ڈاکٹر لبنیٰ ظہیر
چند ہفتے قبل وزیر اعظم عمران خان نے ایک سرکاری تقریب سے خطاب کرتے ہوئے
عوام کو بتایا تھا کہ پاکستان کا شمار دنیا کے سستے ترین ممالک میں ہوتا ہے
اور یہاں اشیائے ضروریہ کی قیمتیں دنیا کے دیگر ممالک کے مقابلے میں کم
ترین سطح پر ہیں۔ اس کے بعد وزیروں مشیروں کی طرف سے بھی نہایت تواتر
کیساتھ ایسے بیانات سننے کو ملتے رہے ۔ چند دن پہلے برطانوی جریدے اکانومسٹ
نے ایک رپورٹ جاری کی ہے۔ اس رپورٹ میں اکانومسٹ نے دنیا کے مختلف ممالک
میں مہنگائی کی صورتحال کا جائزہ لیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان کا شمار
ان ممالک میں ہوتا ہے ، جہاں مہنگائی کی شرح بلند ترین سطح پر ہے۔ رپورٹ سے
معلوم ہوتا ہے کہ دنیا بھر میں سب سے زیادہ مہنگائی ارجنٹائن میں ہے جو کہ
51.2 فیصد ہے۔اس ضمن میں ترکی دوسرے نمبر پر ہے ، جہاں مہنگائی کی شرح 21.3
فیصد ہے۔ جبکہ ہمارا ملک پاکستان مہنگائی کے حوالے سے تیسرے درجے پر کھڑا
ہے اور یہاں مہنگائی کی شرح 11.5 فیصد ہے۔ یاد رہے کہ ابھی چند دن پہلے
حکومت نے منی بجٹ منظورکیاہے۔ جیسا کہ گزشتہ کالم میں بھی عرض کیا تھا کہ
ہمارے ہاں بجٹ پیش ہونے کے بعد مہنگائی کا ایک طوفان آجاتا ہے۔ حال ہی میں
منظور ہونے والے ضمنی بجٹ کے بعد بھی اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ ہو
گیا ہے ۔ ماہرین معاشیات مزید مہنگائی کی پیشن گوئی کر رہے ہیں۔ اکانومسٹ
کی رپورٹ ضمنی بجٹ کی منظوری سے پہلے کے حالات کی منظر کشی کرتی ہے۔ مطلب
یہ کہ ضمنی بجٹ میں ہونے والی مہنگائی اکانومسٹ کی رپورٹ کے اعداد و شمار
کا حصہ نہیں ہے۔برطانوی جریدے اکانومسٹ کی رپورٹ سامنے نہ بھی آتی، تب بھی
پاکستان میں مہنگائی کی صورتحال سے ہم بخوبی آگاہ ہیں۔ مہنگائی کے طوفان نے
غریب عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ ایک طرف کمر توڑ مہنگائی ہے ۔ دوسری
طرف نوکریوں کا فقدان ہے۔ کاروباری اور معاشی سرگرمیاں دن بدن ماند پڑتی جا
رہی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ بیروزگاری بھی عروج پر ہے۔ آئے روز ایسے واقعات کی
خبریں سننے دیکھنے کو ملتی ہیں کہ غربت اور مہنگائی سے عاجز شہری اپنی جان
لینے اور خود کشیاں کرنے پر مجبو ر ہو جاتے ہیں۔
اس صورتحال میں رہی سہی کسر کرونا نے پوری کر رکھی ہے۔ اس وبا نے معاشی ،
سماجی اور خاص طور پر تعلیمی سرگرمیوں کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ اب ہمیں
کرونا کی پانچویں لہر کا سامنا ہے۔ ایک مرتبہ پھر حکومت نے مختلف ہدایات
جاری کی ہیں۔ایسے شہر جہاں پر وائرس کے پھیلاو کی شرح دس فیصد سے زیادہ ہے،
وہاں تقریبات کے انعقاد اور ڈائننگ وغیرہ پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔
ٹرانسپورٹ اور تعلیمی سرگرمیوں کو بھی محدود کرنے کا فیصلہ ہوا ہے۔کچھ
حلقوں کی طرف سے کبھی کبھار لاک ڈاون لگانے کی تجویز بھی سننے کو ملتی رہتی
ہیں۔ خیال آتا ہے کہ ان حالات میں جب پہلے سے مہنگائی اور بے روزگاری کا
ایک طوفان برپاہے۔ غریب آدمی کے لئے روزی روٹی کا انتظام کرنا بھی نہایت
دشوار ہو چلا ہے۔ ایسے میں مزید پابندیاں عائد ہوتی ہیں یا لاک ڈاون ہوتا
