چند ماہ پہلے کی بات ہے سوشل میڈیا پر ایک وڈیو نظر سے
گزری ۔ کسی یورپی ملک میں مقیم ایک پاکستانی اپنی روداد سنا رہا تھا اس کی
کہانی میں کچھ بھی نیا یا انوکھا نہیں تھا۔ وہی مخصوص اور روایتی قسم کے
حالات و تجربات جن سے اکثر ہی مشرقی پردیسی گزرتے ہیں ۔ اس نے بتایا کہ
کیسے وہ تیس برس پہلے بہتر مستقبل کی تلاش اور اپنے گھر والوں کی خوشحالی و
آسودگی کے حصول کا خواب لیے اپنی جان جوکھم میں ڈال کر یورپ پہنچا اور معاش
کی جد و جہد میں کس کس طرح سے مصائب و مشکلات کا مقابلہ کیا ۔ کھانے پینے
اوڑھنے پہننے میں تنگی اٹھائی کبھی بیماری کی پروا کی نہ کبھی کسی چوٹ زخم
کی ۔ دیار غیر میں جان توڑ محنت اور اپنا خون پسینہ ایک کر کے جو بھی کماتا
تھا بہت کم اپنے خرچ کے لیے رکھ کر زیادہ رقم اپنے گھر پر بھجوا دیتا تھا ۔
اسی کمائی سے نیا گھر بنوایا گیا بہن بھائیوں کی تعلیم کے بعد ان کی شادیاں
ہوئیں سب اپنی زندگی جی رہے تھے اور مزے میں تھے ۔ تمام فرض پورے ہو چکے
تھے پھر اس نے اپنے ماں باپ سے کہا کہ اب میں کام کرتے کرتے تھک گیا ہوں اب
مجھ سے اور محنت نہیں ہوتی میں اپنی باقی کی زندگی آرام سے اپنوں کے ساتھ
گزارنا چاہتا ہوں اب میں مستقل واپس آنا چاہتا ہوں ۔ اتنا سنتے ہی ماں باپ
کے اوسان خطا ہو گئے انہوں نے صاف کہا کہ تم آ جاؤ گے تو کیسے گزارا کرو
گے؟ تم نے تو یہاں کچھ کر کے رکھا ہی نہیں تم کما کر بھیجو گے نہیں تو گھر
کا خرچ کیسے چلے گا؟ اس نے جب اپنی قربانیاں اور کاوشیں یاد دلائیں تو وہ
دونوں ہتھے سے اکھڑ گئے اور صاف کہا کہ تم جو یورپ گئے تھے تو اپنے لئے گئے
تھے ہمارے لئے نہیں ، تیس سال سے وہاں ہو تو اپنی عیاشیوں کے لئے ہو ۔ تم
نے وہاں عیاشیاں ہی کی ہیں اور اب تمہارا وہاں سے دل بھر گیا ہے تو تمہیں
ہماری یاد آ رہی ہے ۔ تقریباً پچاس برس کی عمر کا چھ فٹا ہٹا کٹا مرد یہ
بتاتے ہوئے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا اور ہچکیوں کے درمیان وہ اپنے ماں باپ کی
کہی ہوئی ایک ہی بات دوہرا رہا تھا ، تُوں ساڈے لئی کِیتا ای کی اے؟
پتہ نہیں پھر اس بدنصیب کا کیا بنا؟ زندہ بھی ہؤا تو یقیناً کسی مردے کے ہی
برابر ہو گا ۔ ماں باپ کے ایسے الفاظ ہر پردیسی کو جیتے جی مار دیتے ہیں ۔
اب سے ٹھیک دو سال پہلے دوبئی میں ایک پاکستانی نوجوان نے اپنے باپ کی ایسی
ہی جلی کٹی سے دلبرداشتہ ہو کر خودکشی کر لی تھی اور اس سے صرف پندرہ منٹ
پہلے ایک وڈیو ریکارڈ کر کے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر اپ لوڈ کر دی تھی جس
میں اس نے بہت ہی دلگرفتگی کے عالم میں اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں اور
ناانصافیوں کا ذکر کیا تھا ۔ آخر یہ زیادتیاں اور ناانصافیاں صرف سب سے
زیادہ محنتی اور فرمانبردار اولاد کے ساتھ ہی کیوں ہوتی ہیں؟ ساری زندگی
اپنے من کو مار کے مشقتیں جھیل کے قربانیاں دینے والے کو ہی آخر میں خود
اپنوں کی بے مروتی اور احسان فراموشی کا زہر کیوں پینا پڑتا ہے؟ یہاں تو
لڑکے لڑکی کی تخصیص بھی ختم ہو جاتی ہے اکثر ہی کوئی بیٹی اپنے حالات کے
سبب بیٹا یعنی کماؤ پوت بن جائے یا اس نے پورا گھر سنبھال رکھا ہے کسی
معذور کی خدمت اور دیکھ بھال کر رہی ہے تو پورا گھرانہ بےحسی اور خودغرضی
پر کمر بستہ ہو جاتا ہے اس کے لئے آنے والے رشتوں کو کمال ہوشیاری سے ٹرخا
دیا جاتا ہے ۔ مگر لڑکی کو بیوقوف بنانے کے لئے آئے دن رشتے لانے والوں کو
گھر پر مدعو کیا جاتا ہے اور یہ تاثر دیا جاتا ہے جیسے سب واقعی اس کے لئے
بہت متفکر ہوں ۔ اور کوئی نا کوئی مین میخ نکال کر حیلہ بہانہ گھڑ کر بات
ختم کر دیتے ہیں اور یہ ساری سیاست کوئی غیر نہیں خود اپنے سگے خون کے رشتے
لڑا رہے ہوتے ہیں ۔
ایک عجیب بات مشاہدے میں آئی ہے تلخ تو ہے مگر غلط ہرگز نہیں ۔ اپنی کسی
ایک سب سے زیادہ نیک سگی اولاد کی جوانی اجاڑ دینے والے اور اس کی سادگی و
سعادتمندی کا جی بھر کر ناجائز فائدہ اٹھانے والے والدین کی عمریں بڑی طویل
ہوتی ہیں جسمانی اور ذہنی طور پر مکمل فعال اور دل مال کی محبت اور جینے کی
امید سے معمور ۔ اور اسی وجہ سے پردیسی بکروں کے ساتھ خود اپنوں خون کے
رشتوں کی سازشوں اور سیان پتیوں کا سلسلہ تیس تیس سال تک جاری رہتا ہے اور
اللہ ہی جانے یہ کب اور کہاں جا کے ختم ہو گا؟ نصف صدی بیت چکی ہے ایسے
واقعات کے تسلسل کو ۔ بہتر روزگار کی تلاش میں غریب الوطن ہو جانے والوں کی
عقل گھاس چرنے چلی جاتی ہے اور پیچھے رہنے والوں کے دلوں پر مہر لگ جاتی ہے
۔
|