یمن کے حالات مزید بدتر ہوتے جارہے ہیں۔ 2015سے جاری خانہ
جنگی نے عام شہریوں کی زندگی کو مزیدبد سے بدتر بناکر رکھ دیا ہے۔ یمن کے
صدر عبدربہ منصور ہادی کے اقتدارکے خلاف حوثیوں نے 2015میں بغاوت کرکے
انہیں دارالحکومت صنعا کو چھوڑنے پر مجبور کردیا تھا ۔ صدر یمن نے صنعا سے
یمن کے دوسرے بڑے شہر عدن کو اپنا دارالحکومت بنایا تھا اور اُس وقت سعودی
شاہی قیادت سے درخواست کی تھی کہ وہ حوثی بغاوت کو کچلنے کیلئے انکی مدد
کریں۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات و دیگر عرب ممالک کے اتحاد نے یمن کے
صدر عبدربہ منصور ہادی کی تائید و حمایت کرتے ہوئے انہیں ہر ممکنہ تعاون
فراہم کرنے کی کوشش کی اور یہ سلسلہ لگاتار جاری ہے۔دوسری جانب ایران کی
حمایت یافتہ حوثی باغی عرب اتحاد کے سامنے گھٹنے ٹیکنے کے بجائے سینہ تان
کر انکا جواب دے رہے ہیں۔ اسی کی ایک کڑی گذشتہ دنوں یعنی 17؍ جنوری
کومتحدہ عرب امارات پر کیا گیاڈرون حملہ ہے۔ حوثی باغیوں اور عرب اتحاد کے
بیچ یمن کے عام شہری انتہائی تباہ کن صورتحال سے دوچار ہیں۔ ایرانی حمایت
یافتہ حوثی باغیوں اور سعودی اتحادی افواج کی کارروائیوں میں آئے دن اضافہ
ہی ہوتا جارہا ہے ، حوثیوں کی جانب سے سعودی عرب کے مختلف شہروں پر ڈرون
حملے یا میزائل و بیلسٹک حملے کئے جاتے رہے ہیں تو دوسری جانب عرب اتحاد
حوثی باغیوں کے ٹھکانوں اور تنصیبات کو تباہ کرنے کے نام پر یمن کے مختلف
علاقوں پر حملے کرتے ہیں اس طرح دونوں کے درمیان جاری اس جنگ میں عام معصوم
شہریوں کی ہلاکت ہورہی ہے معاشی طور پر یمن پہلے سے ہی سخت بحران کا شکار
ہے اور اس جنگ نے مزید انسانی بحران پیدا کردیا ہے۔اس مرتبہ حوثی باغیوں نے
اپنے ڈرون حملے کا رخ سعودی عرب کے بجائے متحدہ عرب امارات کے شہر ابو ظہبی
کی جانب کردیا،اس سے قبل بھی متحدہ عرب امارات کے دیگر مقامات پر حوثی
باغیوں کی جانب سے حملے ہوتے رہے ۔ اس مرتبہ حوثی باغیوں نے ابو ظہبی پر
ڈرون حملہ کرکے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ وہ سعودی اتحادی افواج کی
کارروائیوں کا مقابلہ کرنے کی بھرپورطاقت رکھتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ حوثی
باغیوں نے متحدہ عرب امارات پر مزید حملوں کی بھی دھمکی دی ہے۔ متحدہ عرب
امارات سعودی سربراہی میں قائم اس فوجی اتحاد کا حصہ ہے جو یمن میں حوثی
باغیوں سے برسرپیکار ہے۔سمجھا جارہا ہے کہ متحدہ عرب امارات پر حوثی باغیوں
کی جانب سے ڈرون حملہ کرنے کی ایک وجہ یہ ہوسکتی ہیکہ 10 ؍جنوری کو متحدہ
عرب امارات کی حمایت یافتہ یمنی فورسز نے حوثیوں سے تیل کی دولت سے مالا
مال صوبے شبوا کا قبضہ لینے کا اعلان کیا تھا۔متحدہ عرب امارات نے یمن کی
حوثی مخالف فورسز کو ہتھیار فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ تربیت بھی دی ہے۔ماضی
میں حوثی باغیوں کی جانب سے سعودی عرب کے خلاف میزائل اور ڈرون حملے کیے جا
