کراچی کے بعد جلتا کوئٹہ

پاکستان کی جنگی تاریخ پر نگاہ ڈالیں تو جب بھی ہم نے اپنی ریاست کو بطور” پراکسی وار “کے استعمال کیا وطن عزیز امن و امان کی سنگین صورتحال سے دوچار ہوا ۔خواہ وہ ضیاءالحق کا دور ہو یا اس کے بعد کی جمہوری حکومتیں ،جس میں فرقہ واریت کے عفریت نے ملک کو اپنی لپیٹ میں رکھا اور اس کے بعد جب نائن الیون کا سانحہ ہوا تو ہم نے ایک بار پھر اپنے کاندھوں کو دنیا کے سامنے پیش کر دیا جسکا نتیجہ یہ نکلا کہ ڈالر اور اسلحہ کے ریل پیل سے جہاں ایک طبقہ خوشحال ہوا وہاں بحثیت مجموعی ملک و قوم کو سانحات سے دوچار ہونا پڑا۔ایک کے بعد دوسرا سانحہ معمول بن گیا اور عوام کے کان بم دھماکوں اور خودکش حملوں سے اتنے مانوس ہو گئے کہ جس دن حادثہ یا سانحہ نہ ہو تا وہ پریشان ہو جاتے ۔رہی سہی کسر ہماری سیاسی قیادت نے پوری کر دی اور اقتدار کی بند ربانٹ کو مفاہمت کا نام دیدیا ایک جماعت دو دن کے لئے اقتدار میں آتی ہے اور پھر تیسرے دن قومی مفاد میں ا قتدار سے الگ ہو جاتی ہے اور موقع ملنے پر پھر مقدس گائے بن کر اقتدار کے کھونٹے سے بندھ جاتی ہے اصولوں کی یہ کون سی سیاست ہے اور کہاں سے ایسی تباہ کن سیاست سیکھی گئی ہے عوام اس سوال کے جواب کے منتظر ہیں ، اور یہ سب خرافات یہیں پر ختم نہیں ہوتیں بلکہ یہاں تو کام کرنے والوں کو کام بھی نہیں کرنے دیا جاتا ۔حکومت ریاستی اداروں کے خلاف ہو چکی ہے ،سپریم کورٹ کے احکامات کو نہ مان کر جہاں ماننے کا تاثر دیا جا رہا ہے وہاں وزیر ریلوے بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ ریلوے کی صورتحال اس قدر خراب ہے کہ انشاءاللہ جلد ہی بند ہو جائے گی ۔

پاکستان کی تاریخ کی ایسی بد نظم حکومت میں کراچی میں خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے ۔گزشتہ کئی سال سے کشت و خون کا بازار گرم ہے ،لاشیں گر رہی ہیں کبھی اردو بولنے والوں کی تو کبھی پشتو اور سندھی بولنے والوں کی،، یہ سب عام شہری اور غریب عوام ہیں اس پر بھی ہمارے سیاست دان سیاست کرتے ہیں ۔ سندھ کے سابق وزیر داخلہ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کی ساری تعلیم اور تجربہ کا حا صل یہ رہا کہ وہ ایم کیو ایم کو چٹکی کاٹتے رہیں جبکہ وفاقی وزیر داخلہ آئے روز کراچی کا دورہ کرکے آپریشن کرنے، نہ کرنے ،ٹارگٹڈ آپریشن ہونے اور نہ ہونے کے بیانات تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں اور ان کے نزدیک کراچی میں قتل ہونے والے کبھی اسرائیلی اسلحہ کے ذریعے مارے جاتے ہیں یا پھر ان میں سے اکثر اپنی بیویوں اور گرل فرینڈز کے ہاتھوں قتل ہوتے ہیں ۔

