پاکستان میں محکمانہ نااہلیت کے بارے میں تو بچپن ہی
سے سنتے آئے ہیں لیکن اتنا بڑا نقصان سننے میں پہلی مرتبہ آیا ہے ۔ پہلی
بات تو یہ ہے 18 سو ٹن چینی ٹریڈنگ کارپوریشن پاکستان کے گوداموں میں پڑی
خراب ہوتی رہی اور حکمرانوں سمیت ٹی سی پی کے کسی افسرکو اس کی خبر نہ ہوئی
۔ کہایہ جاتا ہے کہ زرداری دور(2010)ء میں چینی کا بحران پیدا ہوا تھا اس
بحران سے عہدہ برآ ہونے کے لئے بھارت سے یہ چینی درآمد کی گئی تھی لیکن
عوام الناس کو استعمال کرنے کے لئے چینی دی نہیں گئی ۔ نواز شریف دور میں
چینی سمیت کسی بھی چیز کا بحران نہیں تھا اس لئے کسی کا بھی دھیان گوداموں
میں رکھی ہوئی چینی کی طرف نہیں گیا ۔ ہونا تویہ چاہیئے تھا کہ ٹریڈنگ
کارپورشن کے ارباب اختیار خود اس چینی کو گنے کی کرشنگ سے پہلے مارکیٹ
فروخت کردیتے لیکن دوسری سرکاری اداروں کی طرح ٹریڈنگ کارپویشن کے افسران
بھی لمبی تان کر سوتے رہے کہ چینی کا کیا ہے وہ تو خراب ہو ہی نہیں سکتی ۔
نواز شریف کی حکومت چار سال جاری رہی پھر شاہد خاقان عباسی وزیراعظم کے
عہدے پر فائز ہوئے تو ان کا دور بھی اس اعتبار بھی ٹھیک ہی رہا اور کسی بھی
چیز کی کوئی کمی سامنے نہیں آئی ۔ لیکن جب سے پاکستان تحریک انصاف کی عمران
خان کی قیادت میں حکومت وجود میں آئی ۔ابتدا ء میں کوئی مسئلہ نہیں تھا
لیکن عمرانی حکو مت نے جان بوجھ کر چینی کی قیمتوں پانچ روپے اضافہ
کربحرانوں کو خود آواز دی ۔ کہا تو یہ جاتا ہے کہ پہلے پہل حکومت نے جو
پانچ روپے چینی کی قیمت میں اضافہ کیا تھا وہ سیدھا جہانگیر ترین کی جیب
میں گیا کیونکہ اس کے گوداموں میں لاکھوں ٹن چینی پہلے ہی سے جمع تھی جس کی
قیمت میں بیٹھے بیٹھائے اضافہ ہوگیا اور وہ ارب پتی سے کھرب پتی بن گیا ۔
یہ بھی شنید ہے کہ عمرانی حکومت نے جہانگیر ترین کو یہ انعام اس لئے دیا
تھا کہ عمران خان تن تنہا حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں تھے انہیں آزاد
حیثیت سے جیتنے والے ایم این اے کی ضرور ت تھی چنانچہ جہانگیر ترین نے یہ
کارنامہ کردکھا یا ان کا جہاز فضا میں اڑتا اور کوئی نہ کوئی شکارلے کر
اسلام آباد پہنچ جاتا۔ وہاں عمران خان اس کے گلے میں تحریک انصاف کا پٹکا
ڈالتے اور وہ تحریک انصاف میں شمولیت کا اعلان کردیتا ۔ اس بات کی کسی کو
بھی کانوں کان خبر نہ ہوئی کہ جہانگیر ترین نے آزاد امیدوار کو کن شرائط پر
تحریک انصاف میں شامل کروایا کچھ نقد دیا یا کسی حکومتی عہدے کا لالچ دیا
لیکن سب نے کھلی آنکھوں سے دیکھا کہ وہ کئی ہفتے آزاد امیدواروں کا شکار
کرتے رہے ۔یہ سب کے سامنے ہوا ۔ نیتیجہ وہی نکلا جس کی امید کی جارہی تھی ۔
عمران خان نے حکومت بنانے کے لئے مطلوبہ اکثریت حاصل کر لی ۔کسی نے عمران
خان کے کان میں کہا اگر پنجاب میں حکومت نہ بنی تو مرکزی حکومت بے بس ہو
جائے گی ۔مرکز میں تب آپ اپنی پالیسیوں کو عملی جامہ پہنا سکتے ہیں اگر
پنجاب میں بھی تحریک انصاف کی حکومت بن جائے ۔ عمران خان نے ایک بار پھر
جہانگیر ترین کی خدمات حاصل کیں اور وہ اپنے جہاز پر کٹی پتنگ کی طرح آزاد
ایم پی اے اٹھا اٹھا عمران خان کے سامنے سجدہ ریز کرواتے رہے ۔ چودھری
برادران( جنہیں عمران خان سب سے بڑا ڈاکو کہہ پکارتا تھا اس میں شک بھی
نہیں کیونکہ وہ مفادات حاصل کرنے کے لئے آخری حد تک جا سکتے ہیں)سپیکر کے
عہدے کا لالچ دیا اور پانچ سات نشستوں کے عوض وہ بھی پنجاب اسمبلی میں
سپیکر کے عہدے پر بیٹھ کر وزارت اعلی کے خواب دیکھنے لگے ۔ بات کچھ طویل
ہوگئی کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ابتدا ء میں آزاد امیدواروں کا شکار کرنے کے
عوض انعام کے طور پر 55روپے کلو فروخت ہونے والی چینی کو 60 روپے کردیا گیا
پھر چینی کی قیمت ایسی شوٹ ہوئی کہ حکومت کے سنبھالے سے بھی نہ سنبھالی گئی
بلکہ حکومت اس بات سے غافل رہی کہ ٹریڈنگ کارپوریشن کے پاس بھی زرداری دور
کی 1800ٹن چینی سٹاک میں موجود ہے اسے مارکیٹ میں اگر بروقت لایا جاتا تو
چینی کے ریٹس بھی کنٹرول میں رہتے ۔ اس حوالے سے کڑے احتساب کے حقدار
ٹریڈنگ کارپوریشن کے وہ افسران ہیں جن کو اپنے گوداموں میں چینی کی موجودگی
کا علم تھا لیکن انہوں نے چینی کو مارکیٹ میں لانے کی بجائے دوسرے ملکوں سے
باریک اور کم مٹھاس والی چینی منگوا کر یوٹلیٹی سٹور کارپوریشن کو فراہم
کردی ۔اب اس زہریلی چینی کو ضائع کرنے پر بھی 60لاکھ روپے خرچ ہورہے ہیں
۔کیا ٹریڈکارپوریشن کے وہ نااہل اور غیر ذمہ دار افسران کو سخت سے سخت سزا
نہیں ملنی چاہیئے جنہوں نے پاکستانی قوم کے ٹیکسوں سے منگوائی ہوئی خطیر
رقم کی چینی اپنی لاپراہی کی وجہ سے زہرآلود کردی ۔ ٹی سی پی کے ترجمان کے
مطابق چینی کے کئی تاجروں نے بھاری رشوت کے عوض یہ چینی لینے کی پیشکش کی
تھی تاکہ اسے مٹھائیوں وغیرہ میں استعمال کیاجاسکے مگرلیبارٹری رپورٹس کے
مطابق یہ چینی زائدالمعیاد ہونے کی وجہ سے انسانی صحت کیلئے مضرہوچکی ہے اس
لئے اس کااستعمال خطرناک ہوگا۔اسے کہتے ہیں نہلے پے دہلا۔
|