چکے ہیں۔ لیکن متحدہ عرب امارات پر ایسے حملے کم ہی ہوئے ہیں۔ اکثر یو اے
ای ایسے حملوں کی تردید کر تا رہا ہے۔یمن کے حوثی باغیوں نے دھمکی دی ہے کہ
اگر متحدہ عرب امارات یمن کے خلاف جارحانہ اقدامات سے باز نہیں آیا تو مزید
فضائی حملے کیے جا سکتے ہیں۔ ان حملوں کے بعد حوثی باغیوں کے ترجمان کی
جانب سے تنبیہ کی گئی ہے کہ عام شہری اور بین الاقوامی کمپنیاں متحدہ عرب
امارات میں واقع اہم تنصیبات سے دور رہیں، جہاں مستقبل میں مزید حملے کیے
جا سکتے ہیں۔جیسا کہ اوپربتایا جاچکا ہیکہ متحدہ عرب امارات کی ریاست
ابوظہبی میں 17؍ جنوری پیر کے روز بندرگاہ کے علاقے میں تین آئل ٹینکروں
میں دھماکوں سے ایک پاکستانی اور دو ہندوستانی شہری ہلاک جبکہ چھ افراد
زخمی ہوئے تھے۔ان دھماکوں کے فوراً بعد اسے مبینہ طور پر حوثی باغیوں کی
جانب سے کیے جانے والے ڈرون حملوں کا نتیجہ قرار دیا گیا تھا جسے بعد میں
حوثی باغیوں نے قبول کرلیا کہ یہ ان ہی کی کارروائی کا نتیجہ ہے۔ متحدہ عرب
امارات کی وزارت خارجہ نے اس حملے کے بعد اپنے ایک بیان میں حوثی باغیوں کی
مذمت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’اس کی سزا ضرور ملے گی‘ اور متحدہ عرب امارات
اس دہشت گرد حملے کے خلاف جوابی کارروائی کا حق رکھتا ہے۔ عرب امارات میں
ہونے والی ہلاکتوں کے فوراً بعد سعودی سربراہی میں قائم فوجی اتحاد، جس کا
متحدہ عرب امارات بھی حصہ ہے، کی جانب سے یمن کے دارالحکومت صنعا پر فضائی
حملے کیے گیے جہاں حوثی باغیوں کا قبضہ ہے۔یمن کے حوثی باغیوں کے فوجی
ترجمان کی جانب سے عرب امارات میں حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے دعویٰ
کیا گیا ہے کہ اس میں پانچ بیلسٹک میزائل اور ڈرون استعمال کیے گئے تھے۔ابو
ظہبی پولیس کے مطابق ابتدائی تحقیقات میں معلوم ہوا ہے کہ حادثے کے مقام پر
ممکنہ ڈرون کے حصے ملے ہیں۔جس مقام پر آگ لگی وہ تیل کی ریاستی کمپنی
ابوظہبی نیشنل آئل کمپنی (ادنوک) کے تیل کے ذخائر کے قریب واقع ہے۔ ابوظہبی
کی بندرگاہ کے علاوہ ایئرپورٹ کے علاقے سے بھی آتشزدگی کی اطلاعات ملی
تھیں۔خبررساں ادارے روئٹرز کے مطابق پولیس کا کہنا ہے کہ ابوظہبی پورٹ کے
نزدیک مصفح آئیکیڈ تھری کے علاقے میں تین آئل ٹینکرز دھماکے سے پھٹ گئے تھے
جس سے آگ بھڑک اٹھی۔ حالیہ کشیدگی کے باعث خطے کی سیکیورٹی صورتحال
مزیدبدتر ہو سکتی ہے اور یمن میں جاری جنگ میں شدت آ سکتی ہے اور ایران کی
حمایت یافتہ حوثی باغی سعودی اتحاد کی جانب سے کی جارہی اس کارروائی کا سخت
جواب دے سکتے ہیں۔حوثیوں کی جانب سے متحدہ عرب امارات پر کئے جانے والے
حملے کی عالمی سطح پر مذمت کی گئی اور اسے بزدلانہ کارروائی قرار دیا گیا۔
اسکے بعد سعودی اتحاد نے حوثی باغیوں کے اہم ٹھکانوں اور تنصیبات پر ڈرون
حملے کئے ہیں۔عرب نیوز کے مطابق سعودی عرب کی وزارت خارجہ نے ابوظبی حملے
کی مذمت کرتے ہوئے متحدہ عرب امارات کی سکیورٹی اور استحکام کو یقینی بنانے