الغرض حکمران جماعت نے کراچی میں ایک ایسا ڈرامہ ،سٹیج کیا ہوا ہے جس کا ہر کردار نرالہ ہے اور اس کا سکرپٹ کسی مسخرے کے ہاتھ کا لکھا ہوا ہے کہ وہ اس سنگین صورتحال میں پریشان حال عوام کو خوش کرنے کے لئے ایسا عامیانہ مذاق پیش کر رہا ہے جبکہ اس ڈرامے کے مکالمے تک شہریوں کو ازبر ہو چکے ہیں اور ان ڈراموں کے چہروں کو دیکھ دیکھ کر اکتا چکے ہیں کہ جس پر اچاریہ کوتلیہ چانکیہ اور میکاولی کی سیاست کی ملمع کاری کی گئی ہے اور ا ب انہی کریکٹرز کی بد نظمی،بد انتظامی اور عدم دلچسپی کے باعث پاکستان کے پر امن صوبے بلوچستان اور اس کے دارالحکومت کوئٹہ میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے ۔

حکمرانوں کی نا اہلی کی اس سے بڑی اور کیا مثال ہو گی کہ پاکستان کے 43 فیصد حصہ پر مشتمل صوبے کی 90 لاکھ آ بادی کو بھی پر امن رکھا نہ جا سکا ا اور وہاں کبھی کوئٹہ شوریٰ کی بات کی گئی اور کبھی القاعدہ قیادت کے چھپے رہنے کی بات ہوئی ،کبھی ڈاکٹرز،پروفیسرز،وکیل،این جی اوز کے ارکان،قوم پرست جماعتوں کے رہنماؤں اور کارکنوں اور کبھی آباد کاروں کو چن چن کر قتل کیا جاتا رہا اور کبھی فرقہ واریت کو ہوا دی گئی اور یہ سلسلہ آج پھر چل نکلا ہے جس کی ذمہ داری کالعدم لشکر جھنگوی نے قبول کر لی ہے لیکن حکومت کی رٹ صوبے میں کیں نظر نہیں آ رہی ۔

کوئٹہ کی شاہراہیں قتل گاہیں بن چکی ہیں گزشتہ تین دنوں میں عالم دین سمیت قریباً20 افراد کو موت کی بھینٹ چڑھا دیا گیا جس میں وزیر اعلیٰ بلوچستان کا بھتیجا بھی شامل ہے جسے اس کے باپ کے سامنے ہلاک کر دیا گیا ،۔ اس سے قبل کوئٹہ میں سانحہ کروٹ آباد کا واقعہ ہوا تھا اور اب اہدافی قتل کا سلسلہ اتنا سنگین ہو چکا ہے کہ غیر بلوچ ، بلوچستان کا رخ کرنے سے گریز کر رہے ہیں کہ کیں انہیں بھی گاڑی سے اتار کر بھاگنے کا کہہ کرپیچھے سے گولی کا نشانہ نہ بنا دیا جائے۔

کراچی کے بعد ا ب کوئٹہ جل رہا ہے ،اتوار31 جولائی کو جہاں کراچی میں نام نہاد امن مارچ ہوا اس کے باوجود اس دن بھی 13 افراد ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنے، دوسری جانب کوئٹہ میں فرقہ ورانہ فسادات کے خلاف شٹر ڈاؤن ہڑتال کی گئی ۔ایک ایسی گھمبیر صورتحال میں جب پاکستانیوں کا خون بہہ رہا ہے ،اسلام آباد کے حکمران پارلیمنٹ میں سپر یم کو رٹ کے خلاف قرار داد لانے کا سوچ رہے تھے ۔ عجب ہوس اقتدار ہے،حدیث پاک یاد آ رہی ہے ” ہر امت کا یک فتنہ ہے اور میری امت کا فتنہ مال ہئے“ وہ مال جس سے ہمارے حکمران عوام کی جان کی حرمت کو پامال کر رہے ہیں اور حکمران ہی اس مال کے پیچھے دوڑ رہے ہیں۔
 
Shehzad Iqbal
About the Author: Shehzad Iqbal Read More Articles by Shehzad Iqbal: 65 Articles with 48242 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.