شوکت اور شراکت

پی ٹی آئی کاسیاسی فلسفہ اور انداز سیاست کسی کوپسندہونہ ہولیکن کپتا ن کے جارحانہ طرزِ گفتارکے اثرات اوران کی سیاسی رفتاراوربلند پرواز سے کوئی انکار نہیں کرسکتا،موصوف کاگراف اچانک کوہ ہمالیہ سے زیادہ بلند اورکبھی یکایک زمین بوس ہوجاتا ہے تاہم انہوں نے کسی بھی مرحلے پراوورسیزپاکستانیوں سمیت اندرو ن ملک اپنے حامیوں کامورال اورحوصلہ پست نہیں ہونے دیا۔ وزیراعظم عمران خان اپنے اندرایک" وزیراطلاعات" بھی اٹھائے پھرتے ہیں، ہرگیند پر ـ"چھکا" مارنے کیلئے" کریز "سے باہرنکل آنا کپتان کی بری عادت ہے جس کی بدولت وہ بیشتراوقات "سٹمپ آؤٹ" ہو جاتے ہیں۔راقم نے کئی بار کپتان سے کہا "بولنا ہے توپھر تولنا سیکھیں"کیونکہ جوزیادہ بولتا ہے اس سے زیادہ غلطیاں سرزد ہوتی ہیں۔ہرسچے ہموطن کی طرح میں بھی یہ چاہتا ہوں،کپتان ڈیلیور اورقومی چوروں کابے رحم احتساب کریں لیکن اس کیلئے انہیں" بزداروں" کی بجائے " بردباروں" پرانحصار کرناہوگا ۔عمران خان 22برس کی سیاسی جدوجہد کے بعدآج 22کروڑپاکستانیوں کے منتخب وزیراعظم ہیں جبکہ ان کے کئی ہم عصر سینئر سیاستدانوں کوزندگی بھر بھاگ دوڑ کے باوجود اقتدار کی باگ ڈور نصیب نہیں ہوئی اوروہ آج بھی حسد کی آگ میں جل رہے ہیں۔ہیوی مینڈیٹ والے کردارنے ملک سے راہ فرار اختیار کی تواس کا سیاسی "وزن" اورنام نہاد سیاسی" ویژن" نے دم توڑگیا،تاہم تبدیلی سرکار کے وزیراعظم اوروفاقی وصوبائی وزراء نے اس مفروراورمغرور کی نیم مردہ سیاست کوزندہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔میں سمجھتا ہوں" آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل" کے مصداق جوسزایافتہ شخص پچھلے کئی ماہ سے لندن کے" فلیٹ" میں محصور ہے وہ وطن واپسی کیلئے" فلائیٹ" نہیں لے سکتاکیونکہ اس کاراستہ" ایوانوں" کی بجائے" زندانوں" کی طرف جاتا ہے۔قومی چوروں اورمفروروں کانام بار بارمنتخب وزیراعظم کی زبان پرآنااس اعلیٰ ترین آئینی منصب کے شایان شان نہیں لہٰذاء ان چوروں کونیب اورعوامی عدالت کے رحم وکرم پرچھوڑدیاجائے۔راقم نے ماضی میں دوٹوک انداز میں لکھا تھا اورمیں پھر کہتا ہوں وزیراعظم عمران خان صبروتحمل اورمصلحت پسندی کے سبب اپنے مزاج کیخلاف بہت کچھ برداشت کررہے ہیں لیکن جس روز انہوں نے اقتدار کی بیڑیاں توڑدیں اس دن اُن کی قیادت میں مضطرب عوام کاسونامی نیب زدگان اورقومی چوروں پر کاری ضرب لگا نے کیلئے شاہراہوں پرامڈآئے گا۔تاہم عمران خان کا خودیہ کہنا"حکومت سے باہرزیادہ خطرناک ہوں گا"مناسب نہیں ،یہ بیان کوئی وفاقی وزیر بھی دے سکتا تھا۔عمران خان کوڈکٹیشن نہیں دی جاسکتی اورانہیں مشورہ بھی نہیں دیاجاسکتا ۔ہوشربامہنگائی سمیت مختلف ایشوزکے باوجود بحیثیت وزیراعظم عمران خان کااپنی آئینی مدت پوری کرناملک قوم کے بہترین مفاد میں ہے کیونکہ ہماری ریاست اورسیاست کسی مہم جوئی کی متحمل نہیں ہوسکتی ۔حکومت کی طرح اپوزیشن کے پاس بھی مہنگائی پرقابوپانے کاکوئی ایجنڈا نہیں ہے اسلئے عوام دونوں سے مایوس ہیں۔وہ طبقہ جوعمران خان کوسلیکٹڈ کہتا ہے اس کی سیاست کاجنم براہ راست فوجی آمریت کی کوکھ سے ہوا۔ذوالفقارعلی بھٹو کاماضی گواہ ہے وہ جنرل ایوب خان جبکہ ووٹ کوعزت دو کے داعی نوازشریف اپنے ہادی فوجی آمر ضیاء الحق کی انگلی تھام کر کارزار سیاست میں وارد ہوئے اوران کی سیاسی تعلیم وتربیت میں فوجی آمروں کاہاتھ ہے۔

