بجلی اس وقت بنیادی ضرورتوں میں شامل ہے۔ بجلی کے بغیرنہ
موبائل چل سکتاہے نہ ہی کمپیوٹرنہ ہی فیکس مشین اورنہ ہی اخبار پبلشن کرنے
والی مشین یعنی بجلی کے بغیر ہر نظام مفلوج ہوجاتا ہے۔ بجلی پاکستان کی
معشیت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ بجلی نہ ہونے کی وجہ سے ملکی
معشیت تباہی کے دھانے پر کھڑی ہے۔ مگرآئے روز بجلی کے یونٹس ریٹ بڑھاکرعوام
کوبجلی کے جھٹکے دیئے جاتے ہیں اگربات کروں بیروزگاری کی تووہ بھی پاکستان
کی ترقی میں حائل ہے۔پاکستان کو بیروزگاری پر قابو پانے کے لیے اہم اقدامات
کرنا ہونگے۔ملک میں روزگار کے مواقع پیدا کرنے ہونگے۔عوام نے ان سیاستدانوں
کوووٹ دے کراپناوعدہ تونبھاتے ہیں مگرحکمران ہمیشہ بھول جاتے ہیں ہم نے
سوچاتھاتبدیلی حکومت عوام کو خوشیاں دے گیمگراس نے عوام کو خودکشی پر مجبور
کردیاہے؟ اے پاکستان کے حکمرانو ذرا سوچو ! عوام تو ہر حال میں تمھارے ساتھ
چلتی ہے اور تمھارے دکھائے ہوئے خوابوں کو حقیقت سمجھ بیٹھتی ہے اور ایک
نئی امید لگا کر تمھارے شانہ بشانہ کھڑی ہوتی ہے مگرتم لوگ ہمیشہ اس کے
ساتھ دھوکہ کرجاتے ہویہاں تک کہ جب ملک پر کوئی برا وقت آیا تو عوام نے دل
کھول کر ان سیاستدانوں کا ساتھ دیا ، ڈیم فنڈنگ ہو،قرض اتارو ملک سنوارو
پروگرام ہوکرونامیں راشن فراہمی ہو یا شوکت خانم کینسر ہسپتال کی تعمیر
،سیلاب زدگان کی مدد ہو یا زلزلہ زدگان کا دکھ ، پاکستان کی عوام نے دل
کھول کر اس میں چندہ دیا حتیٰ کہ ماں بہنوں نے اپنے زیور تک ان کو دے دیے۔
کیا یہ حکمران کبھی عوام کی طرف سچے دل سے سوچیں گے؟ کیا عوام کی پریشانیاں
حکمران سمجھ سکیں گے؟ کیا یہ سیاستدان عوام کے دلوں میں اپنا اعتبار ،
بھروسہ اور اعتماد پیدا کرسکیں گے؟ عام آدمی مہنگائی کے عذاب میں مبتلا ہے
اسے دو وقت کی روٹی کیکیلئے ڈبل ٹرپل جاب کرناپڑتی ہے مگر اپوزیشن ہو یا
حکومت اس کی ترجیحات میں عام آدمی شامل ہی نہیں۔ خان صاحب اپنیوزیروں
مشیروں کو حکم دیتے ہیں شریف خاندان کی کرپشن کا ڈھنڈورا پیٹیں اور اپوزیشن
کہتی ہے نالائق حکومت گھر جائے۔ 74 برسوں میں تمام سیاسی جماعتوں اور
سیاستدانوں نے عام آدمی کے نام پر ہی سیاست کی ہے۔ انہی لوگوں کے کاندھوں
پر سوار ہو کر اقتدار حاصل کیا ہے مگر کبھی اس کی حالت بدلنے کا نہیں سوچا،
سوائے سنہرے خواب دکھانے کے شایداس لیے کہ حالت بدل گئی تو یہ عام آدمی ان
کا محتاج نہیں رہے گا، کوئی بھی سیاسی پارٹی ہوکبھی کبھی تو یوں لگتا ہے
جیسے یہ اشرافیہ کی سازش ہے، عام آدمی کو خاص نہ بننے دو، اس اشرافیہ میں
وہ سب شامل ہیں جو اقتدار کی بندر بانٹ میں شریک رہتے ہیں، سیاستدان،
اسٹیبلشمنٹ، سرمایہ دار اور استحصالی طبقے، اس ایک نکتے پر متفق ہیں عوام
