یہ جھوٹی اور ناشکری پاکستانی قوم
(Musarrat Ullah Jan, Peshawar)
ہر وقت سوال کرتے رہتے ہیں ان کی یہ عادت شیطانی عادت ہے جو ہر وقت سوال اٹھاتے ہیں ' بھلا یہ بھی کوئی بات ہوئی کہ حکمرانوں سے سوال کرتے ہیں ' انہیں تو عوام کو بتانے کی ضرورت ہے کہ مدینہ کی ریاست میں ایسے مشیر بھی شامل ہیں جن کے پیٹ ان کے آگے چلتے ہیں ' اور یہ بھی یاد کرنے کی بات ہے کہ ایسے مولانا بھی ہیں جو حکمرانوں کیلئے دعا کرتے ہیں کہ یا اللہ ایسے حکمران سب کو عطا کرے ' بھلا یہ بھی کوئی بات ہے ' کہ اگر کسی حکمران کو کوئی اچھا لگتا ہے تو اس میں برائی کیا ہے ' ان صحافیوں کی اپنی کوئی کارکردگی نہیں |
|
یہ پاکستانی عوام بھی سارے جھوٹے ہیں ' ایک نمبر کے ' ہر جگہ بکواس کرتے ہیں ' ان کی بکواس کرنے کی عادت نے انہیں کہیں کا نہیں چھوڑا ' بھلا یہ بھی کوئی بات ہے کہ اتنے اچھے حکمران پاکستان کی تاریخ میں اللہ تعالی نے پاکستانی عوام پر مسلط کئے ہیں ' معذرت خواہ ہوں لفظ مسلط لکھنے کیلئے ' کیونکہ مسلط تو زبردستی کیا جاتا ہے اس لئے ووٹ کی طاقت سے آنیوالے حکمرانوں پر تنقید کرتے ہیں. یہ بھوکے ننگے عوام بھی یہ نہیں دیکھتے کہ مدینہ کی ریاست کے نام بھی پہلی مرتبہ یہ حکمران لے رہے ہیں ' ہاتھ میں الحمد للہ ان کی ہر وقت تسبیح ہوتی ہیں. کیا ہوا ان کی داڑھی نہیں ' لباس تو قومی پہنتے ہیں ' چپل پشاوری پہنتے ہیں ' یہ پاکستانی عوام بھی ہمیشہ کی ناشکری عوام ہے کبھی خوش نہیں ہونگے پاگل لوگ ..
پاگل تو یہ سارے صحافی ہیں جو ہر وقت سوال کرتے رہتے ہیں ان کی یہ عادت شیطانی عادت ہے جو ہر وقت سوال اٹھاتے ہیں ' بھلا یہ بھی کوئی بات ہوئی کہ حکمرانوں سے سوال کرتے ہیں ' انہیں تو عوام کو بتانے کی ضرورت ہے کہ مدینہ کی ریاست میں ایسے مشیر بھی شامل ہیں جن کے پیٹ ان کے آگے چلتے ہیں ' اور یہ بھی یاد کرنے کی بات ہے کہ ایسے مولانا بھی ہیں جو حکمرانوں کیلئے دعا کرتے ہیں کہ یا اللہ ایسے حکمران سب کو عطا کرے ' بھلا یہ بھی کوئی بات ہے ' کہ اگر کسی حکمران کو کوئی اچھا لگتا ہے تو اس میں برائی کیا ہے ' ان صحافیوں کی اپنی کوئی کارکردگی نہیں ' اگر کسی ادارے کو اس کے وزیر کی وجہ سے اچھی پوزیشن ملتی ہے تو اس پر نازیبا باتیں کرتے ہیں ' بھلا یہ بھی کوئی بات ہوئی کہ ایسے لوگ جو پہلے حکمرانوں کیساتھ مشیر ہوں اور بعد میں اختلاف پر صحافت کی آڑ لیکر حکمرانوں پر تنقیدکرے.
سیاسی پارٹیوں کی بھی کوئی پالیسی نہیں ' جب حکومت میں ہوتے ہیں تو ان کی سوچ اور اپروچ الگ ہوتی ہیں اب اگر ایک نئے شخص کو حکمرانی مل گئی ہے تو انہیں آگ لگی ہیں بھائی میرے ان لوگوں نے بائیس سال سے خواری کی ہیں' کیا ان لوگوں کا حق نہیں کہ وہ اپنی مرضی کریں ' آپ لوگوں نے اپنی باریوں پر بڑا مال کمایا ہے ' یہ پاکستان کسی کے باپ کا نہیں ہر ایک کو اس کو لوٹنے کا حق حاصل ہے. صبر کرو سیاسی پارٹیوں اور اس کے حکمرانو ! اگر تم لوگوں کی کارکردگی اچھی ہوئی تو تمھیں بھی موقع دیا جائیگا پھر کرتے رہنا ' لیکن یہ بھی کوئی با ت نہیں کہ اتنے ہینڈ سم اور سمارٹ سے حکمران پر آپ تنقید کریں. آپ لوگوں کو اپنے گریبانوں میں جھانکنے کی ضرورت ہے.