بھارت کے اندر انتخابات میں کامیابی کیلئے پاکستان کیخلاف زہراگلنا ازبس ضروری ہوتا ہے جبکہ پاکستان کے سیاستدان بھی الیکشن میں "نصرت" کیلئے "نفرت" اورنفاق کاہتھیار استعمال کرتے ہیں۔ہرسیاستدان کے نزدیک دوسرا سیاستدان چور اورسکیورٹی رسک ہے لیکن اس کے باوجود یہ چور زندانوں کی بجائے ایوانوں میں بیٹھے ہیں جبکہ نیب حکام کا احتساب کی بجائے محض "بیانات" پرزور ہے۔بیشک آج معاشرے کے پسماندہ اورمتوسط طبقات ایک ساتھ مہنگائی سے نجات کی دہائی دے رہے ہیں تاہم ماضی کے حکمرانوں سے ان کی نفرت کی شدت میں کمی نہیں آئی۔عمران خان اقتدار میں رہے نہ رہے لیکن پاکستان کاکوئی سنجیدہ طبقہ قومی چوروں کوپھر سے اقتدار کے ایوانوں میں دندناتے اورقومی وسائل میں نقب لگاتے ہوئے نہیں دیکھنا چاہتا ۔2018ء کے عام انتخابات میں عمران خان کاایک گیند سے دوبڑی وکٹیں اڑانا یعنی قومی سیاست کے دوبڑے برج الٹانامعمولی بات نہیں،پیپلزپارٹی اورمسلم لیگ (ن) نے فرینڈلی میچز کھیلنے کیلئے آپس میں باریاں مقررکی ہوئی تھیں لیکن عمران خان کی مداخلت سے یہ "یاریاں" اور"باریاں" قصہ پارینہ بن گئیں۔آج بھی مسلم لیگ (ن) اورپیپلزپارٹی کے درمیان بظاہراتحاد ہے لیکن یہ ریلوے ٹریک کی طرح ساتھ ساتھ توچل سکتی ہیں لیکن آپس میں ملنا ان کے مقدر میں نہیں ۔
ماضی میں مسلم لیگ (ن)اورپیپلزپارٹی کوایک دوسرے کیخلاف نفرت ابھارنے کی بنیادپرمینڈیٹ ملتا تھا جبکہ عمران خان نے ان دونوں پارٹیوں سے متنفراوربیزار عوام کواپناووٹ بنک بنایا اوربازی پلٹ دی۔عمران خان نے مینارپاکستان میں جوپارٹی پرچم لہرایا تھا وہ خیبرپختونخوا کے غیورعوام نے تھام لیا اوروہاں2013ء کے انتخابات میں پی ٹی آئی کوصوبائی حکومت ملی۔صوبہ خیبرپختونخوا کے عوام نے پی ٹی آئی پراظہاراعتماد کرتے ہوئے دوسری بار بھی کپتان اوران کے بلے بازوں کوبھرپور مینڈیٹ دیا،وہاں سے واضح برتری کے ساتھ کامیاب ہونیوالے پی ٹی آئی کے منجھے ہوئے ارکان پارلیمنٹرینز میں شوکت علی کانام اورسیاسی مقام نمایاں ہے۔شوکت علی عوام کوباوقاراوربااختیاربنانے کیلئے ان کی اقتدارمیں "شراکت" کے زبردست حامی ہیں۔ان کے پاس آنیوالے شہریوں کے جائزکام بھی ہوتے ہیں اورانہیں وہاں عزت بھی ملتی ہے۔ شوکت علی کی اپنے حلقہ انتخاب میں بھرپور پذیرائی اور ترقیاتی امور کیلئے اہلیان حلقہ کے ساتھ مشاورت مستحسن اور قابل تقلید ہے،انہوں نے انتھک انداز سے خدمت خلق کاہنراورگر آزماتے ہوئے اپنے ووٹرز کواپناگرویدہ بنالیا۔ان کا اپنے حلقہ انتخاب این اے31 پشاور میں خاص وعام کے ساتھ کسی امتیاز کے بغیر رابطہ اورواسطہ سودوزیاں سے بے نیاز ہے۔خیبرپختونخوا کی ہردلعزیز شخصیت لیاقت علی کے فرزندارجمندشوکت علی ایک" معقول" سیاستدان کی حیثیت سے پشاورکی شاہ "قبول "کالونی سمیت اپنے حلقہ انتخاب میں بیحد ـ"مقبول" ہیں ۔کپتان کواپنے باصلاحیت اورنیک نیت ٹیم ممبر شوکت علی کی سیاسی بصیرت اورانتظامی قابلیت کے ساتھ ساتھ ان کی اپنے فرض منصبی کی بااحسن بجاآوری کے سلسلہ میں کمٹمنٹ بیحد پسند ہے۔شوکت علی وفاقی پارلیمانی سیکرٹری داخلہ ہیں اوروہ اس منصب کے ساتھ بھرپور انصاف کرتے ہوئے ملک میں امن وامان کی صورتحال کوبہتر سے بہتر بنانے اورسکیورٹی فورسز کامورال مزیدبلندکرنے کیلئے اپناکلیدی کردارادا کررہے ہیں۔شوکت علی ایک زیرک،انتھک اور سنجیدہ سیاستدان ہیں ،وہ دوسروں کی طرح ڈینگیں نہیں مارتے کیونکہ ان کاکام بولتا ہے۔ان کے حلقہ انتخاب میں ہونیوالے مختلف ترقیاتی منصوبوں پرمقامی شہریوں کااظہاراطمینان خوش آئند ہے۔شوکت علی ایک نبض شناس اورفرض شناس عوامی نمائندے کی حیثیت سے قومی سیاست ،معیشت اورمعاشرت پرگہری نگاہ رکھتے ہیں۔شوکت علی کی شخصیت اورتعمیری سیاست پر پاکستانیت کارنگ نمایاں ہے۔

