خوابِ نبی و فدیہِ نبی اور تعبیرِ اُمت و فدیہِ اُمت !

#العلمAlilmعلمُ الکتابسُورَةُالصٰفٰت ، اٰیت 99 تا 113اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
وقال
انی ذاھب الٰی
ربی سیھدین 99 رب ھب لی
من الصلحین 100 فبشرنٰه بغلٰم حلیم
101 فلما بلغ معه السعی قال یٰبنی انی ارٰی فی
المنام انی اذبحک ماذاترٰی قال یٰابت افعل ماتؤمر
ستجدنی انشاء اللہ من الصٰبرین 102 فلمااسلما وتله للجبین 103
ونادینٰه ان یٰاابرٰھیم 104 قد صدقت الرءیا اناکذٰلک نجزی المحسنین 105
ان ھٰذٰلھوالبلٰؤالمبین 106 وفدینٰه بذبح عظیم 107 وترکنا علیه فی الاٰخرین 108
سلٰم علٰی ابراھیم 109 کذٰلک نجزی المحسنین 110 انه من عبادناالمؤمنین 111 وبشرنٰه
باسحٰق نبیا من الصٰلحین 112 وبٰرکنا علیه وعلٰی اسحٰق ومن ذریتہمامحسن وظالم لنفسهٖ
مبین 113
اور جب ابراہیم کو اپنے بعد توحید کا یہ پیغامِ حق جاری رکھنے کا خیال آیا تو کہنے لگا مُجھے تو اپنے رب کے پاس چلے جانا ھے اور اِس یقین کے ساتھ جانا ھے کہ میرا رب جلد ہی میری رہنمائی کرے گا ، تب ھم نے ابراہیم کو ایک سعادت مند بیٹے کی پیدائش کی بشارت دی لیکن جب ابراہیم کا وہ بیٹا اُس کے ساتھ چلنے پھرنے کے قابل ہو گیا تو ایک روز ابراہیم نے خواب میں دیکھا کہ وہ اپنے اُس بیٹے کو ذبح کر رہا ھے اور خواب میں ہی اپنے اُس سعادت مند بیٹے کو اپنا خواب سنا رہا ھے اور خواب میں ہی اُس کا وہ سعادت مند بیٹا اُس سے کہہ رہا ھے کہ اللہ نے آپ کو میرے ذبح کرنے کا جو حُکم دیا ھے آپ اُس حُکم پر ضرور عمل کریں ، میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ میں مُکمل صبر و استقامت کا مظاہرہ کروں گا اور آپ کے اُس عمل کے دوران ذرا بھر بھی مزاحمت نہیں کروں گا اور ھم نے ابراہیم کو اِس خواب میں اِس خواب کی تعبیر کی تکمیل کرنے پر آواز دے کر جگایا اور اُس کو بتایا کہ تُم نے تو اپنا خواب اپنے خواب میں سَچ کر دکھا دیا ھے اور ھم نے تُمہاری تسلیم و رضا کے اسی عمل کو تُمہارے لیۓ ایک فدیہِ عظیم اور بعد کے زمانوں میں آنے والے انسانوں کے لیۓ تعلیمِ تسلیم و رضا کی ایک عظیم مثال بنا دیا ھے کیونکہ ھم اپنے فرماں بردار بندوں کو اُن کے عملِ تسلیم و رضا کی اسی طرح کی اعلٰی جزا دیا کرتے ہیں ، ابراہیم کے لیۓ ھماری طرف سے سلامتی ھے کہ وہ ھمارے بَھلے بندوں میں ھمارا ایک بہت ہی بَھلا بندہ ھے اور ھم نے ابراہیم کو اُس کے جانشینِ نبوت کے طور پر اُسی جیسے ایک بَھلے بیٹے اسحاق کی بشارت بھی دے دی ھے تاکہ وہ اپنے بعد کے اندیشوں سے اپنی جان کو ہلکان نہ کیا کرے اور ھم نے اسحاق اور نسلِ اسحاق پر بھی اپنی رحمت و مہربانی کی ھے اور اِن دونوں کی اولاد میں اُن کی تعلیمات کا اقرار کرنے والے سعادت مند لوگ بھی پیدا ہوۓ ہیں اور اُن کی تعلیمات سے انکار کرنے والے شرپسند لوگ بھی پیدا ہوتے رھے ہیں !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
