حجاب پر اظہار خیال کرتے ہوئے کرناٹک بی جے پی کے صدر
نلین کمار کٹیل نے کہا کہ ریاستی حکومت تعلیمی نظام میں طالبانائزیشن کی
اجازت نہیں دے گی ۔ عام طور پر یہ اصطلاح عدم رواداری کے لیے استعمال ہوتی
ہے لیکن پچھلے دنوں رونما ہونے والےایک واقعہ نے اس کے معنیٰ بدل دیئے۔
شارلٹ بلیز نامی صحافیہ الجزیرہ چینل میں زیر ملازمت تھیں ۔انہوں نے امریکی
انخلاء کے بعد افغانستان میں خواتین کی حالت پر طالبان سے تیکھے سوالات بھی
کیے تھے۔ وہ بغیر شادی بیلجیم کے ایک فوٹو گرافر سے حاملہ ہوگئیں۔قطر میں
بغیر شادی غیر مرد کے ساتھ رہنے کی اجازت نہیں ہے اس لیے اپنے وطن نیوزی
لینڈ لوٹنے کی کوشش کی تو اجازت نہیں ملی۔ بیلیجیم گئیں تو عارضی قیام
کاموقع ملا۔ ان دونوں کے پاس افغانستان کا ویزہ تھا اس لیے طالبان سے اجازت
طلب کی تو انہوں نے اپنے ملک آنے کی اجازت دے دی لیکن نوزائیدہ ہندو راشٹر
کرناٹک میں ایسا کیونکرممکن ہے؟ اس لیےکٹیل طالبانائزیشن کی اجازت کیسے دے
سکتے ہیں؟ لیکن افسوس کہ طالبان مخالف ملالہ یوسف زئی نے بھی ان کی مخالفت
کردی۔
کرناٹک کے اندر حجاب کا تنازع اپنے شباب پر ہے۔ فرقہ پرستی کی اس آگ کو
بھڑکا کر بڑی بے حیائی کے ساتھ بی جے پی والے اپنی سیاسی روٹیاں سینک رہے
ہیں ۔ اس کی ابتداء کرتے ہوئے پارٹی کے ریاستی صدر نے یہ بھی کہا کہ یہاں
(کرناٹک ) کے اسکول سرسوتی مندر ہیں جہاں پڑھنا ہی مذہب ہے۔ یہ بات اگر
درست ہے تو انہیں بتانا ہوگا کہ حجاب کے خلاف جئے شری رام کے نعرے لگانا
اور قومی پرچم اتار کر بھگوا جھنڈا لہرانا کیا ہے؟ کٹیل نے کہا یہاں کسی
اور مذہب کیلئے کوئی جگہ نہیں، جو لوگ تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں وہ یہاں آ
سکتے ہیں اور جو تعلیم حاصل نہیں کرنا چاہتے وہ کہیں اور جا سکتے ہیں۔
ریاست میں بی جے پی کی حکومت ہے۔ اس لیے یہاں حجاب پہننے کی کوئی گنجائش
نہیں۔ بھارتیہ جنتا پارٹی والے اقتدار میں آتے ہی اپنے مخالفین کو کہیں
اور جانے کی دھمکی دینے لگتے ہیں لیکن بہت جلد خود ان کا بوریہ بستر گول
ہوجاتا ہے جیسا کہ پچھلے انتخاب میں ہوگیا تھا اور پھر چور دروازے سے انہیں
سرکار بنانی پڑی۔ کٹیل کو اگر لگتا ہےکہ وہ ہمیشہ کے لیے اقتدار پر فائز
ہوگئے ہیں تو راحت اندوری کےیہ ا شعار انہیں کے لیےہیں ؎
جو آج صاحبِ مسند ہیں کل نہیں ہوں گے
کرایہ دار ہیں مالک مکان تھوڑی ہیں
ہمارا خون بھی شامل اس کی مٹی میں
کسی کے باپ کا ہندوستان تھوڑی ہے
