اس خاندان سے میرا تعلق دو عشروں سے زائد عرصے پر محیط ہے
ان کا سارا خاندان تجارت سے وابستہ ہے ، ایماندار، فرض شناس، خدا ترس اور
نمود و نمائش سے دور رہنے والے لوگ ہیں انہیں اور ان کے خاندان کو ہمیشہ
خیر کے کاموں میں پیش پیش پایا ہے یہ صفت اس فیملی کو اپنے بزرگوں سے
ورثےمیں ملی ہے ان کے والد گرامی حاجی محمود رحمت اللہ علیہ ایک بزرگ شخصیت
تھیں مجھے ذاتی طور پر تو ان سے کوئی زیادہ استفادے کا موقع نصیب نہیں ہوا
لیکن مولانا پیر برکت اللہ ربانی سمیت اکثر علماء کی زبانی انکے نصائح اور
خیر کے کاموں میں انکی دلچسپی کے تذکرے سن رکھے ہیں ۔ حاجی محمود رحمت اللہ
علیہ کا ایک منفرد کام قرآن مجید کے نسخوں کی تقسیم، مسنون دعاؤں کی کتب کی
اشاعت اور چھوٹی بڑی کتابوں کی طباعت کے علاوہ ان کی اندرون اور بیرون ملک
فری تقسیم ایک مقبول سلسلہ تھا - علماء و مشائخ ، طلباء و صلحاء سے تعلق اس
کے علاوہ تھا - اپنے بزرگوں کی یہ ترتیب ان کے نیک صاحبزادگان اب بھی جاری
رکھے ہوئے ہیں -
میرے بزرگوں کا ان کے بزرگوں کے ساتھ ایک دیرینہ تعلق تھا اور اس تعلق کو
برقرار رکھنے کی وہ اپنی اولاد کو وصیت کرگئے اور اس وصیت کی ان کی اولاد
آج بھی لاج رکھتی ہے -
صحافتی میدان میں ہونے کے باوجود سنیٹرطلحہ سے میرا کبھی کوئی خاص تعلق
نہیں رہا - البتہ بھائی محمد ہارون محمود سے میرا دو عشرے سے زائد کا تعلق
اور نسبت ہے یہ تقریبا بیس سال قبل کی بات ہے جب روزنامہ اسلام کی اشاعت کا
آغاز اسلام آباد سے ہونے جا رہا تھا میں پرجوش اور بہت جذباتی تھا کچھ
حالات اور وقت کی ضرورت بھی ایسی ہی تھی ایسے میں کبھی کبھار جب ہارون
بھائی سے ملاقات ہو جاتی تو وہ بہت ساری نصیحتیں فرماتے جنہیں میں ہوا میں
اڑا دیتا لیکن جب ٹھوکر کھائی تو ان کی نصیحتیں بہت یاد آئیں اور اس کے بعد
جب بھی ضرورت پڑی میں نے اپنے اس بڑے بھائی سے رہنمائی حاصل کی اور مجھے
الحمدللہ بہت فائدہ ہوا - طلحہ محمود ابھی سینیٹر نہیں بنے تھے تھے ان کے
حوالے سے بہت سارے واقعات سننے کو ملتے تھے یہ محنتی ، ایماندار ، مسلسل
سفر کرنے والے اور اپنے کاروبار پر توجہ دینے والے شخص تھے، ممکن ہے کہ ان
کی ذمہ داری بیرون امور کی ہو اور بھائی ہارون محمود کی دفتر اور فیکٹری کے
حوالے سے ذمہ داریاں ہوں کیونکہ میں نے ان دونوں بھائیوں کو کبھی ایک ساتھ
نہیں دیکھا - وقت کے ساتھ برادران کا کاروبار بہتر ہوا تو انہوں نے پراپرٹی
کے میدان میں بھی قسمت آزمائی شروع کی اس کاروبار میں بھی اللہ کریم نے
انہیں برکتیں عطا فرمائی -
خیر کے میدان میں تو یہ پہلے سے ہی صف اول میں میں نظر آتے تھے ، جس میں
یتامیٰ اور مساکین کی سرپرستی مستحق اور ضرورت مندوں کے علاج کے اخراجات ،
راشن اور نقدی کی تقسیم ، مستحق طلباء کی کفالت ، صحت اور تعلیم کے اخراجات
کے حوالے سے ذاتی طور پر تصدیق کے بعد جید علمائے کرام کے زیر نگرانی وسیع
انتظام -
گزشتہ سالوں میں صومالیہ، شام اور دیگر جنگ زدہ علاقوں کے فاقہ زدہ لوگوں
کے لئے بڑے پیمانے پر قربانی و دیگر انتظام خدمت کا ایک وسیع سلسلہ ہے جو
کئی تحریروں کا محتاج ہے
طلحہ محمود نے جب سیاست کے میدان میں قدم رکھا تو انہیں خوش آمدید کہنے کے
لیے کئی سیاسی جماعتیں استقبال میں کھڑی تھیں ، بے شمار سیاسی جماعتوں کی
