الہ باد دھرم سنسدمیں یتی نرسنگھا نند اور جیتندر تیاگی
کی گرفتاری نے سادھو سنتوں کا دماغ درست کردیا۔ ان لوگوں نے اب ہندو سماج
کو بے ضرر کبوتر اور مسلمانوں کو جہادی بلی بتایا۔ اس طرح گرفتاری کے
ڈرسےایک خونی بھیڑیا بے ضرر کبوتر میں بدل گ اور اپنی سرکار کو دھمکی دینے
لگا کہ اگر یتی اور تیاگی کو ایک ماہ میں رہا نہیں کیاگیا تو اس کے خلاف
مسلح احتجاج ہوگاگویا پہلے دھرم یدھ کا دوست اب دشمن بن گیا۔ اس انقلاب کی
وجوہات کو سمجھنا ضروری ہے۔ ہری دوار کے دھرم سنسد کا بنیادی مقصد مسلمانوں
کو اشتعال دلانا اور پھر ان کے احتجاج کو انتظامیہ کے ذریعہ بزور قوت کچل
کر اس کا سیاسی فائدہ اٹھانا تھا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ مسلمانوں نے اتراکھنڈ
سمیت ملک کے مختلف شہروں میں احتجاج تو کیا لیکن مشتعل ہوکر تشدد کی کوئی
کارروائی نہیں کی کہ جس سے انتظامیہ کو سختی کرنے کا موقع نہیں ملا ۔ اس
طرح دھرم سنسداپنے اولین مقصدمیں ناکام ہوگئی۔ مسلمانوں کےاحتجاج نے یہ بات
بھی ثابت کردی کہ وہ اس طرح کی گیدڑ بھپکیوں سے خوفزدہ نہیں ہیں۔ مسلمانوں
نے اپنے ہر احتجاج میں بلا خوف و خطرنہایت پر وقار انداز میں فتنہ پرور
لوگوں کی گرفتاری کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے نہایت اعتماد کے ساتھ اسے قومی
امن و سلامتی کی خاطر خطرہ قرار دیا۔
دھرم سنسد کے منتظمین کے اندر ابتداء میں بلا کی خود اعتمادی تھی ۔الٹا چور
کوتوال کی مصداق وہ لوگ خود ہری دوار پولس تھانے میں پہنچ گئے اور مسلم
علماء کے خلاف ایک ایف آئی آر درج کروا دی۔ اس موقع کی ایک ویڈیو بھی
منظر عام پر آگئی جس میں وہ ملزم پولس افسران کے ساتھ ہنستے بولتے نظر
آرہے تھے ۔ سادھوی اناّ پورنا کو یہ کہتے ہوئے سنا جاسکتا تھا کہ آپ
لوگوں (پولس افسران) کی جانب سے یہ پیغام جانا چاہیے کہ انتظامیہ غیر
جانبدار ہے اور تفتیش بھی غیر جانبدارانہ ہونی چاہیے۔ یہ بات یتی نرسنگھا
نند کے گلے سے نہیں اتری تو وہ آگے بڑھ کر کہتا ہے غیر جانبدا رکیوں ؟
لڑکا تو ہماری طرف ہوگا ۔ گیروا لباس میں چھپے شیطانوں کے اچھل کود کی
بنیادی وجہ’ یہ اندر کی بات ہے پولس ہمارے ساتھ ہے‘ والی پرانی سوچ تھی۔ یہ
احمق نہیں جانتے کہ سرکار سے تنخواہ لینے والی پولس اسی کی وفادار ہوتی ہے۔
حکومت کوہمیشہ کرسی عزیز ہوتی ہے،اس لیے جب تک کسی سے سیاسی فائدہ ملتا
رہتا ہے تب تک اس کو گلے سے لگایا جاتا ہےمگرجب نقصان ہونے لگے تو اس کی
پیٹھ میں چھرا گھونپ دیا جاتا ہے۔ سادھو سنتوں کے ساتھ فی الحال یہی ہورہا
ہے۔
سنگھ پریوار نے اس الزام سے بچنے کے لیے کہ یہ نوٹنکی صرف بی جے پی کے زیر
انتظام ریاستوں میں کیوں ہورہی ہے ایک دھرم سنسد کانگریسی صوبے چھتیس گڑھ
میں رکھ دی ۔ یہ ان کی پہلی غلطی تھی مگر دوسری چوک یہ ہوئی کہ وہاں پر
