ہم مانتے ہیں کہ وزیراعظم عمران خان ایک نہیں ہزاراورلاکھ
باربڑے ایماندار ،امانت دار،دیانت دار،ہوشیار،درددل،متقی اورپرہیزہوں گے
لیکن معذرت انتہائی معذرت کے ساتھ ۔اپنے صرف اپنے لئے۔دوجمع دوکوچارروٹیاں
بنانے اور سمجھنے والوں کے لئے عمران خان اس وقت ایک آفت،ایک مصیبت اورایک
بڑے ناگہانی عذاب سے ہرگزہرگزکم نہیں۔صحت ،تعلیم،بجلی اوردیگربنیادی
ضروریات اورسہولیات ہرانسان کے لئے ضروری ہیں لیکن یہ سہولیات اورضروریات
اگرمیسریافراہم نہ ہوں توپھربھی جیسے تیسے انسان یاانسانوں کی زندگی گزرتی
رہتی ہے مگر۔؟مگرپیٹ کاجہنم بھرے بغیرزندگی کیا۔؟انسان پرایک وقت اورایک
لمحہ بھی کبھی نہیں گزرتا۔دنیاکے اندریہ دوڑدھوپ،لڑائی جھگڑے،نوکری،غلامی
اورمحنت مشقت ہی تواس جہنم کوبھرنے کے لئے ہے۔پیٹ بھرنے کی فکراگرنہ ہوتی
توکون کافرپھر دن ،رات،گرمی ،سردی،حرام ،حلال،جائز،ناجائز،جوانی
،بڑھاپے،بیماری ،تندرستی،غلامی اورآزادی میں تمیزبھول پاتا۔؟اصل مسئلہ ہی
تواس جہنم کوبھرنے کاہے۔ انسان سب کچھ برداشت کرلیتاہے لیکن وہ بھوک
اورافلاس کوبرداشت نہیں کرسکتا۔آج لوگوں کی اکثریت اگروزیراعظم عمران خان
اوران کی حکومت سے تنگ وعاجزہے تواس کی بڑی وجہ ہی غریبوں کے پیٹ پرلات
مارناہے۔حکومتی وزیراورمشیرایک نہیں ہزاربلکہ لاکھ بارپریس
کانفرنسزومیڈیاٹاک میں کپتان کی ایمانداری کے قصیدے پڑھیں اورکہانیاں
سنائیں لیکن سچ یہ ہے کہ ان قصیدوں اورکہانیوں سے اب عوام کوبہلایانہیں
جاسکتاکیونکہ عوام کودووقت کی روٹی چاہئیے جوکپتان اوران کے کھلاڑیوں نے ان
سے چھین لی ہے۔ قصوں،کہانیوں اورقصیدوں سے اگرکام چلتاتوکپتان کو دن کی
روشنی میں یہ ڈراؤنے خواب کبھی نہ آتے۔عوام نے تین ساڑھے تین سال میں
حکومتی وزیروں اورمشیروں سے قصے اورکہانیاں بہت پڑھیں اورسنیں۔اب عوام روٹی
شوٹی کے علاوہ قصے اورکہانیاں کیا۔؟کوئی بات سننے کے لئے بھی
تیارنہیں۔نادان کپتان اوران کے ناسمجھ وزیراورمشیرتویہ بات نہیں مان رہے
لیکن حق اورسچ یہ ہے کہ ان کی حکومت نے اس ملک کے غریب عوام سے جینے کی
امید،آس اورسہاراتک چھین لیاہے۔عوام پراس قدرظلم توآمریت کے دورمیں بھی
کبھی نہیں ہواہوگاجتناظلم انصاف کے ان علمبرداروں نے عوام پرتین سال سے
ڈھایاہواہے۔مہنگائی،غربت اوربیروزگاری کی وجہ سے آج اس ملک میں ہرشخص
