سال کے آخر میں لوگ باگ گزرے برس کا جائزہ لیتے ہیں اور
آئندہ سال کا منصوبہ بناتے ہیں یا کم ازکم کچھ مصمم ارادے کرتے ہیں
۔انگریزی میں اسے نیو ائیر ریزلیوشن کہا جاتا ہے۔ سوشیل میڈیا کے زمانے میں
فیس بک یا واٹس ایپ وغیرہ کی مدد سے اس کا اعلان بھی کیا جاتا ہے تا متعلقہ
لوگوں کو اس کا علم ہوجائے اور وہ تعاون کریں ۔ گزشتہ سال 31 دسمبر( 2021)
کو چین نے ہندوستان کے حوالے سے اپنے خطرناک ارادوں کا اظہار کردیا۔چینی
کمیونسٹ پارٹی کے زیر اثر شائع ہونے والے انگریزی روزنامہ گلوبل ٹائمز نے
یہ خبر شائع کی کہ چین میں شہری امور کی وزارت نے اروناچل پردیش کے چینی ہم
نام زنگنان صوبہ میں 15 مقامات کی حد بندی کر کے تبدیل شدہ نئے نام چینی،
تبتی اور رومن میں جاری کردیئے ۔ ان میں سے آٹھ رہائشی مقامات، چار پہاڑ،
دو دریا اور ایک پہاڑی درہ شامل ہے۔گلوبل ٹائمز نے بیجنگ میں قائم سینو تبت
ریسرچ سینٹر کے ایک ماہر لیین ژیانگمن کے حوالے سے اپنی رپورٹ میں کہا ہے
کہ یہ تبدیلی ایک قومی سروے کے بعد کی گئی۔
اس طرح گویا چینی سنتا کلاز نے جاتے جاتے مودی جی کی خدمت میں یہ تحفہ پیش
کردیا۔ وزیر اعظم چونکہ آج کل انتخابی مہم کے نشے میں مدہوش ہیں اس لیے
ممکن ہے انہیں اس کا احساس نہیں ہوا ہو لیکن ملک کے سنجیدہ عوام میں اس سے
بے چینی کا پیدا ہونا فطری امر ہے۔اس خبر پر نہ ہی وزیر اعظم کی جانب سے
کوئی ردعمل سامنے آیا اور نہ ملک کی خاطر جان لڑانے کا اعلان کرنے والے
وزیر داخلہ کچھ بولے یہاں تک وزیر دفاع نے بھی خاموش رہنے میں عافیت سمجھی
لیکن پھر کسی نہ کسی کو تو کچھ نہ کچھ بولنا ہی تھا۔ اس لیے سناٹے کو توڑنے
کی ذمہ داری وزارت خارجہ کو سونپی گئی اور وہاں بھی وزیر خارجہ جئے شنکر
خود آگے نہیں آئے بلکہ اپنے ترجمان ارندم باغچی کو بڑھا دیا۔ باغچی نے
نہایت محتاط اندا زمیں کہا ’ہم نے اسے دیکھا ہے۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے، جب
چین نے اروناچل پردیش کا نام تبدیل کرنے کی کوشش کی ہو۔ چین اپریل 2017 میں
بھی ایسے نام رکھنا چاہتا تھا‘۔
یہ حقیقت ہے کہ چین کی جانب سے یہ مذموم حرکت دوسری بار کی گئی ہے۔ اس سے
قبل چین نے اروناچل پردیش میں 6 مقامات کے نام بدلنے کا اعلان کیا تھا۔ اس
کا اعتراف کرکے وزارت خارجہ نے گویا یہ عندیہ دے دیا کہ پہلےبھی ہم نے لفظی
احتجاج کے سوا کچھ نہیں کیا تھا اور اس مرتبہ بھی بات زبانی جمع خرچ تک
محدود رہے گی ۔لیکن یہ سوال تو ضرور پیدا ہوتا ہے کہ آخر مودی سرکارکے بعد