اٰیاتِ بالا کے مفہومِ بالا کے بارے میں ھم اختصار کے ساتھ جو تین باتیں کہنا چاہتے ہیں اُن تین باتوں میں سے پہلی بات یہ ھے کہ ابراہیم علیہ السلام کا خواب میں بیٹے کی جان قُربان کرنے کا ارادہ کرنا ، خواب ہی میں اپنے بیٹے کو اپنے اِس ارادے سے آگاہ کرنا اور خواب ہی میں اُن کے بیٹے کا خوشی سے اپنی جان دینے کے لیۓ تیار ہونا اور ابراہیم علیہ السلام کا جب خواب سے بیداری میں واپس آنا ہوا تو اللہ تعالٰی کا اُن سے یہ ارشاد فرمانا کہ تُم نے اپنے خواب میں اپنے خوابی عمل سے ہی اپنا خواب سَچ کر دکھایا ھے اِس لیۓ ھم نے انسانی جان لینے کے تُمہارے اِس خوابی عمل ہی کو تُمہارے لیۓ بدلہِ جان کا ایک عظیم الشان بدلہ بنادیا ھے ، ابراہیم علیہ السلام کا حقیقت کی طرح مشہور ہونے والا یہ خواب انسانی تاریخ کا وہ مشہور واقعہ ھے جس کو قُرآنِ کریم نے نقلِ واقعہ کے طور پر نقل کیا ھے لیکن اِس پُورے واقعے میں اَمرِ واقعہ کے طور پر یہ بات کہیں پر بھی موجُود نہیں ھے کہ ابراہیم علیہ السلام کو اللہ تعالٰی نے اپنا بیٹا قُربان کرنے کا کوئی حُکم دیا تھا اور یہ حُکم نہ دینے کا مطلب یہ ھے کہ انسانی جان لینا اور خاص طور پر باپ کا اپنے ہاتھوں سے اپنے کمسن بیٹے کی جان لینا ایک ایسا دل ہلا دینے والا عمل ھے کہ جس عمل کا اللہ تعالٰی خواب و خیال میں بھی کسی انسان کو کوئی ایسا دل سوز اشارہ نہیں دیتا اور خاص طور پر جو انسان اللہ تعالٰی کا نبی ہوتا ھے اور جس انسان پر عالَمِ بیداری میں وحی نازل ہوتی رہتی ھے تو اُس خاص انسان کو جیتی جاگتی زندگی میں ایک جیتا جاگتا حُکم دینے کے بجاۓ خواب کی خوابیدہ زندگی میں ایک خوابیدہ حُکم دینے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کیوں کہ اللہ تعالٰی کے قانُونِ نازلہ کے مطابق اللہ تعالٰی کی زمین پر انسان کا کسی ایک انسان کی جان لینا پُورے عالَمِ انسانیت کی جان لینے کے مترادف ہوتا ھے اور اللہ تعالٰی کے اِس قانُون کا ہر نبی کی طرح ابراہیم علیہ السلام کو بھی علم تھا اِس لیۓ ایک نبی جو عالَمِ بیداری میں کسی کی جان لینے کا تصور نہیں کر سکتا تو عالَمِ خواب میں بھی اُس کے لیۓ ایسا کرنا اُس کی پیغمبرانہ تربیت اور اُس کے پیغمبرانہ مزاج کے خلاف ہوتا ھے اور اللہ تعالٰی کے نزدیک وہ ایک ایسا قابلِ مواخذہ عمل ہوتا ھے کہ جس کا فدیہ دینا اُس کے لیۓ اِس بنا پر لازم ہو جاتا ھے کہ اگر اُس نبی کی اُمت کے افرادِ اُمت میں سے کوئی فرد ایسا خواب دیکھے تو اُس فرد کے سامنے یہ اَمر موجُود ہو کہ جس اللہ تعالٰی نے اپنے ایک نبی کے خواب میں اَنجام دیۓ گۓ ایک خوابی عمل پر بھی اپنے قانُون کو نظر انداز نہیں کیا ھے تو اُس اللہ تعالٰی نے کسی بھی انسان کو عالَمِ بیداری میں کسی بھی انسان کی جان لینے کی اجازت