قیادت کے ساتھ ان کے ذاتی تعلقات تھے اور میں جانتا ہوں کہ انہیں بہت ساری
جگہوں سے آفر بھی تھیں - لیکن انہوں نے علماء سے نسبت اور تعلق کی بنا پر
جمعیت علمائے اسلام پاکستان کا انتخاب کیا ورنہ ان کے لئے کسی سیاسی جماعت
میں جانا اور وہاں پوزیشن حاصل کرنا کوئی مسئلہ نہیں تھا - پھر وہ قائد
جمعیت مولانا فضل الرحمن کے شانہ بشانہ ہر مقام پر سب کو نظر آئے اور انہوں
نے سیاست برائے خدمت کی نہ کہ سیاست برائے شہرت ، علماء اور طلباء سے تعلق
اور نسبت انھیں وراثت میں ملی تھی جس پر انہیں فخر بھی تھا پھر قائد جمعیت
نے انہیں بجا طور پر ان کا حق بھی دیا اور ان سے جماعت کا کام بھی لیا -
ایسی ہی بھاری بھرکم اور پر اثر شخصیات سے جماعتوں کے وقار میں اضافہ ہوتا
ہے اور سیاسی طور پر جماعتوں کو ترقیاں ملتی ہیں - سیاست میں نعرے بھی
اہمیت رکھتے ہیں لیکن سیاسی بصیرت جو کردار ادا کرتی ہے وہ کایا پلٹ ہوتی
ہے -
گزشتہ روز سینٹ سے حکومت نے جو بل عجلت میں پاس کروایا وہ یقینا روٹین ورک
کا حصہ نہیں تھا اپوزیشن جماعتیں اس حوالے سے یکسو تھیں مگر حکومت نےٹھان
لی تھی کہ ہم نے بہرصورت اس بل کو پاس کروانا ہے جس کے لیے وہ موقعے کی
تلاش میں تھے اور کاروائی والے دن وزیر خزانہ کا بار بار ایوان میں آنا اور
جانا اس حوالے سے یہ ثبوت تھا کہ وہ کوئی اچانک سے ترتیب کی پوزیشن میں ہیں
۔
اس موقع پر صرف سینیٹر طلحہ محمود ہی ایوان سے غیر حاضر نہیں تھے بلکہ
اپوزیشن لیڈر کے علاوہ دیگر چند ممبران بھی غیر حاضر تھے سینیٹر طلحہ محمود
کی وضاحت اس حوالے سے کافی شافی ہے کہ ان کی ایک اہم سلسلہ میں پہلے سے
کراچی میں شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ کے ساتھ
مصروفیت طے تھی اور وہ جان بوجھ کرغیر حاضر نہیں ہوئے
ہمارا ٹی وی میڈیا ایک ہائپ کری ایٹ کرتا ہے جس سے اثر لے کر سوشل میڈیا پر
کردار کشی کی ایک نئی لہر وجود میں آتی ہے پوسٹ کرنے والا بغیر حقیقت جانے
پروپیگنڈے سے متاثر ہو کر اپنی نئی پوسٹ ڈال دیتا ہے یا کسی کی پوسٹ کو
شیئر کر دیتا ہے ہم جانتے ہیں کہ اس کام کا ہمیں کوئی فائدہ نہیں لیکن
فائدہ اٹھانے والے اس موقع کو بھی ضائع نہیں جانے دیتے ایڈورٹائزنگ میڈیا
مالکان کے مال میں اضافے کا سبب ہے اور ان کا ہمیشہ تقاضہ رہتا ہے کہ ہمیں
زیادہ سے زیادہ ایڈورٹائزنگ مل جائے ایسے میں وہ ایسے صاف ستھرے بزنس مین
کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ زیادہ سے زیادہ ایڈورٹائز کریں تاکہ ہم ان کے
حوالے سے پھلائی جانے والی خبروں کو روک سکیں لیکن حقیقی بزنس مین کا ایک
بجٹ ہوتا ہے جس سے زیادہ وہ ایڈورٹائزنگ نہیں کر سکتا اور اگر وہ اپنے بجٹ
سے آگے جائے گا تو اس کا نقصان عام صارف کو ہوگا -
سینیٹر طلحہ محمود ایک باکردار شخصیت ہیں جو کبھی بھی کسی بھی مشکل گھڑی
میں اپنی جماعت ، قیادت کی عزت اور کارکنوں کے ارمان کا سودا نہیں کریں گے
وہ اچھے خاندان سے تعلق رکھنے والے جرات مند اور دلیر انسان ہیں ۔ ہمیں ان
پر اعتماد رکھنا چاہیے سیاست میں خدمت کے جذبے سے سرشار لوگ کسی نعمت غیر
مترقبہ سے کم نہیں ہمیں چاہیے کہ ہم ان کی قدر کریں اور بلاوجہ کے
پروپیگنڈا سے متاثر نہ ہوں ۔ اللہ کریم ہم سب کو سمجھنے کی توفیق عطا
فرمائے آمین
|