چور اور چوکیدار
کرپشن کا لفظ وسیع مفہوم رکھتا ہے۔ اْردو میں اس کے معنی ببد عملی،
بدعنوانی،بگاڑ و بد اخلاقی ہیں۔ کرپشنکوہر زبان، ہر ملک اور ہر معاشرے میں
گھناؤنے اور منفی کاموں کے لیے بولا جاتا ہے اور ناپسندید کیا جاتا ہے
عمران خان اقتدار میں آنے سے پہلے زرداری اوشریف خاندان کوچورکہتے نہیں
تھکتے تھے مگراقتدارکے بعدانہی کے نقش قدم پرچل نکلے ہیں اوراپنی حکومت کی
ہر کمزوری کا الزام انہی دونوں سیاست دانوں پر ڈالتے ہیں۔ ان دونوں کا دور
حکومت اچھانہیں تھامگرتبدیلی توان دونوں کے ادوار سے بھی بدتر بلکہ بدترین
ہے۔ملک میں بے روزگاری لاقانونیت اورکرپشن میں اضافہ جیسی اتنی بڑی خرابی
کے باوجود وہ کرسی چھوڑنے کانام نہیں لے رہے سب یہی کہتے ہیں کہ عمران خان
کوفوج لے کرآئی ہے اوراب وہ وقت آچکاہے جبفوج کو یہ سوچنا ہوگا کہ اگر عوام
نے عمران خان کی اس سوچ کے مقابلے میں کوئی رد عمل دکھایا فوج کے لیے
مشکلات پیدا ہوں گی۔ اس لیے کہ جنرل ایوب خان نے مارشل لا لگایا تھا،
قائداعظم کی بہن محترمہ فاطمہ جناح کے مقابلے میں الیکشن لڑا تھا، تو عوام
میں جنرل ایوب خان کے لیے نفرت پیدا ہونا شروع ہوگئی تھی اور پھر جب ایوب
خان کے خلاف جلوس نکلے تو ان میں ایوب کتا ہائے ہائے کے نعرے لگے جسے ایوب
خان برداشت نہیں کرسکے۔ جنرل یحییٰ خان کے بارے میں قوم کے کیا احساسات و
جذبات ہیں۔ جنرل ضیاء الحق کے دور اقتدار میں 1986 میں لاہور میں بے نظیر
بھٹو کا نہایت شاندار تاریخی استقبال ہوا تھا جو فوجی حکومت کے خلاف واضع
نفرت ہے۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں 2007 میں فوجی حکومت ہونے کے باوجود
مزاحمت شروع ہوگئی تھی، وکلا تحریک دراصل فوجی آمریت کے خلاف عوامی ردعمل
کا اظہار تھا۔ اس لیے اب اگر فوج عمران خان کی پشت پناہی کرتی ہے تو وہ
گزشتہ ادوار پرضرور نظرثانی کرے موجودہ دور حکومت میں صرف پناہ گاہیں ہی
بنائی گئی ہیں۔ احساس پروگرام کے نام پر پاکستان کے عوام کو بھکاری بنایا
گیا ہے۔ ہیلتھ کارڈ کے نام پر انشورنس کی رقم بٹورنے کا دھندہ کیا گیا ہے۔
کوئی ایسا منصوبہ نہیں بنایا گیا ہے جس سے پاکستان کے عوام کا معیار زندگی
بلند ہو، ناقص اور احمقانہ بلکہ ملک دشمن اقتصادی پالیسیوں سے ملک کو
دیوالیہ کردیا ہے۔ آئی ایم ایف کی شرائط میں حکومتی اخراجات کو نصف سے بھی
کم کرنے کی شرط بھی تھی لیکن اسے دانستہ نظر انداز کیا گیا۔ بدعنوانی کے
خلاف عالمی سطح پر جدوجہد کرنے والی تنظیم ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی طرف سے
سال 2021 کے لیے گلوبل کرپشن انڈکس جاری کردیا گیا ہے ، جس کے مطابق
پاکستان ایک سو اسی ممالک میں ایک سو چالیس ویں نمبر پر ہییعنی اس رپورٹ کے
مطابق پاکستان میں کرپشن بڑھی ہے۔اس رپورٹ کاایسے وقت میں جاری ہونا جب
وزیر اعظم عمران خان کی قیادت میں پی ٹی آئی کی حکومت کو مہنگائی، بے
روزگاری اور اپوزیشن کی تحریک سمیت کئی طرح کے چیلنجوں کا سامنا ہے۔ موجودہ
حکومت اکثر و بیشتر دعویٰ کرتی رہی ہے کہ وہ ملک سے بدعنوانی کے خاتمے کی
سر توڑ کوششیں کر رہی ہے یقینایہ رپورٹ حکومت کیلئے ٹارچرسیل ہے جس کے