کالی چرن مہاراج نے مسلمانوں کے ساتھ ساتھ گاندھی جی کے قتل کو بھی حق
بجانب ٹھہرا دیا ۔ بی جے پی والے جانتے تھے کالی چرن کو گرفتار کرنا وزیر
اعلیٰ بھوپیش بگھیل کی مجبوری ہے اور جب وہ ایسا کریں گے تو ملک بھر کے
ہندو عوام کو یہ فرق بتایا جائے گا کہ ان کی سرکار تو سادھو سنتوں کا تحفظ
کرتی ہے اس کے برعکس کانگریس انہیں جیل بھیجتی ہے۔ اس لیے کہ وہ ہندو دھرم
کی دشمن ہے۔سنگھ پریوار کو یہ توقع تھی کہ کالی چرن کی گرفتاری کے خلاف
ہندو عوام سڑکوں پر اتر بی جے پی کے حق میں فضا بنائیں گے لیکن الٹا ہوگیا
۔ گاندھی جی کی حمایت میں ہندو سماج سڑکوں پر آگیا اور اس نے مسلمانوں کی
نسل کشی کی بھی مذمت شروع کردی ۔ اس طرح بازی الٹ گئی ۔
اس دوران حکومت مخالف میڈیا دھرم سنسد کی ٹیلی ویژن ، اخبارات اور سوشیل
میڈیا میں خوب جم کر مخالفت کی۔ اس طرح یہ معاملہ قومی سطح سے اٹھ کر عالمی
بن گیا ۔ دنیا کے بڑے بڑے اخبارات میں اس پر تبصرے ہونے لگے ۔ اقوام متحدہ
تک نے اس کا نوٹس لیا۔ امریکہ کے اندر نسل کشی کے خلاف کام کرنے والی تنظیم
’جینو سائیڈ واچ ‘ نے اسے امریکی ایوان پارلیمان میں اٹھانے کا اعلان کردیا
اور دنیا بھر میں ملک کی شبیہ بگڑتی چلی گئی۔ حکومت ہند کے اہم ترین ذمہ
دار صدر مملکت ،وزیر اعظم اور وزیر داخلہ نے تو اس پر پراسرار خاموشی بنائے
رکھی مگر نائب صدر وینکیا نائیڈو اور وزیر مواصلات نتن گڈکری نے کھل کر
مخالفت کی ۔ اس کے بعد مختلف سادھو سنتوں کی جانب سے اس دھرم کی تنقیدکی
یہاں تک کہ سنگھ کے بغل بچہ وشو ہندو پریشد کے سربراہ نے بھی اس سے دامن
جھاڑ لیا اور نسل کشی جیسی دھمکی کو ہندو مذہب کے خلاف بتایا ۔
ان کے علاوہ ملک کے نامور وکلاء نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو خط لکھ کر اس
نفرت انگیزی پر از خود توجہ دینے کی درخواست کی ۔ دانشوروں کی بہت بڑی
تعداد نے صدر مملکت کو خط لکھ کر اسے ملک و قوم کے لیے خطرناک قرار دیا۔
سابق فوجی سربراہوں نے فوج کو قتل عام پر اکسانے پر شدید برہمی کا اظہارکیا
۔ بالآخر اس کے خلاف عدالت عظمیٰ میں مفادِ عامہ کے تحت مقدمہ درج ہوگیا
اور عدلیہ کی جانب سے اتراکھنڈ پولس کو نوٹس جاری کرکے جواب طلب کیا گیا۔
اس کے بعد مجبوراً اتراکھنڈ پولس کوحرکت میں آکر اگلی سماعت سے قبل
کارروائی کرنی پڑی ۔ سب سے پہلے نرم چارہ جیتندر تیاگی کو گرفتار کیا گیا ۔
آگے چل کر اسے بچانے کی خاطر دھمکیاں دینے اور بھوک ہڑتال کرنے والے
نرسنگھانند کو بھی جیل کی سلاخوں کے پیچھے ٹھونس دیا گیا اس طرح ساری ہیکڑی
نکل گئی۔
اس دوران پہلے تو غازی آباد کے ڈاسنا اور بعد میں علی گڑھ کی دھرم سنسدپر
بھی روک لگادی گئی ۔ یہ کس قدر شرمناک بات ہے کہ یکم جنوری کو ڈاسنا میں
جہاں دیوی مندر کا سربراہ یتی نرسنگھانند ہے۔ وہ خود اپنے علاقہ میں دھرم
