کراچی میں امن ،کس طرح ممکن

گزشتہ روز پاکستان پیپلز پارٹی، متحدہ قومی موومنٹ ، اے این پی، سنی تحریک، مسلم لیگ فنگشنل، مسلم لیگ قاف نے مشترکہ طور پر پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ کراچی کے بگڑتے ہوئے حالات کے سبب ہم سب سیاسی جماعتیں ملکر یکجہتی کا ثبوت دیتے ہوئے کراچی میں امن کی درخواست لیکر کٹی پہاڑی اور دیگر متاثرہ علاقوں میں درپیش دہشت گردی، لوٹ مار اور ٹارگٹ کلنگ کے خاتمے کیلئے اپیل کریں گے تاکہ کراچی کے رہائشی امن و سکون کی زندگی گزار سکیں۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ دہشت گرد اگر کسی بھی سیاسی تنظیم سے تعلق نہیں رکھتے تو حکومت وقت اور سیاسی جماعتیں ان کے سامنے اس قدر کمزور اور بے بس کیوں ہیں ؟؟ کیوں نہیں ان کے خلاف سخت ایکشن لیا جاتا اور ان علاقوں سے سرچ آپریشن کے ذریعے اسلحہ و بارود سلب کیا جاتا آخر کیا محرکات ہیں جو ان دہشت گردوں کو قانون کے شکنجے میں قید نہیں ہونے دیتے اور ان کا نیٹ ورک تباہ و برباد نہیں کرتے؟؟؟ حیرت تو یہ ہے کہ یہ حکومت وقت ان دہشت گردوں سے اپیل کررہی ہے گویا آج کی حکومت مکمل طور پر نا کام ہوچکی ہے جو ان دہشت گردوں سے امن کی بھیک مانگ رہی ہے اگر یہ امن کی اہمیت کو سمجھتے ہوتے تو ہرگز یہ دہشت گردی میں ملوث بھی نہیں ہوتے۔۔ یا پھر یہ ان سیاسی جماعتوں کا ڈرامہ ہے جو جانتے بھوجتے ہوئے بھی ان کی روک تھام کیلئے مضبوط اور جامع منصوبہ بندی نہیں کر رہے ہیں ۔ حالیہ دہشت گردی کے واقعات پر میڈیا نے ان سیاسی جماعتوں اور خاص کر موجودہ حکومت کی قلعی کھول دی ہے کیونکہ انتظامیہ جس میں پولیس اور رینجرز سب کچھ ہوتے ہوئے منہ تکتی رہیں جب عوام نے اپنی حفاظت کیلئے ان سے اپیل کرتی رہی اور یہ تماشائی بنے دیکھتے رہے جب عوام نے ان سے ان کی بے حسی و بے بسی کی وجہ دریافت کی تو نے کہنا کہ ہمیں آڈر نہیں ہے کہ ہم ان دہشت گردوں کے خلاف کاروائی کریں !!! یہ کس ملک کی انتظامیہ ہے جو اپنے سامنے اپنی ہی قوم کو نہتے دہشت گردوں کے ہاتھوں موت کے منہ میں جاتا دیکھتی رہی ، بچیاں اور بچے بھوک سے بلکتے رہے، عورتیں خوف کے مارے بے ہوش ہوگئیں ، جوانوں کو چن چن کر ہلاک کیا جاتا رہا ، عورت کی تقدس کو پامال کیا گیا، ایس جمہوری حکومت جو عوامی مینڈیٹ کا دعویٰ کرتی پھرتی ہے وہ ہی اپنے عوام پر شب خون مار رہی ہے اور حیرت تو یہ ہے کہ کراچی بلکہ سندھ کی دوسری بڑی سیاسی جماعت نے کئی دن گزرنے کے بعد اپنے دفاتر سے بیانات کے ذریعے مذمت تو کی لیکن جائے واقعہ پر پہنچنے کی زحمت کیوں نہیں کی اور ان کے حملے کو بے بس کیوں نہیں کیا گیا ، عوام کا کہنا ہے کہ وہ کراچی کے مستقلا رہائش پزیر ہیں اور ان دہشت گرد وں کی پشت پناہی اے این پی کر رہی ہے میڈیا نے عوام کے ان بیانات کی حقیقت بھی پیش کردی لیکن تمام حقائق آنے کے باوجود حکومت وقت نے حلیف جماعت ہونے کی خاطر اس سلسلے میں سخت جواب طلبی نہیں کی ، یہی وجہ ہے کہ آج تک سلسلہ قتل و غارت کا بازار چلتا چلا آرہا ہے ، اور کراچی کی منتخب جماعت نے حکومت وقت کے ساتھ امن ریلی میں شمولیت اختیار کی تو عوامی حلقوں میں بازگشت اٹھی کہ کیا یہ بھی ان سے ملے ہوئے ہیں جو مکارپن، عیارپن، منافقت اور جھوٹ کے پلندے کے ساتھ میڈیا میں حکومت وقت اپنی ذمہ دایوں کی کوتاہی کو چھپانے کیلئے ناکام کوشش کررہی ہے جس روز امن ریلی کا انعقاد ہوا اس روز بھی تقریبا بیس سے زائد افراد بے گناہ ہلاک ہوئے، پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)، عوامی مسلم لیگ(اے ایم ایل)، پاکستان مسلم لیگ نون(پی ایم ایل نون)، آل پاکستان مسلم لیگ(اے پی ایم ایل ) نے حکومتی عوامل پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومتی ریاستی دہشت گردی میں معاون بنی ہوئی ہے اور ان کی حلیف جماعتوں کے کارکنان کراچی کے ماحول کو مسلسل پرگندہ کیئے ہوئے ہیں ، ان جماعتوں نے مزید کہا ہے کہ کراچی کی منتخب جماعت کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ کراچی میں امن قائم کرنے کیلئے اپنا بھرپور کردار ادا کریں نہ کہ صرف بیانات ۔۔۔۔!!!