کے لیے مکمل تعاون کا اعادہ کیا ہے۔وزارت خارجہ کے بیان کے مطابق یہ دہشت
گردانہ حملہ، جس کے لیے حوثی باغی ذمہ دار ہے، اس گروپ کی جانب سے خطے اور
دنیا کے امن، سلامتی اور استحکام کے لیے درپیش خطرے کی نشاندہی کرتا
ہے۔‘ذرائع ابلاغ کے مطابق عرب اتحاد نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ گزشتہ
چوبیس گھنٹوں کے دوران یمن میں حوثیوں کے 64 ٹھکانوں پر حملیکئے گئے جس میں
لگ بھگ 280 دہشت گرد ہلاک ہوئے ہیں۔سبق ویب سائٹ کے مطابق عرب اتحاد نے
فوجی آپریشن کے حوالے سے مزید کہا ہے کہ یمن کے صوبے مارب میں حوثیوں کے
متعدد ٹھکانوں پر 39 حملے کیے ہیں جن میں 21 گاڑیاں تباہ اوردرجنوں حوثی
دہشت گرد ہلاک ہوئے ہیں۔عرب اتحاد کا کہنا ہے کہ حوثیوں کے ٹھکانوں پر
آپریشن کا سلسلہ جاری رکھا جائے گا۔ روزانہ کی بنیاد پرفوجی آپریشن کے
حوالے سے میڈیا کو آگاہ کیا جاتا رہے گا۔اسی طرح مزید کارروائیاں کرتے ہوئے
عرب اتحاد نے کہا ہے کہ حوثیوں کے خلاف ٹارگٹڈ آپریشن میں حوثیوں کابڑا
کمیونیکیشن سینٹر اورگودام تباہ کردیا گیا ہے۔ عاجل ویب سائٹ کے مطابق عرب
اتحاد کی جانب سے جاری بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ اتحادی فورسز کے فضائی
یونٹ نے صنعا کے علاقے’ جبل النبی شعب ‘میں حوثیوں کے گوداموں اور
کمیونیکیشن سینٹر کو تباہ کردیا ہے۔ یہ اس علاقے میں حوثیوں کے مضبوط
ٹھکانے تصور کیے جاتے ہیں۔عرب اتحاد کا کہنا ہے کہ انہیں تباہ کرنے کیلئے
ڈرونز کا استعمال کیا گیا۔عرب اتحاد نے زوردے کرکہاہے کہ حوثیوں کے مختلف
کیمپوں پر بھی فضائی حملے کیے گئے۔ دریں اثنا سبق ویب سائٹ کے مطابق عرب
اتحاد نے اسی دوران ایک اور بیان میں بتایا کہ گزشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران
فورسز نے مارب میں 17 ٹارگٹڈ آپریشن کیے۔ آ پریشنز میں حوثیوں کی 9 عسکری
گاڑیاں تباہ اور 80 دہشت گرد ہلاک ہوئے۔العربیہ نیٹ کے مطابق عرب اتحاد کا
کہنا ہے کہ اس کی فضائیہ گزشتہ 24 گھنٹوں سے یمنی دارالحکومت صنعا میں
کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔جمعہ کے روز بھی عرب اتحادی فورسز کا یمن میں
حوثیوں کے خلاف ٹارگٹڈ آپریشن جاری رہا۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق فورسز نے
البیضا کمشنری میں حوثی باعیوں کے بیلسٹک میزائل لانچنگ پیڈ کو تباہ کرنے
کا دعویٰ کیا ہے۔ بتایا جاتا ہیکہ یمن میں ایران نواز حوثی باغیوں نے یمن
کی کمشنری ’’البیضا‘‘ میں بیلسٹک میزائل لانچ کرنے کیلئے اڈا قائم کیا ہوا
تھا جہاں سے وہ میزائل حملے کیا کرتے تھے۔ انتحادی فورس کی ایئر کمان نے
لانچنگ پیڈ کے مقام کی نشاندہی کرتے ہوئے ٹارگٹڈ آپریشن کیا اور اسے تباہ
کردیا۔ بتایا جاتا ہیکہ اس سے قبل عرب اتحادی فورسز نے صنعا میں مقیم
شہریوں سے کہا تھا کہ وہ حوـثیوں کے کیمپوں سے دور رہیں۔ عرب اتحاد نے
حوثیوں کے نئے حملوں کو روکنے اورآپریشن کے حوالے سے ویڈیو بھی جاری کی
