دنیا کی وہ تمام قومیں جو ماضی
میں محکومی اور غلامی کا شکار ہوئیں وہ اپنے یوم آزادی کو بڑے اہتمام اور
شان و شوکت سے مناتی ہیں۔ پاکستان میں بھی 14اگست کا دن ایک قومی تقریب کی
اہمیت رکھتا ہے اوربڑے جوش و خروش سے منایا جاتا ہے۔ 14اگست کا دن ہر سال
ہم سب پاکستانیوں کے لئے حریت اور استقلال کا پیغامبر بن کر آتا ہے اور
جہدو جہد ِ آزادی اور قربانیوں کی یا د ذہنوں میں تازہ کر تا ہے۔
1857ءمیں جب انگریزوں کے قدم ہندوستان میں مضبوطی سے جم گئے تو ہندوستان
میں مسلمانوں پر مایوسی اور غلامی کی سیاہ رات نے ہر طرف اپنے پر پھیلادیئے،
مایوسی اور بددلی کے اس عالم میں مسلمانوں کو کسی راہ نما کی ضرورت تھی۔
غلامی کا یہ احساس دلوں میں دبی چنگاریاں بن کر سلگتا رہااور اپنے حقوق
حاصل کرنے کا خیال مسلمانوں کے دلوں کروٹیں بدلتا رہا، اور آخر کار اس خیال
نے ایک دن اجتماعی شکل اختیار کرلی۔ 1906ءمیں مسلمانوں نے آل انڈیا مسلم
لیگ کے نام سے اپنی ایک جماعت قائم کرکے ہندوں کی تنظیم کانگریس کے ساتھ مل
کرانگریزوں سے آزادی کی جہدوجہد شروع کردی۔آہستہ آہستہ آزادی کایہ مطالبہ
شدت پکڑتا گیا اور ہندو مسلم دونوں قومیں متحد ہوکر پورے جوش و خروش کے
ساتھ آزادی کے نصب العین کی طرف بڑھنے لگیں۔
انگریزوں نے پوری قوت سے مسلمانوں اور ہندﺅں کی اس متحد طاقت کو توڑنے کی
کوشش کی، پولیس اور فوج نے ان کے پر امن جلوسوں پر گولیاں چلائیں اور جیلوں
میں بند کردیا۔ لیکن آزادی کے متوالے بڑے صبر و تحمل اور عزم و استقامت کے
ساتھ سب صعوبتیں برداشت کر تے رہے بالآخر انگریزوں کو اتحاد کی اس قوت کے
آگے سر جھکانا پڑا اور ہندوستانیوں کو بہت سے مراعات حاصل ہوگئیں۔جوں جوں
یہ مراعات ملتی رہیں ہندﺅں نے پر نکالنے شروع کردیئے ، مسلمان ہندﺅں کے
روئیے سے برابر یہ اندازہ لگاتے رہے کہ انھیں اپنے مذہب ، زبان اور تہذیب
کو زندہ رکھنے کے لئے انگریزوں کے ساتھ ساتھ ہندﺅں سے بھی علیحدگی اختیار
کرنا پڑے گی۔چنانچہ 1930ءمیں ایک اجتماع میں علامہ اقبال ؒ نے اسی طرح کی
ایک تجویز پیش کی اور اسی تصور کی بنیا د پر مسلم لیگ نے پاکستان کو اپنا
نصب العین بنالیا۔ مسلم لیگ کے اس فیصلے کے بعد انگریز اور ہندو اس کوشش
میں مصروف ہوگئے کہ مسلمانوں کا یہ تصور ِ آزادی صرف ایک خواب بن کر رہ
جائے۔لیکن قائدِاعظم محمد علی جناح کی قیادت میں مسلمان تہیہ کرچکے تھے کہ
وہ پاکستان لے کر رہیں گے۔آخر کا ر مسلمانوں کے عزم محکم اور قائد اعظم کے
سیاسی تدبر کے سامنے انگریزوں کو ان کی بات ماننا پڑی اور 14اگست 1947ءکو
ہندوستان تقسیم ہوگیا اور پاکستان کے نام سے مسلمانوں کے ایک نئی مملکت
وجود میں آگئی۔
14اگست1947ءکا دن ہند و پاک کی تاریخ میں بڑا اہم دن ہے۔ ہندوستان کے وہ
علاقے جہاں مسلمانوں کی اکثریت تھی ایک آزاد مملکت تسلیم کرلیاگیا اور
غلامی کی زنجیروں کو توڑ کر مسلمان اس قابل ہوگئے کہ اس آزاد سر زمین میں
اپنے دینی شعار اور تہذیب کے مطابق زندگی گزارسکیں۔ مسلمانوں کو یہ دن
سالہا سال کی بھرپور جہدوجہد ، کشمکش اور قربانیوں کے بعد حاصل ہوا تھا ۔
ہر طر ف خوشیوں کے شادیانے بجنے لگے ، ہر گلی کوچے میں چراغاں کا سما تھا
اِدھر آزاد پاکستان میں خوشیاں منائی جارہی تھیں اُدھر ہندوستان میں رہ
جانے والے مسلمانوں کو ایک منظم سازش کے تحت صفحہ ہستی سے مٹایا جارہا تھا۔
مسلمانوں کے گھروں کو نذر آتش کرکے ان پر ایسے ایسے مظالم توڑے جارہے تھے
کہ انسانی تاریخ میں ان کی مثال نہیں ملتی۔ ہندوستان میں ہر طرف قتل و غارت
کا میدان گرم تھا۔ بے شمار معصوم بچے ، عورتیں ، جوان اور بوڑھے افرادظالم
اور متعصب ہندﺅں اور سکھوں کی بربریت کا نشانہ بن گئے۔اور بالآخر ہندوستان
میں رہ جانے والی مسلمانوں کی عظیم اکثریت بھی اپنے گھر بار چھوڑ کر
پاکستان ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئی۔
الحمد اللہ اب پاکستان اللہ کے فضل و کرم سے قائم ہوچکا ہے اور انشااللہ
تعالٰی قائم و دائم رہے گا۔14اگست کا دن یوم مسرت بھی ہے اور یوم احتساب
بھی ، اگر ہمیں اپنی آزادی عزیز ہے تو اس کی تعمیر و ترقی اور تحفظ کے لئے
ہمیں اپنی تمام تر قوتوں کوایک قوم بن کر صرف اور صرف پاکستان کے لئے وقف
کرنا ہوگا۔
14اگست کو جب ہم جشنِ آزادی مناتے ہیں تو اس مبارک موقع پر ہم سب کو یہ
سوچنا چاہیئے کہ ُاس نے اب تک پاکستان کے استحکام کے لئے کتنا کام کیا ؟
پاکستان دنیا میں ہماری آخری پناہ گاہ ہے اور اسلام کا ایک مضبوط قلعہ ہے
اس کے تحفظ، ترقی اور بقاءکے لئے جہدوجہد ہر پاکستانی کا قومی و دینی فرض
ہے۔ اللہ تعالٰی ہم سب کو اپنی اپنی ذمّہ داریاں پوری کرنے کی توفیق عطا
فرمائیے ۔ آمین!
|