رورہاہے لیکن کپتان اورکپتان کے کھلاڑیوں کواس کی کوئی پرواہ نہیں۔بھوک سے
بلکنے اورتڑپنے والاغریب جب ان سے مہنگائی اوربیروزگاری کاگلہ یا شکوہ
کرتاہے توبجائے اس غریب کوکوئی دلاسہ دینے کے کپتان سمیت یہ سارے کھلاڑی
آگے سے امریکہ،برطانیہ،آسٹریلیااورجاپان کی مثالیں دیناشروع کردیتے ہیں کہ
صرف یہاں نہیں وہاں بھی مہنگائی ہے۔ ملک کے موجودہ حالات اوردوسری طرف
بادشاہ سلامت اوران کے بدمست وزیروں و مشیروں کارویہ دیکھیں توواﷲ افسوس
بہت افسوس ہوتاہے۔لوگ ان کوکیاسمجھ رہے تھے اوریہ نکلے کیا۔؟یہ تووہی
کھوداپہاڑنکلاچوہاوالی بات ہوگئی۔عقل سے کورے اوربینائی سے محروم ان عجوبوں
سے کوئی یہ پوچھے توسہی کہ یہ نہ کوئی امریکہ ہے نہ
برطانیہ،آسٹریلیا،سعودیہ اورنہ کوئی جاپان۔یہ وہ بدقسمت پاکستان ہے جہاں آپ
جیسے عجوبے ہی حکمران بنتے اورٹھہرتے ہیں۔کیاامریکہ،سعودیہ،برطانیہ یاجاپان
میں آپ جیسے کسی مسخرے کوحکومت یاوزارت کبھی ملتی ہے۔؟پٹرول کی قیمتوں
اورمہنگائی کے تناسب کوتوآپ باہرکی دنیاسے ناپتے اورجوڑتے ہیں لیکن کیاآپ
نے یہاں کی معیشت ،تعمیر،ترقی،خوشحالی اورسہولیات کابھی کبھی
امریکہ،برطانیہ،سعودی عرب یاجاپان کے ساتھ موازنہ کیا۔؟یہاں فی کس کی آمدن
کیاہے اورامریکہ وجاپان میں اس کاتناسب کتناہے۔؟یہاں آپ کی حکمرانی
اورنگرانی میں ایک غریب مزدورکوروزکتنی دیہاڑی ملتی ہے اورباہرکی دنیامیں
ایک مزدورروزکاکتناکماتاہے۔؟ باہرکی دنیامیں اگرمہنگائی ہے تووہاں تنخواہیں
اورسہولیات بھی توہے۔ہمیں نہیں لگتاکہ باہرکی دنیامیں اس طرح قدم قدم
پرٹیکس ہوں۔یہاں صرف بجلی وگیس کے بل اٹھاکردیکھیں تواس میں ٹیکسزکے علاوہ
کوئی شئے نہیں۔اوپرسے لیکرنیچے تک صرف ٹیکس ہی ٹیکس ہے۔ماچس کی ڈبی سے
لیکرنسوارکی پڑی تک یہاں ایک ایک چیزپرڈبل اورٹرپل ٹیکس لیاجاتاہے
اورپھربھی یہ رونارویاجاتاہے کہ یہاں لوگ ٹیکس نہیں دیتے۔غریب لوگ
جوتنخواہیں اورمزدوری لیتے ہیں وہ ان ٹیکسزکے ذریعے ہی واپس کردیتے ہیں سچ
پوچھیں توپھرپیچھے ان کے پاس کھانے پینے کے لئے بھی کچھ نہیں بچتا۔سوچنے کی
بات ہے تنخواہ اورمزدوری تک ٹیکسزکے نام کرنے کے بعداوروہ کیاٹیکس دیں ۔؟جس
کے پاس دونہیں ایک وقت کی روٹی کے لئے بھی کچھ نہ ہوآپ خودسوچیں وہ پھر کسی
کوکیادے گا۔؟یہاں ہرشخص کے پاس نہ بنی گالہ جتناتین سوکنال کامحل ہے اورنہ
