جن لوگوں نے آج سے چند سال قبل ملتان سے راجن پور یا اس
سے بھی آگے داجل تک کا سفر کیا ہو تو انہیں معلوم ہوگا کہ ان علاقوں کی
سڑکوں کا کوئی حال تھا اور نہ ہی یہاں کے باسیوں کا کوئی والی وارث تھا ان
علاقوں کو پسماندہ نہیں بلکہ پسماندہ ترین کہا جاتا تھا مگر اسی پسماندہ
علاقے کا رہائشی سردار عثمان بزدار جب وزیر اعلی بنا توپھر یہ علاقہ
پسماندہ نہ رہا بلکہ ترقی کی ایک مثال بن گیا حالانکہ انہی علاقوں سے صدر
پاکستان بنے ، گورنر بنے اور وزیراعلیٰ سمیت مختلف اعلی عہدوں پر مزے لینے
والوں نے اپنے بچے کو ملک سے باہر پڑھا لیا مگر غریب کے بچوں کا سکول تک نہ
بننے دیا اور تو اور پورے جنوبی پنجاب میں ایک بھی ایسا ہسپتال نہ بنایا
جاسکا جہاں دماغ کا علاج ہوسکے خدانخواستہ کسی کے سر میں جوٹ لگ جائے اور
مسئلہ دماغ کا بن جائے تو پھر وہ پورا خاندان لاہور کے جنرل ہسپتال میں
اپنی زندگی کا مشکل ترین وقت گذارتا یہاں پروہ کوئی سفارش ڈھونڈ لیتے تو
مریض کو زرا بہتر علاج کے بعد زندہ گھر لے جاتے ورنہ مریض اور ہسپتال کی
پریشانیوں کے بعد اپنے پیارے کی ڈیڈ باڈی ہی لیکر جاتے تھے مگراب صرف
تقریبا ساڑے تین سالوں میں وزیر اعلی پنجاب نے ڈیرہ غازی خان ڈویژن میں
لاہور کے مطابق سہولتیں فراہم کردی نئے ہسپتال بن گئے ،نئے تعلیمی ادارے بن
گئے ،نئی سڑکیں بن گئی اور سیکڑوں بے روزگار نوجوان روزگار پر لگ گئے ان
علاقوں کی تعمیرو ترقی جتنی ان چند سالوں میں ہوئی ہے تاریخ میں اتنے زیادہ
کام نہیں ہوئے ہونگے ابھی گذشتہ روزسردار عثمان بزدار نے ڈیرہ غازی خان میں
اربوں روپے کے 15 ترقیاتی منصوبوں کا افتتاح و سنگ بنیادبھی رکھاان علاقوں
میں بس مسائل ہی مسائل تھے اور اب ماضی کی نسبت جنوبی پنجاب کوبہت زیادہ
وسائل دیئے جا رہے ہیں تاکہ یہاں کے لوگوں کی محرومیاں دور ہوں علامہ اقبال
صاحب نے فرمایا تھا کہ
نہیں ہے ناامید اقبال اپنی کشت ویراں سے
زرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی
آسائیشوں سے ناآشنا اور ضرورتوں سے محروم ان علاقوں کی عوام کو جب بھی
زندگی کے کسی میدان میں اپنی صلاحیتوں کے اظہار کا موقعہ ملا تو انہوں نے
کامیابیوں کے جھنڈے ضرور گاڑے اب اس زرخیز مٹی کو پیار ،محبت ،خلوص اور
ترقی کی نمی ملے گی تو پھر یہ علاقہ خوشحالی میں پاکستان کی پہچان بنے گا
یہاں کی ثقافت ،یہاں کی شاعری اور یہاں کی زبان اپنی ایک الگ ہی مٹھاس لیے
ہوئے ہے امید ہے کہ جنوبی پنجاب میں حکومت کی دلچسپی سے ترقی کی نئی راہیں
کھلی گی خاص کر ان علاقوں کے بیوپاری سے مالک تک ،آڑھتی سے کسان تک
اورٹھیکیدار سے مزدور تک سبھی خوشحال ہو جائیں گے وہاں کی مقامی صنعت پھلے
پھولے گی اور لوگوں کے چہروں پر خوشیاں رقص کرینگی اور یہ اسی وقت ممکن
ہوتا ہے جب حکومت نچلے طبقے کو اوپر لاتی ہے جب بھی ترقیاتی کاموں کے حوالہ