ہے تو عام شہری خاص طور پر دیہاڑی دار مزدور کا کیا حال ہو گا؟
ابھی ہم کرونا کی وبا سے نمٹنے کی کو ششوں میں ہلکان ہو رہے ہیں اور دوسری
طرف دہشت گردی کے عفریت نے بھی سر اٹھا لیا ہے۔ دہشت گردی کے مختلف واقعات
کی خبریں سننے کو مل رہی ہیں۔ اخباری اطلاعات کے مطابق منگل کے روز دہشت
گردی کے سات واقعات ہوئے۔ دارلحکومت اسلام آباد میں بھی دہشت گردی کے واقعے
کے بعد الرٹ جاری کر دیا گیا ۔ گزشتہ دور میں ہونے والے آپریشن ضرب عضب اور
آپریشن رد الفساد کے بعد دہشت گردی کا جن کافی حد تک قابو میں آگیا تھا۔ اب
طویل وقفے کے بعد دہشت گردی کی یہ نئی لہر نہایت تشویش ناک ہے۔ اﷲ کرئے کہ
یہ سلسلہ آگے نہ بڑھے۔ اگر خدانخواستہ ایسا نہ ہوا تو مصائب میں گھرے عوام
مزید مشکل میں پڑ جائیں گے۔
مہنگائی، کرونا اور دہشت گردی سے متعلق یہ خبریں پڑھ کر ملکی منظر نامے کا
اندازہ ہوتا ہے۔ مزید خبروں کا جائزہ لیں تو کہیں روپے کی کم ہوتی ہوئی قدر
کی خبریں ہیں، کہیں دکھی کر دینے والی یہ خبر ہے کہ پاکستانی پاسپورٹ تازہ
ترین عالمی درجہ بندی میں بدترین پوزیشن پر کھڑا ہے ، کہیں بڑھتے ہوئے
قرضوں کا دباو ، کہیں پاکستان کے سر پر لٹکتی فاٹف کی تلوار ،اور کہیں قرضے
کے لئے آئی ۔ایم۔ ایف کا دباو اور کڑی شرائط۔ یہ ہیں وہ حالات ، جن کا وطن
عزیز کو اس وقت سامنا ہے۔
ان حالات میں ہونا تو یہ چاہیے کہ اہل سیاست مل بیٹھیں، ان گھمبیر مسائل کا
حل تلاشیں اور عوام کو ان مشکلات سے نجات دلانے کی سعی کریں۔ مگر سیاسی
منظر نامے پر نگاہ ڈالیں تو مار دھاڑ اور شعلہ بیانی کے سوا کچھ دکھائی
نہیں دیتا۔ ایک طرف اپوزیشن جماعتیں ہیں جو سیاسی درجہ حرارت میں اضافہ کئے
رکھتی ہیں۔ اپوزیشن کا تو خیر کام ہی یہ ہوتا ہے کہ سیاسی گولہ باری کی
جائے تاکہ سیاسی درجہ حرارت بڑھایا جاسکے۔ حیرت مگر تب ہوتی ہے جب حکومتی
ترجمان ، وزیر اور مشیر بھی جلتی پر تیل ڈالنے کا کام کرتے ہیں۔ جوابی بیان
بازی کرتے اور سیاسی درجہ حرارت میں مزید اضافے کا باعث بنتے ہیں۔اہل دانش
کہتے ہیں کہ حکومتوں کے پاس کھونے کے لئے بہت کچھ ہوتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ
دنیا بھر کی سیاست میں رواج یہ ہے کہ حکومتیں معاملات کو ٹھنڈا کرنے کے لئے
کوشاں رہتی ہیں۔ ہمارے ہاں مگرمعاملہ الٹ ہے۔ اب اپوزیشن نے لانگ مارچ کا
عندیہ دیا ہے۔ معاملے کو ٹھنڈا کرنے کے بجائے ، وفاقی وزراء یہ کہتے سنائی
دئیے کہ دو کے بجائے تین لانگ کریں۔ حکومت کو کوئی فرق نہیں پڑنے والا۔
اﷲ جانے کہ لانگ مارچ کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔ ہم جانتے ہیں کہ سیاسی
انتشار اور احتجاج کی وجہ سے سیاسی بے یقینی میں اضافہ ہوتا ہے۔ سیاسی بے
یقینی،ملکی معیشت پر منفی طور پر اثر انداز ہوتی ہے۔ ملک کے معاشی حالات
پہلے ہی انتہائی نازک ہیں۔ ایسے میں اگر احتجاجی سیاست شروع ہوتی ہے تو
قومی معیشت اور عام آدمی کی زندگی مزید مشکلات کا شکار ہو جائے گی۔ نجانے
آنے والے وقت میں سیاسی منظر نامہ کیا رخ اختیار کرتا ہے۔بس یہ دعا کی جا
سکتی ہے کہ اﷲ پاک ہم پر رحم فرمائے اور ملک کو مشکلات کے بھنور سے باہر
نکالے۔ آمین۔
|