پی ٹی آئی کے دوراقتدارمیں عام آدمی کی حالت زار نہیں بدلی لیکن سیاسی کلچر کی حدتک تبدیلی ضرورآئی ہے،این اے 31پشاور سے منتخب ممبر قومی اسمبلی اورپارلیمانی سیکرٹری برائے داخلہ شوکت علی جبکہ پنجاب سے انتھک صوبائی وزیرصنعت وتجارت میاں اسلم اقبال کی صورت میں پرجوش اورپرعزم سیاستدان اپنے کپتان کاہراول دستہ ہیں۔شوکت علی کاطرز سیاست ہم وطنوں کی خدمت اورمادروطن کی حفاظت کاآئینہ دار ہے، "شوکت علی" کے پاس آنیوالے شہریوں کو وہاں ملی عزت واہمیت کے نتیجہ میں ان کی "شان وشوکت" دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے جبکہ بلنداقبال میاں اسلم اقبال سراپاخدمت ہیں۔راقم کے مشاہدے کی روسے یہ دونو ں سیاسی شخصیات عزت دارہیں اوران کی اچھی شہرت سنی ہے ۔پاکستان میں چاردہائیوں سے مفاہمت کے نام پرمنافقت کرنیوالے دوسیاسی خاندانوں اورکرداروں کوبے نقاب کرنے کاکریڈٹ بھی پی ٹی آئی کوجاتا ہے، عمران خان کے ڈر سے ماضی کے بدترین دشمن راتوں رات دوست بن گئے۔پیپلزپارٹی اورمسلم لیگ (ن) کے گٹھ جوڑاوران کی بھرپورمزاحمت کے باوجود عمران خان ایک طرف وزیراعظم منتخب ہونے میں کامیاب رہے تودوسری طرف انہوں نے "بادشاہ گر"کی حیثیت سے پنجاب میں ایک" بزدار" کووزیراعلیٰ اوردوسرے" بزدار" کوگورنر پنجاب بنادیا،وہ چوہدری سرور جس کوشہبازشریف نے مسلم لیگ (ن) کے دورحکومت میں انتہائی زچ کرتے ہوئے گورنر شپ سے مستعفی ہونے پرمجبورکردیا تھا ،آج اس چوہدری سرور نے بینظیر بھٹو ،نوازشریف اورعمران خان کووزیراعظم بنانے کادعویٰ کیاہے ۔عمران خان نے جہاں اپنی جماعت میں جہاں چوہدری سرور سے بیسیوں سیاسی بونوں کوبھی عزت دی وہاں باوفا شوکت علی اورمیاں اسلم اقبال سے متعدد معتمد ، باوفااورباصفا سیاستدان پی ٹی آئی کاہراول دستہ ہیں۔چوہدری سرور جواب دے اس نے کس آئینی اختیار کے تحت گورنر ہاؤ س کوسرورفاؤنڈیشن کاہیڈ آفس بنایا ہوا ہے ۔چوہدری سرور کا"سرورفاؤنڈیشن" کی فنڈریزنگ اوراس کے منصبوں کی تکمیل کیلئے اپنا سرکاری اثرورسوخ استعمال کرناایک بڑاسوالیہ نشان ہے۔



 

Muhammad Nasir Iqbal Khan
About the Author: Muhammad Nasir Iqbal Khan Read More Articles by Muhammad Nasir Iqbal Khan: 140 Articles with 90376 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.