ہے۔ان حملوں کے نتیجہ میں عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں میں اضافہ کا امکان
بتایا جارہا ہے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق متحدہ عرب امارات پر حوثیوں کے حملے
کے بعد تیل کی رسد میں ممکنہ رکاوٹوں کے پیش نظر منگل کے روز تیل کی قیمت
میں ایک ڈالر کا اضافہ ہوا ہے جو کہ گذشتہ سات سال میں ہونے والا سب سے بڑا
اضافہ بتایا جارہا ہے جبکہ اس حملے کے بعد ایران کی حمایت والا حوثی گروپ
اور عرب اتحاد کے درمیان دشمنی میں بھی اضافہ ہوا ہے۔اب دیکھنا ہیکہ سعودی
اتحاد کی جوابی کارروائیوں کے بعد حوثی باغیوں کی جانب سے سعودی عرب اور
متحدہ عرب امارات کے خلاف کس قسم کے ردّعمل کا اظہار کیا جاتا ہے۔ دیکھنا
ہیکہ حوثی باغی عرب اتحادی فورسز کا کس طرح جواب دیتے ہیں انکا جو نقصان
کرنے کا عرب اتحادی فورسز دعویٰ کررہے ہیں اس سے ایسا محسوس ہوتا ہیکہ حوثی
باغیوں کا بہت زیادہ نقصان ہوا ہے ۔ فی الحال عرب اتحاد حوثیوں پر لگاتار
حملے کرنے اور نقصان پہنچان نے کے دعوے کررہا ہے اور حوثیوں کی خاموشی عرب
اتحاد کے لئے وارننگ ہے یا پھر اتنا زیادہ نقصان ہوچکا ہیکہ اس کا جواب
دینے کی ان میں طاقت نہیں۔ البتہ ایران اس دوران حوثیوں کی کس مدد کرتا ہے
یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۰۰۰
طالبان کی جانب سے کابل میں خواتین احتجاجیوں پر مرچ اسپرے کا استعمال
افغانستان میں طالبان دوبارہ برسراقتدار آنے کے بعد بھی حالات خراب ہی ہیں۔
عالمی سطح پر کسی نے بھی ابھی تک طالبان حکومت کو تسلیم نہیں کیا ہے۔
طالبان دوبارہ اقتدار حاصل کرنے کے بعد ملک میں امن و سلامتی قائم کرنے کی
بات کررہے ہیں لیکن لڑکیوں اور خواتین پر جو پابندیاں عائد کی گئیں ہیں اس
کے خلاف عالمی سطح پر غصہ پایا جارہا ہے۔ گذشتہ دنوں افغانستان کے
دارالحکومت کابل میں طالبان فورسز نے تعلیم اور کام کرنے کے حقوق کا مطالبہ
کرنے والی خواتین پر مرچوں کے اسپرے کا استعمال کیا ہے۔نیوز ایجنسی اے ایف
پی کے مطابق گذشتہ برس اقتدار میں آنے کے بعد طالبان نے افغان عوام اور خاص
طور پر خواتین پر پابندیاں لگائیں۔کابل میں 20 کے قریب خواتین نے کابل
یونیورسٹی کے سامنے احتجاج کیا اور ’برابری اور انصاف‘ کے نعرے لگائے۔
انہوں نے جو بینرز اٹھا رکھے تھا ان پر ’خواتین کے حقوق، انسانیت کے حقوق‘
جیسے جملے لکھے تھے۔ذرائع ابلاغ کے مطابق بتایا جاتا ہیکہ احتجاج کرنے والی
خاتون نے کہا کہ ’جب ہم کابل یونیورسٹی کے قریب تھے تو تین گاڑیوں میں
طالبان آئے اور انہوں نے ہم پر مرچوں والے اسپرے کا استعمال کیا۔‘’میری
آنکھیں جلنا شروع ہو گئیں اور میں نے ایک طالبان سے کہا کہ تمہیں شرم آنی
چاہیے تو اس نے مجھ پر بندوق تان لی۔‘دیگر دو خاتون مظاہرین نے کہا کہ ایک
خاتون کو ہسپتال لے جانا پڑا۔اے ایف پی کے رپورٹر نے طالبان جنگجو کو
مظاہرے کی ویڈیو بنانے والے ایک آدمی سے موبائل فون چھینتے دیکھا۔طالبان نے