افسران اپوزیشن کے نمائندے ہیں قارئین سال 2019 میں پاکستان 120 ویں نمبر
پر تھا۔ اگلے سال 124ویں نمبر پر چلا گیا تھااوراب 140ویں نمبرپرہے۔
ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل نے جاری کردہ اپنی سالانہ رپورٹ میں متعدد ممالک میں
کی جانے والی بدعنوانیوں کی نشاندہی اور اْن کی درجہ بندی کی تھی، تاہم
پاکستان کے حوالے سے جو رپورٹ جاری کی گئی، اْس کے مطابق پاکستان میں ہر
سال کرپشن میں اضافہ ہو رہا ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان کی صورت حال
انتہائی مایوس کن ہے۔ مقام افسوس ہے کہ ہم ہر شعبے میں تنزلی کا شکار ہو
رہے ہیں۔اس کانتیجہ یقیناً اچھاثابت نہ ہوگاکیونکہ اس پارٹی نے بدعنوانی کے
خلاف جنگ کا اعلان کر کے ہی سیاست میں حصہ لیا اور عمران خان نے دعویٰ کیا
تھا کہ وہ کرپشن کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں گے مگریہاں گیم ہی الٹی چل پڑی
یعنی لگتاہے چورکوہی چوکیداربنادیاہے اقوام متحدہ کے آفس برائے ڈرگز اینڈ
کرائم کے مطابق ’’کسی بدعنوان ملک میں سرمایہ کاری بد عنوانی سے پاک ملک
میں سرمایہ کاری کی نسبت 20 فیصد زائد مہنگی پڑتی ہے اگرگزرے کل
پرنظردوڑائی جائے توملک میں کرپشن کا آغاز پرچی سسٹم سے شروع ہوا، جب پہلے
پہل کوئی بھی بااختیار بندہ کسی اپنے دوست رشتے دار کو پرچی لکھ کر دیتا
اور اسی پرچی کے اوپر اس کا کام ہو جایا کرتا تھا، اس کے بعد کا دور ٹیلی
فون کا آیا جب پرچی کو چھوڑ کر دور جدید کی ایجاد ٹیلی فون کا سہارا لیا
جاتا اور اقربا پروری کرتے ہوئے کوئی آفیسر یا با اختیار آدمی اپنے زیر اثر
کام کرنے والے سے اپنے عزیز واقارب کے کام کروا لیے کرتے تھے، یہی اقرباء
پروری بڑھتے بڑھتے نوٹوں کی صورت اختیار کر گئی جس میں سائل کا کام اسی
صورت میں ہوتا جب وہ اپنے کام کے لیے کام کرنیوالے کو مٹھائی کے پیسے دیا
کرتے۔ جوآج کرپشن میں تبدیل ہوچکی ہے،ہمارے یہاں ایف بی آر ، نیب، اینٹی
کرپشن ، پبلک اکاؤنٹس کمیٹیاں ، آئی بی ، ایف آئی اے اور نجانے کون کون سے
ادارے اور کون سی ایجنسیاں موجود ہیں لیکنسب ہی اپنی جیبیون اورتعلق جوڑنے
میں لگے ہیں کرپشن ، بد عنوانی پاکستان کا مسئلہ ہی نہیں ہے، بلکہ یہ بین
الاقوامی مسئلہ ہے۔ کیونکہ برائیاں اس کی کوکھ سے جنم لیتی ہیں۔ کرپشن
اعلیٰ اقدار کی دشمن ہے، جو معاشرے کو دیمک کی طرح چاٹ کر اندر سے کھوکھلا
کر دیتی ہے۔ چاہے یہ کسی بھی صورت میں ہو، جس قوم میں جتنی زیادہ کرپشن ہو
وہ قوم اتنی ہی جلدی بربادی کے گڑھے میں جا گرتی ہے، اگر کسی قوم کے رگ و
پے میں کرپشن سرایت کرجائے تو وہ اپنی شناخت و ساخت اور مقام و مرتبے سے
یوں ہاتھ دھو بیٹھتی ہے، جیسے کوئی بلند مقام کبھی اس قوم کو ملا ہی نہیں
تھا۔اگر حکومتی سطح پر سنجیدہ حکمت عملی نہ بنائی گئی تو 2025 تک ملک کا
شمار اخلاقی، سیاسی، اقتصادی اور سماجی لحاظ سے دنیا کے سب سے زیادہ تباہ
حال ممالک کی اوّل صف میں ہوجائے گا۔ کرپشن کے خاتمہ کا بہترین حل خوفِ خدا
اوراپنے احتساب سے ہوگاتب جاکرکرپشن میں کمی آئے گی اورہرایک کے چہرے
پرمسکان نظرآئیگی۔
|