُراد ابراہیم علیہ السلام ہیں ، کافر سے
مُراد بادشاہ ھے جس کی صفت { آجر } ھے اور یہ بتانے کی ضرورت نہیں ھے کہ
آجر اُس شخص کو کہتے ہیں جو ایک طے شدہ معاھدے کے تحت کسی سے ایک طے شدہ
کام لیتا ھے اور اُس طے شدہ کام کا اُس شخص کو ایک طے شدہ معاوضہ دیتا ھے ،
امام بخاری کتاب البیوع و کتاب النکاح کے بعد یہی حدیث بخاری کی کتاب الھبہ
میں بھی لاۓ ہیں جس کا مقصد یہ پیغام دینا ھے کہ ابراہیم نے { نعوذ باللہ }
سارہ ایک تُحفے کے طور پر بادشاہ کو پیش کی تھی اور بادشاہ نے بھی جوابی
تحفے کے طور پر ھاجرہ اُن کو دی تھی اور امام بخاری نے اپنے اِس خیال کو
اِن الفاظ میں پیش کیا ھے کہ { ھاجرہ ابراھیم بسارة فاعطوھا اٰجر فرجعت }
یعنی ابراھیم نے بادشاہ کو سارہ پیش کی اور بادشاہ نے بھی تُحفے کے بدلے
میں تُحفے کے طور پر اُن کو ایک کنیز دے دی ، امام بخاری چونکہ مُحوّلہ
بالا حدیث میں اِس حدیث کے مرکزی مضمون کے طور پر یہ مضمون بھی لاۓ ہیں کہ
ابراہیم علیہ السلام نے ہاجرہ کو بادشاہ کے پاس بھیجنے سے پہلے بادشاہ کے
ساتھ براہِ راست جو مذاکرات کیۓ تھے اُن مذاکرات میں آپ نے بادشاہ پر یہ
ظاہر کیا تھا کہ سارہ رشتے میں اُن کی بیوی نہیں ھے بلکہ اُن کی بہن ھے اور
پھر سارہ کو بھی تاکید کی تھی کہ وہ بادشاہ کے سامنے خود کو ابراہیم کی
بیوی کے بجاۓ ابراہیم کی بہن کے طور پر ہی ظا ہر کریں اور امام بخاری اِس
مضمون کے اِس حوالے کے ساتھ اِس مضمون کو بخاری کی اُس کتاب الانبیاء میں
بھی لاۓ ہیں جس کا معنٰی "انبیاء کی باتیں" ھے اور اِس عنوان کے تحت لاۓ گۓ
کسی مضمون کے بارے میں کوئی انسان جھوٹ کا تصور بھی نہیں کر سکتا ھے لیکن
جب اِس عنوان کے زیرِ عنوان کسی نبی پر جھوٹ کا بُہتان باندھا جاتا ھے تو
اُس میں یہ گہرا طنز بھی شامل ہوتا ھے کہ یہ ہیں تُمہارے وہ جھوٹے نبی جن
پر تُم ایمان لاتے ہو اور پھر اپنے ذپنی جھوٹ کے اسی ذہنی تاثر کو مزید
واضح اور مزید گہرا کرنے کے لیۓ امام بخاری اِس عنوان کے زیرِ عنوان یہ
الفاظ لاۓ ہیں کہ { ثنتین منھن فی ذات اللہ عز و جل } یعنی ابراہیم علیہ
السلام نے اللہ تعالٰی کی عظیم ہستی کے بارے میں بھی دو جھوٹ بولے ہیں اور
اِس دعوے اور اِس عنوان سے انہوں نے یہ پیغام دیا ھے کہ اللہ تعالٰی کے نبی
اور تو اور خود اللہ تعالٰی کے بارے میں بھی بے دریغ جھوٹ بولتے ہیں اس لیۓ
یا تو کسی نبی کی نبوت کا دعوٰی اس کے سچے ہونے کی دلیل نہ سمجھا جاۓ اور
یا یہ بات درست نہ سمجھی جاۓ کہ نبی جھوٹ نہیں بولتے ، امام بخاری نے
ابراہیم علیہ السلام کو جھوٹا قرار دینے کے لیۓ اُس پہلی حدیث کے حق میں جو
دُوسری مُختصر حدیث وضع کی ھے وہ { لم یکذب الّا ثلاث کذبات } ھے جس میں
آخر سے تیسرا لفظ حرفِ استثنا "الّا" ھے جس "الّا" کے مطابق بخاری کی اِس
حدیث کا ظاہری مفہوم تو یہ ھے کہ ابراہیم علیہ السلام نے ساری زندگی میں
صرف تین جھوٹ بولے ہیں لیکن حرفِ استثنا "الّا" کے مطابق اِس حدیث کا باطنی
مفہوم یہ ھے کہ ویسے تو ابراہیم علیہ السلام کی ذات کے ساتھ بہت سارے جھوٹ
منسوب ہوۓ ہیں اور بہت سارے جھوٹ منسوب کیۓ گۓ ہیں لیکن وہ سارے جھوٹ نبی
علیہ السلام کی کسی حدیث سے ثابت نہیں ہیں بلکہ نبی علیہ السلام کی حدیث سے
یہی تین جھوٹ ثابت ہوۓ ہیں جن کا امام بخاری نے بخاری کے اِن تین پر مقامات
پر ذکر کردیا ھے اور اِس مقام پر ھم اُن جھوٹی روایات کی مزید تفصیل سے
بچتے ہوۓ اُن روایات کا مزید تذکرہ اِس سورت کی اٰیت 145پر اُٹھا رکھتے ہیں
جہاں پر لفظِ سقیم کی وہ قُرآنی تشریح موجود جس کا معنٰی امام بخاری نے
اپنے مَن سے جھوٹ متعین کیا ھے اور پھر اپنے مَن کا وہ جھوٹ پُوری ڈھٹائی
اور بیحیائی کے ساتھ ابراہیم علیہ السلام کے کھاتے میں ڈال دیا ھے !!
|