اور ہاں کیڑے مکوڑوں کی طرح زندگی گزارنے والے پاکستانی عوام بھی چیختی بہت ہیں ' لیکن شکر ہے کہ کیڑا بہت ساروں سے نکل گیا ہے اب صرف فیس بک اور سوشل میڈیا پر گالیاں دیکر اپنے دل کی بھڑاس نکال لیتے ہیں لیکن یہ بھی گناہ ہے ..
. ابے کیڑے مکوڑوں! اپنی اوقات میں رہو ' حکمران چاہتے ہیں کہ تم لوگوں سے گناہ نہ ہوں اور فضول میں اپنا وقت سوشل میڈیا ' اخبارات اور ٹی وی کو دیکھنے میں گزارا نہ کرو بلکہ تخلیقی کام کرو اور زیادہ سے زیادہ کام کرو کیونکہ تم لوگ کام کرو گے تو ملک چلے گا انٹرنیٹ کا استعمال بھی فضول خرچی ہے کہ انٹرنیٹ استعمال کرو انٹرنیٹ سے وابستہ سمارٹ فون استعمال کرو ' جس سے بجلی بھی خرچ ہوتی ہیں اور یہ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کیلئے نقصان دن ہے اس لئے حکمرانوں نے صدارتی آرڈیننس کے ذریعے پابندیاں لگانا شروع کردی ہیں.اب بھی اگر نہ سمجھو گے تو پھر عدالت کا سامنا کرو.
بھلا یہ بھی کوئی بات ہے کہ دو ٹکے کے صحافی عدالت پر سوال اٹھاتے ہیں اب اگر قدیر خان کی کیس کی سماعت اس کی وفات کے بعد لگ گئی ہیں تو اس میں کیا غلط بات ہے ' ہزاروں لوگ روزانہ خوار ہوتے ہیں اس میں عزت نفس کی بات کہا ں سے آگئی ' ان دو ٹکے کے صحافیوں کی اتنی اوقات کہ ملک کے عدالتوں پر آواز اٹھائے ' اتنی خوبصورت سا سسٹم بنایا گیا ہے ' جو جتنا زیادہ رقم خرچ کرے گا اسے اچھا وکیل ملے گا اور اچھا انصاف ملے گا. بالکل صحیح بات ہے کہ انسان بڑا ناشکرا واقع ہوا ہے اور پاکستانی قوم اور خصوصا صحافی بڑ ے ناشکرے ہیں.
یہ پاکستانی عوام اس بات کو بھول گئے ہیں کہ مدینہ والی ریاست کے موجودہ حکمران انہیں نو سو روپے میں فی بوری آٹا فراہم کررہی ہیں یہ ٹھیک ہے کہ یہ آٹا ہضم نہیں ہوتا اور پیٹ خراب کرتا ہے لیکن اس میں بھی حکمران اور انکے دلالی ' دلالی کا لفاظ استعمال کرنے پر معذرت خواہ ہوں حکمران اور ان کے کاسہ لیس ' سوری بیورو کریسی کا شکر گزار ہونا چاہئیے کیونکہ ہر چیز ہضم کرنے کی بھی نہیں ہوتی ' پیٹ خراب ہونگے تو وہ اللہ کو بہت یاد کرینگے ' کیونکہ انسان کو تکلیف میں اللہ تعالی بہت زیادہ یاد آتا ہے ' جو اس غریب عوام پر موجودہ حکمرانوں کا احسان عظیم ہے.
ابے پاکستانیو!
تم لوگوں کو اور کیا چاہئیے ' اتنے اچھے حکمران اور ان کے حواری آپ لوگوں پر مسلط ' سوری مسلط ایک مرتبہ پھر لکھ دیا ہے ' اس ملک میں موجود ہیں جو نہ صرف گناہ سے آپ کو بچانے کی کوشش کرتے ہیں بلکہ انہیں آپ کی صحت کا بھی خیال ہے ' اگر گھی مہنگا کردیا ہے تو یہ تو ویسے بھی خون میں کلاٹ پیدا کرتا ہے ' چینی اگر مہنگی کردی ہے تو یہ شوگر کا باعث بنتی ہیں ' پٹرول اگر مہنگا کردیا ہے تو اپنے بڑے پیٹوں کو دیکھ لو ' حکومت چاہتی ہے کہ تم لوگ اپنی صحت کا خیال رکھو ' اسی باعث مہنگائی کردی ہے .اس کو مثبت طر ح سے دیکھ لو. اگر حکمران بڑی گاڑیوں میں اور وی آئی پی گاڑیوں میں اور ہیلی کاپٹر میں پھرتے ہیں تو ان کا وقت قیمتی ہے اور وہ اپنے قیمتی وقت کو بچاتے ہیں ' تاکہ عوام کی زیادہ سے زیادہ خدمت کرسکیں. اب یہ بھی کرنے کی باتیں ہے جو د و ٹکے کے صحافی اور عام عوام اخبارات میں ' سوشل میڈیا پر اور نائی کی دکانیں پر کرتے ہیں ' اتنے پاک صاف حکمرانو پر آواز اٹھانا بہت ظلم ہے. مجھے امید ہے کہ میری باتیں آپ کو اور )ان کو بھی( بری لگی ہونگی لیکن مجھے اس کی کوئی پروا نہیں.. ایک پاگل
|