چین کے حوصلے کیوں اس قدر بلند ہوگئے؟ ان لوگوں کومودی جی کی لال لال
آنکھوں سے ڈر کیوں نہیں لگتا؟ وزیر اعظم آنکھیں موند کر یہ سب کیوں
برداشت کرلیتے ہیں؟ باغچی نے مزید کہا کہ ’اروناچل پردیش‘ ہمیشہ سے انڈیا
کا اٹوٹ انگ رہا ہے اور ہمیشہ رہے گا، اروناچل پردیش میں تجویز کردہ نئے
ناموں سے حقیقت نہیں بدلتی۔ یہ درست بات ہے لیکن نام تو ہندوستان میں بھی
بڑے شور و شور کے ساتھ بدلے جارہے ہیں۔
اترپردیش میں یوگی جی کوئی نیا شہر نہیں بسا سکے تو پرانے شہروں کے نام
بدلنے لگے۔ شیوراج سنگھ نے بھی حبیب گنج اسٹیشن کا نام تبدیل کردیا۔ سوال
یہ ہے کہ اگر چین کے ذریعہ تبدیل شدہ ناموں سے حقیقت نہیں بدلتی تو کیا
یوگی یا شیوراج سنگھ جو نام بد ل رہے ہیں ان سے حقیقت بدل جاتی ہے؟ الہ باد
ہائی کورٹ کا نام بدلنے میں ناکام ہونے والے کیا اکبر الہ باری کو پریاگ
راجی بنا دیں گے؟ یوگی یا چوہان کی سیاسی تماشوں کے برعکس چین ایک منصوبہ
بند حکمتِ عملی کے تحت یہ سب کررہا ہے۔ اس مقصد کے تحت 23؍ اکتوبر کو چین
کے اعلیٰ قانونی بلدیہ نیشنل پیپلز کانگریس کی اسٹینڈنگ کمیٹی نے ملک کی
زمینی سرحدی علاقوں کے تحفظ اور استحصال کا حوالہ دیتے ہوئے ایک نیا قانون
منظور کیا اور اس کے نفاذ کی تاریخ یکم جنوری بتائی ۔ اس قانون کے اثرات کا
اندازہ لگا کر اگر پہلے سے چینی حکام سے گفت و شنید کر کے عالمی دباو بنایا
جاتا تو ممکن ہے وہ آئندہ اقدامات سے باز رہتا لیکن ایسا نہیں ہواکیونکہ
حکومت غفلت یا مایوسی کا شکار رہی ۔ چین کو کہنے سننے سے کچھ ہوتا نہیں ہے
اس لیے ممکن ہےں بلاجہ اپنی توانائی ضائع کرنے سے گریز کیا گیاہو؟
نئے سال کی ابتداء بھی چین نے بے وجہ اشتعال انگیزی سے کی ۔ اخبار گلوبل
ٹائمز نےیکم جنوری کو نئے سال کے موقع پر وادی گلوان میں چینی پرچم لہرائے
جانے کی خبر شائع کرکے حکومت ہند کو حیرت کا نیا جھٹکہ دے دیا ۔ اس رپورٹ
میں کہا گیا کہ سال 2022 کے پہلے دن چین کا پرچم پورے ملک میں لہرایا گیا۔
ان میں ’ہانگ کانگ اور گلوان وادی کا خصوصی زیرِ انتظام علاقہ‘ بھی شامل
تھا۔ مذکورہ اخبار نے اپنی رپورٹ کی تائید میں ایک ایسی ویڈیو منسلک کی جس
میں چینی فوجی ہندوستانی سرحد کے قریب وادی گلوان میں ایک پتھر کے سامنے
کھڑ ےنظر آتے ہیں۔ اس پر پتھر پر لکھا ہوا جملہ ’ایک انچ بھی زمین نہ
چھوڑیں گے۔‘ مودی سرکار کے لیے خطرناک دھمکی سے کم نہیں ہے۔ اس ویڈیو کے
اندرچینی فوجی قوم کو نئے سال کی مبارکباد دیتےہوئے پرجوش انداز میں کہتے