بھی ہر گز نہیں دی ھے اور جو انسان کسی انسان کی جان لے گا اُس کو اُس کے قانُونی مواخذے کے سخت ترین عمل سے بہر حال گزرنا ہو گا ، ابراہیم علیہ السلام نے چونکہ اپنی پیغمبرانہ نفسیات کے مطابق یہ خواب دیکھا تھا اور اُن کو اُن کے ارادہِ طیبہ کے تحت اپنے لختِ جگر کی جان لینے کا خیال آیا تھا اِس لیۓ اللہ تعالٰی نے اُن کے اُس ارادہِ طیبہ ہی کو اُن کے اِس خوابی عمل کا ایک فدیہ قرار دیا ھے کیونکہ سُورَةُالبقرة کی اٰیت 85 ، 196 ، 229 ، 284 ، سُورَہِ اٰل عمران کی اٰیت 91 ، سُورَةُالمائدة کی اٰیت 36 ، سُورَہِ یُونس کی اٰیت 54 ، سُورَةُالرعد کی اٰیت 18 ، سُورَہِ زُمر کی اٰیت 47 ، سُورَہِ محمد کی اٰیت 4 اور سُورَةُالمعارج کی اٰیت 11 کے مطابق قُرآنِ کریم کی قانُونی زبان میں فدیہ کہتے ہی اُس عمل کو ہیں جو عمل کسی غلطی کے ازالے کے لیۓ کیا جاتا ھے ، متذکرہ بالا تین باتوں میں سے دُوسری بات جو ھم کہنا چاہتے ہیں وہ یہ ھے کہ اٰیاتِ بالا کے اِس مضمون میں اہلِ روایت کے اُس روایتی بکرے کا ذکر بھی کہیں نہیں ھے جو بکرا اُن کی روایات کے مطابق اللہ تعالٰی نے ابراہیم علیہ السلام کے فدیۓ کے لیۓ عالمِ غیب سے بھیجا تھا اور اٰیاتِ بالا میں ابراہیم علیہ السلام کو یہ حُکم بھی نہیں دیا گیا کہ آپ اپنے بیٹے کی خواب میں خیال کی گئی قُربانی کو یاد گار بنانے کے لیۓ عالَمِ بیداری میں بھی سال بہ سال کسی بکرے یا بکری ، اونٹ یا گاۓ اور بھینس یا بھیڑ کی قُربانی دیا کریں تاہم عھد نامہِ قدیم کے مطابق یہود ابراہیم علیہ السلام کے اُس خواب کو عملی تعبیر دینے کے لیۓ ہر سال یہ قُربانی کیا کرتے تھے اور اِس ضمن میں جو تیسری بات ھم کہنا چاہتے ہیں وہ یہ ھے کہ جب اُمتوں اور ملّتوں کے درمیان عقلی تضاد اور عملی تصادم شروع ہوتا ھے تو ہر ملّت اپنی برتری قائم کرنے کے خیال سے خود کو تاریخ کی برتر روایات اور تاریخ کی برگزیدہ شخصیات کے ساتھ منسوب کر کے اپنی برتری کا اظہار کرتی ھے اور اہلِ روایت نے بھی شاید اپنی اسی دینی برتری یا محض اپنی ایک ذہنی فتنہ پروری کے تحت اسماعیل بن ابراہیم علیہ السلام کو اٰیاتِ بالا میں ذکر کیۓ گۓ ذبیح کا مصداق قرار دیا ھے جب کہ اہلِ کتاب بھی اپنی روایات کے مطابق اسحاق بن ابراہیم علیہ السلام کو ذبیح کہتے تھے اور یہود جو اسحاق علیہ السلام کو اضحاق کہتے تھے وہ اُن کے اُسی نام پر جانوروں کی قُربانی کرتے تھے اور اُن کے اُسی نام پر عید الاضحٰی کا اہتمام بھی کیا کرتے تھے ، قُرآنِ کریم کا یہ واحد مقام ھے جہاں پر قُرآنِ کریم نے ابراہیم علیہ السلام کے اِس خواب و عملِ خواب کا ذکر کیا ھے اور اِس خواب و عملِ خواب کے ذکر میں اسحاق علیہ السلام کا ذکر کیا ھے !!
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 462604 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More