خط کیا ہے؟
صفحہ۔
جس پر نیلی یا سیاہ روشناٸی سے لکھی تحریر ہو
پیغام۔
جو کسی کو بھیجا جاٸے
نامہ۔
گرامی نامہ۔۔۔ الطاف نامہ۔۔۔محبت نامہ۔۔۔شفقت نامہ۔۔۔والا نامہ۔۔۔
رابطہ۔
زندہ لوگوں کے مابین
اور خود ایک بے جان کاغذ
نہیں،
خط تو ذی حیات ہے!
اور اس پر لکھا ہر ایک لفظ ذی روح ہے
جیتا جاگتا۔۔۔۔ سانس لیتا۔۔۔۔ ہر طرح کے جذبات سے معمور
خط۔
جس کی آمد سے لگتا ہے کہ لکھنے والا بذتٍ خود ہم سے ملاقات کے لٸے آگیا ہو
اور جب بھجتے ہیں تو گویا ہم بھی اس کے ساتھ ہی چل پڑتے ہیں
یہ خط بولتا ہے۔۔۔ یہ خط سنتا ہے
کبھی ہنستا اور ہنساتا ہے
تو کبھی روتا اور خوب رولاتا ہے
خط وہ بھی بتاتا ہے جو وہ نہیں بول پاتے ہیں
اور خط وہ بھی سناتا ہے جو ہم نہیں سنا پاتے ہیں
اس کی سب سے نرالی خوبی تو یہ ہے
ایک بار آ ٸے تو واپس نہیں جاتا
جب جب ہمارا دل چاہتا ہے
ہم سے ملاقات دہراتا ہے
خط تو بہت بھلا مانس ہوتا ہے
کبھی نہ خفا ہوتا۔۔۔ نہ لڑتا ہے۔۔۔
شکوہ بھی کرے تو شست رو
اس کی فطرت میں چیخنا چلانا ہوتا ہی نہیں
دھیمے سے اپنا مدعا سناتا ہے
یہ تو بس دلوں کو قریب سے قریب تر لاتا ہے
اس کے ایک ایک لفظ میں احساس پُرے ہوتے ہیں
ہر احساس دل کی گہراٸی کو چھوتا ہے
یہ اوراق جو دِیکھنے میں بے رنگ ہیں
ان میں ہمارے پیاروں کے ان گنت رنگ بھرے ہوتے ہیں
ہر رنگ ہمیں اپنے رنگ میں رنگ دیتا ہے
کبھی ماضی۔۔۔ کبھی حال۔۔۔ کبھی مستقبل
خط تو ہر دور کو زندہ جاوید کر دیتا ہے
کبھی خط کو لوگوں کی نظروں سے چھپ چھپ کر پڑھا جاتا ہے
تو کبھی بھری محفل میں با آوازِبلند سنایا جاتا ہے
کچھ لوگ خط کو بارہا پڑھ کر بھی کچھ سمجھ نہیں پاتے ہیں
ہیں زمانے میں چند ایسے بھی جو لفافہ دیکھ کر ہی خط کا مضمون بھانپ جاتے ہں
اور اللہ بچاٸے ان لوگوں سے جو لکھا کچھ ہو اور وہ کچھ سے کچھ اور ہی بنا
دیتے ہیں
یہ خط بھی کتنا عجیب ہوتا ہے؟
اس کی خیر آوری سے ہمارے انتظار کا انجام ہوتا ہے،
پر یہی تو کسی اور کو انتظار کی سولی پر لٹکا کر آیا ہوتا ہے ۔
خط کے حسن کے آگے تمام حسنِ گفتگو ماند ہیں
تمام تر ملاپ تبادلٸہ خط کی لذت کمتر ہیں
اگرچہ زمانےکی طرزِ نو نے خط کے رواج کو کم کر دیا ہے
مگر خط نویسی آج بھی جاویداں ہے
خواہ تعلیمی نصاب میں ہی سہی
|