تلواروں کے بغیر امن ممکن نہیں!

کورونائی دن جہاں اقوام عالم پر بھاری پڑے ہیں وہیں یوں محسوس ہوتا ہے کہ نفس و نفسی بھی بھیانک شکل اختیار کر گئی ہے۔ جس بھی ملک کا میڈیا دیکھ لیں ٹی وی چینلز پر حکومتی جماعتوں کی مہنگائی اور بد انتظامی کی وجہ سے تذلیل ہوتی نظرآتی ہے ۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں سانپوں کی طرح بلوں میں چھپی ہیں اور زبانی جمع خرچ پر اپنے وجود کو قائم رکھنے کی کوشش میں مگن ہیں۔ پاکستان کے موجودہ وزیر اعظم نے ببانگ دہل دعوے کئے تھے کہ وہ پاکستان میں ایسی اصلاحات لائیں گے جن سے پاکستان کے ہمیشہ سے چلنے والے سارے مسائل حل ہو جائیں گے۔ سندھ ، بلوچستان اور کشمیر میں امن و امان کی بحالی اور ان کی تعمیر و ترقی کے وعدے بھی کر رکھے ہیں ۔لیکن امید ابھی بھی باقی ہے کہ اﷲ تعالیٰ انہیں ہمت دے گا اور وہ ثابت قدمی کے ساتھ کامیاب و کامران ہوں گے۔سیاست اور سفارتکاری بھی شعائر اسلام ہیں، ہم ان کے وجود و اہمیت سے انکار نہیں کرتے مگر غزوہ بدر سے لے کر ، ناگا ساکی پر ایٹمی حملہ، سلطنت عثمانیہ کا آغاز و سقوط، قیام پاکستان سے اب تک دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ امن ہمیشہ تلواروں کے سائے میں قائم ہوا ہے۔ ہم جس سے بھاگ رہے ہیں مستقبل قریب میں ہم اس کا سامنا کرنے والے ہیں، کیا خبر کہ ہماری تیاری ہے بھی یا نہیں۔ہم نے کشمیر کیلئے لاکھ سفارتکاری کی ہے، آواز بلند کی ہے، لیکن نا تو نریندر موذی کی موذیت کو لگام ڈال سکے ہیں اور نہ ہی اس کے مذموم ارادوں کو نکیل ڈال سکے ہیں۔کشمیر میں مسلمانوں کی آبادی کا تناسب بگاڑنے کیلئے وہ اپنے بہت سے منصوبوں کو کامیاب کر چکا ہے اور حال ہی میں جو چال چلی جا رہی ہے اس کے بعد کشمیر ، کشمیری مسلمانوں اور پاکستان کیلئے شاید ایک خواب رہ جائے۔

بھارتی صحافتی اداروں کے ذرائع کے مطابق جسٹس رنجنا ڈیسائی کی قیادت میں حد بندی کمیشن نے ریاستی اسمبلی کیلئے ہندو اکثریتی علاقے جموں سے نشستیں بڑھانے کی سفارشات پیش کی ہیں۔ پانچ اگست 2019 کو جب ریاست جموں و کشمیر کو تحلیل کر کے اس کو دو مرکزی انتظامی علاقوں میں تقسیم کیا گیا تھا تو اسی وقت بتایا گیا تھا کہ جموں و کشمیر کی نئی سمبلی میں 114 نشستیں ہوں گی۔ جس میں سے 90 نشستوں پر انتخابات ہوں گے ، بقیہ 24 نشستیں آزاد کشمیر یا پاکستان کے زیر انتظام خطے کشمیر کیلئے مختص رکھی جائیں گی۔ کمیشن نے جموں کیلئے چھ سیٹیں اور کشمیر میں محض ایک نشست بڑھانے کی سفارش کی ہے۔ یوں نئی اسمبلی میں وادی کشمیر کی 47 اور جموں کی 43 سیٹیں ہوں گی۔ ان میں نچلی ذات کے ہندوؤں یعنی دلتوں یا شیڈیولڈ کاسٹ اور قبائلیوں کیلئے اکیس نشستیں مختص ہوں گی۔
 
لیکن وادی کشمیر میں شیڈیولڈ کاسٹ آبادی صفر ہے، جس کیلئے مخصوص نشستوں سے انتخابات لڑوانے کیلئے امیدواروں کو بھارت سے لایا جائے گا۔ کشمیری امیدوار ان نشستوں پر انتخابات میں حصہ نہیں لے سکیں گے۔اس سے قبل کشمیر کی 46 اور جموں کی 37 سیٹیں تھیں ۔ وادی کشمیر کی سیٹیں اس لئے زیادہ تھیں کیونکہ 2011 کی سرکاری مردم شماری کے مطابق اس کی آبادی 68 لاکھ تھی ، جب کہ جموں خطے کی آبادی 53 لاکھ ریکارڈ کی گئی تھی۔ یعنی کشمیر کی آبادی جموں سے تیرہ لاکھ زیادہ تھی۔ اس طرح وادی کے پاس جموں سے نو سیٹیں زیادہ تھیں۔اصولاََ یہ فرق بارہ سیٹوں کا ہونا چاہئے تھا کیونکہ کشمیر میں اوسطاََ ایک لاکھ پچاس ہزار نفوس پر مشتمل ایک اسمبلی حلقہ ترتیب دیا گیا تھا۔اور جموں میں اسمبلی حلقوں کی اوسطاََ آبادی ایک لاکھ پینتالیس ہزار رکھی گئی تھی۔