منظوری کے بغیر مظاہرہ کرنے پر پابندی لگا رکھی ہے اور خواتین کے حقوق کے
لیے کیے جانے والے احتجاج کو طاقت کے زور سے روکا جاتا ہے۔طالبان نے سرکاری
محکموں میں کام کرنے والی خواتین کو واپس نہیں بلایا اور بہت سے سیکنڈری
سکولوں کو لڑکیوں کیلیے نہیں کھولا گیا، جبکہ سرکاری یونیورسٹیز بھی بند
ہیں۔خواتین کو گھر کے کسی مرد کے علاوہ اکیلے لمبا سفر کرنے کی اجازت بھی
نہیں ہے۔طالبان حکام نے ٹی چینلز کو ہدایات دے رکھی ہیں کہ خواتین اداکاروں
سیریلز میں نہ دکھایا جائے۔اسی بیچ طالبان کے وزیر اعظم نے مسلمانوں سے
مطالبہ کیا ہے کہ وہ طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے میں پہلے کریں۔
مسلم ممالک ہماری حکومت کو تسلیم کرنے میں پہل کریں: طالبان
افغانستان کے وزیراعظم نے مسلمان اقوام سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ طالبان کی
حکومت کو تسلیم کرنے میں پہل کریں۔فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے
مطابق افغانستان کے وزیراعظم ملا محمد حسن اخوند نے چہارشنبہ کو کابل میں
ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’میں مسلم ممالک سے مطالبہ کرتا ہوں
کہ وہ ہماری حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم کرنے میں پہل کریں، مجھے امید
ہے کہ اس کے بعد ہم تیزی سے ترقی کریں گے۔‘‘واضح رہے کہ ابھی تک کسی حکومت
نے طالبان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا ہے، مغربی ممالک اس امر کا مشاہدہ کر
رہے ہیں کہ ماضی میں 1996 سے 2001 تک پچھلے دور حکومت میں سخت موقف رکھنے
اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کیلئے بدنام طالبان اس بار بھی کچھ ایسا ہی
کریں گے۔افغانستان کی نئی حکومت میں ایسے کئی افراد کو اپنی عبوری حکومت کو
شامل کیا گیا ہے جن کے نام بین الاقوامی پابندیوں کی فہرست میں شامل
ہیں۔وزیراعظم ملا محمد حسن اخوند نے افغانستان کے معاشی مسائل کے حوالے سے
ہونے والی تقریب سے خطاب کے دوران کہا کہ حکومت کو تسلیم کیے جانے کا حوالہ
دیتے ہوئے کہا ’ایسا ہم اپنی یا سیاسی حکام کی مدد کے لیے نہیں چاہتے، بلکہ
عوام کے لیے چاہتے ہیں۔‘ان کے مطابق ’طالبان نے امن اور سلامتی کی بحالی کے
لیے تمام شرائط پوری کی ہیں۔‘اس وقت افغانستان میں لاکھوں شہری بشمول بچے
غذائی اشیاء اور ادویات سے محروم ہیں ۔ انسانی بحران کا شکار افغانستان
عالمی امداد کا طلبگار ہے اور اسے فوراً امداد پہنچانے کے لئے اقوام متحدہ
نے عالمی سطح پر اعلان کررکھا ہے۔ امریکہ نے جس طرح افغانستان کروڑوں ڈالرس
منجمد کررکھے ہیں اسے افغان عوام حالتِ زار کو دیکھتے ہوئے فوراً دے دینے
چاہیے ۔ طالبان کے اقتدار کو قبول کرنا یا نہ کرنا ایک الگ مسئلہ ہے لیکن
فوراً جو مسئلہ حل طلب ہے وہ افغان عوام کی امداد کا ہے ۔ افغان عوام کی
امداد جتنا جلد ممکن ہوسکے کرنے کے لئے ہر ایک کو آگے آنا ہوگا ورنہ معصوم
بے گناہوں کی آہیں اور سسکیاں دم توڑدینگی۰۰۰
*****
|