سے صوبوں کا سروے ہوتا ہے تو پنجاب سب سے آگے اور نمایاں ہی نظر آیا ہے
کیونکہ یہاں پر ہر طبقہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے کو سہولتیں فراہم کی
گئی صحت کارڈ ہی ایک ایسا انمول تحفہ ہے جس سے مریض اپنا دس لاکھ تک کا
علاج کسی بھی پرائیوٹ یا سرکاری ہسپتال سے کروا سکتا ہے اسی طرح کی سہولتیں
دوسرے صوبوں کے حکمران بھی وہاں کے باسیوں کو دیں تاکہ وہ بھی خوشحالی کا
سفر طے کرسکیں خاص کر گلگت بلتستان میں اس وقت تعمیراتی کاموں سے وابستہ
افراد بہت پریشان ہے جو لوگ گلگت بلتستان کو جانتے ہیں انہیں بخوبی معلوم
ہوگا کہ ان علاقوں میں کام کرنا کتنا مشکل ہے گلگت بلتستان میں شعبے
تعمیرات و خدمات سے وابستہ افراد کو شعبہ جاتی حوالے سے بے شمار مسائل اور
مشکلات کا سامنا ہے ان میں چند اہم اور فوری حل طلب ایسے مسائل ہیں کہ اگر
ان کوحل کرلیا جائے تو بہت سی آسانیاں پیدا ہوسکتی ہیں ان میں قابل ذکر
گلگت بلتستان کے دور افتادہ اور دشوار گزار علاقوں میں کم تعمیراتی قیمتں،
وفاقی پیپرا کے قوانین کا نفاذ اور کی مندرجہ جات میں بے جا اضافہ اور
ٹھکیداری نظام میں باثر افراد لوگوں کی پروکیورمنٹ نظام پر اثر انداز ہو نا
قابل ذکر ہیں تاہم ان مسائل میں سرکاری شعبے کے تعمیراتی کاموں کی قیمتوں
میں اضافہ کرنے کا فیصلہ کرکے حکومت گلگت بلتستان کے وزیر اعلی خالد خورشید
اور ا نکی ٹیم نے گلگت بلتستان کی تعمیراتی صنعت اور اس سے منسلک افراد کو
ایک بڑے معاشی بحران میں مبتلا ہونے سے بچایاہوا ہے اس حوالے سے صوبائی
حکومت،کنٹریکٹر ایسوسی ایشن کی جدوجہد اور ٹھکیداروں کا مثالی اتحاد قابل
تعریف ہے اس شعبے کو مزید فعال اور مستحکم بنانے اور اس کے ثمرات کو معاشرہ
کے نچلے طبقہ کے افراد تک منتقل کرنے کے لیے جی بی میں تعمیراتی کاموں سے
منسلک افراد سمجھتے ہیں کہ ہر سرکاری ادارے کی الگ الگ ٹینڈر پالیسی اور ان
کے جز یات میں نظریہ ضرورت کے تحت اضافہ اور مشکلات بھی انکے لیے بہت بڑا
مسئلہ ہے ستم ظریفی یہ بھی ہے کہ اس پسماندہ خطے کے اکثرٹھیکیداروں کے پاس
اس قدر پیشہ وارانہ مہارت نہیں جس کا تقاضا یہاں کے سرکاری ادارے وفاقی
پیپرا اور پی ای سی کے قوانین کو آڑ بناکر ٹھکیداروں سے کرتے ہیں ضرورت اس
امر کی ہے کہ حکومت گلگت بلتستان ملک کے دیگر شہروں کی طرح گلگت بلتستان
میں ٹینڈرنگ کے قوانین میں نرمی کرکے زیادہ سے زیادہ لوگوں کو روز گار کے
مواقع فراہم کرے جبکہ گلگت بلتستان میں سرکاری اداروں میں ٹینڈرنگ کی ایک
پالیسی اور اس نظام پر باثر لوگوں کا اثر انداز ہونا بھی پریشان کن ہے گلگت
بلتستان کی صوبائی حکومت نے تعمیراتی قیمتوں میں اضافہ کرکے جس عقلمندی اور
سنجیدگی کا ثبوت دیا ہے اس طرح ہی دیگر اہم مسائل کو بھی حل کرکے شعبے
تعمیرات کو مزید مستحکم بنا سکتی ہے عوام خوشحال ہوگی تو ملک خوشحال ہوگا ۔
|