ان ستر سالوں میں مسلمان لیڈر حکومتی مسندوں پر براجمان ہوتے آئے ہیں ۔ لیکن مستقبل میں شاید محبوبہ مفتی کے بعد کوئی مسلم حکمران ریاست کا وزیر اعلیٰ نہ رہے۔ اسی طرح ہم اگر مقامی بیورو کریسی کا جائزہ لیں تو این ڈی ٹی وی کے برقی ذرائع کے مطابق اس وقت کشمیر کی بیورو کریسی میں فی الوقت 24 سیکرٹریوں میں سے صرف پانچ مسلمان ہیں ۔ 58 اعلیٰ افسران میں سے بارہ مسلمان ہیں۔اس طرح 68فیصد آبادی کا اعلی افسران میں تناسب لگ بھگ 17 فیصد ہے۔دوسرے درجے کے افسران میں کل پانچ سو تیئیس میں سے دو سو بیس مسلمان ہیں، یہ تناسب 42.06 فیصد ہے ۔ دوسرے درجے کے دو سو اڑھتالیس پولیس افسران میں سے ایک سو آٹھ مسلمان ہیں ۔ اس خطے کے بیس اضلاع میں سے صرف چھ میں ، یعنی بانڈی پورہ، بڈگام، کلگام، پلوامہ ، رام بن اور سری نگر میں مسلمان ڈپٹی کمشنر یا ضلعی مجسٹریٹ ہیں۔

کمیشن نے نئی حلقہ بندیوں کی بنیاد آبادی کی بجائے رقبے کو بنایا ہے۔اس بنیاد پر دیکھا جائے تو پورے بھارت کی بڑی سے بڑی ریاستوں میں سیٹوں کی تقسیم تعصبانہ بنیادوں پر ہے۔ رقبے کے حساب سے راجستھان اور اتر پردیش کی موجودہ سیٹوں کی نسبت زیادہ سیٹیں بنتی ہیں، جبکہ نیو دہلی کی ایک بھی سیٹ نہیں بنتی ۔ گزشتہ برس جب اس کمیشن کے انعقاد بارے اسمبلیوں میں حل چل ہو رہی تھی تو اس کے مقابلے میں مقبوضہ جموں وکشمیر کی مین سٹریم کی مسلم سیاسی جماعتوں نے اس کی مخالفت کی تھی۔لیکن نریندر مودی کے ساتھ میٹنگ کے بعد نیشنل کانگریس بھی اس سازش کا حصہ بن گئی ہے۔

جموں و کشمیر کے مقامی ذرائع کا کہنا ہے کہ کشمیر میں حریت پسند تحریک کو جتنا مسلمانوں کے اپنے فرقہ وارانہ تعصب نے نقصان پہنچایا ہے اس قدر بھارتی فوج نہیں پہنچا سکی۔ رفیع بٹ اور برہان وانی شہید جیسی شہادتوں کے بعد پوری دنیا میں یہ بات عام ہو گئی تھی کہ اب کشمیر آزاد ہوئے بغیر یہ حریت پسند تحریک خاموش نہیں ہوگی۔ لیکن ایمان فروش نام نہاد مسلم تنظیموں نے ہر وہ چراغ بجھانے میں اپنی اپنی پھونک شامل کی جس کی روشنی میں مظلوم کشمیری اپنا مستقبل آزاد دیکھ رہے تھے۔پاکستان اقوام متحدہ اور امریکہ کے کہنے پر صرف سفارت کار اور امن کا داعی بنا رہا مگر بھارتی حکومتی جماعت نے جو فیصلے کئے اور منشور دیا تھا ان کی تکمیل کی طرف بڑھ رہی ہے۔ نو آباد کاری کے ذریعے مسلمانوں کی آبادی کا تناسب بگاڑنے، پینتیس اے اور تین سو ستر کے خاتمے کے بعد اب سیاسی طور پر بھی مسلمانوں کو اقلیت ثابت کرنے کی تیاریاں مکمل کی جا چکی ہیں۔ سید علی گیلانی کی وفات کے بعد مسلمانوں کی نمائندہ تنظیموں کا مودی کے پلڑے میں بیٹھنے سے تحریک حریت جموں و کشمیر اب خاموش ہوتی دکھائی پڑتی ہے۔
 

Malik Shafqat ullah
About the Author: Malik Shafqat ullah Read More Articles by Malik Shafqat ullah : 235 Articles with 190120 views Pharmacist, Columnist, National, International And Political Affairs Analyst, Socialist... View More