ہی رائیونڈاورلاڑکانہ جیسی کوئی قیمتی اراضی۔ماناکہ کپتان کے کھلاڑیوں کی
بھی نہ صرف اپنی کنالوں اراضی ہے بلکہ ان میں سے اکثراپنے ذاتی
سکولز،ہاسپیٹل،ٹرانسپورٹ،پٹرول پمپس،فیکٹریوں اورکارخانوں کے مالک بھی ہیں
لیکن معذرت کے ساتھ اس ملک میں عوام کی اکثریت کے پاس کوئی محل ہے اورنہ ہی
کوئی تاج محل۔اس عمرانی دورمیں تواب عوام کی اکثریت چھونپڑیوں میں رہنے کے
ساتھ ایک ایک وقت کی روٹی کے لئے بھی دربدرہے۔سبزباغ اورسہانے خواب
دکھاکرکپتان نے اس ملک کے غریب عوام کواس مقام تک پہنچادیاہے کہ جہاں اب نہ
آگے جانے کاکوئی راستہ ہے اورنہ پیچھے مڑنے کی کوئی امید۔کپتان اورکپتان کے
یہ کھلاڑی آج ہیں توکل نہیں ہوں گے۔یہ حکومت ،اقتداراوریہ کرسی یہ توآنی
جانی شئے ہیں۔ہم نے تواس ملک میں صبح کے تخت نشینوں کوبھی شام کوروتے
،دھوتے اورروڈماسٹری کرتے دیکھاہے۔سوال یہ نہیں کہ ان نادانوں سے غریب عوام
کی جان کب چھوٹے گی سوال یہ ہے کہ غریب عوام کااب ہوگاکیا۔؟کیونکہ
اقتداروکرسی کے شوق میں مست کپتان اوران کے کھلاڑیوں نے عوام کے کندھوں
پرجوبوجھ لادھ دیاہے اب اقتدارمیں آنے والاکوئی بھی حکمران اس کوآسانی سے
اتارنہیں سکے گا۔چودہ سوکاآٹاسات سو،ساڑھے تین سوکی گھی ڈیڑھ سواورسوروپے
کی چینی پچاس روپے پرکیسے واپس آئیگی۔؟پٹرول ،ڈالر،گیس وبجلی کی قیمتوں
کوجوانصافی پرلگے ہیں وہ کیسے کٹیں گے۔؟یہ سوچتے ہوئے بھی غریبوں کی قسمت
پرروناآنے لگتاہے۔کیونکہ اس ملک میں راتوں رات قیمتیں بڑھانے اورلوٹ
مارکابازارگرم کرنے کارواج توہے پربڑھتی قیمتوں کوکم یالوٹ مارکوکنٹرول
کرنے کاکوئی طریقہ نہیں۔کپتان اوراس کے کھلاڑی اورکچھ کریں یانہ۔انہوں نے
تین ساڑھے تین سال میں مہنگائی،غربت اوربیروزگاری کی صورت میں عوام کے لئے
یہ جوتاریخی کارنامے سرانجام دیئے ہیں آپ یقین کریں اس ملک میں روٹی کے ایک
ایک نوالے کے لئے بھوک سے بلکنے،تڑپنے اوررلنے والے غریب کپتان کے ان
کارناموں کوکبھی بھول نہیں پائیں گے۔کپتان اورکپتان کے یہ کھلاڑی اقتدارمیں
ہوں یااقتدارسے باہر۔عوام ان کی لائی ہوئی اس تبدیلی کوہمیشہ یادرکھیں
گے۔اس لئے کپتان ،کپتان کے کھلاڑیوں اوران کے چاہنے وگیت گانے والوں کوبہت
بہت مبارک ہوکہ انہوں نے عوام کے دلوں میں ہمیشہ کے لئے جگہ بنالی ہے۔
|