سن دوہزار گیارہ کے دوران ایک اندازے کے مطابق بارہ سو افراد لقمہ اجل ہوچکے ہیں جن کا تعلق کسی سیاسی جماعت سے نہ تھا ،یوں کراچی میں آئے روز مزدور، ملازم پیشہ افراد نا معلوم گولیوں کا شکار بنتا جارہا ہے ، نہ بازار محفوظ، نہ راستے اور اب تو ہسپتال بھی غیر محفوظ دکھائی دیتے ہیں ۔۔۔۔۔ ایک تحقیق کے مطابق اٹھائیس فروری دو ہزار آٹھ سے اب تک کراچی میں دہشت گردی کی وارداتوں میں بیس ہزار سے زائد اموات ہوئی ہیں اور اڑتالیس ہزار افراد معذوری کے باعث اپاہج ہوگئے ہیں ، تین سال کراچی کے منتخب نمائندگان حکومت میں شامل رہے لیکن ان کی موجودگی بھی لاحاصل تھی ،لیکن جب کراچی کی نمائندہ جماعت نے حکومت کی ہٹ دھرمی ، ظلم و ستم اور طوطا چشمی کی بناءپرناطہ توڑا تو انہیں چایئے تھا کہ ان کے غلط اقدامات پر سخت گھیرا کردیتے اور مجبور کرتے کہ حکومت وقت اپنے اقدامات کی درستگی کو اپنائے لیکن وعملی طور پر ایسا ہوتا نظر نہ آیااور حزب جماعتوں نے کہا کہ کراچی کے منتخب نمائندگان بھی اس وحشت و بربریت کا حصہ بنی ہے ، ان کا کہنا ہے کہ ایوان میں امن و سلامتی کیلئے بل کیوں نہی پیش کیئے گئے گر حکومت نہ مانتی تو عدلیہ سے رجوع کرتے ۔۔۔۔۔ مسلم لیگ نون، پاکستان تحریک انصاف ، آل پاکستان مسلم لیگ اور عوامی مسلم لیگ نے سپریم کورٹ سے اپیل کی ہیں کہ حکومت وقت کو ریاست میں دہشت گردی پھیلانے سے باز رکھے یا دہشت گرد کی پشت پناہی سے باز آجائے بصورت آئینی اقدامات کو اپنائے تاکہ ملک میں امن قائم ہو اور معیشت بڑھے۔ ۔۔۔ عوامی حلقوں نے سیاستدانوں کی منافقت، بے حسی اور ذاتی مفادات کے تحت ساز باز پر سخت تنقید کی ہے ،عوام کا کہنا ہے کہ کراچی کا امن کو قائم کرنے کیئے ہم نے جن لوگوں کو ووٹ دیئے ہیں ان کی زمہ داری بنتی ہے کہ وہ کراچی کے عوام کو مستقل بنیادوں پر امن کیوں نہیں فراہم کرسکے اور زندگی کی بنیادی ضرورتوں سے کیوں منہ موڑا گیا ہے ، کے ای ایس سی، ایس ایس جی سی کی کمی کیوں واقع ہوتی رہی ہے جبکہ نرخ میں اضافہ بیس بار ہوچکا ہے اور یہ اضافہ پانچ سو فیصد تک بڑھ گیا لیکن اس کی بہتری میں رائی برابر فرق نہ آیا ،آیا یہ رقمیں کیا جارہی ہیں کیا کوئی حساب لینے اور پوچھنے والال ہے۔ کراچی کی عوام نے کہا ہے کہ وہ اس حکومت کو رد کرتے ہیں اور اپنے منتخب نمائندگان کی بے حسی اور لاپرواہی پر پریشان ہیں ۔۔۔ ایک بڑے حلقہ کا کہنا ہے کہ کراچی کے منتخب نمائندگان ایوان میں الیکشن کے نظام کا بل پیش کریں جس میں مکمل اسکینگ کے ساتھ عمل ہو تاکہ پاکستان بھر سے وہی منتخب ہوسکیں جو عوام منتخب کرنا چاہتے ہیں بصورت یہی چہرے آتے رہیں گے اور ملک کے امن کو تباہ برباد کرنے کے ساتھ ساتھ ملکی دولت کو لوٹتے رہیں گے ، ان حلقوں نے کہا ہے کہ کراچی کے منتخب نمائندگان اگر واقعی کراچی اور پاکستان سے مخلص ہیں یہ کمپیوٹرائز ووٹنگ نظام کیلئے ایوان اور عدلیہ عظمیٰ سے بھی رابطہ کریں یہ عمل امر ہوجائے گا اس سے عام شہری بھی ایوان میں آکر پاکستان اور پاکستانی قوم کیلئے بہتر سود مند ثابت ہوگا یوں سیاسی مافیہ کا بھی خاتمہ نصیب ہوسکے گا۔ جب تک مخلص ،سچے سیاستدان نطام کی بہتری کیلئے ایوان میں بل پیش نہیں کریں گے اور نظام کی تبدیلی واقع نہیں ہوگی اس وقت تک پاکستان جلتا رہے گا اور اموات کے ابنار بنتے رہیں گے۔
جاوید صدیقی
About the Author: جاوید صدیقی Read More Articles by جاوید صدیقی: 310 Articles with 251842 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.