سنسد نہیں کرسکا جبکہ 6؍ جنوری کو بریلی کے عیدگاہ میدان میں زور شور کے
ساتھ مسلم دھرم سنسد کا اہتمام مولانا توقیر رضا خان نے کردیا۔ اس کے
سادھوی اناّ پورنا جو علی گڑھ کی رہنے والی ہیں اور ہر سال بڑے فخر سے
گاندھی جی کی برسی پر ان کی تصویر کو گولی چھنی ّ کرکے اس کی ویڈیو نشر
کرواتی ہیں ۔ وہ گاندھی کے سزا یافتہ قاتل ناتھورام گوڈسے کی تعریف و توصیف
کرنے میں بھی کوئی قباحت نہیں محسوس کرتیں مگر اپنے ہی علاقہ میں دھرم سنسد
منعقد کرنے میں ناکام رہیں۔
یوگی کی دبنگ شبیہ پر یہ بدنما داغ ہے کہ ان کے وزیر اعلیٰ ہوتے اترپردیش
دھرم سنسد نہیں ہوپائی۔ یوپی کے نائب وزیر اعلیٰ کیشو پرشاد موریہ نے بی بی
سی کے ساتھ اپنے انٹرویو میں دھرم سنسد پر تنقید کرنے کے بجائے صاف طور پر
کہا تھا کہ سادھو سنتوں کو اپنے اسٹیج سے اپنی بات رکھنے کا حق ہے ۔ یعنی
ان کے سارے اعلانات حق بجانب ہیں ۔ یہ پوچھے جانے پر کہ کشمیری طلباء کوتو
پاکستان کی جیت پر خوش ہونے کے نتیجے میں ملک کا باغی قرار دے دیا گیا مگر
سادھو سنتوں کو نسل کشی کی دھمکی کے باوجود چھوڑ دیا گیا وہ آپے سے باہر
ہوگئے۔ انہوں نے اپنا مائیک کھول کر پھینک دیا ۔ بی بی سی ترجمان کو
مخالفین کا ایجنٹ قرار دے کر اس سے ویڈیو ڈیلیٹ کروادی لیکن جب دباو آیا
تو سارے انجر پنجر ڈھیلے ہوگئے ۔ وہی اترپردیش اور اتراکھنڈ کی حکومتیں جو
کل تک بلواسطہ یا بلاواسطہ دھرم سنسد کی حامی تھیں اب مخالفت پر اتر آئیں
۔
بی جے پی کے اس بدلے ہوئے رخ سے دھرم سنسد میں شریک ہونے والے سادھو سنت
اپنے آپ کو ٹھگا ہوا محسوس کررہے ہیں۔ ان سنتوں نے دھرم سنسد میں اشتعال
انگیز تقریر کے معاملے میں جتیندر نارائن تیاگی اور اس کے خلاف احتجاج کرنے
والے یتی نرسنگھا نند کی گرفتاری کے خلاف ہری دوار میں ’پرتیکار سبھا‘
(احتجاجی پروگرام) کاانعقاد کرکے بی جے پی ریاستی حکومت کی مذمت کی۔ دھرم
سنسد کے آرگنائزر سوامی آنند سوروپ کے مطابق گرفتارشدہ جتیندر نارائن تیاگی
سماجی نقطہ نظر سے اونچامقام رکھتے ہیں اور مہامنڈلیوشوریتی نرسنگھا نند
گری قابل احترام سنت ہیں۔ انہوں نے الزام لگایا سنتوں کے خلاف جس طرح سے
مقدمے درج کرنا اور حکومت کا دباؤ بنانے کے لیے آناً فاناً ایس آئی ٹی
تشکیل دینا اس بات کا عکاس ہے کہ سنتوں کے خلاف ایک سوچی سمجھی سازش ہو رہی
ہے۔ اس کے تحت انتظامیہ بھی سادھوؤں کو خوفزدہ کرنے کی کوشش کررہا ہے ۔ اب
یہ حالت ہے کہ بی جے پی جن سادھو سنتوں کے ذریعہ ہندو عوام کو اپنے قریب
کرنے کی منصوبہ بندی کررہی تھی وہ خود اس کے خلاف ہوگئے ہیں یعنی فرقہ
وارانہ دھرم کرم کا یہ مکروہ کھیل ا یک عبرتناک انجام سے دوچار ہوگیا ہے۔
ایسے میں میرتقی میر کا یہ شعر یاد آتا ہے؎
الٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا
دیکھا اس بیماری دل نے آخر کام تمام کیا
(۰۰۰۰۰۰۰جاری)
|