سادھو سنتوں کے خلاف سنگھ پریوار کی خطرناک سازش

ایک زمانے میں آسا رام باپو کا بڑا زور ہوا کرتا تھا ۔ اٹل جی سے اڈوانی اور مودی سے لے کر راجناتھ تک سبھی اس کے پیر چھوتے تھے لیکن اب وہ جیل کی چکی پیس رہا ہے ۔ اب اسی طرح کے الزامات چھتیس گڑھ کے سنت کالی چرن پر لگنے لگے ہیں۔ ایک خاتون نے پولس کو خط لکھ کر اس کا پول کھو دیا گیا۔ اس نے بتایا کہ اس سے ڈھونگی بابا نے پچیس ہزار وصول کیے اور یہ ادائیگی پے ٹی ایم سے ہوئی اس لیے ثبوت بھی ہے۔ کالی چرن اور کے پی اے کے ساتھ خواتین کے تعلقات کا الزام بھی اس خاتون نے لگایا ۔ اس کے بعد یہ خبر آئی کہ کالی چرن کو جہاں سے گرفتار کیا گیا وہاں بھی اس کے ساتھ ۶ مرد اور ۲ خواتین تھیں۔ پولس اب ان الزامات کی تحقیق کررہی ہے اور امید ہے وہ بہت جلد آسارام کے ساتھ ہوگا۔ اس کے علاوہ یتی نرسنگھا نند بھی اسی راستے پر سرگرم سفر ہوگیا ہے۔ آسا رام تو خیر جنسی زیادتی کے معاملے میں پھنسا مگرکالی چرن پر نفرت انگیزی کا اضافی الزام بھی لگا ۔
نرسنگھا نند پر بھی دین اسلام ، قرآن مجید اور پھر نبی ٔ کریم ﷺ کی توہین کے پکےّ ثبوت ہیں ۔ اس نے بھی بی جے پی کی خواتین کارکنان کو رکھیل کہا تھا اور پھر مسلم خواتین کے لیے نازیبا الفاظ استعمال کیےنیز مسلمانوں کی نسل کشی کا اعلان کیا۔ چندماہ قبل اس نے ایک 10سال کے انس پرقتل کا الزام لگایا جبکہ یوگی کی پولس نے اسے بے قصور قرار دیا۔ نرسنگھانند کا اب ایک اورویڈیو ذرائع ابلاغ میں آیا ہےجس میں نرسنگھانند سے ہری دوار میں منعقد ہونے والی دھرم سنسد پر پولس کارروائی کے متعلق سوال کیا گیا تو اس نے اپنے انٹرویو میں کہا:’’ ہمیں سپریم کورٹ اور سمویدھان (آئین) پر کوئی بھروسہ نہیں ہے۔دستور ہند اس ملک کے 100 کروڈ ہندووں کو کھا جائے گا۔ جو اس آئین کو مانتے وہ مارے جائیں گے۔ جو اس سسٹم (نظام) پر ، ان رہنماوں پر ، سپریم کورٹ پر، فوج پر بھروسہ کررہے ہیں وہ سارے لوگ کتے کی موت مرنے والے ہیں ‘‘۔ ایک اور ویڈیو کلپ میں وہ کہتا ہے:’’ جب جیتندر سنگھ تیاگی نے وسیم رضوی کے نام سے کتاب لکھی ، تب ان ہیجڑے پولس والوں اور رہنماوں میں سے ایک نے بھی انہیں گرفتار کرنے کی ہمت نہیں کی ‘‘۔ وشال سنگھ نامی نوجوان کو دیا جانے والا یہ انٹرویو 14؍جنوری کو ٹوئیٹر پر وائرل ہوگیا تھا۔
اس ویڈیو میں مسلمانوں کے بجائے عدلیہ ، انتظامیہ اور سیاسی رہنماوں کو برا بھلا کہا گیا ہے۔ اس اہانت آمیز انٹرویو کو منسلک کرکے شاچی نیلی نامی ایک سماجی کارکن نے اٹارنی جنرل کے کے وینو گوپال کو خط لکھ کر توہین عدالت کا مقدمہ چلانے کی اجازت طلب کی ۔ اس مکتوب میں نرسنگھا نند کے تبصرے پرعدالتِ عظمیٰ کے اختیار اور وقار کمزور کرنے کی کوشش کا سنگین الزام لگایا گیاہے۔ دستور اورعدلیہ کے تئیں اس تضحیک آمیز بیان بازی اور بے بنیادحملے کے ذریعہ عدل و انصاف کے طریقۂ کار کو متاثر کرنے کی سعی قرار دیا گیاہے۔خط میں کہا گیا ہے کہ عدلیہ کے تئیں باشندگانِ وطن کے اعتمادکی کمی کے نتیجے میں افراتفری اور ہنگامہ برپا ہوسکتاہےنیزیہ تاریخ میں عدالت عظمیٰ پر سب سے شاطرانہ حملہ ہےکیونکہ سپریم کورٹ ہی آئین کی محافظ اورمفسر ہے۔ ملک کے بنیادی ڈھانچے پر اعتماد کی کمی اور توہین خوفناک ہے ایسا کرنے مقصدعدلیہ میں انصاف کرنے کی صلاحیت کو کم کرناہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ایک ہندو سنت یہ بات اس عدالت کے بارے میں کہہ رہا ہے جس نے تمام شواہد کو بالائے طاق رکھ کر بابری مسجد کے خلاف فیصلہ سنا دیا تھا ۔