کرناٹک میں سیاسی اعتبار سے بی جے پی کی حالت اچھی نہیں ہے ۔اس کا اندازہ
ضمنی اور بلدیاتی انتخابات میں ہوتا رہا ہے۔ دسمبر 2021 میں جملہ 1184؍
نشستوں پر بلدیاتی الیکشن ہوا۔ ان میں سے کانگریس نے 501 ؍سیٹیں جیت کر
اپنی برتری ثابت کی جبکہ اقتدار کا بھرپور فائدہ اٹھانے کے باوجود بی جے پی
کو صر ف 431؍ نشستوں پر اکتفاء کرنا پڑا۔ دیوے گوڑا کی جنتا دل (ایس) جو
آج کل کرناٹک میں بی جے پی کی بی ٹیم بنی ہوئی ہے چوتھے نمبر پر کھسک گئی۔
اس سے چار گنا زیادہ 207 ؍ آزاد امیدوار جیت گئے۔ اس انتخاب میں کانگریس
کو جہاں 42.06 فیصد ووٹ ملے وہیں بی جے پی 36.9 فیصد پر سمٹ گئی ۔ یہ پانچ
فیصد کا فرق معمولی نہیں ہے۔جنتا دل ایس کو 3.8 فیصد ووٹ ملے جبکہ آزاد
امیدواروں کے کھاتے میں 17.24 فیصد ووٹ گئے۔ جن علاقوں میں یہ انتخاب ہوا
ان میں وزیر اعلیٰ کا آبائی شہر بھی شامل تھا اس لیے ان کی قیادت پر
سوالیہ نشان کھڑا ہوگیا کیونکہ ماہِ ستمبر کے ضمنی انتخاب میں بھی بی جے پی
کو ہزیمت اٹھانی پڑی تھی اور وزیر اعلیٰ اپنے ہی علاقہ میں پارٹی امیدوار
کو کامیاب نہیں کراسکے تھے ۔ بی جے پی کو اب یقین ہوگیا ہے سال کے آخر میں
دولت کے سہارے قائم کی جانے والا اقتدار اب ہاتھ سے نکل جائے گا اس لیے وہ
مسلسل فرقہ پرستی کو ہوا دے رہی ہے۔ کبھی گئو کشی اور کبھی تبدیلیٔ مذہب کے
قوانین کو سخت بنایا جاتا ہے ۔ کبھی مسلمانوں تو کبھی عیسائیوں کو نشانہ
بناکر فرقہ واریت کو ہوا دی جاتی ہے۔حجاب کی مخالفت بھی اسی ضرورت کا ایک
حصہ مگر اس طرح وہ اپنے پیروں پر کلہاڑی ماررہی ہے۔ ایسا کرنے سے وہ پانچ
فیصد کا فرق پندرہ فیصد میں بدل سکتا ہے۔
بھارتیہ جنتا پارٹی کا مزاج چونکہ سازشی ہے اس لیے ان کو اپنی ہر مخالفت
میں کسی نہ کسی سازش کی بوُ آنے لگتی ہے حالانکہ وہ تو ان کی حماقتوں کا
سیدھا سادہ ردعمل ہوتا ہے۔ کرناٹک کے اندر حجاب کی خاطرہونے والے زبردست
احتجاج نے بی کے پی کا دماغ درست کردیاتو ریاست کے وزیرتعلیم بی سی ناگیش
نے اسے ایک سیاسی سازش قرار دے کر رونا دھونا شروع کردیا ۔ وزیر موصوف
اگراپنے موقف پر اڑیل رخ اختیار کرکے باحجاب طالبات کو تعلیم گاہوں میں
داخل ہونےسےروکنے کی دھمکی نہیں دیتے تو تین دنوں تک چھٹی دینے کی نوبت نہ
آتی خیر جیسی کرنی ویسی بھرنی ۔ بغیر سوچے سمجھےآگ سے کھیلنا اور جب منہ
جھلسنے لگے تو سازش کا راگ چھیڑدینا زعفرانیوں کی پرا نی عادت ہے۔اس کا
