وہ قلم ٹوٹ تو سکتا ہے پر مڑ نہیں سکتا
زبان کٹ تو سکتی ہے پر رک نہیں سکتی
صحافت کو تم کیا جانو اے نادانوں
یہ تاریخ رقم کردیتے ہیں خون انک بہا کے
جنوری 2022میں یہ تیسراواقعہ ہے پہلے سانحہ مری ہواجس میں دودرجن سے
زائدلوگ ابدی نیندسوگئے ابھی وہ زخم تازے تھے کہ اس پرمزیدچوٹ لگانے کیلئے
انارکلی بازارمیں دھماکہ ہوااوراس میں تین لوگ جاں بحق ہوئے ابھی اس کی
انکوائری چل رہی تھی کہ رواں ہفتہ بروز سومواورنجی ٹی وی چینل کے ایک صحافی
کولاہورپریس کلب کے سامنے قتل کر دیا گیاجس کے بعدلاہورپریس کلب کے
صدروسیکرٹری کی طرف سے پریس ریلیز جاری ہوئی اورچوبیس گھنٹے کاالٹی میٹم
دیاگیاتواس کے بعد وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدارنے لاہور پریس کلب کے
باہر نجی ٹی وی کے صحافی کے قتل کے واقعہ کا نوٹس لیتے ہوئے انسپکٹر جنرل
پولیس سے رپورٹ طلب کر لی ہے اور قتل میں ملوث ملزمان کی جلد گرفتاری کا
حکم دیا ہے- وزیر اعلی عثمان بزدار نے ہدایت کی کہ ملزمان کو قانون کی گرفت
میں لا کر مزید کارروائی کی جائے اور مقتو ل حسنین شاہ کے لواحقین کو
ہرصورت انصاف فراہم کیا جائے - وزیر اعلی عثمان بزدارنے مقتول کے لواحقین
سے دلی ہمدردی و اظہار تعزیت کیاہے اور سوگوار خاندان کو انصاف فراہم کرنے
کی یقین دہانی کرائی ہے -صحافتکوزمانہ قدیم ریاست کا چوتھا ستون کہا جاتا
ہے۔گزرتے وقت نے صحافت کو معاشرے کے کان اور سوسائٹی کیاآنکھوں کا کردارادا
کرنے کی بھاری ذمہ داری بھی تفویض کر دی کیوں کہ صحافت ہی وہ واحد شعبہ ہے
جو معاشرے کی گندگی کو سب سے پہلے دیکھتا ہے اور اسے نشر کرنیکافریضہ سر
انجام دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ صحافتی اصول و ضوابط
اور قوانین کا تعین ہونے لگا اور صحافت کو بھی تمام شعبہ ہائے زندگی کی طرح
Ethics کے تابع کر دیا گیا۔کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی جانب سے کیے گئے
سروے سے بات واضع ہوئی کہ حکومت کی جانب سے بارہا کروائی گئی یقین دہانی کے
باوجود 90 فیصد صحافیوں کے قاتلوں کا سراغ ہی نہیں ملتا۔باربار صحافی
برادری کے تحفظات کی یقین دہانی کرائی جاتی ہے: ماضی میں بھی ایسے دعوے کیے
جا چکے ہیں لیکن کبھی بھی ملزمان کو قانون کے کٹہرے میں نہیں لایا جا
سکا۔اس سے انتہا پسندوں کی حوصلہ آفزائی ہوئی ہے۔میں وفاقی و صوبائی
حکومتوں اور تحقیقاتی اداروں سے مطالبہ کروں گی کہ تازہ ترین واقعے کی
تفتیش کرکے قاتلوں کوکیفرکردارتک پہنچایا جائے۔ کل لاہورپریس کلب کے
باہرنجی ٹی وی چینل کیکرائم رپورٹرکوقتل کردیاگیاجب میں نیسوشل میدیاپر خبر
پڑھی توسوچاکوئی فیک نیوز ہوگی اور یہ کہہ کر دل کو تسلی دی کہ اﷲ خیر کرے
گا-مگرکچھ دیربعدنیوز چینل پر جب اس کی موت کی خبر پڑھی تو پیروں تلے زمین
نکل گئی، کرائم رپورٹ کرنے والے صحافی کرمنل کے ہاتھوں موت کے حوالے ہوگیا
اورسچ لکھنے کی کہ سزا اتنی سنگین ہوگی کبھی سوچانہ تھا۔میں نے طلعت حْسین
صاحب کاایک آرٹیکل پڑھاتھاجوباربارمیرے ذہن میں آرہاتھاکہ’’وہ لکھتے ہیں کہ
جومیں کہنے جا رہا ہوں غور سے پڑھیئے گا۔میں آپ کوبتاتی ہوں میں کیا نہیں
لکھ سکتا ہوں۔کون سے موضوعات ہیں جن پر نظردوڑاتے ہوئے میں گھبراتی
ہوں۔حقائق سے آنکھیں چْراتا ہوں۔کون سے خوف مجھ پر روزانہ حملہ آور ہوتے
ہیں اور میں اپنے قلعے کی فصیل کو چھوڑ کر پسپائی اِختیار کر لیتا ہوں،میں
اور میرے وہ ساتھی جو میرے لکھے کو چھاپنے کے ذمہ دار ہیں آزاد نہیں۔میں
جرات نہیں کر سکتا کہٓپ کو کراچی میں ہونے والی خون ریزی کی اصل وجوہات