یتی نرسنگھانند چلا تو تھا مسلمانوں کو مشتعل کرنے لیکن اب آپے سے باہر ہوکرخود جال میں پھنس گیا ہے۔ وہ اپنے دام میں اس طرح گرفتار ہوچکا ہے کہ سرکار کے لیے بھی اس کو بچانا ممکن نہیں ہے ۔فسطائی عفریت روبہ زوال ہونے کی دوسری علامت علی گڑھ میں دھرم سنسد کی اجازت کا نہیں ملنا ہے۔ کسی حکیم کا آزمودہ نسخہ جب ناکام ہونے لگے تو اس کا مطلب یہ لیا جاتا ہے کہ عنقریب اس کے مطب پر قفل لگنے والا ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیے فرقہ واریت وہ ’رام بان اپائے‘(تیر بہدف) ہے جسے ہر برے وقت میں استعمال کیا جاتاہے اور بیشتر مواقع پر وہ ’زندہ طلسمات‘ کی مانند اپنا اثر دکھاتا ہے۔ زعفرانیوں کو بھی اس گولی کے کڑوی ہونے کا احساس ہے مگر جب ان کی جان پر بن آتی ہے تو وہ اسے بادلِ ناخواستہ نگل جاتے ہیں جیسے منڈل کے خلاف یا گجرات کے فساد میں کیا گیا تھا۔ پانچ صوبوں کے حالیہ انتخابات بی جے پی کے لیے کسی اگنی پریکشا سے کم نہیں ہیں کیونکہ ان میں سے چار کے اندر اس کو اپنی سرکار بچانی ہے اور ایک اترپردیش ہے جہاں طوطے کی جان اٹکی ہوئی ہے۔
یو پی کے اندر جب یوگی کی نیاّ ڈوبنے لگی تو بی جے پی فسطائیت کے تنکے کا سہارا لینے پر مجبور ہوگئی ۔اس سلسلے میں یہ حکمت عملی بنائی گئی کہ نفرت کی آنچ کو آس پاس کے علاقوں میں تیزکرنے کے بعد اترپردیش میں بھڑکایا جائے ۔ ہری دوار کے اندر پہلی دھرم سنسد کے آس پاس دہلی اور چھتیس گڑھ میں یہ کھیل کھیلا گیا۔ اس کے بعد اگلا ہدف اترپردیش میں غازی آباد اور علی گڑھ تھا۔ ان سب سے فارغ ہونے کے بعد پھر سے اتراکھنڈ میں دھرم سنسد منعقد کرنے کا منصوبہ تھا لیکن اس کی تاریخ کو صیغۂ راز میں رکھا گیا تھا۔ ہری دوار دھرم سنسد کے مہتمم یتی نرسنگھا نند نے ابھی حال میں دعویٰ کیا تھا کہ 2012 سے ہر 6 ماہ میں دھرم سنسد کا اہتمام ہوتا رہا ہے۔ سوال یہ ہے اگر یہ تقریب 6 ماہ میں ایک بار ہوتی رہی ہے تو اچانک اس ایک مہینے میں 6 مرتبہ اس کے انعقاد کی ضرورت کیوں پیش آگئی؟
کسان تحریک کی کامیابی کے فوراً بعد دہلی کے کالکا جی مندر میں کئی آشرموں کے سنتوں نے مٹھ مندر کی مکتی تحریک چلانے کا اعلان کیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ ہم مرکزی اور ریاستی حکومت کو پہلے پرامن طریقہ پر سمجھائیں گے لیکن اگر وہ نہیں مانے توہتھیار بھی اٹھائیں گے ۔ کسانوں کی مانندحسبِ ضرورت سادھو بھی راستوں پر ڈیرہ ڈال دیں گے ۔ یہ خطرناک دھمکی تھی کیونکہ کسانوں کو تو کاشتکاری کرنی پڑتی ہے مگر ان کے پاس تو کوئی کام ہی نہیں ہیں اس لیے مندر کے بجائے راستوں پر بیٹھ جائیںانہیں کیا فرق پڑےگا۔سرکار اگر ان پر زور زبردستی کرے تو عوامی ناراضی کا بھی بڑا خطرہ پیدا ہوجائےگا ۔ اس احتجاجی تقریب کا اہتمام’سنت سمیتی ‘ نے کیا تھاجس کے صدر مہنت سریندر ناتھ اودھوت ہیں۔ موصوف وشو ہندو مہا سنگھ نامی عالمی ہندو تنظیم کے کارگزار صدر بھی ہیں مگر اس کے قومی صدر یوگی ادیتیہ ناتھ ہیں۔ اس طرح یوپی کے وزیر اعلیٰ سے اس کا دانڈے مل جاتے ہیں ۔ ویسے یہ لوگ یوگی اور مودی سے بہت پرامید ہیں ۔کل ہند سنت سمیتی کے جنرل سکریٹری راجندر داس نے دہلی میں یہ بھی کہا تھا کہ اتراکھنڈ کے 51 مندروں کو قبضے میں لینے والے دیواستھان بورڈ کو لے کر لڑائی جاری ہے۔