مظاہرہ این آر سی کی تحریک کے وقت بھی ہوا اور کسان تحریک کے دوران بھی
دیکھنے کو ملا۔ ان لوگوں کی رعونت مزاجی ابتداء میں کسی کو خاطر میں نہیں
لاتی اور پھر رونے گڑگڑانے پر مجبور کردیتی ہے۔ دھرم سنسد کے وقت یہی ہوا
کہ تمام تر زہر اشانی پر آر ایس ایس کے سربراہ منہ میں دہی جمائے رہے لیکن
جب پانی سر سے اونچا ہوگیا تو اس سے ایسے اعلان برأت کیا کانگریس بھی شرما
جائے۔ موہن بھاگوت کی اس مخالفت نے اتراکھنڈ میں بی جے پی کے لیےدھرم سنکٹ
پیدا کردیا۔
ذرائع ابلاغ میں جس دن مسکان خان کی ویڈیو چل رہی تھی اسی دن لتا منگیشکر
کی موت پر پروفیسر دلیپ منڈل نے ایک ایسا ٹویٹ کردیا جس سے ہندو معاشرے کی
بہت بڑی کمزوری کھل کر سامنے آگئی اور اس کا تعلق بھی خواتین سے ہے۔ ٹویٹ
میں لکھا تھا مندروں میں جنسی استحصال کے لیے بنائی گئی دیواداسی کے رواج
پر پابندی ہے پھر بھی مندروں میں دو لاکھ سے زیادہ دیوداسیاں ہیں ۔ لتا
منگیشکر جی کے اعزاز میں اگر سرکار سیوداسیوں کے بچوں کی خاطر مفت تعلیم کا
کوئی منصوبہ بنائے تو یہ لتا جی کو سچا خراج عقیدت ہوگا۔ آپ سب حمایت کریں
۔ اس پیغام کو پڑھ کر ٹرول آرمی نے منڈل پر گالی گلوچ کی بوچھاڑ کردی اور
پوچھا کہ دیوداسی رواج کا لتا منگیشکر سے کیا تعلق؟ ان جاہلوں کو نہیں
معلوم کہ لتا جی کی دادی یسو بائی رانے گوا کی دیوداسی تھیں۔ ان کے
والددینا ناتھ کو چونکہ مندر کے پجاری ہرڈیکر کا خاندانی نام استعمال کرنے
کی اجازت نہیں تھی اس لیےوہ منگیشی گاوں کے نام پر منگیشکر کہلائے۔ اس سماج
کی سترّ ہزار سے زیادہ خواتین شمالی کرناٹک کے اندرآج بھی بدترین استحصال
کا شکار ہیں لیکن بی جے پی کو وہ نظر نہیں آتیں ۔
ہندو سماج کا ایک مسئلہ ذات پات کی بنیاد پر نسلی امتیاز بھی ہے۔ اسی ہفتہ
جنوبی تامل ناڈو کے آٹھ دلت خاندانوں کے چالیس افراد نے اعلیٰ ذات کے مظالم
سے تنگ آکراسلام قبول کر لیا ۔اتفاق سے بودنائیکانور تمل ناڈو کے سابق
وزیر اعلیٰ اوربی جے پی کے منظور نظر او پنیرسیلوم کا حلقہ ہے۔نو مسلمین کا
کہنا ہے کہ اونچی ذات کے ہندو مسلسل حملے کرتے ہیں۔ نچلی ذات کا حوالہ دے
کرمقامی ہوٹلوں اور راستے کے کنارے چائے کی دکانوں سے چائے یا کافی نہیں
پینے دیتے۔ مردوں کو مارا پیٹا اور دلت لڑکیوں کو چھیڑا جاتا ہے ان پر
نازیبا تبصرے اور اشارے کیے جاتے ہیں اس لیے انہوں نے یہ فیصلہ کیا ہے ۔ 32
سالہ نومسلم رحیمہ نے بتایا انہیں چھیڑا جاتا ، مارا پیٹا جاتا، توہین کی