ہیں کہ ’ہم اپنی مادر وطن سے یہ وعدہ کرتے ہیں کہ ہم اپنی سرحد کا دفاع
کریں گے۔‘ گلوبل ٹائمز کے مطابق اس کے بعد ایک ڈرون کے ذریعہ چینی پرچم
بلند کیا گیا اورمغربی کمانڈ کے فوجیوں نے سلامی دے کر ملک کے لیے نیک
خواہشات کا اظہار کیا۔
حزب اختلاف کے رہنما راہل گاندھی کے لیے مودی حکومت پر تنقید کرنے کا یہ
ناد ر موقع تھا ۔ اس کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے انہوں نے نئے سال کے موقع
پر گلوان میں چینی پرچم لہرانے کی خبر سے متعلق وضاحت طلب کی۔ اپنے ٹویٹ
میں راہل گاندھی نے لکھا کہ ’ہمارا ترنگا گلوان پر اچھا لگ رہا ہے۔ چین کو
جواب دینا پڑے گا۔ مودی جی، خاموشی توڑیں!‘۔ وزیر اعظم کو اپنی دادی کی یاد
دلاتے ہوئے راہل نے یہ بھی لکھا کہ ’ابھی کچھ دن پہلے ہی ہم 1971 میں انڈیا
کی شاندار فتح کو یاد کر رہے تھے۔‘ حزب اختلاف کے رہنما نے سرکار پر ہلہ
بولتے ہوئے کہا کہ ’ملک کی سلامتی اور کامیابی کے لیے جامع اور مضبوط
فیصلوں کی ضرورت ہے۔ کھوکھلی بیان بازی سے فتح حاصل نہیں ہوتی!‘۔ بھگتوں کے
علاو ہ اب تو پوری قوم کو احساس ہوچکا ہے جامع اور دور رس فیصلے کرنا کم
ازکم اس حکومت کے بس کی بات نہیں ہے۔ اس کو تو صرف کھو کھلے بیانات اور
جھوٹے وعدے کرکے انتخاب جیتنے میں مہارت حاصل ہے اور اسی کا استعمال کرکے
وہ اقتدار پر قابض ہے۔
راہل کے ان تندو تیز نشتر پر قومی بحث چھڑ جانی چاہیے تھی لیکن چونکہ اس سے
مودی سرکار کی سبکی اور کمزور ی کا اظہار ہوتا تھا اس لیے سرکار کے چاپلوس
گودی میڈیا نے اسے پوری طرح نظر انداز کردیا لیکن چار دن بعد اس کا دباو
محسوس کرتے ہوئے ہندوستانی فوجیوں کی بھی کچھ تصاویر منظر عام پر آئیں جن
میں نئے سال کے موقع پر گلوان وادی میں ترنگا جھنڈا لہراتاہوانظر آیا۔ اس
کے ساتھ یہ دعویٰ کیا گیا کہ وادی گلوان کے متنازع علاقے میں اپنا جھنڈا
لہرانے کی چینی خبر جھوٹی تھی اور وادی گلوان میں لہرائے گئے ترنگے کے ساتھ
ہندوستانی فوجیوں کی تصویر نے گویا چین کے جھوٹ کو بے نقاب کرکے سچائی کا
پردہ فاش کردیا لیکن چین جیسے شاطر پڑوسی کے خلاف اس طرح کے علامتی اقدامات
کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ مودی سرکار اور سنگھ پریوار کب تک اس طرح کے
تماشوں سے کام چلائیں گے ۔ آج نہیں تو کل انہیں چین کے خلاف ایک مضبوط
حکمت عملی بناکر توانا آواز اٹھانی پڑے گی بہ صورتِ دیگر ملک کے عوام ان
کو جھولا سمیت گھر بھیج دیں گے۔ ویسے مودی سرکار نے سنگھ پریوار کی دیش
بھکتی کا پول کھول دیا ہے۔
|