بی جے پی کے وزیر اعلیٰ ترویندرسنگھ راوت نے یہ بورڈ قائم کیا تھا ۔ ان کے بعد آنے والے تیرتھ سنگھ راوت نے اسے ختم کرنے کا وعدہ کیا اور پورا کیے بغیر چلے گئے ۔ تریندر سنگھ راوت کو تحریک چلانے والوں نے کیدار ناتھ مندر میں درشن سے روک دیاتھا ۔ آگے چل کر سادھو سنتوں نے ریاستی وزراء کے علاوہ وزیراعلیٰ دھامی کے گھر پر دھرنا دیا۔ اس دباو کے نتیجے میں انتخابی ناکامی کے ڈر سے دھامی نے بورڈ کو برخواست کرنے کا اعلان تو کردیا لیکن اس طرح سے اس کو بنانا خود سنگھ کی سازش کا پتہ دیتا ہے۔ نومبر 2019 میں ترویندر سنگھ راوت کی کابینہ نے چار دھام بورڈ کے قیام کا فیصلہ کیا اور جون میں ریاستی اسمبلی کے اندر اسے پیش کرکے مخالفت کے باوجود منظورکروایا۔ جنوری 2020 میں گورنر کی منظوری کے بعد وہ قانون نافذ ہوگیا ۔ اس بورڈ کی صدارت وزیر اعلیٰ اور نائب صدر مذہبی امور کے وزیر بنائے گئے۔ اس میں 7 سینئر آئی اے ایس افسر اور 20 نامزد ارکان کی گنجائش رکھی گئی ۔اس طرح سادھو سنتوں کنارے لگا دیئے گئے۔ ان کے نہ صرف اختیارات ختم ہوگئے بلکہ آمدنی بھی بند ہوگئی اور وہیں سے مخالفت شروع ہوئی۔ اس مثال کے ذریعہ سنگھ پریوار کےسادھو سنتوں کے خلاف خفیہ منصوبے کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔
روایتی ہندو سماج مندروں اور مٹھوں سے جڑا ہواہے ۔ یہی وجہ ہے کہ بے شمار مندروں اور مٹھوں کے ساتھ بہت سارے معتقد منسلک اور ان کابہت سارا دھن دولت بھی جمع ہوجاتا ہے۔ ان لوگوں کا سنگھ پریوار پر اعتماد نہیں ہے گویا وہ سنگھ اور ہندو سماج کے درمیان سادھو رکاوٹ ہیں۔ ان سادھووں کو ساتھ لینے کی خاطر میناکشی پورم میں تبدیلیٔ مذہب کے بعد وشوہندو پریشد قائم کی گئی ۔ اس کے بعد رام مندر کی تحریک چلائی گئی اور سادھو سنتوں کو ساتھ لینے کی کوشش کی گئی۔ اس تحریک کی آڑ میں اقتدار حاصل کرلینے کے بعد عظیم الشان مندر بنانے کی خاطر چھوٹے موٹے مندر ختم کردیئے گئے اور ایک سرکاری ٹرسٹ کی نگرانی میں رام مندر کی تعمیر شروع ہوگئی ۔ طاقتور سادھووں کی ناراضی بچنے کے لیے ان میں سے چند کو نیاس (بورڈ) میں لے لیا گیا لیکن لگام سنگھ کے ہاتھ میں رہی۔ کاشی کاریڈور میں سیاحوں کی خاطر سرکاری نگرانی میں بڑا مندر تعمیر ہوا تو چھوٹے موٹے مندر ختم ہوگئے اور وہاں بھی کمان سرکار کے ہاتھ میں چلی گئی۔ اب متھرا میں بھی انہیں خطوط پر کام ہورہا ے یعنی ہندو عوام کو ساھووں سے دور کرکے اپنے نرغے میں لیا جارہاہے۔ یہ فریب کاری اس خوبی سے ہو رہی ہے کہ کسی کو اس کا احساس بھی نہیں ہوتا ۔ سادھو سنتوں کو سنگھ پریوار دھرم سنسد کی آڑ میں مسلمانوں کے پیچھے لگائے رکھے گااور جس وقت یہ خطرناک منصوبہ ان کی سمجھ میں آئے گا اس وقت تک بہت دیر ہوچکی ہوگی ۔

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1448957 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.