جاتی اور اس گلی میں چلنے کی اجازت نہیں دی جاتی تھی جہاں اعلیٰ ذات کے
ہندو چلتے ہیں۔ ہمارے والدین اور دادا دادی نے سب کچھ برداشت کیا لیکن ہم
نے فیصلہ کیا کہ بہت ہوگیا، اب ہم مسلمان ہیں اور کوئی حد بندی نہیں ہے ۔
سنگھ پریوار بشمول بی جے پی اگر واقعی اپنے ہندو سماج کا خیر خواہ ہے تو
اسے مسلمانوں اور اسلام کی مخالفت کرکے اس سے معمولی سیاسی فائدہ حاصل کرنے
کے بجائے سماجی اصلاح کی جانب متوجہ ہونا چاہیے۔ سماجی مسائل کے علاوہ
انفرادی سطح پر ہندووں کی نئی نسل اسلام کی مخالفت میں تو بہت شور کرتی ہے
مگر اپنی روزمرہ کی زندگی میں اپنے مذہب سے دور ہوتی جارہی ہے۔ مذہبی شعائر
میں بھی ان کی دلچسپی تیزی کم ہورہی ۔ پچھلی نسل تک ہندو خواتین کا روایتی
لباس ساڑی ہوا کرتا تھا ۔ ساڑی کا ایک اٹوٹ حصہ آنچل یا پلوّ بھی ہوتا
تھا۔ نئی نسل میں اس کی جگہ شلوار قمیض نے لے لی اور پھر اس کے ساتھ اوڑھا
جانے والا دوپٹہ بھی غائب ہوگیا ۔ شلوار کی جگہ جینس کی پتلون لے رہی ہے
اور ممکن ہے بہت جلد قمیص گھٹتے گھٹتے اسکرٹ بن جائے۔ مغرب کی مرعوبیت ہندو
سماج کا ایک سنگین مسئلہ ہے جو انہیں ان کے دین دھرم سے بیگانہ کررہا ہے۔
اس کے برعکس مسلم سماج میں دین کے حوالے زبردست بیداری پائی جاتی ہے ۔
خواتین کی نئی نسل میں حجاب کا رحجان بڑھا ہے ۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ جو مذہب
بیزاری کو اپنے لیے باعثِ شان سمجھتا تھا اب دین پسندی کی جانب مائل ہے۔
خواتین حجاب کے ساتھ مسابقت کررہی ہیں۔ اس سےہندو معاشرے کے اندر جذبۂ حسد
کا پیدا ہونا ایک فطری عمل ہے۔ اس کا اظہار غیض و غضب کی صورت میں ہوتارہتا
ہے لیکن یہ اس مسئلہ کا حل نہیں ہے بلکہ اس سے تو صورتحال اور بھی سنگین
ہوجائے گی ۔بی جے پی نے جب سے حجاب کی مخالفت شروع کی ہے سماج کا وہ نام
نہاد روشن خیال طبقہ جو برقع کو حقارت کی نظر سے دیکھتا تھا اور درپردہ
مخالفت بھی کرتا تھا اب حجاب کی حمایت پر مجبور ہوگیا ہے ۔ اس طرح بی جے پی
کی حماقت ازخود حجاب کی بلا واسطہ حمایت میں بدل چکی ہے۔ مسلم طالبات نے
اپنے پرزور احتجاج سے یہ بات ثابت کردی ہے کہ پردہ خواتین کی ترقی میں حائل
تو ہر گز نہیں ہے الٹا ان کو مضبوط اور باہمت بناتا ہے۔ اس میں کوئی شک
نہیں کہ حالیہ تحریک نے پردے کے وقار میں زبردست اضافہ کیا ہے۔ بقول شاعر؎
اسلام وہ پودا ہے کاٹو تو ہرا ہوگا
تم جتنا تراشو گے اتناہی گھنا ہوگا
|