کو آگے نہیں آنا چاہئے، انہیں سوتے رہنا چاہئے جاگ گئیتوہماراکچھ نہیں بچے
گاکچھ دن پہلے میراایک شادی میں جاناہواجس میں ن لیگ پیپلز پارٹی جماعت
اسلامی تحریک انصاف کے نمائندے شامل تھے وہ ایک دوسرے کے ساتھ تصاویریں
بنوارہے تھے اورایک دوسرے سے ایسے ہنس رہے تھے کہ مجھے تومحسوس ہواوہ اس
لیے ہنس رہے ہیں کہ وہ باہرعام آدمی کوکیسے بے وقوف بناتے ہیں اورایک دوسرے
کوگالیاں دیتے ہیں مگرادھرتوماحوال ہی الگ تھاعمران خان جوخواب دیکھاتے تھے
ایسے لگتاتھاعام آدمی کامسیحاہے مگر اس ملک میں شروع دن سے پالیسیاں صرف
خواص کو فائدہ پہنچانے کے لئے بنتی عوام کو ریلیف دینے کا کوئی ایک فیصلہ
بھی اپنے انجام کو نہیں پہنچتا درمیان ہی میں غائب کردیاجاتا ہے۔ اگرتازہ
بات منی بجٹ خواص کا ہے عوام کا نہیں صرف اپوزیشن خودکی سیاست کیلئے احتجاج
کرتی ہے مگراس کے باوجود ہربار بجٹ پاس بھی ہوجاتے ہیں۔ البتہ ہر حکومت یہ
ڈھنڈورا ضرور پیٹتی ہے اس نے عام آدمی کا خیال رکھا۔بات جب انصاف کی آتی ہے
تواشرافیہ آپس میں دیل کرلیتے ہیں اوردوسری طرف ظلم بھی ڈھایا جاتا ہے، وہ
مظلوم جو کسی خاص آدمی کے خلاف انصاف کا دروازہ کھٹکھٹاتا ہے، اسے نشانِ
عبرت بنا دیا جاتا ہے کیونکہ عام آدمی کوایسے ہی انصاف ملنے لگ جائے توان
کے ڈیرے سنسان نہ ہوجائیں ہمارا نظامِ انصاف، ہماری عدالتیں، ہماری پولیس
یہ کام نہیں ہونے دیتیں، ان کے پلڑے کا جھکاؤ ہمیشہ طاقت ورکی طرف
ہوتاہے۔پاکستان تحریک انصاف نے 2013میں کئی نئے لوگوں کوموقع دیامگرہم عوام
کوکہاں سمجھ ہم باربارالیکٹیبلز کوآگے لے آتے ہیں حالانکہ یہ الیکٹیبلزجس
جماعت میں جاتے ہیں، جیت کر اسے اقتدار میں لے آتے ہیں اپناوزن قدوکاٹھ
بڑھانے کیلئے بھول جاتے ہیں کہ انہیں جتواکس نے۔ یہ جانتے بوجھتے ہوئے بھی
کہ ان کا دین ایمان اقتدار ہے، انہوں نے عوام کے لئے کچھ نہیں کرنا، صرف
اپنے مفادات دیکھنے ہیں اور تجوریاں بھرنی ہیں۔ پاکستان میں کئی اسمبلی
ممبران دیکھے جوپانچ پانچ مرتبہ اسمبلی کے رکن بن گئے مگران کے حلقے کی
حالت دیکھیں تو پسماندگی اور محرومیاں منہ چڑا رہی ہوتی ہیں۔ عوام کرے بھی
توکیاکرے عوام ان کا گریبان نہیں پکڑتے، انہیں کٹہرے میں کھڑے نہیں کرتے کہ
تم نے ہمارے لئے کیا ہی کیا ہے تمہیں بار بار منتخب کیوں کریں عوام کی
خاموشی کی وجہ سے وہ باربار عوام کو بے وقوف بنا کر منتخب ہو جاتے ہیں
عمران خان نے کئی وعدے کئے مگرابھی تک کوپانچ فیصدبھی پورانہ کرسکے پراگرس
دیکھیں تومینس زیروکی طرف جارہی ہے پہلے نوے دن میں تبدیلی کاکہتے تھے نوے
دن کے بعدتین سودن پھرایک سال اب کہتے ہیں تیس سال کے بگاڑکوٹھیک کرنے
کیلئے پانچ سال بھی کم ہیں یعنی وہ سوچ رہے ہیں انہیں پھرسے موقع ملناچاہیے
جوکہ ہوناناممکن ہے ۔
|