بتاؤں۔میری ہمت جواب دے جاتی ہے جب میں بوری بند لاشوں کے پیچھے ہونے والی
خونی سیاست کی گٹھیاں سْلجھانے لگتا ہوں۔میں مْلک سے سارے باہر موجود قیادت
پر تنقید نہیں کر سکتا۔میں حکومتی اور سیاسی جماعتوں کی پالیسیوں کے بارے
میں آپ کو نہیں بتا سکتا، مجھے پتہ ہے اگر میں نے غلطی سے کراچی کو جلانے
کی سازش کے بارے میں کچھ کہہ دیاتو وہ نہ ٹی وی پر چلے گااور نہ ہی وہ چھپے
گا۔آج میں ایک پکی نوکری کے مزے لوٹ رہا ہوں جہاں جتنا کم سچ بولا جائے
اتنا ہی بندہ کامیاب ہے جبکہ وہ سچ کو گلے لگائے اگلے جہاں جا چکا ہے۔گزشتہ
چند سالوں میں صحافیوں کے پے درپے قتل کے بعد میں یہی سوچنے لگا ہوں کہ اگر
میں آج دنیائے صحافت میں ہوتا تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔خدا کا شکر ہے اب میں صحافی نہیں
ہوں۔محترم قارئین ایسے کئی موضوع ہیں جن پراگرہم غلطی سے لکھ بھی دیں
توہمیں ادارے سے فوری میل آجاتی ہے کہ اگرآگے ایسی تحریربھیجی توآپکوبین
کردیاجائے گا۔ہمارے حکمران دعوے کرتے نہیں تھکتے کہ ہم صحافیوں کے حقوق
کابہت خیال کرتے ہیں مگرصحافیوں کے تحفظ کی امریکی تنظیم کے ایشین امور کے
سربراہ باب ڈآئٹز کا کہنا ہے کہ پاکستان میں صحافیوں کی سکیورٹی دن بدن
بدترین ہوتی جارہی ہے امریکی اخبار میں مزید کہا گیا کہ مغربی میڈیا اداروں
کے ساتھ منسلک پاکستانی رپورٹرز کو خاص قسم کے خطرات کا سامنا ہوتا ہے۔اب
سب سے بڑا مسلہ پاکستانی میڈیا کے سامنے یہ ہے کہ کرے تو کیا کرے۔ اگرمیڈیا
یاصحافی مافیا کے سامنے ہتھیار ڈال دیتا ہے تو پاکستان میں بڑی تبدیلی کا
خواب پہلے مرحلے میں ہی چکنا چور ہو جائے گا۔ پچھلے چند سالوں کے دوران
پرائیویٹ میڈیا نے ہلچل پیدا کی ہے اور اس بات کا احساس حکومت سے دہشت
گردوں کو ہے کہ میڈیا کا معاشرے پر گہرا اثر ہے۔مافیاکی طرف سے موت کا خوف
پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے یہاں تک کہ کئی صحافیوں کوموت کی نیندبھی
سلادی جاتی ہے۔ میڈیا برادری پر خوف طاری ہونا لازمی ہے ، مگرمافیااورملک
دشمن عناصر کے سامنے ہتھیار ڈال دینا بھی صحافتی قدروں اور اصولوں کے خلاف
ہے۔ وجوہات کوئی بھی ہوں لیکن، کیا صحافیجرم عیاں کرے گاتواسے قتل
کردیاجائے گاکیا اس پر کوئی قانون سازی کروا سکیں گے یا صرف اپنی اپنی
صحافی تنظیموں کی طرف سے مذمتی بیان جاری کراکے خاموش ہوجائیں گیاگر ایسا
ہی رہا تو آج حسنین شاہ تو کل ہم میں سے کوئی بھی ہو سکتا ہیاب مذمتی
بیانوں سے کچھ نہیں ہوگا جب تک عملی قدم نہیں اٹھائیں گیتب تک اسی طرح حق
سچ بولنے اور لکھنے والوں کو یہ ظالم موت کی نیند سلاتے رہیں گے کتنے
صحافیوں کو اغوا ٓ کیا گیا سرِعام گولیوں سے چھلنی کیا گیا صحافتی تنظیموں
نے مذمتی بیانوں کے علاوہ کچھ نہیں کیا ابھی بھی وقت ہے سمجھ جائیں ایسے
بہت سے حسنین شاہ کی روحیں جو اپنی صحافتی برادری سے امید لگا کربیٹھی ہے
کہ ہمارے خون کا حساب لیں گے مگر افسوس ہم باقی رہ جانے والے صحافی مذمت کے
علاوہ کچھ نہیں کر پاتیاآخرمیں میری صحافتی تنظیموں ریجنل یونین آف
جرنلسٹس، فیڈرل یونین آف جرنلسٹس،پاکستان پروفیشنل یونین آف جرنلسٹس ،
نیشنل میڈیاایسوسی ایشن ،پنجاب میڈیاایسوسی ایشن ،جیسی تنظیموں سے درخواست
ہے کہ مذمت کے آگے بھی بڑھیں اورہماری صحافتی برادری کے جوچندبہادرلوگ بچے
ہیں ان قیمتوں جانوں کوضائع ہونے سے بچالیں یہ نہ ہوکہ ہرصحافی کہنے لگے کہ
اے ہمارے شہیدو ہم صحافی نام کے صحافی ہیں جرات بہادری والے تو جامِ شہادت
نوش فرما گیاے ہمارے شہیدو ہم شرمندہ ہیں کہ ہم کمزور ہماری قلم کمزور ہے
ہم میں سے کوئی تمھارے خون کا بدلہ نہیں لے۔
|