سپریم کورٹ کے عدالتی احکامات پر
عملدرآمد کرنے کے پاداش میں بٹائے گئے سیکٹریری اسٹبلشمنٹ سہل احمد کو
دوبارہ بحال کرنے کا حکم دیتے ہوئے سپریم کورٹ نے وزیر اعظم سے سہل احمد کی
معطلی کا تحریری جواب طلب کرلیا ہے ۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کو وزیراعظم
یوسف رضا گیلانی نے شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کابینہ میں اپنے خطاب
کے دوران کہا کہ ہرچیز کی ایک حد ہوتی ہے ۔ اب عدلیہ بلواسطہ میری اٹھارٹی
کو چیلنچ کررہی ہے ۔
انہوں نے کہا کہ ہر ادارے کو اپنی حدود و حثیت کو مدنظر رکھ کر کام کرنا
چاہیے اور اپنے اختیارات سے تجاوز نہیں کرنا چاہیے ۔ بحثیت سیاست دان میں
بتلا دینا چاہتا ہوں کے میں غلام نہیں اور ناہی غلامی کرنے کے لیے اس منصب
پر فائز ہوا ہوں ۔ میں ملک کے سب سے بڑے عہدے پر فائز ہوں اور فوج و عدلیہ
کا سپریم کمانڈر ہوں ۔
وزیراعظم نے برملا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے سیکٹریری اسٹبلشمنٹ
سہیل احمد کو ان کے عہدے سے اس لیے برطرف کیا کیونکہ انہوں نے اپنے
اختیارات کا غلط استعمال کیا ۔
سپریم کورٹ کے احکامات پر عملدرآمد کرنا کیا اپنے اختیارات غلط استعمال تھا
جس کی سزا ان کو معطل کرکے او ایس ڈی بنانا تھی ؟
قارئین اس بات سے بخوبی باخبر ہونگے کہ گزشتہ سال حج کےدوران ہونے والی
کروڑوں روپے کی کرپشن کا انکشاف اور تحقیقات کرنے والے ایف آئی اے کے
ڈائریکٹر حسین اصغر کو کرپشن کے اس معاملے پر خریدا نا جسکا تو سزا کے طور
پر ان کا تبادلہ گلگت بلتستان کردیا گیا ۔ سپریم کورٹ حسین اصغر کو دوبارہ
حج اسکینڈل کی تفتیش پر دیکھنا چاہتی تھی کیونکہ اس اسکینڈل میں سابق وفاقی
وزیر مزھبی امور حامد سعید کاظمی ، وزیراعظم کے صاحبزادے سمیت دیگر اعلٰی
شخصیات کے ملوث ہونے کے شواہد موجود تھے جس پراصغر حسین تحقیقات کررہے تھے
۔
سپریم کورٹ نے سیکٹریری اسٹبلشمنٹ سہیل احمد کو حکم کو دیا کے وہ فوری طور
پر حسین اصغر کی واپس ایف آئی اے میں واپس لانے کا نوٹیفیکشن جاری کرے ۔
سیکٹریری اسٹبلشمنٹ نے سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق حسین اصغر کی واپسی کی
سمری وزیراعظم کو ارسال کردی لیکن وزیر اعظم نے اس کو منظور کرنے کے بجائے
سائیڈ ٹیبل پر لگاکر نظر انداز کردی ۔
سپریم کورٹ نے سیکٹریری اسٹبلشمنٹ سہیل احمد کو دوبارہ طلب کرکے باز پرس کی
تو سہل احمد نے آئین کی دفعہ ١٩٠ کے تحت سپریم کورٹ کے احکامات پر عملدرآمد
کرتے ہوئے حسین اصغر کو دوبارہ ایف آئی اے کا بطور ڈائر یکٹر چارچ سنبھالنے
کا نوٹیفکیشن جاری کردیا ۔ جس کی سزا وزیراعظم نے ان کو عہدے سے ہٹا دیا
تھا۔
حکومت عدالتی فیصلوں کو من و عن تسلیم نہیں کررہی اور اعلٰی عدالتوں کے
دئیے جانے والے فیصلوں میں کوئی نہ کوئی عذر پیش کرکے مہلت طلب کرلی جاتی
ہے ۔حکومتی اقدامات سے واضح ہورہا ہے کہ وہ آزاد عدلیہ کو مذاق سمجھ کر
توہین عدالت کی مرتکب ہورہی ہے لیکن عدلیہ ہردفعہ کوئی سخت اقدام اٹھانے کے
بجائے حکومت کو مسلسل چھوٹ دے رہی ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ عدلیہ اپنی رٹ
قائم کرنے میں سنجیدہ نہیں یا پھر کوئی تیسری قوت عدلیہ کو اپنی رٹ قائم
کرنے نہیں دے رہی ہے۔ |